الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
کھانا کھانے کے آداب
1. باب في التَّسْمِيَةِ عَلَى الطَّعَامِ:
1. کھانے کے وقت بسم اللہ کہنے کا بیان
حدیث نمبر: 2058
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا خالد بن مخلد، حدثنا مالك، عن وهب بن كيسان، عن عمر بن ابي سلمة، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال له: "سم الله وكل مما يليك".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهُ: "سَمِّ اللَّهَ وَكُلْ مِمَّا يَلِيكَ".
سیدنا عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: بسم الله کہو (الله کا نام لو) اور اپنے سامنے سے کھاؤ۔

تخریج الحدیث: «إسناده قوي، [مكتبه الشامله نمبر: 2062]»
اس حدیث کی سند قوی اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5376]، [مسلم 2022]، [أبوداؤد 3777]، [ترمذي 1857]، [ابن ماجه 3267]، [ابن حبان 5211]، [موارد الظمآن 1338]، [الحميدي 580]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2057)
بخاری شریف میں ہے کہ سیدنا عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں بچہ تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش میں تھا اور کھاتے وقت میرا ہاتھ برتن میں چاروں طرف گھوما کرتا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: بیٹے! بسم اللہ پڑھ لیا کرو، اور داہنے ہاتھ سے کھایا کرو، اور اپنے سامنے سے کھاؤ۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کا نام لے کر کھانا شروع کرنا چاہیے۔
امام نووی رحمہ اللہ نے کہا: پوری بسم الله الرحمٰن الرحیم کہنا مستحب ہے، اور صرف بسم اللہ کہے تو یہ بھی کافی ہے، اگر شروع میں بھول جائے تو یاد آنے پر «بِسْمَ اللّٰهِ أَوَّلَهُ وَآخِرَهُ» کہنا چاہیے جیسا کہ دوسری روایت میں آگے آ رہا ہے۔
بسم اللہ کہنا اور دائیں ہاتھ سے کھانا واجب ہے جیسا کہ آگے آ رہا ہے، اسی طرح اپنے سامنے اور قریب سے کھانا بھی اسلامی آدابِ طعام میں سے ہے جو نہایت ہی شائستہ اور عمدہ عمل ہے۔
اِدھر اُدھر دوسروں کے سامنے سے لقمہ لینا یا کھانا بے ادبی اور ناشائستگی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قوي
حدیث نمبر: 2059
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا هشام، عن بديل، عن عبد الله بن عبيد بن عمير، عن عائشة، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان ياكل طعاما في ستة نفر من اصحابه، فجاء اعرابي فاكله بلقمتين، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: "اما إنه لو ذكر اسم الله، لكفاكم، فإذا اكل احدكم، فليذكر اسم الله، فإن نسي ان يذكر اسم الله، فليقل: بسم الله اوله وآخره".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ بُدَيْلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْكُلُ طَعَامًا فِي سِتَّةِ نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَجَاءَ أَعْرَابِيٌّ فَأَكَلَهُ بِلُقْمَتَيْنِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَمَا إِنَّهُ لَوْ ذَكَرَ اسْمَ اللَّهِ، لَكَفَاكُمْ، فَإِذَا أَكَلَ أَحَدُكُمْ، فَلْيَذْكُرْ اسْمَ اللَّهِ، فَإِنْ نَسِيَ أَنْ يَذْكُرَ اسْمَ اللَّهِ، فَلْيَقُلْ: بِسْمِ اللَّهِ أَوَّلَهُ وَآخِرَهُ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ کھانا تناول فرما رہے تھے کہ ایک دیہاتی آیا اور دو لقموں میں سارا کھانا چٹ کر گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر اس نے کھانے سے پہلے اللہ کا نام لے لیا ہوتا تو تم سب کے لئے یہ کھانا کافی تھا، لہٰذا جب تم میں سے کوئی کھانا شروع کرے تو الله کا نام لے (یعنی بسم اللہ سے کھانا شروع کرے)، اور اگر بسم اللہ کہنا بھول جائے تو پھر (جب یاد آئے یا یاد دلایا جائے) «بِسْمِ اللّٰهِ أَوَّلَهٗ وَآخِرَهٗ» کہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2063]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 3767]، [ترمذي 1858]، [ابن حبان 5214]، [موارد الظمآن 1341]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2060
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا بندار، حدثنا معاذ بن هشام، عن ابيه، عن بديل، عن عبد الله بن عبيد بن عمير، عن ام كلثوم، عن عائشة، بهذا الحديث.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا بُنْدَارٌ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ بُدَيْلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أُمِّ كُلْثُومٍ، عَنْ عَائِشَةَ، بِهَذَا الْحَدِيثِ.
