الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
مشكوة المصابيح کل احادیث 6294 :حدیث نمبر
مشكوة المصابيح
كتاب المناقب
--. خلافت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ایک اور واضع دلیل
حدیث نمبر: 6029
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وعن عائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا ينبغي لقوم فيهم ابو بكر ان يؤمهم غيره» . رواه الترمذي وقال: هذا حديث غريب وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَنْبَغِي لِقَوْمٍ فِيهِمْ أَبُو بَكْرٍ أَنْ يَؤُمَّهُمْ غَيْرُهُ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابوبکر کی موجودگی میں کسی اور شخص کے لیے مناسب نہیں کہ وہ ان کی امامت کرائے۔ ترمذی، اور فرمایا: یہ حدیث غریب ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده ضعيف، رواه الترمذي (3673)
٭ فيه عيسي بن ميمون: ضعيف.»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف
--. حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ایک ناتمام آرزو
حدیث نمبر: 6030
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وعن عمر قال: امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ان نتصدق ووافق ذلك عندي مالا فقلت: اليوم اسبق ابا بكر إن سبقته يوما. قال: فجئت بنصف مالي. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما ابقيت لاهلك؟» فقلت: مثله. واتى ابو بكر بكل ما عنده. فقال: «يا ابا بكر؟ ما ابقيت لاهلك؟» . فقال: ابقيت لهم الله ورسوله. قلت: لا اسبقه إلى شيء ابدا. رواه الترمذي وابو داود وَعَن عُمَرَ قَالَ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَتَصَدَّقَ وَوَافَقَ ذَلِكَ عِنْدِي مَالًا فَقُلْتُ: الْيَوْمَ أَسْبِقُ أَبَا بَكْرٍ إِنْ سَبَقْتُهُ يَوْمًا. قَالَ: فَجِئْتُ بِنِصْفِ مَالِي. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا أَبْقَيْتَ لِأَهْلِكَ؟» فَقُلْتُ: مِثْلَهُ. وَأَتَى أَبُو بَكْرٍ بِكُلِّ مَا عِنْدَهُ. فَقَالَ: «يَا أَبَا بَكْرٍ؟ مَا أَبْقَيْتَ لِأَهْلِكَ؟» . فَقَالَ: أَبْقَيْتُ لَهُمُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ. قُلْتُ: لَا أَسْبِقُهُ إِلَى شَيْءٍ أَبَدًا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَأَبُو دَاوُد
عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم فرمایا، اس وقت میرے پاس مال بھی تھا، میں نے (دل میں) کہا: اگر ہو سکا تو میں آج ابوبکر رضی اللہ عنہ پر سبقت لے جاؤں گا، وہ بیان کرتے ہیں، میں اپنا نصف مال لے کر حاضر ہوا تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑ کر آئے ہو؟ میں نے عرض کیا: اتنا ہی (یعنی نصف) ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنا سارا اثاثہ لے کر حاضر ہو گئے تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابوبکر! اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑ کر آئے ہو؟ انہوں نے عرض کیا: ان کے لیے اللہ اور اس کے رسول (کی رضا) چھوڑ کر آیا ہوں، میں (عمر رضی اللہ عنہ) نے کہا: میں کسی چیز میں ان سے کبھی بھی سبقت حاصل نہیں کر سکتا۔ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی و ابوداؤد۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده حسن، رواه الترمذي (3675 و قال: حسن صحيح) و أبو داود (1678)»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
--. حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا لقب عتیق پڑنے کی وجہ
حدیث نمبر: 6031
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وعن عائشة ان ابا بكر دخل على رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: «انت عتيق الله من النار» . فيومئذ سمي عتيقا. رواه الترمذي وَعَنْ عَائِشَةَ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ دَخَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «أَنْت عتيقُ اللَّهِ من النَّار» . فَيَوْمئِذٍ سمي عتيقا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آپ آگ سے اللہ کے آزاد کردہ (عتیق اللہ) ہیں۔ اس روز سے ان کا نام (لقب) عتیق رکھ دیا گیا۔ صحیح، رواہ الترمذی۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«صحيح، رواه الترمذي (3679 وقال: غريب)
