الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: شہادت (گواہی) کے احکام و مسائل
Chapters On Witnesses
1. باب مَا جَاءَ فِي الشُّهَدَاءِ أَيُّهُمْ خَيْرٌ
1. باب: سب سے اچھے گواہوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 2295
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك، عن عبد الله بن ابي بكر بن محمد بن عمرو بن حزم، عن ابيه، عن عبد الله بن عمرو بن عثمان، عن ابي عمرة الانصاري، عن زيد بن خالد الجهني، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " الا اخبركم بخير الشهداء؟ الذي ياتي بالشهادة قبل ان يسالها ".(مرفوع) حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي عَمْرَةَ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِخَيْرِ الشُّهَدَاءِ؟ الَّذِي يَأْتِي بِالشَّهَادَةِ قَبْلَ أَنْ يُسْأَلَهَا ".
زید بن خالد جہنی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں سب سے اچھے گواہ کے بارے میں نہ بتا دوں؟ سب سے اچھا گواہ وہ آدمی ہے جو گواہی طلب کیے جانے سے پہلے گواہی دے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الأقضیة 9 (1719)، سنن ابی داود/ الأقضیة 13 (3596)، سنن ابن ماجہ/الأحکام 28 (2364) (تحفة الأشراف: 3754)، وط/الأقضیة 2 (3) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس گواہی کی صورت یہ ہے کہ کسی شخص کا کوئی ایسا معاملہ درپیش ہے جس میں کسی گواہ کی ضرورت ہے اور اس کے علم کے مطابق اس معاملہ کا کوئی گواہ نہیں ہے، پھر اچانک ایک دوسرا شخص آئے اور خود سے اپنے آپ کو پیش کرے اور اس معاملہ کی گواہی دے تو اس حدیث میں ایسے ہی گواہ کو سب سے بہتر گواہ کہا گیا ہے، معلوم ہوا کہ کسی کے پاس اگر کوئی شہادت موجود ہے تو اسے قاضی کے سامنے حاضر ہو کر معاملہ کے تصفیہ کی خاطر گواہی دینی چاہیئے اسے اس کے لیے طلب کیا گیا ہو یا نہ طلب کیا گیا ہو۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 2296
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن الحسن، حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك نحوه، وقال ابن ابي عمرة، قال: هذا حديث حسن، واكثر الناس، يقولون: عبد الرحمن بن ابي عمرة، واختلفوا على مالك في رواية هذا الحديث، فروى بعضهم عن ابي عمرة، وروى بعضهم عن ابن ابي عمرة وهو عبد الرحمن بن ابي عمرة الانصاري، وهذا اصح لانه قد روي من غير حديث مالك، عن عبد الرحمن بن ابي عمرة، عن زيد بن خالد، وقد روي عن ابن ابي عمرة، عن زيد بن خالد غير هذا الحديث، وهو حديث صحيح ايضا، وابو عمرة مولى زيد بن خالد الجهني، وله حديث الغلول، واكثر الناس، يقولون: عبد الرحمن بن ابي عمرة.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ نَحْوَهُ، وَقَالَ ابْنُ أَبِي عَمْرَةَ، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَأَكْثَرُ النَّاسِ، يَقُولُونَ: عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي عَمْرَةَ، وَاخْتَلَفُوا عَلَى مَالِكٍ فِي رِوَايَةِ هَذَا الْحَدِيثِ، فَرَوَى بَعْضُهُمْ عَنْ أَبِي عَمْرَةَ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ عَنْ ابْنِ أَبِي عَمْرَةَ وَهُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي عَمْرَةَ الْأَنْصَارِيُّ، وَهَذَا أَصَحُّ لِأَنَّهُ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ حَدِيثِ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ ابْنِ أَبِي عَمْرَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ غَيْرُ هَذَا الْحَدِيثِ، وَهُوَ حَدِيثٌ صَحِيحٌ أَيْضًا، وَأَبُو عَمْرَةَ مَوْلَى زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، وَلَهُ حَدِيثُ الْغُلُولِ، وَأَكْثَرُ النَّاسِ، يَقُولُونَ: عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي عَمْرَةَ.
اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- اکثر لوگوں نے اپنی روایت میں عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ کہا ہے۔
۳- اس حدیث کی روایت کرنے میں مالک کے شاگردوں کا اختلاف ہے، بعض راویوں نے اسے ابی عمرہ سے روایت کیا ہے، اور بعض نے ابن ابی عمرہ سے، ان کا نام عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ انصاری ہے، ابن ابی عمرہ زیادہ صحیح ہے، کیونکہ مالک کے سوا دوسرے راویوں نے «عن عبدالرحمٰن بن أبي عمرة عن زيد بن خالد» کہا ہے «عن ابن أبي عمرة عن زيد بن خالد» کی سند سے اس کے علاوہ دوسری حدیث بھی مروی ہے، اور وہ صحیح حدیث ہے، ابو عمرہ زید بن خالد جہنی کے آزاد کردہ غلام تھے، اور ابو عمرہ کے واسطہ سے خالد سے حدیث غلول مروی ہے، اکثر لوگ عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ ہی کہتے ہیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: مؤلف کے سوا ہر ایک کے یہاں «ابن أبي عمرة» ہی ہے۔

قال الشيخ الألباني: **
حدیث نمبر: 2297
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا بشر بن آدم ابن بنت ازهر السمان، حدثنا زيد بن الحباب، حدثنا ابي بن عباس بن سهل بن سعد، حدثني ابو بكر بن محمد بن عمرو بن حزم، حدثني عبد الله بن عمرو بن عثمان، حدثني خارجة بن زيد بن ثابت، حدثني عبد الرحمن بن ابي عمرة، حدثني زيد بن خالد الجهني، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " خير الشهداء من ادى شهادته قبل ان يسالها "، قال: هذا حديث حسن غريب من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ آدَمَ ابْنُ بِنْتِ أَزْهَرَ السَّمَّانِ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، حَدَّثَنَا أُبَيُّ بْنُ عَبَّاسِ بْنِ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ، حَدَّثَنِي خَارِجَةُ بْنُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي عَمْرَةَ، حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ خَالِدٍ الْجُهَنِيُّ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " خَيْرُ الشُّهَدَاءِ مَنْ أَدَّى شَهَادَتَهُ قَبْلَ أَنْ يُسْأَلَهَا "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
زید بن خالد جہنی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: سب سے بہتر گواہ وہ ہے جو گواہی طلب کیے جانے سے پہلے اپنی گواہی کا فریضہ ادا کر دے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح) (سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح لغیرہ)»

قال الشيخ الألباني: **
2. باب مَا جَاءَ فِيمَنْ لاَ تَجُوزُ شَهَادَتُهُ
2. باب: ان لوگوں کا بیان جن کی گواہی درست نہیں۔
حدیث نمبر: 2298
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا مروان بن معاوية الفزاري، عن يزيد بن زياد الدمشقي، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا تجوز شهادة خائن، ولا خائنة، ولا مجلود حدا، ولا مجلودة، ولا ذي غمر لاخيه، ولا مجرب شهادة، ولا القانع اهل البيت لهم، ولا ظنين في ولاء، ولا قرابة "، قال الفزاري: القانع التابع، هذا حديث غريب لا نعرفه إلا من حديث يزيد بن زياد الدمشقي، ويزيد يضعف في الحديث، ولا يعرف هذا الحديث من حديث الزهري إلا من حديثه، وفي الباب عن عبد الله بن عمرو، قال: ولا نعرف معنى هذا الحديث، ولا يصح عندي من قبل إسناده، والعمل عند اهل العلم في هذا ان شهادة القريب جائزة لقرابته، واختلف اهل العلم في شهادة الوالد للولد، والولد لوالده، ولم يجز اكثر اهل العلم شهادة الوالد للولد، ولا الولد للوالد، وقال بعض اهل العلم: إذا كان عدلا، فشهادة الوالد للولد جائزة، وكذلك شهادة الولد للوالد، ولم يختلفوا في شهادة الاخ لاخيه انها جائزة، وكذلك شهادة كل قريب لقريبه، وقال الشافعي: لا تجوز شهادة لرجل على الآخر وإن كان عدلا إذا كانت بينهما عداوة، وذهب إلى حديث عبد الرحمن الاعرج، عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسلا، لا تجوز شهادة صاحب إحنة، يعني: صاحب عداوة، وكذلك معنى هذا الحديث حيث قال: " لا تجوز شهادة صاحب غمر لاخيه "، يعني: صاحب عداوة.