الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: جہاد کے احکام و مسائل
The Book on Jihad
1. باب مَا جَاءَ فِي الرُّخْصَةِ لأَهْلِ الْعُذْرِ فِي الْقُعُودِ
1. باب: معذور لوگوں کے لیے جہاد نہ کرنے کی رخصت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1670
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا نصر بن علي الجهضمي، حدثنا المعتمر بن سليمان، عن ابيه، عن ابي إسحاق، عن البراء بن عازب، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " ائتوني بالكتف او اللوح، فكتب: لا يستوي القاعدون من المؤمنين سورة النساء آية 95 "، وعمرو بن ام مكتوم خلف ظهره، فقال: هل لي من رخصة؟ فنزلت: غير اولي الضرر سورة النساء آية 95، وفي الباب، عن ابن عباس، وجابر، وزيد بن ثابت، وهذا حديث حسن صحيح، وهو حديث غريب من حديث سليمان التيمي، عن ابي إسحاق، وقد روى شعبة، والثوري، عن ابي إسحاق، هذا الحديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " ائْتُونِي بِالْكَتِفِ أَوِ اللَّوْحِ، فَكَتَبَ: لا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ سورة النساء آية 95 "، وَعَمْرُو بْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ خَلْفَ ظَهْرِهِ، فَقَالَ: هَلْ لِي مِنْ رُخْصَةٍ؟ فَنَزَلَتْ: غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ سورة النساء آية 95، وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَجَابِرٍ، وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، وَقَدْ رَوَى شُعْبَةُ، وَالثَّوْرِيُّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، هَذَا الْحَدِيثَ.
براء بن عازب رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس «شانہ» (کی ہڈی) یا تختی لاؤ، پھر آپ نے لکھوایا ۱؎: «لا يستوي القاعدون من المؤمنين» یعنی جہاد سے بیٹھے رہنے والے مومن (مجاہدین کے) برابر نہیں ہو سکتے ہیں نابینا صحابی، عمرو ابن ام مکتوم رضی الله عنہ آپ کے پیچھے تھے، انہوں نے پوچھا: کیا میرے لیے اجازت ہے؟ چنانچہ (آیت کا) یہ ٹکڑا نازل ہوا: «غير أول الضرر» ، (معذورین کے)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- یہ حدیث بروایت «سليمان التيمي عن أبي إسحق» غریب ہے، اس حدیث کو شعبہ اور ثوری نے بھی ابواسحاق سے روایت کیا ہے،
۳- اس باب میں ابن عباس، جابر اور زید بن ثابت رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجہاد 31 (2831)، وتفسیر سورة النساء 18 (4593)، وفضائل القرآن 4 (4990)، صحیح مسلم/الإمارة 40 (1898)، سنن النسائی/الجہاد 4 (3103)، (تحفة الأشراف: 1859)، و مسند احمد (4/283، 290، 330)، سنن الدارمی/الجہاد 28 (2464) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تختیوں اور ذبح شدہ جانوروں کی ہڈیوں پر گرانی آیات و سورہ کا لکھنا جائز ہے اور مذبوح جانوروں کی ہڈیوں سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
2. باب مَا جَاءَ فِيمَنْ خَرَجَ فِي الْغَزْوِ وَتَرَكَ أَبَوَيْهِ
2. باب: ماں باپ کو چھوڑ کر جہاد میں نکلنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1671