٭ إسحاق بن يحيي بن طلحة ضعيف و للحديث شاھد عند ابن الأعرابي في المعجم (409) و سنده صحيح فالحديث صحيح.»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس کی قبر شق ہو گی؟
حدیث نمبر: 6032
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وعن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «انا اول من تنشق عنه الارض ثم ابو بكر ثم عمر ثم آتي اهل البقيع فيحشرون معي ثم انتظر اهل مكة حتى احشر بين الحرمين» . رواه الترمذي وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْأَرْضُ ثُمَّ أَبُو بَكْرٍ ثُمَّ عُمَرُ ثُمَّ آتِي أَهْلَ الْبَقِيعِ فَيُحْشَرُونَ مَعِي ثُمَّ أَنْتَظِرُ أَهْلَ مَكَّةَ حَتَّى أحشرَ بَين الْحَرَمَيْنِ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سب سے پہلے مجھے قبر سے اٹھایا جائے گا، پھر ابوبکر کو، پھر عمر کو پھر میں اہل بقیع کے پاس آؤں گا تو وہ میرے ساتھ جمع کیے جائیں گے، پھر میں اہل مکہ کا انتظار کروں گا حتیٰ کہ میں حرمین کے درمیان جمع کیا جاؤں گا۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده ضعيف، رواه الترمذي (3692 وقال: حسن غريب)
٭ فيه عاصم بن عمر العمري: ضعيف.»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف
--. امت میں سے جنت میں اولین جانے والے
حدیث نمبر: 6033
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وعن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اتاني جبريل فاخذ بيدي فاراني باب الجنة الذي يدخل منه امتي» فقال ابو بكر: يا رسول الله وددت اني كنت معك حتى انظر إليه. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اما إنك يا ابا بكر اول من يدخل الجنة من امتي» . رواه ابو داود وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَتَانِي جِبْرِيلُ فَأَخَذَ بِيَدِي فَأَرَانِي بَابَ الْجَنَّةِ الَّذِي يَدْخُلُ مِنْهُ أُمَّتِي» فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ مَعَكَ حَتَّى أَنْظُرَ إِلَيْهِ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَمَا إِنَّكَ يَا أَبَا بَكْرٍ أَوَّلُ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جبریل میرے پاس آئے تو انہوں نے مجھے ہاتھ سے پکڑا اور مجھے جنت کا وہ دروازہ دکھایا جس سے میری امت داخل ہو گی۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، اللہ کے رسول! میں چاہتا ہوں کہ میں بھی آپ کے ساتھ ہوتا حتیٰ کہ میں اسے دیکھ لیتا، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سن لو! ابوبکر! میری امت میں سے سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والے تم ہی تو ہو۔ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده ضعيف، رواه أبو داود (4652)
٭ فيه أبو خالد مولي آل جعدة: مجھول.»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف
--. حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دو عمل ان کے تمام اعمال سے بھاری
حدیث نمبر: 6034
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
عن عمر ذكر عنده ابو بكر فبكى وقال: وددت ان عملي كله مثل عمله يوما واحدا من ايامه وليلة واحدة من لياليه اما ليلته فليلة سار مع رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى الغار فلما انتهينا إليه قال: والله لا تدخله حتى ادخل قبلك فإن كان فيه شيء اصابني دونك فدخل فكسحه ووجد في جانبه ثقبا فشق إزاره وسدها به وبقي منها اثنان فالقمها رجليه ثم قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم ادخل فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم ووضع راسه في حجره ونام فلدغ ابو بكر في رجله من الجحر ولم يتحرك مخافة ان ينتبه رسول الله صلى الله عليه وسلم فسقطت دموعه على وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: «ما لك يا ابا بكر؟» قال: لدغت فداك ابي وامي فتفل رسول الله صلى الله عليه وسلم فذهب ما يجده ثم انتقض عليه وكان سبب موته واما يومه فلما قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم ارتدت العرب وقالوا: لا نؤدي زكاة. فقال: لو منعوني عقالا لجاهدتهم عليه. فقلت: يا خليفة رسول الله صلى الله عليه وسلم تالف الناس وارفق بهم. فقال لي: اجبار في الجاهلية وخوار في الإسلام؟ إنه قد انقطع الوحي وتم الدين اينقص وانا حي؟. رواه رزين عَن عمر ذُكِرَ عِنْدَهُ أَبُو بَكْرٍ فَبَكَى وَقَالَ: وَدِدْتُ أَنَّ عَمَلِي كُلَّهُ مِثْلُ عَمَلِهِ يَوْمًا وَاحِدًا مِنْ أَيَّامِهِ وَلَيْلَةً وَاحِدَةً مِنْ لَيَالِيهِ أَمَّا لَيْلَتُهُ فَلَيْلَةٌ سَارَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْغَار فَلَمَّا انتهينا إِلَيْهِ قَالَ: وَاللَّهِ لَا تَدْخُلُهُ حَتَّى أَدْخُلَ قَبْلَكَ فَإِنْ كَانَ فِيهِ شَيْءٌ أَصَابَنِي دُونَكَ فَدَخَلَ فَكَسَحَهُ وَوَجَدَ فِي جَانِبِهِ ثُقْبًا فَشَقَّ إزَاره وسدها بِهِ وَبَقِي مِنْهَا اثْنَان فألقمها رِجْلَيْهِ ثُمَّ قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ادْخُلْ فَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوُضِعَ رَأسه فِي حجره وَنَامَ فَلُدِغَ أَبُو بَكْرٍ فِي رِجْلِهِ مِنَ الْجُحر وَلم يَتَحَرَّك مَخَافَة أَن ينتبه رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَقَطَتْ دُمُوعُهُ عَلَى وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «مَا لَكَ يَا أَبَا بَكْرٍ؟» قَالَ: لُدِغْتُ فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي فَتَفِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَهَبَ مَا يَجِدُهُ ثُمَّ انْتَقَضَ عَلَيْهِ وَكَانَ سَبَبَ مَوْتِهِ وَأَمَّا يَوْمُهُ فَلَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ارْتَدَّتِ الْعَرَبُ وَقَالُوا: لَا نُؤَدِّي زَكَاةً. فَقَالَ: لَوْ مَنَعُونِي عِقَالًا لَجَاهَدْتُهُمْ عَلَيْهِ. فَقُلْتُ: يَا خَلِيفَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَأَلَّفِ النَّاسَ وَارْفُقْ بِهِمْ. فَقَالَ لِي: أَجَبَّارٌ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَخَوَّارٌ فِي الْإِسْلَامِ؟ إِنَّهُ قَدِ انْقَطَعَ الْوَحْيُ وَتَمَّ الدِّينُ أَيَنْقُصُ وَأَنا حَيّ؟. رَوَاهُ رزين
عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے پاس ابوبکر رضی اللہ عنہ کا تذکرہ کیا گیا تو وہ رو پڑے اور کہا: میں چاہتا ہوں کہ میرے سارے عمل ان کے ایام میں سے ایک یوم اور ان کی راتوں میں سے ایک رات کی مثل ہو جائیں، رہی ان کی رات، تو وہ رات جب انہوں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ غار کی طرف سفر کیا تھا، جب وہ دونوں وہاں تک پہنچے تو ابوبکر نے عرض کیا، اللہ کی قسم! آپ اس میں داخل نہیں ہوں گے حتیٰ کہ میں آپ سے پہلے داخل ہو جاؤں، تا کہ اگر اس میں کوئی چیز ہو تو اس کا نقصان مجھے پہنچے آپ اس سے محفوظ رہیں، وہ اس میں داخل ہوئے، اسے صاف کیا، اور انہوں نے اس کی ایک جانب سوراخ دیکھے، انہوں نے اپنا ازار پھاڑا اور اس سے سوراخوں کو بند کیا، مگر دو سوراخ باقی رہ گئے اور انہوں نے ان پر اپنے پاؤں رکھ دیے، پھر رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے عرض کیا، تشریف لے آئیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اندر تشریف لے آئے اور اپنا سر مبارک ان کی گود میں رکھ کر سو گئے، سوراخ سے ابوبکر کا پاؤں ڈس لیا گیا، لیکن انہوں نے اس اندیشے کے پیش نظر کہ آپ بیدار نہ ہو جائیں حرکت نہ کی، ان کے آنسو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرہ مبارک پر گرے تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابوبکر! کیا ہوا؟ انہوں نے عرض کیا، میرے والدین آپ پر فدا ہوں مجھے ڈس لیا گیا ہے، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لعاب لگایا اور تکلیف جاتی رہی، اور بعد ازاں اس زہر کا اثر ان پر دوبارہ شروع ہو گیا اور یہی ان کی وفات کا سبب بنا، رہا ان کا دن تو جب رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وفات پائی کچھ عرب مرتد ہو گئے اور انہوں نے کہا: ہم زکوۃ نہیں دیں گے، انہوں نے فرمایا: اگر انہوں نے ایک رسی بھی دینے سے انکار کیا تو میں ان سے جہاد کروں گا۔ میں نے کہا: رسول اللہ کے خلیفہ! لوگوں کو ملائیں اور نرمی کریں، انہوں نے مجھے فرمایا: کیا جاہلیت میں سخت تھے اور اسلام میں بزدل ہو گئے ہو، وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا، دین مکمل ہو چکا، تو کیا میرے جیتے ہوئے دین کم (ناقص) ہو جائے گا؟ اسنادہ ضعیف جذا، رواہ رزین۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده ضعيف جدًا، رواه رزين (لم أجده) [والبيھقي في دلائل النبوة (2/ 477)]
٭ فيه فرات بن السائب عن ميمون بن مھران، و الفرات ھذا ضعيف جدًا متروک.»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف جدًا
--. حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے محدث ہونے کی بشارت
حدیث نمبر: 6035
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
عن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لقد كان فيما قبلكم من الامم محدثون فإن يك في امتي احد فإنه عمر» . متفق عليه عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَقَدْ كَانَ فِيمَا قَبْلَكُمْ مِنَ الْأُمَمِ مُحَدَّثُونَ فَإِنْ يَكُ فِي أمّتي أحدٌ فإِنَّه عمر» . مُتَّفق عَلَيْهِ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم سے پہلی امتوں میں محدث (جنہیں الہام ہوتا ہو) ہوا کرتے تھے، اگر میری امت میں کوئی شخص (محدث) ہوتا تو وہ عمر ہیں۔ متفق علیہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (3689) و مسلم (23/ 2398)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
--. امہات المؤمنین کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے گریز کرنا
حدیث نمبر: 6036
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وعن سعد بن ابي وقاص قال: استاذن عمر رضي الله عنه على رسول الله صلى الله عليه وسلم وعنده نسوة من قريش يكلمنه ويستكثرنه عالية اصواتهن فلما استاذن عمر قمن فبادرن الحجاب فدخل عمر ورسول الله صلى الله عليه وسلم يضحك فقال: اضحك الله سنك يا رسول الله. فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «عجبت من هؤلاء اللاتي كن عندي فلما سمعن صوتك ابتدرن الحجاب» قال عمر: يا عدوات انفسهن اتهبنني ولا تهبن رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قلن: نعم انت افظ واغلظ. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إيه يا ابن الخطاب والذي نفسي بيده ما لقيك الشيطان سالكا فجا قط إلا سلك فجا غير فجك» . متفق عليه. وقال الحميدي: زاد البرقاني بعد قوله: يا رسول الله: ما اضحكك وَعَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ: اسْتَأْذن عمر رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ نِسْوَةٌ مِنْ قُرَيْشٍ يُكَلِّمْنَهُ وَيَسْتَكْثِرْنَهُ عَالِيَةً أَصْوَاتُهُنَّ فَلَمَّا اسْتَأْذَنَ عُمَرُ قُمْنَ فَبَادَرْنَ الْحِجَابَ فَدَخَلَ عُمَرُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضْحَكُ فَقَالَ: أَضْحَكَ اللَّهُ سِنَّكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عَجِبْتُ مِنْ هَؤُلَاءِ اللَّاتِي كُنَّ عِنْدِي فَلَمَّا سَمِعْنَ صَوْتَكَ ابْتَدَرْنَ الْحِجَابَ» قَالَ عُمَرُ: يَا عَدُوَّاتِ أَنْفُسِهِنَّ أَتَهَبْنَنِي وَلَا تَهَبْنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم؟ قُلْنَ: نَعَمْ أَنْتَ أَفَظُّ وَأَغْلَظُ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِيهٍ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا لَقِيَكَ الشَّيْطَانُ سَالِكًا فَجًّا قَطُّ إِلَّا سَلَكَ فَجًّا غَيْرَ فَجِّكَ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَقَالَ الْحُمَيْدِيُّ: زَادَ الْبَرْقَانِيُّ بَعْدَ قَوْلِهِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ: مَا أَضْحَكَكَ
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آنے کی اجازت طلب کی، اس وقت آپ کے پاس قریش کی چند خواتین (آپ کی ازواج مطہرات) تھیں، وہ آپ سے بلند آواز میں گفتگو کر رہیں تھیں اور آپ سے نان و نفقہ میں اضافے کا مطالبہ کر رہی تھیں، جب عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی تو وہ کھڑی ہوئیں اور جلدی سے پردے میں چلی گئیں، عمر رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہنس رہے تھے، انہوں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! اللہ آپ کو سدا خوش رکھے۔ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے ان پر تعجب ہے کہ وہ میرے پاس تھیں، جب انہوں نے آپ کی آواز سنی تو وہ فوراً حجاب میں چلی گئیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اپنی جان کی دشمنو! تم مجھ سے ڈرتی ہو لیکن رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے نہیں ڈرتی ہو، انہوں نے فرمایا: ہاں، آپ سخت مزاج اور سخت دل ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابن خطاب! اور کچھ کہو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! شیطان تمہیں کسی راستے پر چلتا مل جاتا ہے تو وہ اس راستے کو چھوڑ کر کسی دوسرے راستے پر چل پڑتا ہے۔ متفق علیہ۔ اور امام حمیدی ؒ بیان کرتے ہیں، برقانی نے یا رسول اللہ کے الفاظ کے بعد ما أضحک آپ کو کس چیز نے ہنسایا کے الفاظ کا اضافہ کیا ہے۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (3683) و مسلم (22/ 2396)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
--. حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا جنت میں محل
حدیث نمبر: 6037
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وعن جابر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: دخلت الجنة فإذا انا بالرميضاء امراة ابي طلحة وسمعت خشفة فقلت: من هذا؟ فقال: هذا بلال ورايت قصرا بفنائه جارية فقلت: لمن هذا؟ فقالوا: لعمر بن الخطاب فاردت ان ادخله فانظر إليه فذكرت غيرتك فقال عمر: بابي انت وامي يا رسول الله اعليك اغار؟. متفق عليه وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: دخلتُ الجَنَّةَ فإِذا أَنا بالرُميضاء امْرَأَةِ أَبِي طَلْحَةَ وَسَمِعْتُ خَشَفَةً فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ فَقَالَ: هَذَا بِلَالٌ وَرَأَيْتُ قَصْرًا بِفِنَائِهِ جاريةٌ فَقلت: لمن هَذَا؟ فَقَالُوا: لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَأَرَدْتُ أَنْ أَدْخُلَهُ فَأَنْظُرَ إِليه فذكرتُ غيرتك فَقَالَ عمر: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ أَعَلَيْكَ أغار؟. مُتَّفق عَلَيْهِ
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: (معراج کی رات) میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کی اہلیہ رمیصاء کو دیکھا (نیز) میں نے قدموں کی آواز سنی تو میں نے پوچھا، یہ کون ہے؟ انہوں نے بتایا: یہ بلال ہیں، میں نے ایک محل دیکھا، اس کے صحن میں ایک لونڈی دیکھی، میں نے پوچھا: یہ (محل) کس کے لیے ہے؟ انہوں نے بتایا، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے لیے ہے، میں نے اس کے اندر داخل ہونے کا ارادہ کیا تا کہ میں اسے دیکھ سکوں، لیکن مجھے تمہاری غیرت یاد آ گئی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، اللہ کے رسول! میرے والدین آپ پر قربان ہوں، کیا میں آپ سے غیرت کروں گا۔ متفق علیہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (3679) و مسلم (20/ 2394)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
--. حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دین اسلام میں رسوخ
حدیث نمبر: 6038
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وعن ابی سعید قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «بينا انا نائم رايت الناس يعرضون علي وعليهم قمص منها ما يبلغ الثدي ومنها ما دون ذلك وعرض علي عمر بن الخطاب وعليه قميص يجره» قالوا: فما اولت ذلك يا رسول الله؟ قال: «الدين» . متفق عليه وَعَنِ اَبِیْ سَعِیْدٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم يَقُول: «بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ رَأَيْتُ النَّاسَ يُعْرَضُونَ عَلَيَّ وَعَلَيْهِمْ قُمُصٌ مِنْهَا مَا يَبْلُغُ الثُّدِيَّ وَمِنْهَا مَا دُونَ ذَلِكَ وَعُرِضَ عَلَيَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَعَلَيْهِ قَمِيصٌ يَجُرُّهُ» قَالُوا: فَمَا أَوَّلْتَ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «الدِّينَ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
ابوسعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں سو رہا تھا کہ میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ میرے سامنے پیش کیے گئے ہیں، ان پر قمیصیں تھیں، ان میں سے کسی کی قمیص سینے تک پہنچتی تھی، کسی کی اس سے چھوٹی تھی، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مجھ پر پیش کیے گئے، ان پر جو قمیص تھی وہ (چلتے وقت) اسے گھسیٹتے تھے۔ صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے اس کی کیا تاویل فرمائی ہے؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: (اس سے) دین مراد ہے۔ متفق علیہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه رواه البخاري (3691) و مسلم (15/ 2390)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

Previous    2    3    4    5    6    7    8    9    10    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.