الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
ایمان کے احکام و مسائل
1. باب بَيَانِ الْإِيمَانِ وَالْإِسْلَامِ وَالْإِحْسَانِ وَوُجُوبِ الْإِيمَانِ بِإِثْبَاتِ قَدَرِ اللَّهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى وَبَيَانِ الدَّلِيلِ عَلَى التَّبَرِّي مِمَّنْ لَا يُؤْمِنُ بِالْقَدَرِ وَإِغْلَاظِ الْقَوْلِ فِي حَقِّهِ.
1. باب: ایمان اور اسلام اور احسان کا بیان اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی تقدیر پر ایمان کا بیان۔
حدیث نمبر: 93
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
قال ابو الحسين مسلم بن الحجاج القشيري رحمه الله: بعون الله نبتدئ وإياه نستكفي، وما توفيقنا إلا بالله جل جلاله.
حدثني ابو خيثمة زهير بن حرب ، حدثنا وكيع ، عن كهمس ، عن عبد الله بن بريدة ، عن يحيى بن يعمر . ح وحدثنا وهذا حديثه، عبيد الله بن معاذ العنبري ، حدثنا ابي ، حدثنا كهمس ، عن ابن بريدة ، عن يحيى بن يعمر ، قال: كان اول من قال في القدر بالبصرة: معبد الجهني، فانطلقت انا وحميد بن عبد الرحمن الحميري، حاجين او معتمرين، فقلنا: لو لقينا احدا من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسالناه عما يقول هؤلاء في القدر، فوفق لنا عبد الله بن عمر بن الخطاب داخلا المسجد، فاكتنفته انا، وصاحبي، احدنا عن يمينه والآخر عن شماله، فظننت ان صاحبي سيكل الكلام إلي، فقلت: ابا عبد الرحمن، إنه قد ظهر قبلنا ناس يقرءون القرآن، ويتقفرون العلم، وذكر من شانهم، وانهم يزعمون ان لا قدر، وان الامر انف، قال: فإذا لقيت اولئك، فاخبرهم اني بريء منهم، وانهم برآء مني، والذي يحلف به عبد الله بن عمر، لو ان لاحدهم، مثل احد ذهبا، فانفقه ما قبل الله منه، حتى يؤمن بالقدر، ثم قال: حدثني ابي عمر بن الخطاب ، قال: بينما نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم، إذ طلع علينا رجل شديد، بياض الثياب، شديد، سواد الشعر، لا يرى عليه اثر السفر، ولا يعرفه منا احد، حتى جلس إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فاسند ركبتيه إلى ركبتيه، ووضع كفيه على فخذيه، وقال: يا محمد، اخبرني عن الإسلام، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الإسلام ان تشهد ان لا إله إلا الله، وان محمدا رسول الله صلى الله عليه وسلم، وتقيم الصلاة، وتؤتي الزكاة، وتصوم رمضان، وتحج البيت إن استطعت إليه سبيلا"، قال: صدقت، قال: فعجبنا له يساله، ويصدقه، قال: فاخبرني عن الإيمان، قال:" ان تؤمن بالله، وملائكته، وكتبه، ورسله، واليوم الآخر، وتؤمن بالقدر خيره وشره"، قال: صدقت، قال: فاخبرني عن الإحسان، قال:" ان تعبد الله كانك تراه، فإن لم تكن تراه، فإنه يراك"، قال: فاخبرني عن الساعة، قال: ما المسئول عنها باعلم من السائل، قال: فاخبرني عن امارتها، قال:" ان تلد الامة ربتها، وان ترى الحفاة العراة العالة رعاء الشاء، يتطاولون في البنيان"، قال: ثم انطلق فلبثت مليا، ثم قال لي: يا عمر اتدري من السائل؟ قلت: الله ورسوله اعلم، قال: فإنه جبريل، اتاكم يعلمكم دينكم.
قَالَ أَبُو الْحُسَيْنِ مُسْلِمُ بْنُ الْحَجَّاجِ الْقُشَيْرِيُّ رَحِمَهُ اللَّهُ: بِعَوْنِ اللَّهِ نَبْتَدِئُ وَإِيَّاهُ نَسْتَكْفِي، وَمَا تَوْفِيقُنَا إِلَّا بِاللَّهِ جَلَّ جَلَالُهُ.
حَدَّثَنِي أَبُو خَيْثَمَةَ زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ كَهْمَسٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ . ح وحَدَّثَنَا وَهَذَا حَدِيثُهُ، عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا كَهْمَسٌ ، عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ ، قَالَ: كَانَ أَوَّلَ مَنْ قَالَ فِي الْقَدَرِ بِالْبَصْرَةِ: مَعْبَدٌ الْجُهَنِيُّ، فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَحُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيُّ، حَاجَّيْنِ أَوْ مُعْتَمِرَيْنِ، فَقُلْنَا: لَوْ لَقِينَا أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلْنَاهُ عَمَّا يَقُولُ هَؤُلَاءِ فِي الْقَدَرِ، فَوُفِّقَ لَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ دَاخِلًا الْمَسْجِدَ، فَاكْتَنَفْتُهُ أَنَا، وَصَاحِبِي، أَحَدُنَا عَنْ يَمِينِهِ وَالآخَرُ عَنْ شِمَالِهِ، فَظَنَنْتُ أَنَّ صَاحِبِي سَيَكِلُ الْكَلَامَ إِلَيَّ، فَقُلْتُ: أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَن، إِنَّهُ قَدْ ظَهَرَ قِبَلَنَا نَاسٌ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ، وَيَتَقَفَّرُونَ الْعِلْمَ، وَذَكَرَ مِنْ شَأْنِهِمْ، وَأَنَّهُمْ يَزْعُمُونَ أَنْ لَا قَدَرَ، وَأَنَّ الأَمْرَ أُنُفٌ، قَالَ: فَإِذَا لَقِيتَ أُولَئِكَ، فَأَخْبِرْهُمْ أَنِّي بَرِيءٌ مِنْهُمْ، وَأَنَّهُمْ بُرَآءُ مِنِّي، وَالَّذِي يَحْلِفُ بِهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، لَوْ أَنَّ لِأَحَدِهِمْ، مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا، فَأَنْفَقَهُ مَا قَبِلَ اللَّهُ مِنْهُ، حَتَّى يُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ، ثُمَّ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ، إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيدُ، بَيَاضِ الثِّيَابِ، شَدِيدُ، سَوَادِ الشَّعَرِ، لَا يُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ، وَلَا يَعْرِفُهُ مِنَّا أَحَدٌ، حَتَّى جَلَسَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَسْنَدَ رُكْبَتَيْهِ إِلَى رُكْبَتَيْهِ، وَوَضَعَ كَفَّيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ، وَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، أَخْبِرْنِي عَنِ الإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الإِسْلَامُ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ، وَتَصُومَ رَمَضَانَ، وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيلًا"، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَعَجِبْنَا لَهُ يَسْأَلُهُ، وَيُصَدِّقُهُ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الإِيمَانِ، قَالَ:" أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الآخِرِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ"، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الإِحْسَانِ، قَالَ:" أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ، فَإِنَّهُ يَرَاكَ"، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ السَّاعَةِ، قَالَ: مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنْ أَمَارَتِهَا، قَالَ:" أَنْ تَلِدَ الأَمَةُ رَبَّتَهَا، وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَاءَ الشَّاءِ، يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ"، قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقَ فَلَبِثْتُ مَلِيًّا، ثُمَّ قَالَ لِي: يَا عُمَرُ أَتَدْرِي مَنِ السَّائِلُ؟ قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَإِنَّهُ جِبْرِيلُ، أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ.