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا يحيى بن سعيد، عن سفيان، وشعبة، عن حبيب بن ابي ثابت، عن ابي العباس، عن عبد الله بن عمرو، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم يستاذنه في الجهاد، فقال: " الك والدان؟ "، قال: نعم، قال: " ففيهما فجاهد "، قال ابو عيسى: وفي الباب، عن ابن عباس، وهذا حديث حسن صحيح، وابو العباس هو الشاعر الاعمى المكي واسمه: السائب بن فروخ.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سُفْيَانَ، وَشُعْبَةَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي الْعَبَّاسِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَأْذِنُهُ فِي الْجِهَادِ، فَقَالَ: " أَلَكَ وَالِدَانِ؟ "، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: " فَفِيهِمَا فَجَاهِدْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو الْعَبَّاسِ هُوَ الشَّاعِرُ الْأَعْمَى الْمَكِّيُّ وَاسْمُهُ: السَّائِبُ بْنُ فَرُّوخَ.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک آدمی جہاد کی اجازت طلب کرنے کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ نے پوچھا: کیا تمہارے ماں باپ (زندہ) ہیں؟ اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: ان کی خدمت کی کوشش میں لگے رہو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن عباس سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجہاد 138 (3004)، والأدب 3 (5972)، صحیح مسلم/البر والصلة 1 (2549)، سنن ابی داود/ الجہاد 33 (2529)، سنن النسائی/الجہاد 5 (3105)، (تحفة الأشراف: 8634)، و مسند احمد (2/165، 172، 188، 193، 197، 221) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی ماں باپ کی پوری پوری خدمت کرو، کیونکہ وہ تمہاری خدمت کے محتاج ہیں، اسی سے تمہیں جہاد کا ثواب حاصل ہو گا، بعض علماء کا کہنا ہے کہ اگر رضاکارانہ طور پر جہاد میں شریک ہونا چاہتا ہے تو ماں باپ کی اجازت ضروری ہے، لیکن اگر حالات و ظروف کے لحاظ سے جہاد فرض عین ہے تو ایسی صورت میں اجازت کی ضرورت نہیں، بلکہ روکنے کے باوجود وہ جہاد میں شریک ہو گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2782)
3. باب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يُبْعَثُ وَحْدَهُ سَرِيَّةً
3. باب: سریہ (جنگی ٹولی) میں کسی کو تنہا روانہ کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1672
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن يحيى النيسابوري، حدثنا الحجاج بن محمد، حدثنا ابن جريج في قوله: اطيعوا الله واطيعوا الرسول واولي الامر منكم سورة النساء آية 59، قال: عبد الله بن حذافة بن قيس بن عدي السهمي: " بعثه رسول الله صلى الله عليه وسلم على سرية، اخبرنيه يعلى بن مسلم، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب، لا نعرفه إلا من حديث ابن جريج.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى النَّيْسَابُورِيُّ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ فِي قَوْلِهِ: أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الأَمْرِ مِنْكُمْ سورة النساء آية 59، قَالَ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حُذَافَةَ بْنِ قَيْسِ بْنِ عَدِيٍّ السَّهْمِيُّ: " بَعَثَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى سَرِيَّةٍ، أَخْبَرَنِيهِ يَعْلَى بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ جُرَيْجٍ.
