وعن عبد الله بن عمرو قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «قد افلح من اسلم ورزق كفافا وقنعه الله بما آتاه» . رواه مسلم وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَسْلَمَ وَرُزِقَ كَفَافًا وَقَنَّعَهُ اللَّهُ بِمَا آتَاهُ» . رَوَاهُ مُسلم
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص نے فلاح پائی جس نے (اپنے رب کی) اطاعت کر لی اور اسے بقدر ضرورت رزق عطا کیا گیا اور اللہ نے جو اسے عطا کیا اس پر اس نے قناعت اختیار کی۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (125/ 1054)»
وعن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يقول العبد: مالي مالي. وإن ماله من ماله ثلاث: ما اكل فافنى او لبس فابلى او اعطى فاقتنى. وما سوى ذلك فهو ذاهب وتاركه للناس. رواه مسلم وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَقُولُ الْعَبْدُ: مَالِي مَالِي. وَإِن مَاله مِنْ مَالِهِ ثَلَاثٌ: مَا أَكَلَ فَأَفْنَى أَوْ لَبِسَ فَأَبْلَى أَوْ أَعْطَى فَاقْتَنَى. وَمَا سِوَى ذَلِك فَهُوَ ذاهبٌ وتاركهُ للنَّاس. رَوَاهُ مُسلم
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بندہ کہتا ہے، میرا مال، میرا مال، حالانکہ اس کا مال فقط تین صورتوں میں ہے جو اس نے کھا کر ختم کر دیا، یا پہن کر بوسیدہ کر دیا یا (اللہ کی راہ میں) دے کر ذخیرہ کر لیا، اور جو ان کے علاوہ ہے وہ تو اسے لوگوں کے لیے چھوڑ کر جانے والا ہے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (2959/4)»
وعن انس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يتبع الميت ثلاثة: فيرجع اثنان ويبقى معه واحد يتبعه اهله وماله وعمله فيرجع اهله وماله ويبقى عمله. متفق عليه وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَتْبَعُ الْمَيِّتَ ثَلَاثَةٌ: فَيَرْجِعُ اثْنَانِ وَيَبْقَى مَعَهُ وَاحِدٌ يَتْبَعُهُ أَهْلُهُ وَمَالُهُ وَعَمَلُهُ فَيَرْجِعُ أَهْلُهُ وَمَالُهُ وَيَبْقَى عمله. مُتَّفق عَلَيْهِ
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میت کے ساتھ تین چیزیں جاتی ہیں، ان میں سے دو واپس آ جاتی ہیں اور ایک اس کے ساتھ باقی رہتی ہے، اس کے گھر والے، اس کا مال اور اس کے اعمال اس کے ساتھ جاتے ہیں، اس کے گھر والے اور اس کا مال واپس آ جاتے ہیں، اور اس کے اعمال (اس کے ساتھ) باقی رہ جاتے ہیں۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (6514) و مسلم (2960/5)»
وعن عبد الله بن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ايكم مال وارثه احب إليه من ماله؟» قالوا: يا رسول الله ما منا احد إلا ماله احب إليه من مال وارثه. قال: «فإن ماله ما قدم ومال وارثه ما اخر» . رواه البخاري وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَيُّكُمْ مَالُ وَارِثِهِ أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنْ مَالِهِ؟» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا مَنَّا أَحَدٌ إِلَّا مَالُهُ أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنْ مَالِ وَارِثِهِ. قَالَ: «فَإِنَّ مَالَهُ مَا قَدَّمَ وَمَالَ وَارِثِهِ مَا أخر» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کون ہے جسے اپنے وارثوں کا مال اپنے مال سے زیادہ پسند ہے؟“ صحابہ نے عرض کیا: ہم میں سے ہر ایک کو اپنا مال اپنے وارثوں کے مال سے زیادہ پسند ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اس کا مال تو وہ ہے جو اس نے آگے بھیجا جبکہ وہ مال جو اس نے پیچھے چھوڑا وہ اس کے وارثوں کا ہے۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (6442)»