ام کلثوم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مذکورہ بالا یہ حدیث روایت کی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2064]»
تخریج اوپر گذر چکی ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 2058 سے 2060)
اس حدیث سے بھی بسم اللہ کہہ کر کھانا شروع کرنے کی اہمیت ثابت ہوئی، جو کہ باعثِ رحمت و برکت ہے، اگر شروع میں بھول جائے تو جب یاد آئے «بِسْمَ اللّٰهِ أَوَّلَهُ وَآخِرَهُ» کہنا چاہیے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
2. باب الدُّعَاءِ لِصَاحِبِ الطَّعَامِ إِذَا أَطْعَمَ:
2. کھانا کھلانے والے کے لئے دعا کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 2061
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا موسى بن خالد، حدثنا عيسى بن يونس، عن صفوان بن عمرو، حدثنا عبد الله بن بسر وكانت له صحبة يسيرة، قال: قال ابي لامي: لو صنعت لرسول الله صلى الله عليه وسلم طعاما؟ فصنعت ثريدة، وقال بيده يقلل، فانطلق ابي فدعاه، فوضع رسول الله صلى الله عليه وسلم يده على ذروتها، ثم قال:"خذوا باسم الله". فاخذوا من نواحيها، فلما طعموا دعا لهم، فقال: "اللهم اغفر لهم وارحمهم وبارك لهم في رزقهم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُسْرٍ وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ يَسِيرَةٌ، قَالَ: قَالَ أَبِي لِأُمِّي: لَوْ صَنَعْتِ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَعَامًا؟ فَصَنَعَتْ ثَرِيدَةً، وَقَالَ بِيَدِهِ يُقْلِلُ، فَانْطَلَقَ أَبِي فَدَعَاهُ، فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلَى ذِرْوَتِهَا، ثُمَّ قَالَ:"خُذُوا بِاسْمِ اللَّهِ". فَأَخَذُوا مِنْ نَوَاحِيهَا، فَلَمَّا طَعِمُوا دَعَا لَهُمْ، فَقَالَ: "اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُمْ وَارْحَمْهُمْ وَبَارِكْ لَهُمْ فِي رِزْقِهِمْ".
سیدنا عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا جو کچھ دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہے: میرے والد نے امی جان سے کہا: کاش تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کھانا بناؤ، چنانچہ والدہ صاحبہ نے ثرید بنایا، ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ وہ ثرید تھوڑا سا تھا، اس کے بعد میرے والد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے) اور اس کے بیچ کی چوٹی پر ہاتھ رکھا (یعنی برکت کی دعا کی) پھر فرمایا: الله کا نام لے کر شروع کرو، چنانچہ حاضرین نے کنارے کنارے سے کھانا شروع کیا، جب وہ کھانے سے شکم سیر ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے یہ دعا فرمائی: اے اللہ! ان کی مغفرت فرما، ان پر رحم کر اور جو روزی تو نے ان کو عطا کی ہے، اس میں برکت نازل کر۔

تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2065]»
اس روایت کی سند جید اور حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2042]، [أبوداؤد 3729]، [ترمذي 3576]، [ابن حبان 5297]۔ ان محدثین نے اس دعا کو دوسرے سیاق سے ذکر کیا ہے۔

وضاحت:
(تشریح حدیث 2060)
اس حدیث سے کھانا کھلانے والے کے لئے دعا کرنے کا ثبوت ملا، چنانچہ «اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لَهُمْ وَارْحَمْهُمْ وَبَارِكْ لَهُمْ فِيْمَا رَزَقْتَهُمْ.» کہنا سنّت ہے، اور بھی دعائیں کہی جا سکتی ہیں، جیسے: «اَللّٰهُمَّ أَطْعِمْ مَنْ أَطْعَمَنَا وَاسْقِ مَنْ سَقَانَا.» ترجمہ: اے الله جس نے مجھے کھانا کھلایا تو اسے کھانا دے، اور جس نے مجھے پانی پلایا تو اسے پانی عطا کر۔
نیز: «وَافْطَرَ عِنْدَكُمُ الصَّائِمُوْنَ وَصَلَّتْ عَلَيْكُمُ الْمَلَائِكَةُ وَأَكَلَ طَعَامُكُمُ الْأَبْرَارُ.» ترجمہ: تمہارے پاس روزے دار افطاری کریں، فرشتے تمہارے لئے دعا کریں، اور اچھے نیک لوگ تمہارا کھانا کھائیں۔
اس حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ بھی سامنے آیا، تھوڑا سا ثرید اور اتنی برکت کہ سارے گھر کو کافی ہوگیا، نیز بسم اللہ کی برکت بھی معلوم ہوئی اور صحابۂ کرام کی رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے الفت و محبت کا بھی اندازہ ہوا، نیز یہ کہ دعوت کرنا اسلاف کرام کی عاداتِ حسنہ میں سے ہے اور دعوت قبول کرنا سنّت ہے چاہے چھوٹا بڑے کو دعوت دے۔