ابن عباس رضی الله عنہما آیت کریمہ: «أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولي الأمر منكم» کی تفسیر میں کہتے ہیں: عبداللہ بن حذافہ بن قیس بن عدی سہمی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اکیلا) سریہ بنا کر بھیجا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر سورة النساء 11 (4584)، صحیح مسلم/الإمارة 8 (1834)، سنن ابی داود/ الجہاد 96 (2624)، سنن النسائی/البیعة 28 (4205)، (تحفة الأشراف: 5651) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: حدیث میں «أولو الأمر» کے سلسلہ میں کئی اقوال ہیں، مفسرین اور فقہاء کے نزدیک اس سے مراد وہ «ولاۃ و أمراء» ہیں جن کی اطاعت واجب کی ہے، بعض لوگ اس سے علماء کو مراد لیتے ہیں، ایک قول یہ ہے کہ علما اور امرا دونوں مراد ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (2359)
4. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ أَنْ يُسَافِرَ الرَّجُلُ وَحْدَهُ
4. باب: تنہا سفر کرنے کی کراہت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1673
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن عبدة الضبي البصري، حدثنا سفيان بن عيينة، عن عاصم بن محمد، عن ابيه، عن ابن عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لو ان الناس يعلمون ما اعلم من الوحدة، ما سرى راكب بليل "، يعني: وحده.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَوْ أَنَّ النَّاسَ يَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ مِنَ الْوِحْدَةِ، مَا سَرَى رَاكِبٌ بِلَيْلٍ "، يَعْنِي: وَحْدَهُ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر لوگ تنہائی کا وہ نقصان جان لیتے جو میں جانتا ہوں تو کوئی سوار رات میں تنہا نہ چلے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
ابن عمر کی حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجہاد 13 (2998)، سنن ابن ماجہ/الأدب 45 (3738)، (تحفة الأشراف: 7419) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اگر حالات ایسے ہیں کہ راستے غیر مامون ہیں، جان و مال کا خطرہ ہے تو ایسی صورت میں بلا ضرورت تنہا سفر کرنا ممنوع ہے، اور اگر کوئی مجبوری درپیش ہے تو کوئی حرج نہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابہ کو بوقت ضرورت تنہا سفر پر بھیجا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3768)
حدیث نمبر: 1674
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن موسى الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك، عن عبد الرحمن بن حرملة، عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " الراكب شيطان، والراكبان شيطانان، والثلاثة ركب "، قال ابو عيسى: حديث ابن عمر حديث حسن صحيح، لا نعرفه إلا من هذا الوجه من حديث عاصم وهو ابن محمد بن زيد بن عبد الله بن عمر، وحديث عبد الله بن عمرو حديث حسن، قال محمد: هو ثقة صدوق، وعاصم بن عمر العمري ضعيف في الحديث لا اروي عنه شيئا.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَرْمَلَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الرَّاكِبُ شَيْطَانٌ، وَالرَّاكِبَانِ شَيْطَانَانِ، وَالثَّلَاثَةُ رَكْبٌ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ عَاصِمٍ وَهُوَ ابْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، وَحَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو حَدِيثٌ حَسَنٌ، قَالَ مُحَمَّدٌ: هُوَ ثِقَةٌ صَدُوقٌ، وَعَاصِمُ بْنُ عُمَرَ الْعُمَرِيُّ ضَعِيفٌ فِي الْحَدِيثِ لَا أَرْوِي عَنْهُ شَيْئًا.
عبداللہ بن عمرو کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اکیلا سوار شیطان ہے، دو سوار بھی شیطان ہیں اور تین سوار قافلہ والے ہیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
عبداللہ بن عمرو کی حدیث حسن ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الجہاد 86 (2607)، (تحفة الأشراف: 8740)، وط/الاستئذان 14 (35)، و مسند احمد (2/186، 214) (حسن)»

وضاحت:
