وعن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اللهم اذقت اول قريش نكالا فاذق آخرهم نوالا» . رواه الترمذي وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللَّهُمَّ أَذَقْتَ أَوَّلَ قُرَيْشٍ نَكَالًا فَأَذِقْ آخِرَهُمْ نَوَالًا» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! تو نے (بدر و احزاب میں) قریش کے پہلے افراد کو عذاب میں مبتلا کیا، تو ان کے بعد والوں کو انعام عطا فرما۔ “ حسن، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه الترمذي 3908 وقال: حسن صحيح غريب)»
وعن ابي عامر الاشعري قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «نعم الحي الاسد والاشعرون لا يفرون في القتال ولا يغلون هم مني وانا منهم» . رواه الترمذي وقال: هذا حديث غريب وَعَن أبي عَامر الْأَشْعَرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نَعْمَ الْحَيُّ الْأَسْدُ وَالْأَشْعَرُونَ لَا يَفِرُّونَ فِي الْقِتَالِ وَلَا يَغُلُّونَ هُمْ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُمْ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ
ابوعامر اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اسد اور اشعر قبیلے اچھے ہیں، وہ میدان جہاد سے فرار ہوتے ہیں نہ خیانت کرتے ہیں، وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔ “ ترمذی، اور فرمایا: یہ حدیث غریب ہے۔ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (3947) و أخطأ من ضعفه.»
وعن انس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الازد ازد الله في الارض يريد الناس ان يضعوهم ويابى الله إلا ان يرفعهم ولياتين على الناس زمان يقول الرجل: يا ليت ابي كان ازديا ويا ليت امي كانت ازدية رواه الترمذي وقال: هذا حديث غريب وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْأَزْدُ أَزْدُ اللَّهِ فِي الْأَرْضِ يُرِيدُ النَّاسُ أَنْ يَضَعُوهُمْ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يَرْفَعَهُمْ وَلَيَأْتِيَنَّ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ يَقُولُ الرَّجُلُ: يَا لَيْتَ أَبِي كَانَ أَزْدِيًا وَيَا لَيْتَ أُمِّي كَانَتْ أَزْدِيَّةً رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ازد قبیلہ زمین پر اللہ کا لشکر ہے، لوگ چاہتے ہیں کہ وہ انہیں نیچا دکھائیں لیکن اللہ نے اس بات کا انکار فرما دیا ہے، وہ انہیں رفعت ہی عطا فرماتا ہے، لوگوں پر ایک ایسا وقت بھی آئے گا کہ آدمی خواہش کرے گا کہ کاش میرا والد ازدی ہوتا اور کاش میری والدہ ازدی ہوتی۔ “ ترمذی، اور انہوں نے فرمایا: یہ حدیث غریب ہے۔ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (3937) ٭ فيه صالح بن عبد الکبير: لا مجھول. بل ھو ثقه أو صدوق- انظر الحديث 111 ص 6»
وعن عمران بن حصين قال: مات النبي صلى الله عليه وسلم وهو يكره ثلاثة احياء: ثقيف وبني حنيفة وبني امية. رواه الترمذي وقال: هذا حديث غريب وَعَن عمرَان بن حُصَيْن قَالَ: مَاتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَكْرَهُ ثَلَاثَةَ أَحْيَاءٍ: ثَقِيفٌ وَبَنِي حَنِيفَةَ وَبَنِي أُمَيَّةَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيب
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفات پائی تو وہ تین قبیلوں کو ناپسند فرماتے تھے، ثقیف، بنو حنیفہ اور بنو امیہ۔ ترمذی، اور فرمایا: یہ حدیث غریب ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (3943) ٭ فيه ھشام بن حسان و الحسن البصري مدلسان و عنعنا.»