والله اعلم۔
ثرید: روٹی، شوربے اور گوشت و سبزی ملا ہوا ایک کھانا ہے جو عرب میں معروف، خوش ذائقہ و زود ہضم ہوتا ہے اور بآسانی بنایا، پکایا جا سکتا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
3. باب الدُّعَاءِ بَعْدَ الْفَرَاغِ مِنَ الطَّعَامِ:
3. کھانے سے فراغت کے بعد کی دعا کا بیان
حدیث نمبر: 2062
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن القاسم الاسدي، حدثنا ثور، عن خالد بن معدان، عن ابي امامة، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اكل او شرب، قال: "الحمد لله حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه، غير مكفور، ولا مودع، ولا مستغنى عن ربنا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْقَاسِمِ الْأَسَدِيُّ، حَدَّثَنَا ثَوْرٌ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَكَلَ أَوْ شَرِبَ، قَالَ: "الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ، غَيْرَ مَكْفُورٍ، وَلَا مُوَدَّعٍ، وَلَا مُسْتَغْنًى عَنْ رَبِّنَا".
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کھانے پینے سے فارغ ہوتے تو یہ دعا پڑھتے تھے: «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ حَمْدًا كَثِيْرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيْهِ غَيْرَ مَكْفُوْرٍ وَّلَا مُوَدَّعٍ وَلَا مُسْتَغْنًي (عَنْهُ) رَبَّنَا» یعنی تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، ایسی تعریف جو بہت پاکیزہ و برکت والی ہیں، ہم اس کھانے کا شکر ادا نہیں کر سکتے، یہ ہمیشہ کے لئے رخصت نہ ہو جائے اور ہم اس سے مستغنیٰ نہیں رہ سکتے (یعنی بغیر کھائے نہیں رہ سکتے)، اے ہمارے رب! ہماری دعا قبول فرما۔

تخریج الحدیث: «محمد بن القاسم الأسدي كذبوه ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2066]»
اس حدیث کی سند میں محمد بن القاسم کو محدثین نے کذاب کہا ہے، لیکن یہ حدیث صحیح سند سے بخاری وغیرہ میں موجود ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5458]، [أبوداؤد 3849]، [ترمذي 3456]، [ابن ماجه 3284]، [ابن حبان 5217]، [بيهقي فى الشعب 6038، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2061)
کھانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعدد دعائیں منقول ہیں جن میں سے ایک دعا یہ ہے جو اوپر مذکور ہے، اسی طرح ایک اور دعا: «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ أَطْعَمَ وَسَقٰي وَسَوَّغَهُ وَجَعَلَ لَهُ مَخْرَجَا.» ترجمہ: تمام تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے کھلایا، پلایا اور کھانا ہضم کرنے کی طاقت بخشی، اور اس کے فضلے کے نکلنے کا راستہ بنایا۔
اس کے علاوہ ہے جو بھی دعا صحیح سند سے ثابت ہو، اللہ تعالیٰ کے شکر کے طور پر دعا ضرور کرنی چاہیے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: « ﴿لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ﴾ [إبراهيم: 7] » ترجمہ: اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں زیادہ سے زیادہ نواز دوں گا، اور اگر ناشکری کرو گے تو (جان لو) میرا عذاب بڑا درد ناک ہے۔
«أعاذنا اللّٰه منه» ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: محمد بن القاسم الأسدي كذبوه ولكن الحديث صحيح
4. باب في الشُّكْرِ عَلَى الطَّعَامِ:
4. کھانے کا شکر ادا کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 2063
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا نعيم بن حماد، عن عبد العزيز بن محمد، عن محمد بن عبد الله بن ابي حرة، عن عمه، عن سنان بن سنة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "الطاعم الشاكر كالصائم الصابر".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي حُرَّةَ، عَنْ عَمِّهِ، عَنْ سِنَانِ بْنِ سَنَّةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الطَّاعِمُ الشَّاكِرُ كَالصَّائِمِ الصَّابِرِ".