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْفَزَارِيُّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ زِيَادٍ الدِّمَشْقِيِّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَجُوزُ شَهَادَةُ خَائِنٍ، وَلَا خَائِنَةٍ، وَلَا مَجْلُودٍ حَدًّا، وَلَا مَجْلُودَةٍ، وَلَا ذِي غِمْرٍ لِأَخِيهِ، وَلَا مُجَرَّبِ شَهَادَةٍ، وَلَا الْقَانِعِ أَهْلَ الْبَيْتِ لَهُمْ، وَلَا ظَنِينٍ فِي وَلَاءٍ، وَلَا قَرَابَةٍ "، قَالَ الْفَزَارِيُّ: الْقَانِعُ التَّابِعُ، هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَزِيدَ بْنِ زِيَادٍ الدِّمَشْقِيِّ، وَيَزِيدُ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ، وَلَا يُعْرَفُ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ إِلَّا مِنْ حَدِيثِهِ، وَفِي الْبَابِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: وَلَا نَعْرِفُ مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ، وَلَا يَصِحُّ عِنْدِي مِنْ قِبَلِ إِسْنَادِهِ، وَالْعَمَلُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي هَذَا أَنَّ شَهَادَةَ الْقَرِيبِ جَائِزَةٌ لِقَرَابَتِهِ، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي شَهَادَةِ الْوَالِدِ لِلْوَلَدِ، وَالْوَلَدِ لِوَالِدِهِ، وَلَمْ يُجِزْ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ شَهَادَةَ الْوَالِدِ لِلْوَلَدِ، وَلَا الْوَلَدِ لِلْوَالِدِ، وَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا كَانَ عَدْلًا، فَشَهَادَةُ الْوَالِدِ لِلْوَلَدِ جَائِزَةٌ، وَكَذَلِكَ شَهَادَةُ الْوَلَدِ لِلْوَالِدِ، وَلَمْ يَخْتَلِفُوا فِي شَهَادَةِ الْأَخِ لِأَخِيهِ أَنَّهَا جَائِزَةٌ، وَكَذَلِكَ شَهَادَةُ كُلِّ قَرِيبٍ لِقَرِيبِهِ، وَقَالَ الشَّافِعِيُّ: لَا تَجُوزُ شَهَادَةٌ لِرَجُلٍ عَلَى الْآخَرِ وَإِنْ كَانَ عَدْلًا إِذَا كَانَتْ بَيْنَهُمَا عَدَاوَةٌ، وَذَهَبَ إِلَى حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا، لَا تَجُوزُ شَهَادَةُ صَاحِبِ إِحْنَةٍ، يَعْنِي: صَاحِبَ عَدَاوَةٍ، وَكَذَلِكَ مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ حَيْثُ قَالَ: " لَا تَجُوزُ شَهَادَةُ صَاحِبِ غِمْرٍ لِأَخِيهِ "، يَعْنِي: صَاحِبَ عَدَاوَةٍ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خیانت کرنے والے مرد اور عورت کی گواہی درست اور مقبول نہیں ہے، اور نہ ان مردوں اور عورتوں کی گواہی مقبول ہے جن پر حد نافذ ہو چکی ہے، نہ اپنے بھائی سے دشمنی رکھنے والے کی گواہی مقبول ہے، نہ اس آدمی کی جس کی ایک بار جھوٹی گواہی آزمائی جا چکی ہو، نہ اس شخص کی گواہی جو کسی کے زیر کفالت ہو اس کفیل خاندان کے حق میں (جیسے مزدور وغیرہ) اور نہ اس شخص کی جو ولاء یا رشتہ داری کی نسبت میں متہم ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے،
۲- ہم اسے صرف یزید بن زیاد دمشقی کی روایت سے جانتے ہیں، اور یزید ضعیف الحدیث ہیں، نیز یہ حدیث زہری کی روایت سے صرف اسی طریق سے جانی جاتی ہے،
۳- اس باب میں عبداللہ بن عمرو سے بھی حدیث مروی ہے،
۴- فزازی کہتے ہیں: «قانع» سے مراد «تابع» ہے،
۵- اس حدیث کا مطلب ہم نہیں سمجھتے اور نہ ہی سند کے اعتبار سے یہ میرے نزدیک صحیح ہے،
