الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: حج کے احکام و مناسک
The Book on Hajj
حدیث نمبر: 867
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان بن عيينة، عن ايوب السختياني، قال: كانوا يعدون عبد الله بن سعيد بن جبير افضل من ابيه، ولعبد الله اخ يقال له: عبد الملك بن سعيد بن جبير، وقد روى عنه ايضا.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ، قَالَ: كَانُوا يَعُدُّونَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ أَفْضَلَ مِنْ أَبِيهِ، وَلِعَبْدِ اللَّهِ أَخٌ يُقَالُ لَهُ: عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، وَقَدْ رَوَى عَنْهُ أَيْضًا.
ایوب سختیانی کہتے ہیں کہ لوگ عبداللہ بن سعید بن جبیر کو ان کے والد سے افضل شمار کرتے تھے۔ اور عبداللہ کے ایک بھائی ہیں جنہیں عبدالملک بن سعید بن جبیر کہتے ہیں۔ انہوں نے ان سے بھی روایت کی ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 18452) (صحیح الإسناد)»

وضاحت:
۱؎: مؤلف نے یہ اثر پچھلی حدیث کے راوی عبداللہ بن سعید بن جبیر کی تعریف میں پیش کیا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
42. باب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ بَعْدَ الْعَصْرِ وَبَعْدَ الصُّبْحِ لِمَنْ يَطُوفُ
42. باب: طواف کے بعد کی دو رکعت کو عصر کے بعد اور فجر کے بعد پڑھنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Salat After Asr (And After Subh) Regarding One Who Performed Tawaf
حدیث نمبر: 868
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو عمار، وعلي بن خشرم، قالا: حدثنا سفيان بن عيينة، عن ابي الزبير، عن عبد الله بن باباه، عن جبير بن مطعم، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " يا بني عبد مناف لا تمنعوا احدا طاف بهذا البيت، وصلى اية ساعة شاء من ليل او نهار ". وفي الباب عن ابن عباس، وابي ذر. قال ابو عيسى: حديث جبير حديث حسن صحيح، وقد رواه عبد الله بن ابي نجيح، عن عبد الله بن باباه ايضا، وقد اختلف اهل العلم في الصلاة بعد العصر وبعد الصبح بمكة، فقال بعضهم: لا باس بالصلاة والطواف بعد العصر وبعد الصبح، وهو قول الشافعي، واحمد، وإسحاق، واحتجوا بحديث النبي صلى الله عليه وسلم هذا. وقال بعضهم: إذا طاف بعد العصر لم يصل حتى تغرب الشمس، وكذلك إن طاف بعد صلاة الصبح ايضا لم يصل حتى تطلع الشمس، واحتجوا بحديث عمر انه طاف بعد صلاة الصبح فلم يصل، وخرج من مكة حتى نزل بذي طوى فصلى بعد ما طلعت الشمس، وهو قول سفيان الثوري، ومالك بن انس.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ، وَعَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَاباهَ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ لَا تَمْنَعُوا أَحَدًا طَافَ بِهَذَا الْبَيْتِ، وَصَلَّى أَيَّةَ سَاعَةٍ شَاءَ مِنْ لَيْلٍ أَوْ نَهَارٍ ". وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي ذَرٍّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جُبَيْرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَاباهَ أَيْضًا، وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الصَّلَاةِ بَعْدَ الْعَصْرِ وَبَعْدَ الصُّبْحِ بِمَكَّةَ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا بَأْسَ بِالصَّلَاةِ وَالطَّوَافِ بَعْدَ الْعَصْرِ وَبَعْدَ الصُّبْحِ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَاحْتَجُّوا بِحَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا. وقَالَ بَعْضُهُمْ: إِذَا طَافَ بَعْدَ الْعَصْرِ لَمْ يُصَلِّ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، وَكَذَلِكَ إِنْ طَافَ بَعْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ أَيْضًا لَمْ يُصَلِّ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَاحْتَجُّوا بِحَدِيثِ عُمَرَ أَنَّهُ طَافَ بَعْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ فَلَمْ يُصَلِّ، وَخَرَجَ مِنْ مَكَّةَ حَتَّى نَزَلَ بِذِي طُوًى فَصَلَّى بَعْدَ مَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ.