۱؎: یعنی اکیلا یا دو آدمیوں کا سفر کرنا صحیح نہیں ہے، تنہا ہونے میں کسی حادثہ کے وقت کوئی اس کا معاون و مددگار نہیں رہے گا، اسی طرح دو ہونے کی صورت میں ایک کو کسی ضرورت کے لیے جانا پڑا تو ایسی صورت میں پھر دونوں تنہا ہو جائیں گے، اور اگر ایک دوسرے کو وصیت کرنا چاہے تو اس کے لیے کوئی گواہ نہیں ہو گا جب کہ دو گواہ کی ضرورت پڑے گی۔

قال الشيخ الألباني: حسن، الصحيحة (64)، المشكاة (3910)، صحيح أبي داود (2346)
5. باب مَا جَاءَ فِي الرُّخْصَةِ فِي الْكَذِبِ وَالْخَدِيعَةِ فِي الْحَرْبِ
5. باب: لڑائی میں جھوٹ دھوکہ اور فریب کی رخصت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1675
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، ونصر بن علي، قالا: حدثنا سفيان بن عيينة، عن عمرو بن دينار، سمع جابر بن عبد الله، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الحرب خدعة "، قال ابو عيسى: وفي الباب، عن علي، وزيد بن ثابت، وعائشة، وابن عباس، وابي هريرة، واسماء بنت يزيد بن السكن، وكعب بن مالك، وانس، وهذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، وَنَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْحَرْبُ خُدْعَةٌ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَلِيٍّ، وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، وَعَائِشَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ بْنِ السَّكَنِ، وَكَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، وَأَنَسٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لڑائی دھوکہ و فریب کا نام ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں علی، زید بن ثابت، عائشہ ابن عباس، اسماء بنت یزید بن سکن، کعب بن مالک اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجہاد 157 (3030)، صحیح مسلم/الجہاد 5 (1740)، سنن ابی داود/ الجہاد 101 (2636)، (تحفة الأشراف: 2523) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: جنگ ان تین مقامات میں سے ایک ہے جہاں جھوٹ، دھوکہ اور فریب کا سہارا لیا جا سکتا ہے۔ لڑائی کے ایام میں جہاں تک ممکن ہو کفار کو دھوکہ دینا جائز ہے، لیکن یہ ان سے کیے گئے کسی عہد و پیمان کے توڑنے کا سبب نہ بنے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2833 و 2834)
6. باب مَا جَاءَ فِي غَزَوَاتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَمْ غَزَا
6. باب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے غزوات کا ذکر اور ان کی تعداد کا بیان۔
حدیث نمبر: 1676
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(موقوف) حدثنا حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا وهب بن جرير، وابو داود الطيالسي، قالا: حدثنا شعبة، عن ابي إسحاق، قال: كنت إلى جنب زيد بن ارقم، فقيل له: كم غزا النبي صلى الله عليه وسلم من غزوة؟ قال: " تسع عشرة "، فقلت: كم غزوت انت معه؟ قال: " سبع عشرة "، قلت: ايتهن كان اول؟ قال: " ذات العشير، او العشيرة "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، وَأَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، قَالَ: كُنْتُ إِلَى جَنْبِ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، فَقِيلَ لَهُ: كَمْ غَزَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَزْوَةٍ؟ قَالَ: " تِسْعَ عَشْرَةَ "، فَقُلْتُ: كَمْ غَزَوْتَ أَنْتَ مَعَهُ؟ قَالَ: " سَبْعَ عَشْرَةَ "، قُلْتُ: أَيَّتُهُنَّ كَانَ أَوَّلَ؟ قَالَ: " ذَاتُ الْعُشَيْرِ، أَوْ الْعُشَيْرَةِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابواسحاق سبیعی کہتے ہیں کہ میں زید بن ارقم رضی الله عنہ کے بغل میں تھا کہ ان سے پوچھا گیا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے غزوات کیے؟ کہا: انیس ۱؎، میں نے پوچھا: آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کتنے غزوات میں شریک رہے؟ کہا: سترہ میں، میں نے پوچھا: کون سا غزوہ پہلے ہوا تھا؟ کہا: ذات العشیر یا ذات العُشیرہ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المغازي 1 (3949)، و 77 (4404)، و 89 (4471)، صحیح مسلم/الحج 35 (1254)، والجہاد 49 (1254/143)، (تحفة الأشراف: 3679) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: مراد وہ غزوات ہیں جن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود شریک رہے، خواہ قتال کیا ہو یا نہ کیا ہو، صحیح مسلم میں جابر رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ غزوات کی تعداد اکیس (۲۱) ہے، ایسی صورت میں ممکن ہے زید بن ارقم نے دوکا تذکرہ جنہیں غزوہ ابوا اور غزوہ بواط کہا جاتا ہے اس لیے نہ کیا ہو کہ ان کا معاملہ ان دونوں کے چھوٹے ہونے کی وجہ سے ان سے مخفی رہ گیا ہو۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