کہمس سے ا بن بریدہ سے، انہوں نے یحیی بن یعمر سےروایت کی، انہوں نے کہا کہ سب سے پہلا شخص جس نے بصرہ میں تقدیر (سے انکار) کی بات کی، معبد جہنی تھا میں (یحیی) اور حمید بن عبد الرحمن خمیری حج یا عمرے کے ارادے سے نکلے، ہم نے (آپس میں) کہا: کاش! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کسی کے ساتھ ہماری ملاقات ہو جائے تو ہم ان سے تقدیر کے بارے میں ان (آج کل کے) لوگوں کی کہی ہوئی باتوں کے متعلق دریافت کر لیں۔ توفیق الہٰی سے ہمیں حضرت عبد اللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مسجد میں داخل ہوتے ہوئے مل گئے۔ میں اور میرے ساتھ نے ان کے درمیان میں لے لیا، ایک ان کی دائیں طرف تھا اور دوسرا ان کی بائیں طرف۔ مجھے اندازہ تھا کہ میرا ساتھی گفتگو (کامعاملہ) میرے سپرد کرے گا، چنانچہ میں نے عرض کی: اے ابو عبدالرحمن! (یہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی کنیت ہے) واقعہ یہ ہے کہ ہماری طرف کچھ ایسے لوگ ظاہر ہوئے جو قرآن مجید پڑھتے ہیں اور علم حاصل کرتے ہیں (اور ان کے حالات بیان کیے) ان لوگوں کا خیال ہے کہ تقدیر کچھ نہیں، (ہر) کام نئے سرے سے ہو رہا ہے (پہلے اس بارے میں نہ کچھ طے ہے، نہ اللہ کا اس کاعلم ہے۔) ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب تمہاری ان لوگوں سے ملاقات ہو تو انہیں بتا دینا کہ میں ان سے بری ہوں اور وہ مجھ سے بری ہیں۔ اس (ذات) کی قسم جس (کے نام) کے ساتھ عبد اللہ بن عمر حلف اٹھاتا ہے! اگر ان میں سے کسی کو پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور وہ اسے خرچ (بھی) کر دے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے اس کوقبول نہیں فرمائے گا یہاں تک کہ وہ تقدیر پر ایمان لے آئے، پھر کہا: مجھے میرے والد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بتایا: ایک دن ہم رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ اچانک ایک شخص ہمارے سامنے نمودار ہوا۔ اس کے کپڑے انتہائی سفید اوربا ل انتہائی سیاہ تھے۔ اس پر سفر کا کوئی اثر دکھائی دیتا تھا نہ ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا تھا حتیٰ کہ وہ آ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ گیا اور اپنے گھٹنے آپ کے گھٹنوں سے ملا دیے، اور اپنے ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی را نوں پر رکھ دیے، اور کہا: اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! مجھے اسلام کے بارے میں بتائیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کےلائق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں، نماز کا اہتمام کرو، زکاۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور اگر اللہ کے گھر تک راستہ (طے کرنے) کی استطاعت ہو تو اس کا حج کرو۔ اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا۔ (حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے) کہا: ہمیں اس پر تعجب ہوا کہ آپ سے پوچھتا ہے اور (خود ہی) آپ کی تصدیق کرتا ہے۔ اس نے کہا: مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے۔ آپ نے فرمایا: یہ کہ تم اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور آخری دن (یوم قیامت) پر ایمان رکھو اور اچھی اور بری تقدیر پر بھی ایمان لاؤ۔ اس نے کہا: آپ نے درست فرمایا۔ (پھر) اس نے کہا: مجھے احسان کے بارے میں بتائیے۔ آپ نے فرمایا: یہ کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ اس نے کہا: تومجھے قیات کے بارے میں بتائیے۔ آپ نے فرمایا: جس سے اس (قیامت) کے بارے میں سوال کیا جا رہا ہے، وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔ اس نے کہا: تو مجھے اس کی علامات بتا دیجیے۔ آپ نے فرمایا: (علامات یہ ہیں کہ) لونڈی اپنی مالکہ کو جنم دے اور یہ کہ تم ننگے پاؤں، ننگے بدن، محتاج، بکریاں چرانے والوں کو دیکھو کہ وہ اونچی سے اونچی عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نےکہا: پھر وہ سائل چلا گیا، میں کچھ دیر اسی عالم میں رہا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کہا: اے عمر!تمہیں معلوم ہے کہ پوچھنے والا کون تھا؟ میں نے عرض کی: اللہ اور اس کا رسول زیادہ آگاہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جبرئیل رضی اللہ عنہ تھے، تمہارے پائے تھے، تمہیں تمہارا دین سکھا رہے تھے۔
مجھے ابو خیثمہ زہیر بن حرب ؒ نے وکیع کے واسطے سے کہمس سے سنایا، کہمس کہتے ہیں مجھے عبداللہ بن بریدہ ؒ نے یحییٰ بن یعمر ؒ سے نقل کیا، نیز امام مسلم ؒ کا قول ہے ہمیں عبیداللہ بن معاذ العنبری ؒ نے اپنے باپ کے واسطے سے کہمس ؒ سے بیان کیا اور یہ الفاظ عنبری ؒ کے ہیں (حدیث عنبری کی نقل کی گئی ہے) کہمسؒ، ابنِ بریدہ کے واسطے سے یحییٰ بن یعمرؒ سے روایت کرتے ہیں کہ بصرہ میں سب سے پہلےمسئلہ تقدیر پر گفتگو کا آغاز معبد الجُہنی نے کیا، میں (یحییٰ) اور حمید بن عبدالرحمٰن الحمیری ؒ حج یا عمرہ کے ارادے سے نکلے ہم نے آپس میں کہا اے کاش! ہماری ملاقات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہو جائے تو ہم اس سے (یہ لوگ جو کچھ تقدیر کے بارے میں کہہ رہے ہیں) اس کے بارے میں پوچھ لیں۔ تو اتفاقاً ہماری ملاقات عبداللہ بن عمر خطاب ؓسے مسجد میں داخل ہوتے ہوئے ہوگئی میں اور میرے ساتھی نے انھیں گھیر لیا ہم میں سے ایک ان کے دائیں اور دوسرا ان کے بائیں تھا۔ میں نے خیال کیا میرا ساتھی یقیناً گفتگو کا معاملہ میرے ہی سپرد کرے گا چنانچہ میں نے پوچھا: اے ابو عبدالرحمٰن! (یہ عبداللہ بن عمر ؓ کی کنیت ہے) واقعہ یہ ہے کہ ہمارے علاقے میں کچھ ایسے لوگ ہیں جو قرآن کی قرات کرتے ہیں اور علم کے متلاشی ہیں (اس طرح)ان کے حالات بیان کیے ان لوگوں کا خیال ہے کہ تقدیرکا کوئی مسئلہ نہیں۔ ہر کام نئے سرے سے ہو رہا ہے (اللہ تعالیٰ کو پہلے سے اس کا علم نہیں ہے) حضرت ابنِ عمر رضی الله عنه نے فرمایا: جب تیری ان لوگوں سے ملاقات ہوتو انھیں بتانا، میں ان سے بری ہوں (ان سے میرا کوئی تعلق نہیں) اور ان کامجھ سے کوئی تعلق نہیں، عبد اللہ بن عمر رضی الله عنها جس ذات کی قسم اٹھاتا ہےاس کی قسم ان میں سے کسی ایک کے پاس اگر اُحد پہاڑ کے برابر سونا ہو، جسے وہ خرچ کر دے، اللہ تعالیٰ اس سے قبول نہیں فرمائے گا یہاں تک کہ وہ تقدیر پر ایمان لے آئے، پھر کہا: مجھے میرے والد عمر بن خطاب رضی الله عنه نے بتایا کہ ایک دن ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے اسی اثناء میں اچانک ایک شخص ہمارے سامنے نمودار ہوا جس کے کپڑے انتہائی سفید اور بال بہت ہی زیادہ سیاہ تھے اس پر سفر کے اثرات دکھائی نہ دیتے تھےاور ہم میں سے کوئی ایک بھی اسے جانتا پہچانتا نہ تھا حتی کہ وہ آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ گیا اور اپنے گھٹنے آپ کے گھٹنوں سے ملا دیے اور اپنی ہتھیلیاں اپنی رانوں پر رکھ لیں (جیسے طالب علم استاد کے سامنے بیٹھتا ہے) اور پوچھا اے محمدؐ! مجھے اسلام کے بارے میں بتلائیے! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تو اس بات کا اقرار کرے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں (بندگی اور عبادت کے لائق کوئی نہیں) اور محمدؐ اس کے رسول ہیں۔ نماز کا اہتمام کرے، زکوٰۃ ادا کرتا رہے، رمضان کے روزے رکھے، بیت اللہ کا حج کرے اگر اس تک پہنچنے کی طاقت رکھتا ہو۔ اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا۔ حضرت عمر رضی الله عنه کہتے ہیں: ہمیں اس کی اس بات پر تعجب ہوا کہ یہ شخص پوچھتا ہے اور پھر (خود ہی) تصدیق کرتا ہے۔ اس نے سوال کیا: مجھے ایمان کی حقیقت سے آگاہ کیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: تو اللہ تعالیٰ اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور آخرت کے دن یعنی قیامت کو مان لے اور تقدیر کو خیر کی ہو یا شر کی، تسلیم کر لے۔ اس نے کہا: آپؐ نے درست فرمایا۔ اس نے پوچھا: پس مجھے احسان کی حقیقت کی خبر دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اللہ کی بندگی و طاعت اس طرح کرے گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے حالانکہ تو اسےنہیں دیکھ رہا یقیناً وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ اس نے سوال کیا: مجھے قیامت کے بارے میں بتائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: جس سے قیامت کے بارے میں سوال کیا جا رہا ہے وہ سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔ اس نےکہا: تو مجھے اس کی کچھ علامات (نشانیاں) ہی بتا دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لونڈی اپنی مالکہ کو جنے گی اور تو دیکھے گا ننگے پاؤں، ننگے بدن والے، محتاج، بکریوں کے چرواہے عمارتوں کی تعمیر میں ایک دوسرے پر فخر کریں گے۔ حضرت عمر رضی الله عنه کا بیان ہے: پھر وہ سائل چلا گیا تو میں کچھ عرصہ ٹھہرا رہا بعد میں مجھ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: اے عمر! تجھے معلوم ہے سائل کون تھا؟ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ہی زیادہ جانتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جبرئیل ؑ تھے تمھارے پاس تمھارا دین سکھانے آئے تھے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه ابوداود في ((سننه))، باب في القدر برقم (4695) والترمذي في ((جامعه)) في الايمان، باب: ماجاء في وصف جبريل للنبي صلى الله عليه وسلم الايمان والاسلام برقم (2610) والنسائي في ((المجتبى)) 97/8-101 فی الایمان، باب: نعت الاسلام برقم (5005) وابن ماجه في ((سننه)) في المقدمة، باب: في الايمان برقم (63) - انظر ((التحفة)) برقم (10572) وهو في ((جامع الاصول)) برقم (2)»
حدیث نمبر: 94
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني محمد بن عبيد الغبري وابو كامل الجحدري واحمد بن عبدة ، قالوا: حدثنا حماد بن زيد ، عن مطر الوراق ، عن عبد الله بن بريدة ، عن يحيى بن يعمر ، قال: لما تكلم معبد بما تكلم به في شان القدر انكرنا ذلك، قال: فحججت انا وحميد بن عبد الرحمن الحميري حجة، وساقوا الحديث بمعنى حديث كهمس وإسناده، وفيه بعض زيادة، ونقصان احرف.حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْغُبَرِيُّ وَأَبُو كَامِلٍ الْجَحْدَرِيُّ وَأَحْمَدُ بْن عَبْدَةَ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ مَطَرٍ الْوَرَّاقِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ ، قَالَ: لَمَّا تَكَلَّمَ مَعْبَدٌ بِمَا تَكَلَّمَ بِهِ فِي شَأْنِ الْقَدَرِ أَنْكَرْنَا ذَلِكَ، قَالَ: فَحَجَجْتُ أَنَا وَحُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيُّ حَجَّةً، وَسَاقُوا الْحَدِيثَ بِمَعْنَى حَدِيثِ كَهْمَسٍ وَإِسْنَادِهِ، وَفِيهِ بَعْضُ زِيَادَةٍ، وَنُقْصَانُ أَحْرُفٍ.
کہمس کے بجائے مطر وراق نےعبد اللہ بن بریدہ سے، انہوں نے یحیی بن یعمر سے نقل کیا کہ جب معبد (جہنی) نے تقدیر کے بارے میں وہ (سب) کہا جو کہا، تو ہم نے اسے سخت ناپسند کیا (یحییٰ نے کہا) میں اور حمید بن عبد الرحمٰن حمیری نے حج کیا .... اس کے بعد انہوں نے کہمس کے واسطے سے بیان کردہ حدیث کے مطابق حدیث بیان کی، البتہ الفاظ میں کچھ کمی بیشی ہے
مجھے حماد بن زید ؒ کےواسطہ سے مطر الوراق ؒ نے بیان کیا، مطر نے عبد اللہ بن بریدہ ؒ کے واسطے سے یحییٰ بن یعمر ؒ سے نقل کیا کہ جب معبد نے تقدیر کے بارے میں جو گفتگو چاہی کی۔ ہم نے اسے بہت عجیب خیال کیا تو میں اور حمید بن عبدالرحمٰن حمیری ؒ نے حج کیا۔ امام مسلم ؒ کے تینوں اساتذہ نے کہمس ؒ کی روایت اس کی سند سے بیان کی اور الفاظ میں کچھ کمی بیشی ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انظر الحديث السابق برقم (93)»
حدیث نمبر: 95
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني محمد بن حاتم ، حدثنا يحيي بن سعيد القطان ، حدثنا عثمان بن غياث ، حدثنا عبد الله بن بريدة ، عن يحيى بن يعمر وحميد بن عبد الرحمن ، قالا: لقينا عبد الله بن عمر ، فذكرنا القدر وما يقولون فيه، فاقتص الحديث كنحو حديثهم، عن عمر رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وفيه شيء من زيادة، وقد نقص منه شيئا.وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ غِيَاثٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ وَحُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَا: لَقِينَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، فَذَكَرْنَا الْقَدَرَ وَمَا يَقُولُونَ فِيهِ، فَاقْتَصَّ الْحَدِيثَ كَنَحْوِ حَدِيثِهِمْ، عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَفِيهِ شَيْءٌ مِنْ زِيَادَةٍ، وَقَدْ نَقَصَ مِنْهُ شَيْئًا.
(عبد اللہ بن بریدہ کے ایک تیسرے شاگرد) عثمان بن غیاث نے یحییٰ بن یعمر اور حمید بن عبد الرحمٰن دونوں سے روایت کی، دونوں نےکہا: ہم عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ملے اور ہم سے تقدیر کی بات کی اور وہ لوگ (منکرین تقدیر) جو کچھ کہتے ہیں، اس کا ذکر کیا۔ اس کے بعد (عثمان بن غیاث نے) سابقہ راویوں کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کی۔ اس روایت میں کچھ الفاظ زیادہ ہیں اور کچھ انہوں نے کم کیے ہیں۔
عبداللہ بن بریدہ ؒ نےٰ یحییٰ بن یعمر ؒ اور حمید بن عبدالرحمٰن ؒ دونوں سے نقل کیا کہ ہم عبداللہ بن عمر رضی الله عنهما کو ملے اور ہم نے تقدیر کا تذکرہ کیا اور منکرینِ تقدیرکا تذکرہ کیا اور منکرینِ تقدیر کا قول نقل کیا۔ محمد بن حاتم نے بھی امام صاحب کے مذکورہ بالا اساتذہ کی طرح حضرت عمر رضی الله عنه سے روایت بیان کی اس میں کچھ اضافہ ہے اور کچھ کمی بھی کی ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه ابوداؤد في ((سننه)) في السنة، باب: في القدر برقم (4696) انظر ((التحفة)) برقم (10516 و 10572) وهو في ((جامع الاصول)) برقم (2)» ‏‏‏‏
حدیث نمبر: 96
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني حجاج بن الشاعر ، حدثنا يونس بن محمد ، حدثنا المعتمر ، عن ابيه ، عن يحيى بن يعمر ، عن ابن عمر ، عن عمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، بنحو حديثهم.وحَدَّثَنِي حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِر ِ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنْ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِنَحْوِ حَدِيثِهِمْ.