سیدنا سنان بن سنہ اسلمی رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کھانا کھا کر شکر کرنے والا صبر کرنے والے روزے دار کی طرح ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2067]»
اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [ابن ماجه 1765]، [أحمد 343/4]، [ابن حبان 315]، [موارد الظمآن 952]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2062)
یعنی جو شخص کھانا کھا کر رب کا شکر ادا کرے اس کے لئے صبر کرنے والے روزے دار کا سا ثواب و اجر ہے۔
سبحان اللہ! رب کی کیا آسانی اور کیا عنایت ہے، کھانا بھی کھائے اور روزے دار کا سا ثواب بھی ملے۔
شکر ادا کرنا کچھ مشکل نہیں۔
اس لئے غافل نہ رہنا چاہیے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
5. باب في لَعْقِ الأَصَابِعِ:
5. کھانے کے بعد انگلیاں چاٹنے کا بیان
حدیث نمبر: 2064
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا إسحاق بن عيسى، اخبرنا حماد بن سلمة، عن ثابت، عن انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "إذا اكل احدكم، فليلعق اصابعه الثلاث".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ عِيسَى، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِذَا أَكَلَ أَحَدُكُمْ، فَلْيَلْعَقْ أَصَابِعَهُ الثَّلَاثَ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی کھانا کھا لے تو تین مرتبہ اپنی انگلیوں کو چاٹ لے۔ (تاکہ کھانے کا کوئی جزء انگلیوں میں لگا نہ رہ جائے)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2068]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2034]، [أبوداؤد 3845]، [ترمذي 1803]، [طبراني فى الأوسط 3620]، [مجمع الزوائد 28/5]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2063)
کھانے کے بعد انگلیوں کو چاٹنا سنّت ہے اور اس کے بڑے فوائد ہیں۔
سب سے اہم فائدہ اللہ کی نعمت پر اس کی شکر گزاری اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری ہے جو فلاحِ دین و دنیا ہے۔
اطباء کا کہنا ہے: ہاتھ کے مسامات سے جو رطوبت نکلتی ہے، کھانے کے بعد انگلیاں چاٹنے سے وہ رطوبت کھانے کو ہضم کرنے میں ممد و معاون ہے، اور جراثیم کش ہے۔
آج یہ سنّت چھوٹی ہے تو لوگ طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔
صحیح مسلم و دیگر کتبِ احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھانے کے بعد تین بار اپنی انگلیاں چاٹتے تھے، مذکورہ بالا حدیث میں بصیغۂ امر یہ حکم ہے جو صحیح سند سے ہے اور وجوب کا درجہ رکھتا ہے، بنا انگلی چاٹے ہاتھ دھونا یا صاف کرنا رزقِ الٰہی کی بے حرمتی اور ناقدری و ضياع ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
6. باب في الْمِنْدِيلِ عِنْدَ الطَّعَامِ:
6. کھانے کے بعد مندیل سے ہاتھ صاف کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 2065
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عمرو بن عون، حدثنا ابن عيينة، عن عمرو بن دينار، عن عطاء، عن ابن عباس، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: "إذا اكل احدكم، فلا يمسح يده حتى يلعق اصابعه او يلعقها".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِذَا أَكَلَ أَحَدُكُمْ، فَلَا يَمْسَحْ يَدَهُ حَتَّى يَلْعَقَ أَصَابِعَهُ أَوْ يُلْعِقَهَا".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص کھانا کھائے تو ہاتھ چاٹنے یا (کسی کو) چٹانے سے پہلے ہاتھ نہ پونچھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2069]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5456]، [مسلم 2031]، [أبوداؤد 3847]، [ابن ماجه 3269]، [أبويعلی 2503]، [ابن حبان 5252]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2064)
یہاں اس روایت میں اور صحیح بخاری میں مندیل کا لفظ نہیں ہے لیکن صحیح مسلم میں ہے: «فَلَا يَمْسَحْ يَدَهُ بِالْمَنْدِيْلِ» یعنی چاٹنے سے پہلے مندیل سے ہاتھ صاف نہ کرے۔
عربی میں مندیل کپڑے کے رومال کو کہتے ہیں جس کا اطلاق ٹشوز پیپرس وغیرہ پر بھی ہوتا ہے، جس کا استعمال کھانے کے بعد چکنائی وغیرہ دور کرنے کے لئے ہوتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگلیاں چاٹ کر رومال سے ہاتھ صاف کرنے کا حکم دیا۔