۶- اس بارے میں اہل علم کا عمل ہے کہ رشتہ دار کے لیے رشتہ کی گواہی درست ہے، البتہ بیٹے کے حق میں باپ کی گواہی یا باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے، اکثر اہل علم بیٹے کے حق میں باپ کی گواہی یا باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی کو درست نہیں سمجھتے،
۷- بعض اہل علم کہتے ہیں: جب گواہی دینے والا عادل ہو تو باپ کی گواہی بیٹے کے حق میں اسی طرح باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی درست ہے،
۸- بھائی کی گواہی کے جواز کے بارے میں اختلاف نہیں ہے،
۹- اسی طرح رشتہ دار کے لیے رشتہ دار کی گواہی میں بھی اختلاف نہیں ہے،
۱۰- امام شافعی کہتے ہیں: جب دو آدمیوں میں دشمنی ہو تو ایک کے خلاف دوسرے کی گواہی درست نہ ہو گی، گرچہ گواہی دینے والا عادل ہو، انہوں نے عبدالرحمٰن اعرج کی حدیث سے استدلال کیا ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً مروی ہے کہ دشمنی رکھنے والے کی گواہی درست نہیں ہے، اسی طرح اس (مذکورہ) حدیث کا بھی مفہوم یہی ہے، (جس میں) آپ نے فرمایا: اپنے بھائی کے لیے دشمنی رکھنے والے کی گواہی درست نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 16690) (ضعیف) (سند میں یزید بن زیاد دمشقی متروک الحدیث راوی ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (2675)، المشكاة (3781 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (6199) //
3. باب مَا جَاءَ فِي شَهَادَةِ الزُّورِ
3. باب: جھوٹی گواہی کی مذمت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2299
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا مروان بن معاوية، عن سفيان بن زياد الاسدي، عن فاتك بن فضالة، عن ايمن بن خريم، ان النبي صلى الله عليه وسلم قام خطيبا، فقال: يا ايها الناس، " عدلت شهادة الزور إشراكا بالله "، ثم قرا رسول الله صلى الله عليه وسلم فاجتنبوا الرجس من الاوثان واجتنبوا قول الزور سورة الحج آية 30، قال ابو عيسى: وهذا حديث غريب إنما نعرفه من حديث سفيان بن زياد، واختلفوا في رواية هذا الحديث عن سفيان بن زياد، ولا نعرف لايمن بن خريم سماعا من النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ زِيَادٍ الْأَسَدِيِّ، عَنْ فَاتِكِ بْنِ فَضَالَةَ، عَنْ أَيْمَنَ بْنِ خُرَيْمٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ خَطِيبًا، فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، " عَدِلَتْ شَهَادَةُ الزُّورِ إِشْرَاكًا بِاللَّهِ "، ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ سورة الحج آية 30، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ سُفْيَانَ بْنِ زِيَادٍ، وَاخْتَلَفُوا فِي رِوَايَةِ هَذَا الْحَدِيثِ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ زِيَادٍ، وَلَا نَعْرِفُ لِأَيْمَنَ بْنِ خُرَيْمٍ سَمَاعًا مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ایمن بن خریم سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا: لوگو! جھوٹی گواہی اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے برابر ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی «فاجتنبوا الرجس من الأوثان واجتنبوا قول الزور» تو بتوں کی گندگی سے بچے رہو (ان کی پرستش نہ کرو) اور جھوٹ بولنے سے بچے رہو (الحج: ۳۰)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے،
۲- ہم اسے صرف سفیان بن زیاد کی روایت سے جانتے ہیں۔ اور لوگوں نے سفیان بن زیاد سے اس حدیث کی روایت کرنے میں اختلاف کیا ہے،