وعن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «في ثقيف كذاب ومبير» قال عبد الله بن عصمة يقال: الكذاب هو المختار بن ابي عبيد والمبير هو الحجاج بن يوسف وقال هشام بن حسان: احصوا ما قتل الحجاج صبرا فبلغ مائة الف وعشرين الفا. رواه الترمذي وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فِي ثَقِيفٍ كَذَّابٌ وَمُبِيرٌ» قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عِصْمَةَ يُقَالُ: الْكَذَّابُ هُوَ الْمُخْتَارُ بْنُ أَبِي عُبَيْدٍ وَالْمُبِيرُ هُوَ الْحَجَّاجُ بْنُ يُوسُفَ وَقَالَ هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ: أَحْصَوْا مَا قَتَلَ الْحَجَّاجُ صَبْرًا فَبَلَغَ مِائَةَ ألفٍ وَعشْرين ألفا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ثقیف (قبیلے) میں ایک شخص کذاب اور ایک ظالم ہو گا۔ “ عبداللہ بن عصمہ نے کہا: کذاب سے مراد مختار بن ابی عبید اور ظالم سے مراد حجاج بن یوسف ہے، ہشام بن حسان نے کہا: حجاج نے جن افراد کو باندھ کر قتل کیا ان کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار تک پہنچتی ہے۔ صحیح، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه الترمذي (2220)»
وروى مسلم في «الصحيح» حين قتل الحجاج عبد الله بن الزبير قالت اسماء: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم حدثنا «ان في ثقيف كذابا ومبيرا» فاما الكذاب فرايناه واما المبير فلا إخالك إلا إياه. وسيجيء تمام الحديث في الفصل الثالث وَرَوَى مُسْلِمٌ فِي «الصَّحِيحِ» حِينَ قَتَلَ الْحَجَّاجُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ قَالَتْ أَسْمَاءَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا «أَن فِي ثَقِيف كذابا ومبيرا» فَأَما الْكذَّاب فَرَأَيْنَاهُ وَأَمَّا الْمُبِيرُ فَلَا إِخَالُكَ إِلَّا إِيَّاهُ. وَسَيَجِيءُ تَمام الحَدِيث فِي الْفَصْل الثَّالِث
امام مسلم ؒ نے صحیح مسلم میں روایت کیا ہے، جب حجاج نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو قتل کیا تو اسماء رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں حدیث بیان کی کہ ثقیف قبیلے میں ایک کذاب اور ایک ظالم ہو گا۔ رہا کذاب تو ہم نے اسے دیکھ لیا اور رہا ظالم تو میرا خیال ہے کہ یہ وہی ہے۔ رواہ مسلم۔ اور مکمل حدیث تیسری فصل میں آئے گی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (229/ 2545 و سيأتي: 5994)»
وعن جابر قال: قالوا: يا رسول الله احرقتنا نبال ثقيف فادع الله عليهم. قال: «اللهم اهد ثقيفا» . رواه الترمذي وَعَن جَابر قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَحْرَقَتْنَا نِبَالُ ثَقِيفٍ فَادْعُ اللَّهَ عَلَيْهِمْ. قَالَ: «اللَّهُمَّ اهْدِ ثقيفا» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، اللہ کے رسول! ثقیف قبیلے کے تیروں نے ہمیں جلا کر رکھ دیا ہے، آپ ان کے لیے اللہ سے بددعا فرمائیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! ثقیف قبیلے کو ہدایت عطا فرما۔ “ سندہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه الترمذي (3942 وقال: صحيح غريب)»