وعن مطرف عن ابيه قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم وهو يقرا: (آلهاكم التكاثر) قال: يقول ابن آدم: مالي مالي. قال: «وهل لك يا ابن آدم إلا ما اكلت فافنيت او لبست فابليت او تصدقت فامضيت؟؟» . رواه مسلم وَعَن مُطرّف عَنْ أَبِيهِ قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يقْرَأ: (آلهاكم التكاثر) قَالَ: يَقُولُ ابْنُ آدَمَ: مَالِي مَالِي. قَالَ: «وَهَلْ لَكَ يَا ابْنَ آدَمَ إِلَّا مَا أَكَلْتَ فَأَفْنَيْتَ أَوْ لَبِسْتَ فَأَبْلَيْتَ أَوْ تصدَّقت فأمضيت؟؟» . رَوَاهُ مُسلم
مطرف اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا: میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ (اس وقت) سورۂ تکاثر کی تلاوت فرما رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ابن آدم کہتا ہے: میرا مال، میرا مال، اے ابن آدم! حالانکہ تیرا مال تو صرف وہ ہے جو تو نے کھایا اور ختم کر دیا، یا پہن لیا اور بوسیدہ کر دیا یا صدقہ کر کے (آخرت کے لیے) آگے بھیج دیا۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (2958/3)»
وعن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ليس الغنى عن كثرة العرض ولكن الغنى غنى النفس» متفق عليه. وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيْسَ الْغِنَى عَنْ كَثْرَةِ الْعَرَضِ وَلَكِنَّ الْغِنَى غِنَى النَّفس» مُتَّفق عَلَيْهِ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مال داری، مال اور سازو سامان کی کثرت سے حاصل نہیں ہوتی، بلکہ مال داری تو نفس کی مال داری (یعنی قناعت) ہے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (6446) و مسلم (1051/120)»
عن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من اخذ عني هؤلاء الكلمات فيعمل بهن او يعلم من يعمل ب هن؟» قلت: انا يا رسول الله فاخذ بيدي فعد خمسا فقال: «اتق المحارم تكن اعبد الناس وارض بما قسم الله لك تكن اغنى الناس واحسن إلى جارك تكن مؤمنا واحب للناس ما تحب لنفسك تكن مسلما ولا تكثر الضحك فإن كثرة الضحك تميت القلب» . رواه احمد والترمذي وقال: هذا حديث غريب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسلم: «من أَخذ عَنِّي هَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ فَيَعْمَلُ بِهِنَّ أَوْ يُعَلِّمُ مَنْ يَعْمَلُ ب هِنَّ؟» قُلْتُ: أَنَا يَا رَسُولَ الله فَأخذ بيَدي فَعَدَّ خَمْسًا فَقَالَ: «اتَّقِ الْمَحَارِمَ تَكُنْ أَعْبَدَ النَّاسِ وَارْضَ بِمَا قَسَمَ اللَّهُ لَكَ تَكُنْ أَغْنَى النَّاسِ وَأَحْسِنْ إِلَى جَارِكَ تَكُنْ مُؤْمِنًا وَأَحِبَّ لِلنَّاسِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ تَكُنْ مُسْلِمًا وَلَا تُكْثِرِ الضَّحِكَ فَإِنَّ كَثْرَةَ الضَّحِكَ تُمِيتُ الْقَلْبَ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کون ہے جو مجھ سے یہ کلمات سیکھے اور ان پر عمل کرے یا کسی ایسے شخص کو سکھائے جو ان پر عمل کرے؟“ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں، چنانچہ آپ نے میرا ہاتھ پکڑ ااور پانچ چیزیں شمار کیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”محارم (اللہ کی حرام کردہ چیزوں) سے بچ جاؤ، اس طرح تم سب لوگوں سے زیادہ عبادت گزرا بن جاؤ گے، اللہ نے جو تمہاری قسمت میں لکھ دیا ہے اس پر راضی ہو جاؤ اس طرح تم سب لوگوں سے زیادہ غنی بن جاؤ گے، اپنے پڑوسی سے اچھا سلوک کرو گے تو مومن بن جاؤ گے، لوگوں کے لیے وہی چیز پسند کرو جو تم اپنی ذات کے لیے پسند کرتے ہو، تو مسلمان بن جائے گا، زیادہ مت ہنسا کرو کیونکہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کر دیتا ہے۔ “ احمد، ترمذی، اور امام ترمذی ؒ نے فرمایا: یہ حدیث غریب ہے۔ سندہ ضعیف، رواہ احمد و الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه أحمد (310/2ح 8081) و الترمذي (2305) ٭ أبو طارق مجھول والحسن البصري مدلس و عنعن.»
وعنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله يقول: ابن آدم تفرغ لعبادتي املا صدرك غنى واسد فقرك وإن لا تفعل ملات يدك شغلا ولم اسد فقرك. رواه احمد وابن ماجه وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ: ابْنَ آدَمَ تَفْرَّغْ لِعِبَادَتِي أَمْلَأْ صَدْرَكَ غِنًى وَأَسِدَّ فَقْرَكَ وَإِنْ لَا تَفْعَلْ مَلَأْتُ يَدَكَ شُغُلًا وَلَمْ أسُدَّ فقرك. رَوَاهُ أَحْمد وَابْن مَاجَه
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اللہ فرماتا ہے: انسان! میری عبادت کے لیے فارغ ہو جا، میں تیرے دل کو مال داری (قناعت) سے بھر دوں گا، تیری محتاجی ختم کر دوں گا اور اگر تو (ایسے) نہیں کرے گا تو میں تمہیں کاموں میں مصروف کر دوں گا اور تیری محتاجی ختم نہیں کروں گا۔ “ اسنادہ حسن، رواہ احمد و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أحمد (358/2 ح 8681) و ابن ماجه (4107)»
وعن جابر قال: ذكر رجل عند رسول الله صلى الله عليه وسلم بعبادة واجتهاد وذكر آخر برعة فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «لا تعدل بالرعة» . يعني الورع. رواه الترمذي وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: ذُكِرَ رَجُلٌ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعِبَادَةٍ وَاجْتِهَادٍ وَذُكِرَ آخَرُ بِرِعَّةٍ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَعْدِلْ بِالرِّعَّةِ» . يَعْنِي الْوَرَعَ. رَوَاهُ الترمذيُّ
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک آدمی کی عبادت اور اس میں بھرپور انہماک کا ذکر کیا گیا اور دوسرے آدمی کا تقویٰ و احتیاط برتنے کا ذکر کیا گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تقویٰ کے ساتھ (اس عبادت و اجتہاد کا) موازنہ نہ کرو۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (2519 و قال:غريب) ٭ محمد بن عبد الرحمٰن بن نبيه: مجھول الحال.»
وعن عمرو بن ميمون الاودي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لرجل وهو يعظه: اغتنم خمسا قبل خمس: شبابك قبل هرمك وصحتك قبل سقمك وغناك قبل فقرك وفراغك قبل شغلك وحياتك قبل موتك. رواه الترمذي مرسلا وَعَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ الْأَوْدِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِرَجُلٍ وَهُوَ يَعِظُهُ: اغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ: شَبَابَكَ قَبْلَ هَرَمِكَ وَصِحَّتَكَ قَبْلَ سَقَمِكَ وَغِنَاكَ قَبْلَ فَقْرِكَ وَفَرَاغَكَ قَبْلَ شُغْلِكَ وَحَيَاتَكَ قَبْلَ مَوْتِكَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ مُرْسلا
عمرو بن میمون اودی ؒ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک آدمی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ”پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو، اپنی جوانی کو اپنے بڑھاپے سے پہلے، اپنی صحت کو اپنے مرض سے پہلے، اپنے مال دار ہونے کو اپنی محتاجی سے پہلے، اپنی فراغت کو اپنی مصروفیت سے پہلے اور اپنی زندگی کو اپنی موت سے پہلے۔ “ امام ترمذی نے اسے مرسل روایت کیا ہے۔ حسن، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه الترمذي (لم أجده) [و البغوي في شرح السنة (14/ 224 ح 2021) و ابن المبارک في الزھد (2) و النسائي في الکبري کما في تحفة الأشراف (13/ 328 ح 19179)] ٭ السند مرسل و رواه الحاکم (4/ 306) موصولاً من حديث ابن عباس و صححه علي شرط الشيخين ووافقه الذهبي و سنده حسن.»