جبیر بن مطعم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے بنی عبد مناف! رات دن کے کسی بھی حصہ میں کسی کو اس گھر کا طواف کرنے اور نماز پڑھنے سے نہ روکو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- جبیر مطعم رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- عبداللہ بن ابی نجیح نے بھی یہ حدیث عبداللہ بن باباہ سے روایت کی ہے،
۳- اس باب میں ابن عباس اور ابوذر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۴- مکے میں عصر کے بعد اور فجر کے بعد نماز پڑھنے کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں: عصر کے بعد اور فجر کے بعد نماز پڑھنے اور طواف کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے ۱؎ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ۲؎ سے دلیل لی ہے۔ اور بعض کہتے ہیں: اگر کوئی عصر کے بعد طواف کرے تو سورج ڈوبنے تک نماز نہ پڑھے۔ اسی طرح اگر کوئی فجر کے بعد طواف کرے تو سورج نکلنے تک نماز نہ پڑھے۔ ان کی دلیل عمر رضی الله عنہ کی حدیث ہے کہ انہوں نے فجر کے بعد طواف کیا اور نماز نہیں پڑھی پھر مکہ سے نکل گئے یہاں تک کہ وہ ذی طویٰ میں اترے تو سورج نکل جانے کے بعد نماز پڑھی۔ یہ سفیان ثوری اور مالک بن انس کا قول ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الحج 53 (1894)، سنن النسائی/المواقیت 41 (586)، والحج 137 (2927)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 149 (1256)، (تحفة الأشراف: 3187)، مسند احمد (4/80، 81، 84)، سنن الدارمی/المناسک 79 (1967) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اور یہی ارجح و اشبہ ہے۔
۲؎: جو اس باب میں مذکور ہے، اس کا ماحصل یہ ہے کہ مکے میں مکروہ اور ممنوع اوقات کا لحاظ نہیں ہے۔ (خاص کر طواف کے بعد دو رکعتوں کے سلسلے میں) جب کہ عام جگہوں میں فجر و عصر کے بعد کوئی نفل نماز نہیں ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1254)
43. باب مَا جَاءَ مَا يُقْرَأُ فِي رَكْعَتَىِ الطَّوَافِ
43. باب: طواف کی دو رکعت میں کون سی سورت پڑھے؟
Chapter: What Has Been Related About What It To Be Recited During The Two Rak'ah (After) Tawaf
حدیث نمبر: 869
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا ابو مصعب المدني قراءة، عن عبد العزيز بن عمران، عن جعفر بن محمد، عن ابيه، عن جابر بن عبد الله، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " قرا في ركعتي الطواف: بسورتي الإخلاص قل يا ايها الكافرون و قل هو الله احد ".(مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو مُصْعَبٍ الْمَدَنِيُّ قِرَاءَةً، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ عِمْرَانَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " قَرَأَ فِي رَكْعَتَيِ الطَّوَافِ: بِسُورَتَيْ الْإِخْلَاصِ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ وَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ".
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف کی دو رکعت میں اخلاص کی دونوں سورتیں یعنی «قل يا أيها الكافرون» اور «قل هو الله أحد» پڑھیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 2613) (صحیح) (جعفر صادق کے طریق سے صحیح مسلم میں مروی طویل حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ورنہ مولف کی اس سند میں عبدالعزیز بن عمران متروک الحدیث راوی ہے)»

وضاحت:
۱؎: «قل يا أيها الكافرون» کو سورۃ الاخلاص تغلیباً کہا گیا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3074)
حدیث نمبر: 870
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مقطوع) حدثنا هناد، حدثنا وكيع، عن سفيان، عن جعفر بن محمد، عن ابيه، انه كان " يستحب ان يقرا في ركعتي الطواف ب: قل يا ايها الكافرون و قل هو الله احد ". قال ابو عيسى: وهذا اصح من حديث عبد العزيز بن عمران، وحديث جعفر بن محمد، عن ابيه في هذا اصح من حديث جعفر بن محمد، عن ابيه، عن جابر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وعبد العزيز بن عمران ضعيف في الحديث.(مقطوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ كَانَ " يَسْتَحِبُّ أَنْ يَقْرَأَ فِي رَكْعَتَيِ الطَّوَافِ بِ: قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ وَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ عِمْرَانَ، وَحَدِيثُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ فِي هَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عِمْرَانَ ضَعِيفٌ فِي الْحَدِيثِ.