وعن عبد الرزاق عن ابيه عن ميناء عن ابي هريرة قال: كنا عند النبي صلى الله عليه وسلم فجاء رجل احسبه من قيس فقال: يا رسول الله العن حميرا فاعرض عنه ثم جاءه من الشق الآخر فاعرض عنه ثم جاءه من الشق الآخر فاعرض عنه فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «رحم الله حميرا افواههم سلام وايديهم طعام وهم اهل امن وإيمان» . رواه الترمذي وقال: هذا حديث غريب لا نعرفه إلا من حديث عبد الرزاق ويروى عن ميناء هذا احاديث مناكير وَعَن عَبْدِ الرَّزَّاقِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ مِينَاءَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فجَاء رَجُلٌ أَحْسَبُهُ مِنْ قَيْسٍ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ الْعَنْ حِمْيَرًا فَأَعْرَضَ عَنْهُ ثُمَّ جَاءَهُ من الشقّ الآخر فَأَعْرض عَنهُ ثمَّ جَاءَهُ مِنَ الشِّقِّ الْآخَرِ فَأَعْرَضَ عَنْهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «رَحِمَ اللَّهُ حِمْيَرًا أَفْوَاهُهُمْ سَلَامٌ وَأَيْدِيهِمْ طَعَامٌ وَهُمْ أَهْلُ أَمْنٍ وَإِيمَانٍ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّزَّاقِ ويُروى عَن ميناءَ هَذَا أَحَادِيث مَنَاكِير
عبدالرزاق، اپنے والد سے، وہ میناء سے اور وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا: ہم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھے کہ آدمی آپ کے پاس آیا میرا خیال ہے قیس قبیلے سے تھا، اس نے عرض کیا، اللہ کے رسول! حمیر قبیلے پر لعنت فرمائیں، آپ نے اس سے اعراض فرمایا، پھر وہ دوسری جانب سے آیا تو آپ نے اس سے اعراض فرمایا، پھر وہ دوسری جانب سے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے اعراض فرمایا، نیز فرمایا: ”اللہ حمیر پر رحم فرمائے، ان کے منہ سلام کرتے ہیں، ان کے ہاتھ کھانا کھلاتے ہیں، اور وہ امن و امان والے ہیں۔ “ ترمذی، اور فرمایا: یہ حدیث غریب ہے، اور ہم اسے صرف عبدالرزاق کے طریق سے پہچانتے ہیں، اور اس میناء سے منکر احادیث روایت کی جاتی ہیں۔ اسنادہ ضعیف جذا، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف جدًا، رواه الترمذي (3939) ٭ ميناء: متروک و رمي بالرفض و کذبه أبو حاتم.»
وعنه قال: قال لي النبي صلى الله عليه وسلم: ممن انت؟ قلت: من دوس. قال: «ما كنت ارى ان في دوس احدا فيه خير» . رواه الترمذي وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مِمَّنْ أَنْتَ؟ قُلْتُ: مِنْ دَوْسٍ. قَالَ: «مَا كُنْتُ أَرَى أَنَّ فِي دَوْسٍ أحدا فِيهِ خير» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”تم کس قبیلے سے ہو؟“ میں نے عرض کیا، دوس سے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میں نہیں سمجھتا تھا کہ دوس قبیلے کے کسی شخص میں بھلائی ہو۔ “ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (3838 وقال: غريب صحيح)»
وعن سلمان قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تبغضني فتفارق دينك» قلت: يا رسول الله كيف ابغضك وبك هدانا الله؟ قال: «تبغض العرب فتبغضني» . رواه الترمذي وقال: هذا حديث حسن غريب وَعَن سلمَان قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تُبْغِضُنِي فَتُفَارِقَ دِينَكَ» قَلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ أُبْغِضُكَ وَبِكَ هَدَانَا اللَّهُ؟ قَالَ: «تُبْغِضُ الْعَرَبَ فَتُبْغِضُنِي» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ
سلمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”مجھے ناراض نہ کرنا ورنہ تم اپنے دین سے نکل جاؤ گے۔ “ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں آپ کو کیسے ناراض کر سکتا ہوں، آپ کی وجہ سے اللہ نے ہمیں ہدایت نصیب فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم عربوں سے دشمنی رکھو گے تو تم مجھ سے دشمنی رکھو گے۔ “ ترمذی، اور انہوں نے فرمایا: یہ حدیث حسن غریب ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (3927) ٭ قابوس: فيه لين.»