ایک روایت ابوداؤد میں ہے کہ جو شخص سو جائے اور اس کے ہاتھ میں چکنائی لگی ہو اور دھو کر نہ سویا، اور اس کو تکلیف پہنچے تو اپنے آپ کو ملامت کرے۔
[أبوداؤد 3852]، ابن ماجہ میں یہ اضافہ ہے کہ وہ نہیں جانتا کھانے کے کس ذرے میں برکت ہے۔
مذکورہ بالا حدیث سے مندیل سے ہاتھ صاف کرنے کا ثبوت معلوم ہوا، نیز یہ کہ کھانے کے بعد ہاتھ ضرور دھونے چاہیے ورنہ ضرر پہنچنے کا خطرہ ہے۔
(دیکھئے حدیث رقم: 2100)، اور بیوی یا غلام کو چٹا دینا بھی رزق کے ضیاع سے بچنا ہے۔
جو دنیا دار قسم کے لوگ انگلی چاٹنا خلافِ تہذیب سمجھتے ہیں وہ اتباعِ سنّت سے اور اس کی حقیقت سے محروم ہیں، اللہ ان کو ہدایت دے۔
آمین۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
7. باب في لَعْقِ الصَّحْفَةِ:
7. پلیٹ یا تھالی کو چاٹنے (صاف کر دینے) کا بیان
حدیث نمبر: 2066
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا ابو اليمان البراء وهو: معلى بن راشد، قال: حدثتني جدتي ام عاصم، قالت: دخل علينا نبيشة مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن ناكل طعاما، فدعوناه، فاكل معنا، ثم قال: حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم انه: "من اكل في قصعة ثم لحسها، استغفرت له القصعة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا أَبُو الْيَمَانِ الْبَرَّاءُ وَهُوَ: مُعَلَّى بْنُ رَاشِدٍ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي جَدَّتِي أُمُّ عَاصِمٍ، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيْنَا نُبَيْشَةُ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نَأْكُلُ طَعَامًا، فَدَعَوْنَاهُ، فَأَكَلَ مَعَنَا، ثُمَّ قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ: "مَنْ أَكَلَ فِي قَصْعَةٍ ثُمَّ لَحِسَهَا، اسْتَغْفَرَتْ لَهُ الْقَصْعَةُ".
ابوالیمان نے کہا: میری دادی ام عاصم (رحمہا اللہ تعالیٰ) نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام نبیشہ ہمارے پاس آئے، اس وقت ہم کھانا کھا رہے تھے، ہم نے ان کو دعوت دی اور وہ ہمارے ساتھ کھانے لگے، پھر انہوں نے کہا کہ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا: جو شخص بڑے تھال میں (یا پلیٹ میں) کھا لے پھر اس کو چاٹ کر صاف کر دے تو وہ پلیٹ (یا تھالی) اس کے لئے مغفرت کی دعا کرے گی۔

تخریج الحدیث: «إسناده فيه أم عاصم وما رأيت فيها جرحا ولا تعديلا فهي على شرط ابن حبان، [مكتبه الشامله نمبر: 2070]»
اس روایت کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 1804]، [ابن ماجه 3271]، [أحمد 76/5]، [بغوي 2827]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2065)
اس حدیث میں جمادات کے دعا کرنے کا ذکر ہے جس سے مراد حقیقت بھی ہو سکتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور اپنی نعمت کی قدردانی پر خوش ہو کر جمادات کو بھی قوتِ گویائی عطا فرما دے، یہ اس کی نرالی شان ہے۔
بعض علماء نے کہا کہ پلیٹ و تھالی کی دعا سے مراد یہ ہے کہ اس کو پونچھنا اس کے لئے مغفرت کا سبب ہو گا کیونکہ یہ عاجزی اور انکساری پر دلالت کرتا ہے۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده فيه أم عاصم وما رأيت فيها جرحا ولا تعديلا فهي على شرط ابن حبان
8. باب في اللُّقْمَةِ إِذَا سَقَطَتْ:
8. جب لقمہ گر جائے (تو کیا کریں؟)
حدیث نمبر: 2067
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا إسحاق بن عيسى، حدثنا حماد بن سلمة، عن ثابت، عن انس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا سقطت لقمة احدكم، فليمسح عنها التراب، وليسم الله، ولياكلها".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا سَقَطَتْ لُقْمَةُ أَحَدِكُمْ، فَلْيَمْسَحْ عَنْهَا التُّرَابَ، وَلْيُسَمِّ اللَّهَ، وَلْيَأْكُلْهَا".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کا لقمہ گر جائے تو اس سے مٹی کو صاف کر دے، الله کا نام لے اور اس کو کھا لے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2071]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2034]، [أبوداؤد 3845]، [ترمذي 1804]، [ابن ماجه 3279]، [أحمد 100/3، 177، 290]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

1    2    3    4    5    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.