معتمر کے والد (سلیمان بن طرخان) نے یحییٰ بن یعمر سے، انہوں نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کی جس طرح مذکورہ اساتذہ نے روایت کی۔
معتمرؒ نے اپنے باپ کے حوالہ سے یحییٰ بن یعمرؒ کی عبد اللہ بن عمر رضی الله عنہما سے حضرت عمر رضی الله عنه کی روایت بیان کی جو مذکورہ بالا اساتذہ کی حدیث جیسی ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه في الحديث قبل السابق برقم (93)»
2ق. باب الإِيمَانُ مَا هُوَ وَبَيَانُ خِصَالِهِ:
2ق. باب: ایمان کی حقیقت اور اس کے خصال کا بیان۔
حدیث نمبر: 97
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وزهير بن حرب جميعا، عن ابن علية ، قال زهير: حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، عن ابي حيان ، عن ابي زرعة بن عمرو بن جرير ، عن ابي هريرة ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما بارزا للناس، فاتاه رجل، فقال: يا رسول الله، ما الإيمان؟ قال:" ان تؤمن بالله، وملائكته، وكتابه، ولقائه، ورسله، وتؤمن بالبعث الآخر"، قال: يا رسول الله، ما الإسلام؟ قال:" الإسلام، ان تعبد الله ولا تشرك به شيئا، وتقيم الصلاة المكتوبة، وتؤدي الزكاة المفروضة، وتصوم رمضان"، قال: يا رسول الله، ما الإحسان؟ قال:" ان تعبد الله، كانك تراه، فإنك إن لا تراه، فإنه يراك"، قال: يا رسول الله، متى الساعة؟ قال: ما المسئول عنها باعلم من السائل، ولكن ساحدثك عن اشراطها،" إذا ولدت الامة ربها، فذاك من اشراطها، وإذا كانت العراة الحفاة رءوس الناس، فذاك من اشراطها، وإذا تطاول رعاء البهم في البنيان، فذاك من اشراطها في خمس، لا يعلمهن إلا الله"، ثم تلا صلى الله عليه وسلم إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ما في الارحام وما تدري نفس ماذا تكسب غدا وما تدري نفس باي ارض تموت إن الله عليم خبير سورة لقمان آية 34، قال: ثم ادبر الرجل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ردوا علي الرجل، فاخذوا ليردوه فلم يروا شيئا"، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هذا جبريل، جاء ليعلم الناس دينهم".وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ جميعا، عَنِ ابْنِ عُلَيَّةَ ، قَالَ زُهَيْرٌ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا بَارِزًا لِلنَّاسِ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الإِيمَانُ؟ قَالَ:" أَنْ تؤمِنَ بِاللَّهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكِتَابِهِ، وَلِقَائِهِ، وَرُسُلِهِ، وَتُؤْمِنَ بِالْبَعْثِ الآخِرِ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الإِسْلَامُ؟ قَالَ:" الإِسْلَامُ، أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ وَلَا تُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ، وَتُؤَدِّيَ الزَّكَاةَ الْمَفْرُوضَةَ، وَتَصُومَ رَمَضَانَ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الإِحْسَانُ؟ قَالَ:" أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ، كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنَّكَ إِنْ لَا تَرَاهُ، فَإِنَّهُ يَرَاكَ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَتَى السَّاعَةُ؟ قَالَ: مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ، وَلَكِنْ سَأُحَدِّثُكَ عَنْ أَشْرَاطِهَا،" إِذَا وَلَدَتِ الأَمَةُ رَبَّهَا، فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا، وَإِذَا كَانَتِ الْعُرَاةُ الْحُفَاةُ رُءُوسَ النَّاسِ، فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا، وَإِذَا تَطَاوَلَ رِعَاءُ الْبَهْمِ فِي الْبُنْيَانِ، فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا فِي خَمْسٍ، لَا يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا اللَّهُ"، ثُمَّ تَلَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ سورة لقمان آية 34، قَالَ: ثُمَّ أَدْبَرَ الرَّجُلُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" رُدُّوا عَلَيَّ الرَّجُلَ، فَأَخَذُوا لِيَرُدُّوهُ فَلَمْ يَرَوْا شَيْئًا"، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَذَا جِبْرِيل، جَاءَ لِيُعَلِّمَ النَّاسَ دِينَهُمْ".
اسماعیل بن ابراہیم (ابن علیہ) نے ابو حیان سے، انہوں نے ابو زرعہ بن عمرو بن جریر سے اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن لوگوں کے سامنے (تشریف فرما) تھے، ایک آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور پوچھا: اے اللہ کے رسول! ایمان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: تم اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتاب، (قیامت کے روز) اس سے ملاقات (اس کے سامنے حاضری) اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور آخری (بار زندہ ہو کر) اٹھنے پر (بھی) ایمان لے آؤ۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ، لکھی (فرض کی) گئی نمازوں کی ‎پابندی کرو، فرض کی گئی زکاۃ ادا کرو۔ اور رمضان کے روزے رکھو۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! احسان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو تو وہ یقیناً تمہیں دیکھ رہا ہے۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! قیامت کب (قائم) ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس سے سوال کیا گیا ہے، وہ ا س کے بارے میں پوچھنے والے سےزیادہ آگاہ نہیں۔ لیکن میں تمہیں قیامت کی نشانیاں بتائے دیتا ہوں: جب لونڈی اپنا مالک جنے گی تو یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے، اور جب ننگے بدن اور ننگے پاؤں والے لوگوں کے سردار بن جائیں گے تو یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے، اور جب بھیڑ بکریاں چرانے والے، اونچی اونچی عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے سے مقابلہ کریں گے تو یہ اس کی علامات میں سے ہے۔ (قیامت کے وقت کا علم) ان پانچ چیزوں میں سے ہے جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی: بے شک اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے، وہی بارش برساتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ ارحام (ماؤں کے پیٹوں) میں کیا ہے، کوئی ذی روح نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا، نہ کسی متنفس کویہ معلوم ہے کہ وہ زمین کے کس حصے میں فوت ہو گا، بلاشبہ اللہ تعالیٰ علم والا خبردار ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے) کہا: پھر وہ آدمی واپس چلا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس آ دمی کو میرے پاس واپس لاؤ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اسے واپس لانے کے لیے بھاک دوڑ کرنےلگے تو انہیں کچھ نظر نہ آیا، رسول اللہ نے فرمایا: یہ جبریل رضی اللہ عنہ تھے جو لوگوں کو ان کا دین سکھانے آئے تھے۔
