الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: وصیت کے احکام و مسائل
The Chapters on Wills
1. بَابُ: هَلْ أَوْصَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
1. باب: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی تھی؟
حدیث نمبر: 2695
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ، حدثنا ابي وابو معاوية ، ح وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وعلي بن محمد ، قالا: حدثنا ابو معاوية ، قال ابو بكر ، وعبد الله بن نمير ، عن الاعمش ، عن شقيق ، عن مسروق ، عن عائشة ، قالت:" ما ترك رسول الله صلى الله عليه وسلم دينارا ولا درهما ولا شاة ولا بعيرا ولا اوصى بشيء".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي وَأَبُو مُعَاوِيَةَ ، ح وَحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ:" مَا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا وَلَا شَاةً وَلَا بَعِيرًا وَلَا أَوْصَى بِشَيْءٍ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی وفات کے وقت) دینار، درہم، بکری اور اونٹ نہیں چھوڑے اور نہ ہی کسی چیز کی وصیت کی ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الوصایا 6 (1635)، سنن ابی داود/الوصایا1 (2863)، سنن النسائی/الوصایا 2 (3651)، (تحفة الأ شراف: 17610)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/44) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یعنی دنیاوی امور کے متعلق، کیونکہ آپ ﷺ نے دنیا میں کوئی مال چھوڑا ہی نہیں، اور فرمایا: جو میں چھوڑ جاؤں وہ میری بیویوں اور عامل کی اجرت سے بچے تو وہ صدقہ ہے، سبحان اللہ، جیسے آپ ﷺ دنیا سے صاف رہ کر دنیا میں آئے تھے ویسے دنیا سے تشریف بھی لے گئے، البتہ دین کے متعلق آپ ﷺنے وصیت کی ہے جیسے دوسری حدیث میں ہے کہ وفات کے وقت بھی آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ نماز کا خیال رکھو، اور غلام لونڈی کا، اور ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے وفود کی خاطر تواضع کرنے کے لئے وصیت کی، اور ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے مشرکوں کو جزیرۃ العرب سے نکال دینے کے لئے وصیت کی اور محال ہے کہ آپ اور مومنین کو تو وصیت کی ترغیب دیتے اور خود وصیت نہ فرماتے، آپ ﷺ نے اللہ کی کتاب یعنی قرآن پر چلنے اور اہل بیت سے محبت رکھنے کی وصیت کی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 2696
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد ، حدثنا وكيع ، عن مالك بن مغول ، عن طلحة بن مصرف ، قال: قلت لعبد الله بن ابي اوفى : اوصى رسول الله صلى الله عليه وسلم بشيء؟ قال: لا، قلت: فكيف امر المسلمين بالوصية؟، قال:" اوصى بكتاب الله".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ ، قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى : أَوْصَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَيْءٍ؟ قَالَ: لَا، قُلْتُ: فَكَيْفَ أَمَرَ الْمُسْلِمِينَ بِالْوَصِيَّةِ؟، قَالَ:" أَوْصَى بِكِتَابِ اللَّهِ".
طلحہ بن مصرف کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی چیز کی وصیت کی ہے؟ انہوں نے جواب دیا: نہیں، میں نے کہا: پھر کیوں کر مسلمانوں کو وصیت کا حکم دیا؟ تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی کتاب (قرآن) پر چلنے کی وصیت فرمائی ۱؎۔ مالک کہتے ہیں: طلحہ بن مصرف کا بیان ہے کہ ہزیل بن شرحبیل نے کہا: بھلا ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی پر حکومت کر سکتے تھے؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا تو یہ حال تھا کہ اگر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم پاتے تو تابع دار اونٹنی کی طرح اپنی ناک میں (اطاعت کی) نکیل ڈال لیتے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوصایا 1 (2740)، المغازي 83 (4460)، فضائل القران 18 (5022)، صحیح مسلم/الوصایا 5 (1634)، سنن الترمذی/الوصایا 4 (2119)، سنن النسائی/الوصایا 2 (3650)، (تحفة الأ شراف: 5170، 19507)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/354، 355، 381)، سنن الدارمی/الوصایا 3 (3224) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یعنی اس حکم پر سب سے پہلے ابوبکر رضی