۳- نیز ہم ایمن بن خریم کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سماع بھی نہیں جانتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 1748) (ضعیف) (یہ مرسل ہے أیمن بن خریم تابعی ہیں، نیز اس کے راوی فاتک بن فضالہ مستور (مجہول الحال) ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (2372) // ضعيف سنن ابن ماجة (518)، تخريج الإيمان لابن سلام (49 / 118)، طبع المكتب الإسلامي، المشكاة (3779 و 3780) //
حدیث نمبر: 2300
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا محمد بن عبيد، حدثنا سفيان وهو ابن زياد العصفري، عن ابيه، عن حبيب بن النعمان الاسدي، عن خريم بن فاتك الاسدي، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى صلاة الصبح فلما انصرف قام قائما، فقال: " عدلت شهادة الزور بالشرك بالله " ثلاث مرات، ثم تلا هذه الآية واجتنبوا قول الزور سورة الحج آية 30 إلى آخر الآية، قال ابو عيسى: هذا عندي اصح، وخريم بن فاتك له صحبة، وقد روى عن النبي صلى الله عليه وسلم احاديث وهو مشهور.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ وَهُوَ ابْنُ زِيَادٍ الْعُصْفُرِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ النُّعْمَانِ الْأَسَدِيِّ، عَنْ خُرَيْمِ بْنِ فَاتِكٍ الْأَسَدِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى صَلَاةَ الصُّبْحِ فَلَمَّا انْصَرَفَ قَامَ قَائِمًا، فَقَالَ: " عُدِلَتْ شَهَادَةُ الزُّورِ بِالشِّرْكِ بِاللَّهِ " ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ سورة الحج آية 30 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا عِنْدِي أَصَحُّ، وَخُرَيْمُ بْنُ فَاتِكٍ لَهُ صُحْبَةٌ، وَقَدْ رَوَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَادِيثَ وَهُوَ مَشْهُورٌ.
خریم بن فاتک اسدی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر پڑھائی، جب پلٹے تو خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا: جھوٹی گواہی اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے برابر ہے، آپ نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی پھر آپ نے یہ مکمل آیت تلاوت فرمائی «واجتنبوا قول الزور» اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث میرے نزدیک زیادہ صحیح ہے،
۲- خریم بن فاتک کو شرف صحابیت حاصل ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے انہوں نے کئی حدیثیں روایت کی ہیں، اور مشہور صحابی ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الأحکام 32 (2372) (ضعیف) (سند میں زیاد عصفری اور حبیب بن نعمان دونوں لین الحدیث یعنی ضعیف راوی ہیں)»

قال الشيخ الألباني: **
حدیث نمبر: 2301
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا حميد بن مسعدة، حدثنا بشر بن المفضل، عن الجريري، عن عبد الرحمن بن ابي بكرة، عن ابيه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " الا اخبركم باكبر الكبائر؟ " قالوا: بلى يا رسول الله، قال: " الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، وشهادة الزور، او قول الزور "، قال: فما زال رسول الله صلى الله عليه وسلم يقولها حتى قلنا ليته سكت، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وفي الباب عن عبد الله بن عمرو.(مرفوع) حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِأَكْبَرِ الْكَبَائِرِ؟ " قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " الْإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ، وَشَهَادَةُ الزُّورِ، أَوْ قَوْلُ الزُّورِ "، قَالَ: فَمَا زَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُهَا حَتَّى قُلْنَا لَيْتَهُ سَكَتَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَابِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو.
ابوبکرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں بڑے بڑے (کبیرہ) گناہوں کے بارے میں نہ بتا دوں؟ صحابہ نے عرض کیا: کیوں نہیں؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی گواہی دینا یا جھوٹی بات بولنا، ابوبکرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخری بات کو برابر دہراتے رہے یہاں تک کہ ہم لوگوں نے دل میں کہا: کاش! آپ خاموش ہو جاتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے بھی حدیث آئی ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 1901) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح غاية المرام (277)
4. باب مِنْهُ
4. باب: سابقہ باب سے متعلق ایک اور باب۔
حدیث نمبر: 2302
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا واصل بن عبد الاعلى، حدثنا محمد بن فضيل، عن الاعمش، عن علي بن مدرك، عن هلال بن يساف، عن عمران بن حصين، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " خير الناس قرني، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم ثلاثا، ثم يجيء قوم من بعدهم يتسمنون ويحبون السمن يعطون الشهادة قبل ان يسالوها "، قال ابو عيسى: وهذا حديث غريب من حديث الاعمش، عن علي بن مدرك، واصحاب الاعمش إنما رووا عن الاعمش، عن هلال بن يساف، عن عمران بن حصين، حدثنا ابو عمار الحسين بن حريث.(مرفوع) حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُدْرِكٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثَلَاثًا، ثُمَّ يَجِيءُ قَوْمٌ مِنْ بَعْدِهِمْ يَتَسَمَّنُونَ وَيُحِبُّونَ السِّمَنَ يُعْطُونَ الشَّهَادَةَ قَبْلَ أَنْ يُسْأَلُوهَا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُدْرِكٍ، وَأَصْحَابُ الْأَعْمَشِ إِنَّمَا رَوَوْا عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ.
عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: سب سے اچھے لوگ میرے زمانہ کے ہیں (یعنی صحابہ)، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے (یعنی تابعین)، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے (یعنی اتباع تابعین) ۱؎، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی، پھر ان کے بعد ایسے لوگ آئیں گے جو موٹا ہونا چاہیں گے، موٹاپا پسند کریں گے اور گواہی طلب کیے جانے سے پہلے گواہی دیں گے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اعمش کے واسطہ سے علی بن مدرک کی روایت سے غریب ہے،
۲- اعمش کے دیگر شاگردوں نے «عن الأعمش عن هلال بن يساف عن عمران بن حصين» کی سند سے روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 2221) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس سے صحابہ کرام کی فضیلت تابعین پر، اور تابعین کی فضیلت اتباع تابعین پر ثابت ہوتی ہے۔
۲؎: ایک روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ لفظ دو یا تین بار دہرایا، اگر تین بار دہرایا تو اس کا مطلب ہے کہ آپ نے خود اپنا زمانہ مراد لیا، پھر صحابہ کا پھر تابعین کا، پھر اتباع تابعین کا، اور اگر آپ نے صرف دو بار فرمایا تو اس کا وہی مطلب ہے جو ترجمہ کے اندر قوسین میں واضح کیا گیا ہے۔
۳؎: اس حدیث سے از خود شہادت دینے کی مذمت ثابت ہوتی ہے، جب کہ حدیث نمبر ۲۱۹۵ سے اس کی مدح و تعریف ثابت ہے، تعارض اس طرح دفع ہو جاتا ہے کہ مذمت مطلقاً اور از خود شہادت پیش کرنے کی نہیں بلکہ جلدی سے ایسی شہادت دینے کی وجہ سے ہے جس سے جھوٹ ثابت کر سکیں اور باطل طریقہ سے کھا پی سکیں اور لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈال کر اسے ہضم کر سکں، معلوم ہوا کہ حقوق کے تحفظ کے لیے دی گئی شہادت مقبول اور بہتر وعمدہ ہے جب کہ حقوق کو ہڑپ کر جانے کی نیت سے دی گئی شہادت قبیح اور بری ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح مضى (2334)