ابو ہریرہ رضی الله عنه سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن لوگوں کے سامنے تشریف فرما تھے تو ایک آدمی نے آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ایمان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: تم اللہ کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کی ملاقات اور اس کے رسولوں کو مان لو اور دوبارہ اٹھنے کا یقین کر لو۔ اس نے پوچھا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: اسلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت و بندگی کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ، فرض نماز کی پابندی کرو، فرض زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! احسان کی حقیقت کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ کی بندگی اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، کیونکہ بے شک تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو وہ تو تمھیں دیکھ رہا ہے۔ اس نے عرض کی، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! قیامت کب قائم ہوگی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس سے سوال کیا گیا ہے وہ اس کے بارے میں پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا، لیکن میں تمھیں اس کی نشانیوں سے آگاہ کیے دیتا ہوں، جب لونڈی اپنے مالک کو جنے گی تو یہ اس کی علامات میں سے ہو گا۔ اور جب ننگے جسم، ننگے پاؤں (والے) لوگوں کے سردار (حاکم) ہوں گے تو یہ بھی اس کی نشانی ہوگی اور جب بھیڑ بکریوں کے چرانے والے بڑی بڑی عمارات بنانے میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کریں گے (اور اس میں ایک دوسرے پر فخر کریں گے) تو یہ بھی اس کی علامات میں سے ہے۔ قیامت کے وقوع کا علم ان پانچ چیزوں میں سے ہے جنھیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: بے شک اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے قیامت کا علم، وہی بارش برساتا ہے اور ماں کے پیٹ میں جو کچھ ہے اسے جانتا ہے، کوئی نفس نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا، نہ کسی نفس کو یہ معلوم ہے کہ وہ کس زمین میں (کس جگہ) فوت ہو گا۔ بے شک اللہ ہی خوب جاننے والا خبردار ہے۔ (لقمان:34) راوی نے بتایا پھر وہ آدمی پشت پھیر کر چلا گیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس آدمی کو واپس میرے پاس لاؤ۔ صحابہ کرام ؓ اسے واپس لانے کے لیے نکلے تو انھیں کچھ نظر نہ آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ جبرائیل علیہ السلام تھے جو لوگوں کو ان کا دین سکھانے کے لیے آئے تھے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري فى ((صحيحه)) فى الايمان، باب: سوال جبريل النبى صلى الله عليه وسلم عن الايمان والاسلام والاحسان وعلم الساعة برقم (50) وفى التفسير، باب: ان الله عنده علم الساعة برقم (4777) وابن ماجه فى ((سننه)) فى المقدمة، باب: فى الايمان بتمامه برقم (64) وفي الفتن، باب: اشراط الساعة مختصرا برقم (4044) انظر ((التحفة)) برقم (14929) وهو فى ((جامع الاصول)) برقم (3)»
حدیث نمبر: 98
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ، حدثنا محمد بن بشر ، حدثنا ابو حيان التيمي ، بهذا الإسناد مثله، غير ان في روايته: إذا ولدت الامة بعلها يعني السراري.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ، غَيْرَ أَنَّ فِي رِوَايَتِهِ: إِذَا وَلَدَتِ الأَمَةُ بَعْلَهَا يَعْنِي السَّرَارِيّ.
(ابن علیہ کے بجائے) محمد بن بشر نےکہا: ہمیں ابو حیان نے سابقہ سند سے وہی حدیث بیان کی، البتہ ان کی روایت میں: إذا ولدت الأمۃ بعلہا جب لونڈی اپنا مالک جنے گی (رب کی جگہ بعل، یعنی مالک) کے الفاظ ہیں۔ (أمۃ سے مملوکہ) لونڈیاں مراد ہیں۔
امام صاحب نے اوپر والی روایت دوسرے استاد سے بیان کی ہے۔ صرف ان الفاظ کا فرق ہے «إِذَا وَلَدَتِ الْأَمَةُ بَعْلَهَا» لونڈی اپنے مالک کو جنے گی یعنی ربّ کی جگہ بَعل کا لفظ ہے۔ یعنی السراری: لونڈیاں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه في الحديث السابق (97)»
2ق. باب الإِسْلاَمُ مَا هُوَ وَبَيَانُ خِصَالِهِ:
2ق. باب: اسلام کی حقیقت اور اس کے خصال کا بیان۔
حدیث نمبر: 99
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني زهير بن حرب ، حدثنا جرير ، عن عمارة وهو ابن القعقاع ، عن ابي زرعة ، عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: سلوني؟ فهابوه ان يسالوه، فجاء رجل فجلس عند ركبتيه، فقال: يا رسول الله، ما الإسلام؟ قال:" لا تشرك بالله شيئا، وتقيم الصلاة، وتؤتي الزكاة، وتصوم رمضان"، قال: صدقت، قال: يا رسول الله، ما الإيمان؟ قال:" ان تؤمن بالله، وملائكته، وكتابه، ولقائه، ورسله، وتؤمن بالبعث، وتؤمن بالقدر كله"، قال: صدقت، قال: يا رسول الله، ما الإحسان؟ قال:" ان تخشى الله، كانك تراه، فإنك إن لا تكن تراه، فإنه يراك"، قال: صدقت، قال: يا رسول الله، متى تقوم الساعة؟ قال: ما المسئول عنها باعلم من السائل، وساحدثك عن اشراطها" إذا رايت المراة تلد ربها، فذاك من اشراطها، وإذا رايت الحفاة العراة الصم البكم ملوك الارض، فذاك من اشراطها، وإذا رايت رعاء البهم يتطاولون في البنيان، فذاك من اشراطها، في خمس من الغيب، لا يعلمهن إلا الله"، ثم قرا إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ما في الارحام وما تدري نفس ماذا تكسب غدا وما تدري نفس باي ارض تموت إن الله عليم خبير سورة لقمان آية 34، قال: ثم قام الرجل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ردوه علي، فالتمس فلم يجدوه"، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هذا جبريل، اراد ان تعلموا إذ لم تسالوا.حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ عُمَارَةَ وَهُوَ ابْنُ الْقَعْقَاعِ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: سَلُونِي؟ فَهَابُوهُ أَنْ يَسْأَلُوهُ، فَجَاءَ رَجُلٌ فَجَلَسَ عِنْدَ رُكْبَتَيْهِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الإِسْلَامُ؟ قَالَ:" لَا تُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا، وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ، وَتَصُومُ رَمَضَانَ"، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الإِيمَانُ؟ قَالَ:" أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكِتَابِهِ، وَلِقَائِهِ، وَرُسُلِهِ، وَتُؤْمِنَ بِالْبَعْثِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ كُلِّهِ"، قَالَ: صَدَقْتَ، قَال: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الإِحْسَانُ؟ قَالَ:" أَنْ تَخْشَى اللَّهَ، كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنَّكَ إِنْ لَا تَكُنْ تَرَاهُ، فَإِنَّهُ يَرَاكَ"، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَتَى تَقُومُ السَّاعَةُ؟ قَالَ: مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ، وَسَأُحَدِّثُكَ عَنْ أَشْرَاطِهَا" إِذَا رَأَيْتَ الْمَرْأَةَ تَلِدُ رَبَّهَا، فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا، وَإِذَا رَأَيْتَ الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الصُّمَّ الْبُكْمَ مُلُوكَ الأَرْضِ، فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا، وَإِذَا رَأَيْتَ رِعَاءَ الْبَهْمِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ، فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا، فِي خَمْسٍ مِنَ الْغَيْبِ، لَا يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا اللَّهُ"، ثُمَّ قَرَأَ إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ سورة لقمان آية 34، قَالَ: ثُمَّ قَامَ الرَّجُلُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" رُدُّوهُ عَلَيَّ، فَالْتُمِسَ فَلَمْ يَجِدُوهُ"، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَذَا جِبْرِيلُ، أَرَادَ أَنْ تَعَلَّمُوا إِذْ لَمْ تَسْأَلُوا.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھ سے (دین کے بارے میں) پوچھ لو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنے مرعوب ہوئے کہ سوال نہ کر سکے، تب ایک آدمی آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں گھٹنوں کے قریب بیٹھ گیا، پھر کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! اسلام کیا؟ آپ نے فرمایا: تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، نماز کا اہتمام کرو، زکاۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔ اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا۔ (پھر) پوچھا: اے اللہ کے رسول! ایمان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: یہ کہ تم اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتاب، (قیات کے روز) اس سے ملاقات اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ، مرنے کے بعد اٹھنے پر ایمان لاؤ اور ہر (امر کی) تقدیر پر ایمان لاؤ۔ اس نے کہا: آپ نے درست فرمایا۔ (پھر) کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! احسان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: تم اللہ تعالیٰ سےاس طرح ڈرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، پھر اگر تم اسے نہیں رہے تو وہ یقینا ً تمہیں دیکھ رہا ہے۔ اس نے کہا: آپ نے صحیح فرمایا: (پھر) پوچھا: اے اللہ کے رسول! قیامت کب قائم ہو گی؟ آپ نے جواب دیا: جس سے قیامت کے بارے میں پوچھا جا رہا ہے، وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔ میں تمہیں اس کی علامات بتائے دیتا ہوں: جب دیکھو کہ عورت اپنے آقا کو جنم دیتی ہے تو یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے اور جب دیکھو کہ ننگے پاؤں اور ننگے بدن والے، گونگے اور بہرے زمین کے بادشاہ ہیں تو یہ اس کی علامات میں سے ہے اور جب دیکھو کہ بھیڑ بکریوں کے چروا ہے اونچی سے اونچی عمارات بنانے میں باہم مقابلہ کر رہے ہیں تو یہ بھی اس کی نشانیوں میں سے ہے۔ یہ (قیامت کا وقوع) غیب کی ان پانچ چیزوں میں سے ہے۔جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: بے شک اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے، وہی بارش برساتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ ارحام (ماؤں کے پیٹوں) میں کیا ہےاور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ آنے والے کل میں کیا کرے گا اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ (کہاں) کس زمین میں فوت ہو گا ...... سورت کے آخر تک۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر وہ آدمی کھڑا ہو گیا (اور چلا گیا) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے میرے پاس واپس لاؤ۔ اسے تلاش کیا گیا تو وہ انہیں (صحابہ کرام کو) نہ ملا۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ جبریل تھے، انہوں نے چاہا کہ تم نہیں پوچھ رہے تو تم (دین) سیکھ لو (انہوں نے آکر تمہاری طرف سے سوال کیا
حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنه روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھ سے پوچھ لو! صحابہؓ نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے سوال کرنے میں ہیبت محسوس کی (آپ کی عظمت کی بناء پر سوال نہ کیا) تو ایک آدمی آیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے گھٹنوں کے پاس بیٹھ گیا پھر کہنے لگا: اے اللہ کے رسولؐ! اسلام کیا ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے، نماز کا اہتمام کرے، زکوٰۃ ادا کرے، رمضان کے روزے رکھے۔ اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا! پوچھا اے اللہ کے رسولؐ! ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: یہ کہ تو اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کی ملاقات اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے، اور مرنے کے بعد اٹھنے کا یقین رکھے اور ہر قسم کی تقدیر کو تسلیم کرے۔ اس نے کہا آپؐ نے درست فرمایا۔ کہنے لگا اے اللہ کے رسولؐ! احسان کیا ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: تو اللہ سے اس طرح ڈرے گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے، بلاشبہ اگرچہ تو اسے نہیں دیکھ رہا ہے وہ تو تجھے دیکھ رہا ہے (اور اصل چیز آقا اور مالک کا دیکھنا ہے) اس نے کہا آپؐ نے صحیح فرمایا۔ پوچھا اے اللہ کے رسولؐ! قیامت کب قائم ہو گی؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے جواب دیا: جس سے قیامت کے وقوع کے بارے میں پوچھا جا رہا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا اور میں تمھیں اس کی علامات بتائے دیتا ہوں۔ جب دیکھو کہ لونڈی اپنے آقا کو جَن رہی ہےتو یہ اس کی نشانیوں میں سے ہےاور جب دیکھو ننگے پاؤں، ننگے بدن، بہرے، گونگے زمین کے بادشاہ ہیں تو یہ بھی اس کی علامات میں سے ہےاور جب دیکھو بھیڑ بکریوں کے چرواہے عمارات بنانے میں ایک دوسرے پر فخر کر رہے ہیں تو یہ بھی اس کی نشانیوں میں سے ہے۔ قیامت ان پانچ غیبی چیزوں میں سے ہے جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ پھر آپؐ نے پڑھا قیامت کا علم اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے، وہی بارش برساتا ہے، وہی جانتا ہے کہ رحموں میں کیا ہے، کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ آنے والے کل کیا کرے گا، اور نہ کوئی شخص یہ جانتا ہے وہ کس زمین میں (کہاں) فوت ہو گا۔ بے شک اللہ تعالیٰ جاننے والا خبردینے والاہے۔ (لقمان:34) پھر آدمی اٹھ کر چلا گیا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے میرے پاس واپس لاؤ۔ اسے تلاش کیا گیا تو وہ انھیں (صحابہ کرام ؓ کو) نہ ملا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ جبرائیل ؑ تھےانھوں نے چاہا تم (دین) سیکھ لو کیونکہ تم نے سوال نہ کیا تھا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (14915) وهو في ((جامع الاصول)) برقم (10)» ‏‏‏‏
2. باب بَيَانِ الصَّلَوَاتِ الَّتِي هِيَ أَحَدُ أَرْكَانِ الإِسْلاَمِ:
2. باب: نمازوں کا بیان جو اسلام کا ایک رکن ہے۔
حدیث نمبر: 100
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا قتيبة بن سعيد بن جميل بن طريف بن عبد الله الثقفي ، عن مالك بن انس فيما قرئ عليه، عن ابي سهيل ، عن ابيه ، انه سمع طلحة بن عبيد الله ، يقول: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من اهل نجد، ثائر الراس، نسمع دوي صوته، ولا نفقه ما يقول، حتى دنا من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإذا هو يسال عن الإسلام، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" خمس صلوات في اليوم والليلة"، فقال: هل علي غيرهن؟ قال: لا، إلا ان تطوع، وصيام شهر رمضان، فقال: هل علي غيره؟ فقال: لا، إلا ان تطوع، وذكر له رسول الله صلى الله عليه وسلم الزكاة، فقال: هل علي غيرها؟ قال: لا، إلا ان تطوع، قال: فادبر الرجل، وهو يقول: والله لا ازيد على هذا، ولا انقص منه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: افلح إن صدق".حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ جَمِيلِ بْنِ طَرِيفِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الثَّقَفِيُّ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ فِيمَا قُرِئَ عَلَيْهِ، عَنْ أَبِي سُهَيْلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّهُ سَمِعَ طَلْحَةَ بْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَهْلِ نَجْدٍ، ثَائِرُ الرَّأْسِ، نَسْمَعُ دَوِيَّ صَوْتِهِ، وَلَا نَفْقَهُ مَا يَقُولُ، حَتَّى دَنَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا هُوَ يَسْأَلُ عَنِ الإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" خَمْسُ صَلَوَاتٍ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ"، فَقَالَ: هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهُنَّ؟ قَالَ: لَا، إِلَّا أَنْ تَطَّوَّعَ، وَصِيَامُ شَهْرِ رَمَضَانَ، فَقَالَ: هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهُ؟ فَقَالَ: لَا، إِلَّا أَنْ تَطَّوَّعَ، وَذَكَرَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الزَّكَاةَ، فَقَالَ: هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهَا؟ قَالَ: لَا، إِلَّا أَنْ تَطَّوَّعَ، قَالَ: فَأَدْبَرَ الرَّجُلُ، وَهُوَ يَقُولُ: وَاللَّهِ لَا أَزِيدُ عَلَى هَذَا، وَلَا أَنْقُصُ مِنْهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَفْلَحَ إِنْ صَدَقَ".