اللہ عنہ چلتے اس کے بعد اور لوگ، کیونکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سب صحابہ سے زیادہ نبی اکرم ﷺ کے مطیع تھے، ان کے بارے میں گمان بھی نہیں ہو سکتا کہ نبی کریم ﷺ نے کسی اور کو خلیفہ بنانے کے لئے فرمایا ہو اور خود خلافت لے لیں، بلکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو تو خلافت کی خواہش ہی نہ تھی، جب ثقیفہ بنو ساعدہ میں صلاح و مشورہ ہوا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ رائے دی کہ دو آدمیوں میں سے ایک کے ہاتھ بیعت کر لو، عمر بن خطاب کے ہاتھ پر یا ابو عبیدہ بن جراح کے ہاتھ پر، اور اپنا نام ہی نہ لیا، لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے زبردستی ان سے بیعت کی، اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی بیعت کر لی، آسمان گر پڑے اور زمین پھٹ جائے ان بے ایمانوں پر جو نبی کریم ﷺ کے جانثار جانباز صحابہ کے خلاف الزام تراشی کرتے ہیں، اور معاذ اللہ یہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے صراحۃ علی رضی اللہ عنہ کو اپنے بعد خلیفہ بنایا تھا اور صحابہ اس کو جانتے تھے، لیکن عمداً انہوں نے علی رضی اللہ عنہ کا حق دبایا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا: «سبحانك هذا بهتان عظيم» (سورة النور: 16) اگر صراحت تو کیا نبی کریم ﷺ کا ذرا بھی اشارہ ہوتا کہ آپ ﷺ کے بعد علی رضی اللہ عنہ خلیفہ ہیں تو تمام صحابہ جان و دل سے اس حکم کی اطاعت کرتے، اور علی رضی اللہ عنہ کو اسی وقت خلیفہ بناتے بلکہ خلافت کے لئے مشورہ ہی نہ کرتے، کیونکہ جو امر منصوص ہو اس میں صلاح و مشورہ کی کیا حاجت ہے، اگر بالفرض ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس حکم کے خلاف بھی کیا ہوتا تو انصار جن کی جماعت بہت تھی وہ کیونکر ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت قبول کر لیتے بلکہ حدیث پر چلنے کے لئے ان کو مجبور کر دیتے، وہ تو حدیث کے ایسے ماننے والے تھے کہ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث سنائی: «الأ ئمۃ من قریش» امام قریش میں سے ہوں گے تو انہوں نے اپنی امامت کا دعوی چھوڑ دیا، پھر وہ دوسرے کی امامت حدیث کے خلاف کیسے مانتے، اور سب سے زیادہ تعجب یہ ہے کہ بنی ہاشم اور خود علی رضی اللہ عنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کیسے تسلیم کرتے اور ان سے بیعت کیوں کرتے، برا ہو ان کا جو علی رضی اللہ عنہ کو ایسا بزدل مانتے ہیں کہ اپنا واجبی حق بھی نہ لے سکے، معاذ اللہ یہ سب دروغ بے فروغ ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح ق دون قول الهزيل بن شرحبيل أبو بكر الخ
حدیث نمبر: 2697
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن المقدام ، حدثنا المعتمر بن سليمان ، سمعت ابي يحدث، عن قتادة ، عن انس بن مالك ، قال: كانت عامة وصية رسول الله صلى الله عليه وسلم حين حضرته الوفاة وهو يغرغر بنفسه:" الصلاة وما ملكت ايمانكم".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْمِقْدَامِ ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: كَانَتْ عَامَّةُ وَصِيَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ وَهُوَ يُغَرْغِرُ بِنَفْسِهِ:" الصَّلَاةَ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے قریب جب آپ کا سانس اٹک رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عام وصیت یہ تھی: لوگو! نماز اور غلام و لونڈی کا خیال رکھنا۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأ شراف: 1229، ومصباح الزجاجة: 954)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/117) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 2698
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا سهل بن ابي سهل ، حدثنا محمد بن فضيل ، عن مغيرة ، عن ام موسى ، عن علي بن ابي طالب ، قال:" كان آخر كلام النبي صلى الله عليه وسلم الصلاة وما ملكت ايمانكم".
(مرفوع) حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ أَبِي سَهْلٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، عَنْ مُغِيرَةَ ، عَنْ أُمِّ مُوسَى ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ، قَالَ:" كَانَ آخِرُ كَلَامِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ".