حدیث نمبر: 2302M
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا وكيع، عن الاعمش، حدثنا هلال بن يساف، عن عمران بن حصين، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه، وهذا اصح من حديث محمد بن فضيل، قال: ومعنى هذا الحديث عند بعض اهل العلم يعطون الشهادة قبل ان يسالوها إنما يعني: شهادة الزور، يقول: يشهد احدهم من غير ان يستشهد.(مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، حَدَّثَنَا هِلَالُ بْنُ يَسَافٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ فُضَيْلٍ، قَالَ: وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ يُعْطُونَ الشَّهَادَةَ قَبْلَ أَنْ يُسْأَلُوهَا إِنَّمَا يَعْنِي: شَهَادَةَ الزُّورِ، يَقُولُ: يَشْهَدُ أَحَدُهُمْ مِنْ غَيْرِ أَنْ يُسْتَشْهَدَ.
اس سند سے بھی عمران بن حصین سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ اور یہ محمد بن فضیل کی روایت سے زیادہ صحیح ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
حدیث کے الفاظ «يعطون الشهادة قبل أن يسألوها» سے جھوٹی گواہی مراد ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
ان کا کہنا ہے کہ گواہی طلب کیے بغیر وہ گواہی دیں گے۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح مضى (2334)
حدیث نمبر: 2303
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) وبيان هذا في حديث عمر بن الخطاب، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " خير الناس قرني، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم، ثم يفشو الكذب حتى يشهد الرجل ولا يستشهد، ويحلف الرجل ولا يستحلف "، ومعنى حديث النبي صلى الله عليه وسلم: " خير الشهداء الذي ياتي بشهادته قبل ان يسالها " هو عندنا إذا اشهد الرجل على الشيء ان يؤدي شهادته ولا يمتنع من الشهادة، هكذا وجه الحديث عند بعض اهل العلم.(مرفوع) وَبَيَانُ هَذَا فِي حَدِيثِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ يَفْشُو الْكَذِبُ حَتَّى يَشْهَدَ الرَّجُلُ وَلَا يُسْتَشْهَدُ، وَيَحْلِفُ الرَّجُلُ وَلَا يُسْتَحْلَفُ "، وَمَعْنَى حَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خَيْرُ الشُّهَدَاءِ الَّذِي يَأْتِي بِشَهَادَتِهِ قَبْلَ أَنْ يُسْأَلَهَا " هُوَ عِنْدَنَا إِذَا أُشْهِدَ الرَّجُلُ عَلَى الشَّيْءِ أَنْ يُؤَدِّيَ شَهَادَتَهُ وَلَا يَمْتَنِعَ مِنَ الشَّهَادَةِ، هَكَذَا وَجْهُ الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ.
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے اچھے اور بہتر لوگ ہمارے زمانے والے ہیں، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہوں گے، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہوں گے، پھر جھوٹ عام ہو جائے گا یہاں تک کہ آدمی گواہی طلب کیے بغیر گواہی دے گا، اور قسم کھلائے بغیر قسم کھائے گا۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث کہ سب سے بہتر گواہ وہ ہے، جو گواہی طلب کیے بغیر گواہی دے تو اس کا مفہوم ہمارے نزدیک یہ ہے کہ جب کسی سے کسی چیز کی گواہی (حق بات کی خاطر) دلوائی جائے تو وہ گواہی دے، گواہی دینے سے باز نہ رہے، بعض اہل علم کے نزدیک دونوں حدیثوں میں تطبیق کی یہی صورت ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 2165 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: **


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.