مالک بن انس نے ابو سہیل سے، اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی، انہوں نے حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ سےسنا، وہ کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اہل نجد میں سے ایک آدمی آیا، اس کے بال پراگندہ تھے، ہم اس کی ہلکی سی آواز سن رہے تھے لیکن جوکچھ وہ کہہ رہا تھا ہم اس کو سمجھ نہیں رہے تھے حتی کہ وہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آ گیا، وہ آپ سے اسلام کے بارے میں پوچھ رہا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دن اور رات میں پانچ نمازیں (فرض) ہیں۔ اس نے پوچھا: کیا ان کے علاوہ (اور نمازیں) بھی میرے ذمے ہیں؟ آپ نے فرمایا: نہیں: الا یہ کہ تم نفلی نماز پڑھو اور ماہ رمضان کے روزے ہیں۔ اس نے پوچھا: کیا میرے ذمے اس کے علاوہ بھی (روزے) ہیں؟ فرمایا: نہیں، الا یہ کہ تم نفلی روزے رکھو۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے زکاۃ کے بارے میں بتایا تو اس نے سوال کیا: کیا میرے ذمے اس کےسوا بھی کچھ ہے؟ آپ نے جواب دیا: نہیں، سوائے اس کے کہ تم اپنی مرضی سے (نفلی صدقہ) دو۔ (حضرت طلحہ نے) کہا: پھر وہ آدمی واپس ہوا تو کہہ رہا تھا: اللہ کی قسم! میں نے اس پر کوئی اضافہ کروں گا نہ اس میں کوئی کمی کروں گا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ فلاح پا گیا اگر اس نے سچ کر دکھایا۔
حضرت طلحہ رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک نجدی آدمی آیا جس کے بال پراگندہ تھےاس کی آواز کی بھنبھناہٹ ہم سن رہے تھے اور وہ جو کچھ کہہ رہا تھا اس کو ہم سمجھ نہیں رہے تھے یہاں تک کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےقریب آیا وہ آپؐ سے اسلام کے بارے میں پوچھ رہا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دن رات میں پانچ نمازیں ہیں۔ تو اس نے پوچھا کیا میرے ذمے ان کے علاوہ بھی ہیں؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: نہیں اِلّا یہ کہ تو نفلی نماز ادا کرے اور ماہِ رمضان کے روزے رکھے۔ تو اس نے پوچھا کیا میرے ذمے اس کے علاوہ روزے بھی ہیں؟فرمایا: نہیں! اِلّا یہ کہ تم نفلی روزے رکھو۔ اور رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے اسے زکوٰۃ کے بارے میں بتایا تو اس نے سوال کیا کہ کیا میرے ذمے زکوٰۃ کے علاوہ صدقہ بھی فرض ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے جواب دیا: نہیں! ہاں اگر تم نفلی صدقہ کرنا چاہو تو کر سکتے ہو۔ راوی بیان کرتے ہیں وہ آدمی یہ کہتا ہوا واپس چلا گیا اللہ کی قسم! نہ میں اس پر اضافہ کروں گا اور نہ اس میں کمی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کامیاب ہوا اگر سچا ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري فى ((صحيحه)) فى الايمان، باب: الزكاة فى الاسلام برقم (46) وفي الشهادات، باب: كيف يستحلف برقم (2532) وفى الصوم، باب: وجوب صوم رمضان برقم (1891) وفى الحيل، باب: فى الزكاة، وان لا يفرق بين مجتمع، ولا يجمع بين متفرق خشية الصدقة برقم (6956) وابوداؤد فى ((سننه)) فى الصلاة، باب: فرض الصلاة برقم (391 و 392) وفى الايمان والنذور، باب: فى كراهية الحلف بالآباء برقم (3252) والنسائي فى ((المجتبى)) 226/1-227 ـ فى الصلاة، باب: كم فرضت فى اليوم والليلة۔ وفي الصوم، باب: وجوب الصيام 12/4 برقم (2089) وفى 119/1-120 الايمان، باب: الزكاة برقم (5043) انظر ((التحفة)) برقم (5009) وهو فى ((جامع الاصول)) برقم (7)»
حدیث نمبر: 101
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني يحيى بن ايوب وقتيبة بن سعيد جميعا، عن إسماعيل بن جعفر ، عن ابي سهيل ، عن ابيه ، عن طلحة بن عبيد الله ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، بهذا الحديث نحو حديث مالك، غير انه قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" افلح، وابيه إن صدق، او دخل الجنة، وابيه إن صدق".حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ جَمِيعًا، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِي سُهَيْلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِهَذَا الْحَدِيثِ نَحْوَ حَدِيثِ مَالِكٍ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَفْلَحَ، وَأَبِيهِ إِنْ صَدَقَ، أَوْ دَخَلَ الْجَنَّةَ، وَأَبِيهِ إِنْ صَدَقَ".
اسماعیل بن جعفر نے ابو سہیل سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نےحضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے، مالک سے حدیث کی طرح روایت کی، سوائے اس کے کہ کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کامیاب ہوا، اس کے باپ کی قسم! اگر اس نے سچ کر دکھایا ِ یا (فرمایا:) جنت میں داخل ہو گا، اس کے باپ کی قسم! اگر اس نے سچ کر دکھایا۔
امام صاحب یہی روایت دوسرے استاد سے نقل کرتے ہیں صرف اتنا فرق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کامیاب ہوا، اس کے باپ کی قسم! اگر سچا ہے، یا فرمایا: جنت میں داخل ہوگا اس کے باپ کی قسم! اگر سچا ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه في الحديث السابق برقم (100)» ‏‏‏‏
3. باب فِي بَيَانِ الإِيمَانِ بِاللَّهِ وَشَرَائِعِ الدِّينِ:
3. باب: اسلام کے ارکان پوچھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 102
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني عمرو بن محمد بن بكير الناقد ، حدثنا هاشم بن القاسم ابو النضر ، حدثنا سليمان بن المغيرة ، عن ثابت ، عن انس بن مالك ، قال: نهينا ان نسال رسول الله صلى الله عليه وسلم عن شيء، فكان يعجبنا ان يجيء الرجل من اهل البادية العاقل، فيساله ونحن نسمع، فجاء رجل من اهل البادية، فقال: يا محمد، اتانا رسولك فزعم لنا انك تزعم ان الله ارسلك، قال: صدق، قال: " فمن خلق السماء،؟ قال: الله، قال: فمن خلق الارض؟ قال: الله، قال: فمن نصب هذه الجبال وجعل فيها ما جعل؟ قال: الله، قال: فبالذي خلق السماء، وخلق الارض، ونصب هذه الجبال، آلله ارسلك؟ قال: نعم، قال: وزعم رسولك ان علينا خمس صلوات في يومنا وليلتنا؟ قال: صدق، قال: فبالذي ارسلك آلله امرك بهذا؟ قال: نعم، قال: وزعم رسولك ان علينا زكاة في اموالنا؟ قال: صدق، قال: فبالذي ارسلك آلله امرك بهذا؟ قال: نعم، قال: وزعم رسولك ان علينا صوم شهر رمضان في سنتنا؟ قال: صدق، قال: فبالذي ارسلك آلله امرك بهذا؟ قال: نعم، قال: وزعم رسولك ان علينا حج البيت من استطاع إليه سبيلا؟ قال: صدق "، قال ثم ولى: قال: والذي بعثك بالحق، لا ازيد عليهن، ولا انقص منهن، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " لئن صدق، ليدخلن الجنة "،حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ بُكَيْرٍ النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ أَبُو النَّضْرِ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: نُهِينَا أَنْ نَسْأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ شَيْءٍ، فَكَانَ يُعْجِبُنَا أَنْ يَجِيءَ الرَّجُلُ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ الْعَاقِلُ، فَيَسْأَلَهُ وَنَحْنُ نَسْمَعُ، فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، أَتَانَا رَسُولُكَ فَزَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ اللَّهَ أَرْسَلَكَ، قَالَ: صَدَقَ، قَالَ: " فَمَنْ خَلَقَ السَّمَاءَ،؟ قَالَ: اللَّهُ، قَالَ: فَمَنْ خَلَقَ الأَرْضَ؟ قَالَ: اللَّهُ، قَالَ: فَمَنْ نَصَبَ هَذِهِ الْجِبَالَ وَجَعَلَ فِيهَا مَا جَعَلَ؟ قَالَ: اللَّهُ، قَالَ: فَبِالَّذِي خَلَقَ السَّمَاءَ، وَخَلَقَ الأَرْضَ، وَنَصَبَ هَذِهِ الْجِبَالَ، آللَّهُ أَرْسَلَكَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: وَزَعَمَ رَسُولُكَ أَنَّ عَلَيْنَا خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي يَوْمِنَا وَلَيْلَتِنَا؟ قَالَ: صَدَقَ، قَالَ: فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: وَزَعَمَ رَسُولُكَ أَنَّ عَلَيْنَا زَكَاةً فِي أَمْوَالِنَا؟ قَالَ: صَدَقَ، قَالَ: فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: وَزَعَمَ رَسُولُكَ أَنَّ عَلَيْنَا صَوْمَ شَهْرِ رَمَضَانَ فِي سَنَتِنَا؟ قَالَ: صَدَقَ، قَالَ: فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: وَزَعَمَ رَسُولُكَ أَنَّ عَلَيْنَا حَجَّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا؟ قَالَ: صَدَقَ "، قَالَ ثُمَّ وَلَّى: قَالَ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، لَا أَزِيدُ عَلَيْهِنَّ، وَلَا أَنْقُصُ مِنْهُنَّ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَئِنْ صَدَقَ، لَيَدْخُلَنَّ الْجَنَّةَ "،
ہاشم بن قاسم ابونضر نے کہا: ہمیں سلیمان بن مغیرہ نے ثابت کے حوالے سے یہ حدیث سنائی، انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (غیر ضروری طور پر) کسی چیز کے بارے میں سوال کرنے سے روک دیا گیا تو ہمیں بہت اچھا لگتا تھا کہ کوئی سمجھ دار بادیہ نشیں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے سوال کرے اور ہم (بھی جواب) سنیں، چنانچہ ایک بدوی آیا اور کہنے لگا، اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ کا قاصد ہمارے پاس آیا تھا، اس نے ہم سے کہا کہ آپ نے فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے۔ آپ نے فرمایا: اس نے سچ کہا۔ اس نے پوچھا: آسمان کس نے بنایا ہے؟ آپ نے جواب دیا: اللہ نے۔ اس نےکہا: زمین کس نےبنائی؟ آپ نے فرمایا: اللہ نے۔ اس نے سوال کیا: یہ پہاڑ کس نے گاڑے ہیں اور ان میں جو کچھ رکھا ہے کس نے رکھا ہے؟ آپ نے فرمایا: اللہ نے۔ بدوی نے کہا: اس ذات کی قسم ہے جس نے آسمان بنایا، زمین بنائی اور یہ پہاڑ نصب کیے! کیا اللہ ہی نے آپ کو (رسول بنا کر) بھیجا ہے؟ آپ نے جواب دیا: ہاں! اس نے کہا: آپ کے قاصد نے بتایا ہے کہ ہمارے دن او رات میں پانچ نمازیں ہیں۔ آپ نے فرمایا: اس نے درست کہا۔ اس نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو بھیجا ہے! کیا اللہ ہی نے آپ کو اس کاحکم دیا ہے؟ آپ نے جواب دیا: ہاں! اس نے کہا: آپ کو ایلچی کا خیال ہے کہ ہمارے ذمے ہمارے مالوں کی زکاۃ ہے۔ آپ نے فرمایا: اس نے سچ کہا۔ بدوی نے کہا: ا س ذات کی قسم جس نے آپ کو رسول بنا یا! کیا اللہ ہی نے آپ کو یہ حکم دیا ہے؟ آپ نے جواب دیا: ہاں! اعرابی نے کہا: آپ کو ایلچی کا خیال ہے کہ ہمارے سال میں ہمارے ذمے ماہ رمضان کے روزے ہیں۔ آپ نے فرمایا: اس نے صحیح کہا۔ اس نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو بھیجا ہے! کیا للہ ہی نے آپ کو اس کاحکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں! وہ کہنے لگا: آپ کے بھیجے ہوئے (قاصد) کا خیال ہے کہ ہم پر بیت اللہ کا حج فرض ہے، اس شخص پر جو اس کے راستے (کو طے کرنے) کی استطاعت رکھتا ہو۔ آپ نے فرمایا، اس نے سچ کہا۔ (حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا:) پھر وہ واپس چل پڑا اور (چلتے چلتے) کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں ان پر کوئی اضافہ کروں گا نہ ان میں کوئی کمی کروں گا۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر اس نے سچ کر دکھایا تو یقیناً جنت میں داخل ہو گا۔
حضرت انس رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ ہمیں (بلا ضرورت) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنے سے روک دیا گیا تو ہمیں اس بات سے خوشی ہوتی تھی کہ کوئی سمجھ دار بدوی آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپؐ سے سوال کرے اور ہم سنیں۔ تو ایک بدوی آیا اور کہنے لگا: اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)! آپ کا ایلچی ہمارے پاس آیا اس نے ہمیں بتایا، آپ کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو رسول بنایا ہے آپ نے فرمایا: اس نے سچ کہا۔ اس نے پوچھا: تو آسمان کس نے بنایا ہے؟ آپؐ نے جواب دیا: اللہ نے۔ اس نے کہا: تو زمین کو کس نے بنایاہے؟ ارشاد ہوا: اللہ نے۔ اس نے سوال کیا تو یہ پہاڑ کس نے گاڑے ہیں اور ان میں جو کچھ رکھا ہے، کس نے رکھا ہے؟آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے۔ بدوی نے کہا: اس ذات کی قسم! جس نے آسمان بنایا، زمین بنائی اور یہ پہاڑ نصب کیے۔ کیا اللہ ہی نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے؟ آپؐ نے جواب دیا: ہاں اس نے پوچھا آپ کے قاصد نے کہا ہمارے ذمے دن رات میں پانچ نمازیں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس نے درست کہا اس نے کہا تو اس ذات کی قسم! جس نے آپؐ کو بھیجا کیا اللہ ہی نے آپ کو یہ حکم دیا (کہ ہم پانچ نمازیں ادا کریں) آپ نے جواب دیا:ہاں (یہ اللہ ہی کا حکم ہے) اس نے سوال کیا آپ کے ایلچی کا گمان ہے ہمارے ذمے ہمارے مالوں کی زکوٰۃ ہے؟ آپؐ نے کہا: اس نے سچ کہا بدوی نے کہا تو اس ذات کی قسم جس نے آپ کو رسول بنایا کیا اللہ ہی نے آپ کو یہ حکم دیا ہے۔ آپ نے جواب دیا: ہاں اعرابی نے کہا آپ کے پیغامبر کا خیال ہے ہمارے سال میں ہمارے ذمے ماہِ رمضان کے روزے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: اس نے صحیح کہا اس نے کہا تو جس نے آپ کو بھیجا ہے اس کی قسم! کیا اللہ ہی نے آپ کو یہ حکم دیا آپ نے جواب دیا ہاں بدوی نے کہا: آپ کے ایلچی نے کہا ہمارے ذمے بیت اللہ کا حج ہے اس پر جو اس تک پہنچ سکتا ہو۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کہا: اس نے سچ کہا صحابی بیان کرتے پھر وہ واپس چل پڑا اور چلتے چلتے کہا اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا میں ان پر اضافہ کروں گا نہ ہی ان میں کمی کروں گا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر یہ سچا ہے تو یقیناً جنت میں داخل ہو گا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري فى ((صحيحه)) فى العلم، باب: ما جاء فى العلم وقوله تعالى: ﴿ رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا ﴾ و تعليقا برقم (63) والترمذى فى ((جامعه)) فى الزكاة، باب: ماجاء اذا اديت الزكاة فقد قضيت ما عليك برقم (619) والنسائي فى ((المجتبى)) فى الصوم، باب: وجوب الصيام برقم (2090) انظر تحفة الاشواق (404)»

1    2    3    4    5    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.