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری بات یہ تھی: نماز کا اور اپنے غلام و لونڈی کا خیال رکھنا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأدب 133 (5156)، (تحفة الأ شراف: 10343)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/78) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یعنی نماز کو اپنے وقت پر شرائط اور اداب کے ساتھ پڑھو، بے وقت مت پڑھو، اور اس میں دیر مت کرو، اور غلاموں اور لونڈیوں کا خیال رکھو کہ ان پر ظلم مت کرو، طاقت سے زیادہ ان سے کام نہ لو، ان کو کھانے پہننے کی تکلیف نہ دو، جو لوگ نماز کا خیال نہیں رکھتے اس کو قضاء کر دیتے ہیں یا جلدی بغیر خشوع و خضوع کے پڑھ لیتے ہیں یا طہارت میں احتیاط نہیں کرتے یا اپنے لونڈی غلام اور خادم پر ظلم و ستم کرتے ہیں وہ کس طرح کے مسلمان ہیں، جب آپ ﷺ کی آخری وصیت کا بھی ان کو خیال نہیں ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
2. بَابُ: الْحَثِّ عَلَى الْوَصِيَّةِ
2. باب: وصیت کی ترغیب۔
حدیث نمبر: 2699
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد ، حدثنا عبد الله بن نمير ، عن عبيد الله بن عمر ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما حق امرئ مسلم ان يبيت ليلتين وله شيء يوصي فيه إلا ووصيته مكتوبة عنده".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا حَقُّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ أَنْ يَبِيتَ لَيْلَتَيْنِ وَلَهُ شَيْءٌ يُوصِي فِيهِ إِلَّا وَوَصِيَّتُهُ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس مسلمان کے پاس وصیت کرنے کے قابل کوئی چیز ہو، اسے یہ حق نہیں ہے کہ وہ دو راتیں بھی اس حال میں گزارے کہ اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی نہ ہو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الوصایا 1 (1628)، سنن الترمذی/الجنائز 5 (974)، (تحفة الأ شراف: 7944)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الوصایا 1 (2738)، سنن ابی داود/الوصایا 1 (2862)، سنن الترمذی/الوصایا 3 (2119)، سنن النسائی/الوصایا 1 (3645) موطا امام مالک/الوصایا 1 (1)، مسند احمد (2/4، 10، 34، 50، 57، 80، 113)، سنن الدارمی/الوصایا 1 (3219) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یعنی اس کے پاس مال ہو جس کے لئے وصیت کی ضرورت ہو یا کسی کی امانت ہو تو ضروری ہے کہ ہمیشہ وصیت لکھ کر یا لکھوا کر اپنے پاس رکھا کرے ایسا نہ ہو کہ موت آ جائے اور وصیت کی مہلت نہ ملے، اور لوگوں کے حقوق اپنے ذمہ رہ جائیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 2700
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا نصر بن علي الجهضمي ، حدثنا درست بن زياد ، حدثنا يزيد الرقاشي ، عن انس بن مالك ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" المحروم من حرم وصيته".
(مرفوع) حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، حَدَّثَنَا دُرُسْتُ بْنُ زِيَادٍ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ الرَّقَاشِيُّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْمَحْرُومُ مَنْ حُرِمَ وَصِيَّتَهُ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: محروم وہ ہے جو وصیت کرنے سے محروم رہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأ شراف: 1685، ومصباح الزجاجة: 955) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (یزید بن ابان الرقاشی ضعیف ہیں)

قال الشيخ الألباني: ضعيف
حدیث نمبر: 2701
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن المصفى الحمصي ، حدثنا بقية بن الوليد ، عن يزيد بن عوف ، عن ابي الزبير ، عن جابر بن عبد الله ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من مات على وصية مات على سبيل وسنة ومات على تقى وشهادة ومات مغفورا له".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى الْحِمْصِيُّ ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَوْفٍ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ مَاتَ عَلَى وَصِيَّةٍ مَاتَ عَلَى سَبِيلٍ وَسُنَّةٍ وَمَاتَ عَلَى تُقًى وَشَهَادَةٍ وَمَاتَ مَغْفُورًا لَهُ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص وصیت کر کے مرا، وہ راہ (راہ راست) پر اور سنت کے مطابق مرا، نیز پرہیزگاری اور شہادت پر اس کا خاتمہ ہوا، اس کی مغفرت ہو گی۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأ شراف: 3000، ومصباح الزجاجة: 956) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (بقیہ مدلس ہیں، اور حدیث عنعنہ سے روایت کی ہے)

قال الشيخ الألباني: ضعيف
حدیث نمبر: 2702