7. باب مَا جَاءَ فِي الصَّفِّ وَالتَّعْبِئَةِ عِنْدَ الْقِتَالِ
7. باب: لڑائی کے وقت صف بندی اور لشکر کی ترتیب کا بیان۔
حدیث نمبر: 1677
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(موقوف) حدثنا حدثنا محمد بن حميد الرازي، حدثنا سلمة بن الفضل، عن محمد بن إسحاق، عن عكرمة، عن ابن عباس، عن عبد الرحمن بن عوف، قال: " عبانا النبي صلى الله عليه وسلم ببدر ليلا "، قال ابو عيسى: وفي الباب، عن ابي ايوب، وهذا حديث غريب لا نعرفه إلا من هذا الوجه، وسالت محمد بن إسماعيل، عن هذا الحديث فلم يعرفه، وقال: محمد بن إسحاق، سمع من عكرمة، وحين رايته كان حسن الراي في محمد بن حميد الرازي، ثم ضعفه بعد.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ الْفَضْلِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: " عَبَّأَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبَدْرٍ لَيْلًا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، وَهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَسَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل، عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَلَمْ يَعْرِفْهُ، وَقَالَ: مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، سَمِعَ مِنْ عِكْرِمَةَ، وَحِينَ رَأَيْتُهُ كَانَ حَسَنَ الرَّأْيِ فِي مُحَمَّدِ بْنِ حُمَيْدٍ الرَّازِيِّ، ثُمَّ ضَعَّفَهُ بَعْدُ.
عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام بدر میں رات کے وقت ہمیں مناسب جگہوں پر متعین کیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں ابوایوب سے بھی روایت ہے، یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،
۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا: تو انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا: محمد بن اسحاق کا سماع عکرمہ سے ثابت ہے، اور جب میں نے بخاری سے ملاقات کی تھی تو وہ محمد بن حمید الرازی کے بارے میں اچھی رائے رکھتے تھے، پھر بعد میں ان کو ضعیف قرار دیا۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 9724) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی محمد بن حمید رازی ضعیف ہیں)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دشمنوں سے مقابلہ آرائی سے پہلے مجاہدین کی صف بندی کرنا اور مناسب جگہوں پر انہیں متعین کرنا ضروری ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
8. باب مَا جَاءَ فِي الدُّعَاءِ عِنْدَ الْقِتَالِ
8. باب: لڑائی کے وقت دعا کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1678
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا يزيد بن هارون، انبانا إسماعيل بن ابي خالد، عن ابن ابي اوفى، قال: سمعته يقول: يعني النبي صلى الله عليه وسلم يدعو على الاحزاب، فقال: " اللهم منزل الكتاب، سريع الحساب، اهزم الاحزاب، اللهم اهزمهم وزلزلهم "، قال ابو عيسى: في الباب، عن ابن مسعود، وهذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي أَوْفَى، قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ: يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُو عَلَى الْأَحْزَابِ، فَقَالَ: " اللَّهُمَّ مُنْزِلَ الْكِتَابِ، سَرِيعَ الْحِسَابِ، اهْزِمْ الْأَحْزَابَ، اللَّهُمَّ اهْزِمْهُمْ وَزَلْزِلْهُمْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: فِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابن ابی اوفی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو (غزوہ احزاب میں) کفار کے لشکروں پر بد دعا کرتے ہوئے سنا، آپ نے ان الفاظ میں بد دعا کی «اللهم منزل الكتاب سريع الحساب اهزم الأحزاب اللهم اهزمهم وزلزلهم» کتاب نازل کرنے اور جلد حساب کرنے والے اللہ! کفار کے لشکروں کو شکست سے دوچار کر، ان کو شکست دے اور ان کے قدم اکھاڑ دے۔ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن مسعود رضی الله عنہ سے بھی حدیث مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجہاد 98 (2933)، و 112 (2965)، و 156 (3025)، والمغازي 29 (4115)، والدعوات 58 (6392)، والتوحید 34 (7489)، صحیح مسلم/الجہاد 6 70 (1742)، سنن ابی داود/ الجہاد 98 (2631)، سنن النسائی/عمل الیوم و اللیلة (602)، سنن ابن ماجہ/الجہاد 15 (2796)، (تحفة الأشراف: 5154)، و مسند احمد (4/354) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎:اس ضمن میں اور بھی بہت ساری دعائیں احادیث کی کتب میں موجود ہیں، بعض دعائیں امام نووی نے اپنی کتاب الأذکار میں جمع کر دی ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (2365)
9. باب مَا جَاءَ فِي الأَلْوِيَةِ
9. باب: جنگ میں پرچم لہرانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1679
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(موقوف) حدثنا حدثنا محمد بن عمر بن الوليد الكندي الكوفي، وابو كريب، ومحمد بن رافع، قالوا: حدثنا يحيى بن آدم، عن شريك، عن عمار يعني: الدهني، عن ابي الزبير، عن جابر، ان النبي صلى الله عليه وسلم: " دخل مكة ولواؤه ابيض "، قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، لا نعرفه إلا من حديث يحيى بن آدم، عن شريك، قال: وسالت محمدا عن هذا الحديث فلم يعرفه، إلا من حديث يحيى بن آدم، عن شريك. وقال: حدثنا غير واحد، عن شريك، عن عمار، عن ابي الزبير، عن جابر، ان النبي صلى الله عليه وسلم: " دخل مكة وعليه عمامة سوداء "، قال محمد: والحديث هو هذا، قال ابو عيسى: والدهن بطن من بجيلة، وعمار الدهني هو عمار بن معاوية الدهني ويكنى ابا معاوية وهو كوفي وهو ثقة عند اهل الحديث.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ الْوَلِيدِ الْكِنْدِيُّ الْكُوفِيُّ، وَأَبُو كُرَيْبٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ عَمَّارٍ يَعْنِي: الدُّهْنِيَّ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " دَخَلَ مَكَّةَ وَلِوَاؤُهُ أَبْيَضُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ آدَمَ، عَنْ شَرِيكٍ، قَالَ: وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَلَمْ يَعْرِفْهُ، إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ آدَمَ، عَنْ شَرِيكٍ. وقَالَ: حَدَّثَنَا غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ عَمَّارٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " دَخَلَ مَكَّةَ وَعَلَيْهِ عِمَامَةٌ سَوْدَاءُ "، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَالْحَدِيثُ هُوَ هَذَا، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَالدُّهْنُ بَطْنٌ مِنْ بَجِيلَةَ، وَعَمَّارٌ الدُّهْنِيُّ هُوَ عَمَّارُ بْنُ مُعَاوِيَةَ الدُّهْنِيُّ وَيُكْنَى أَبَا مُعَاوِيَةَ وَهُوَ كُوفِيٌّ وَهُوَ ثِقَةٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ.
جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے تو آپ کا پرچم سفید تھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف یحییٰ بن آدم کی روایت سے جانتے ہیں اور یحییٰ شریک سے روایت کرتے ہیں،
۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا: تو انہوں نے کہا: یحییٰ بن آدم شریک سے روایت کرتے ہیں، اور کہا: ہم سے کئی لوگوں نے «شريك عن عمار عن أبي الزبير عن جابر» کی سند سے بیان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے اور اس وقت آپ کے سر پر کالا عمامہ تھا، محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: اور (محفوظ) حدیث یہی ہے،
۳- «الدهن» قبیلہ بجیلہ کی ایک شاخ ہے، عمار دہنی معاویہ دہنی کے بیٹے ہیں، ان کی کنیت ابومعاویہ ہے، وہ کوفہ کے رہنے والے ہیں اور محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الجہاد 76 (2592)، سنن النسائی/الحج 106 (2869)، سنن ابن ماجہ/الجہاد 20 (2817) (تحفة الأشراف: 2889) (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (3817)

1    2    3    4    5    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.