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن معمر ، حدثنا روح عن عوف ، عن نافع ، عن ابن عمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" ما حق امرئ مسلم يبيت ليلتين وله شيء يوصي به إلا ووصيته مكتوبة عنده".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ ، حَدَّثَنَا رَوْحُ عَنْ عَوْفٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَا حَقُّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ يَبِيتُ لَيْلَتَيْنِ وَلَهُ شَيْءٌ يُوصِي بِهِ إِلَّا وَوَصِيَّتُهُ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کے لیے یہ بات مناسب نہیں کہ وہ دو راتیں بھی اس طرح گزارے کہ اس کی وصیت لکھی ہوئی اس کے پاس نہ ہو، جب کہ اس کے پاس وصیت کرنے کے لائق کوئی چیز ہو۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأ شراف: 7663 ألف) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
3. بَابُ: الْحَيْفِ فِي الْوَصِيَّةِ
3. باب: وصیت میں ظلم کرنے کی سزا کا بیان۔
حدیث نمبر: 2703
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا سويد بن سعيد ، حدثنا عبد الرحيم بن زيد العمي ، عن ابيه ، عن انس بن مالك ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من فر من ميراث وارثه، قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ زَيْدٍ الْعَمِّيُّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ فَرَّ مِنْ مِيرَاثِ وَارِثِهِ، قَطَعَ اللَّهُ مِيرَاثَهُ مِنَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کو میراث دلانے سے بھاگے، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے جنت کی میراث نہ دے گا۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأ شراف: 843، ومصباح الزجاجة: 957) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں زید العمی اور ان کے لڑکے عبد الرحیم دونوں ضعیف ہیں، نیزملاحظہ ہو: المشکاة: 3078)

قال الشيخ الألباني: ضعيف
حدیث نمبر: 2704
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن الازهر ، حدثنا عبد الرزاق بن همام ، انبانا معمر ، عن اشعث بن عبد الله ، عن شهر بن حوشب ، عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الرجل ليعمل بعمل اهل الخير سبعين سنة، فإذا اوصى حاف في وصيته فيختم له بشر عمله فيدخل النار، وإن الرجل ليعمل بعمل اهل الشر سبعين سنة فيعدل في وصيته فيختم له بخير عمله فيدخل الجنة"، قال ابو هريرة: واقرءوا إن شئتم تلك حدود الله إلى قوله عذاب مهين سورة البقرة آية 187 ـ 90.
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْأَزْهَرِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ بْنُ هَمَّامٍ ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْخَيْرِ سَبْعِينَ سَنَةً، فَإِذَا أَوْصَى حَافَ فِي وَصِيَّتِهِ فَيُخْتَمُ لَهُ بِشَرِّ عَمَلِهِ فَيَدْخُلُ النَّارَ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الشَّرِّ سَبْعِينَ سَنَةً فَيَعْدِلُ فِي وَصِيَّتِهِ فَيُخْتَمُ لَهُ بِخَيْرِ عَمَلِهِ فَيَدْخُلُ الْجَنَّةَ"، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: وَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ إِلَى قَوْلِهِ عَذَابٌ مُهِينٌ سورة البقرة آية 187 ـ 90.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی ستر سال تک نیک عمل کرتا رہتا ہے، پھر وصیت کے وقت اپنی وصیت میں ظلم کرتا ہے، تو اس کا خاتمہ برے عمل پر ہوتا ہے اور جہنم میں جاتا ہے، اسی طرح آدمی ستر سال تک برے اعمال کا ارتکاب کرتا رہتا ہے لیکن اپنی وصیت میں انصاف کرتا ہے، اس کا خاتمہ بالخیر ہوتا ہے، اور جنت میں جاتا ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر تم چاہو تو اس آیت کریمہ: «تلك حدود الله» (سورۃ النساء: ۱۳- ۱۴) کو پڑھو یعنی یہ حدود اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی ہیں اور جو اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کرے گا اسے اللہ تعالیٰ جنتیوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے، اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے، اور اس کی مقررہ حدوں سے آگے نکلے اسے وہ جہنم میں ڈال دے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا ایسوں ہی کے لیے رسوا کن عذاب ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 13495، ومصباح الزجاجة: 958)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الوصایا 3 (2867)، سنن الترمذی/الوصایا 2 (2117)، مسند احمد (2/278) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (ترمذی میں «سبعين سنة» ہے، اور سند میں شہر بن حوشب ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو: ضعیف أبی داود: 495)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

1    2    3    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.