محمد (محمد بن علی الباقر) سے روایت ہے کہ وہ طواف کی دونوں رکعتوں میں: «قل يا أيها الكافرون» اور «قل هو الله أحد» پڑھنے کو مستحب سمجھتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- سفیان کی جعفر بن محمد عن أبیہ کی روایت عبدالعزیز بن عمران کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے،
۲- اور (سفیان کی روایت کردہ) جعفر بن محمد کی حدیث جسے وہ اپنے والد (کے عمل سے) سے روایت کرتے ہیں (عبدالعزیز کی روایت کردہ) جعفر بن محمد کی اس حدیث سے زیادہ صحیح ہے جسے وہ اپنے والد سے اور وہ جابر سے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ۱؎،
۳- عبدالعزیز بن عمران حدیث میں ضعیف ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 19324) (صحیح الإسناد)»

وضاحت:
۱؎: امام ترمذی کے اس قول میں نظر ہے کیونکہ عبدالعزیز بن عمران اس حدیث کو «عن جعفر بن محمد عن أبیہ عن جابر» کے طریق سے روایت کرنے میں منفرد نہیں ہیں، امام مسلم نے اپنی صحیح میں (برقم: ۱۲۱۸) «حاتم بن اسماعیل المدنی عن جعفر بن محمد عن أبیہ عن جابر» کے طریق سے اس حدیث کو روایت کیا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد مقطوعا
44. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الطَّوَافِ عُرْيَانًا
44. باب: ننگے طواف کرنے کی حرمت کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About It Being Disliked To Perform Tawaf While Naked
حدیث نمبر: 871
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(موقوف) حدثنا علي بن خشرم، اخبرنا سفيان بن عيينة، عن ابي إسحاق، عن زيد بن اثيع، قال: سالت عليا باي شيء بعثت، قال: " باربع: لا يدخل الجنة إلا نفس مسلمة، ولا يطوف بالبيت عريان، ولا يجتمع المسلمون والمشركون بعد عامهم هذا، ومن كان بينه وبين النبي صلى الله عليه وسلم عهد، فعهده إلى مدته، ومن لا مدة له فاربعة اشهر ". قال: وفي الباب عن ابي هريرة. قال ابو عيسى: حديث علي حديث حسن. ح(موقوف) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ زَيْدِ بْنِ أُثَيْعٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عَلِيًّا بِأَيِّ شَيْءٍ بُعِثْتَ، قَالَ: " بِأَرْبَعٍ: لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا نَفْسٌ مُسْلِمَةٌ، وَلَا يَطُوفُ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ، وَلَا يَجْتَمِعُ الْمُسْلِمُونَ وَالْمُشْرِكُونَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَذَا، وَمَنْ كَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهْدٌ، فَعَهْدُهُ إِلَى مُدَّتِهِ، وَمَنْ لَا مُدَّةَ لَهُ فَأَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ. ح
زید بن اثیع کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی الله عنہ سے پوچھا: آپ کو کن باتوں کا حکم دے کر بھیجا گیا ہے؟ ۱؎ انہوں نے کہا: چار باتوں کا: جنت میں صرف وہی جان داخل ہو گی جو مسلمان ہو، بیت اللہ کا طواف کوئی ننگا ہو کر نہ کرے۔ مسلمان اور مشرک اس سال کے بعد جمع نہ ہوں، جس کسی کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی عہد ہو تو اس کا یہ عہد اس کی مدت تک کے لیے ہو گا۔ اور جس کی کوئی مدت نہ ہو تو اس کی مدت چار ماہ ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- علی رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے،
۲- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف، وأعادہ في تفسیر التوبة (3092) (تحفة الأشراف: 10101) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ اس سال کے حج کی بات ہے جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی الله عنہ کو حج کا امیر بنا کر بھیجا تھا، (آٹھویں یا نویں سال ہجرت میں) اور پھر اللہ عزوجل کی طرف سے حرم مکی میں مشرکین و کفار کے داخلہ پر پابندی کا حکم نازل ہو جانے کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی الله عنہ کو ابوبکر رضی الله عنہ کے پاس مکہ میں یہ احکام دے کر روانہ فرمایا تھا، راوی حدیث زید بن اثیع الہمدانی ان سے انہی احکام و اوامر کے بارے میں دریافت کر رہے ہیں جو ان کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دے کر بھیجا گیا تھا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (1101)
حدیث نمبر: 872
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(موقوف) حدثنا ابن ابي عمر، ونصر بن علي، قالا: حدثنا سفيان بن عيينة، عن ابي إسحاق نحوه، وقالا: زيد بن يثيع وهذا اصح. قال ابو عيسى: وشعبة وهم فيه، فقال: زيد بن اثيل.(موقوف) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، وَنَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق نَحْوَهُ، وَقَالَا: زَيْدُ بْنُ يُثَيْعٍ وَهَذَا أَصَحُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَشُعْبَةُ وَهِمَ فِيهِ، فَقَالَ: زَيْدُ بْنُ أُثَيْلٍ.
ہم سے ابن ابی عمر اور نصر بن علی نے بیان کیا، یہ دونوں کہتے ہیں کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا اور سفیان نے ابواسحاق سبیعی سے اسی طرح کی حدیث روایت کی، البتہ ابن ابی عمر اور نصر بن علی نے (زید بن اثیع کے بجائے) زید بن یثیع کہا ہے، اور یہ زیادہ صحیح ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
شعبہ کو اس میں وہم ہوا ہے، انہوں نے: زید بن اثیل کہا ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح انظر ما قبله (871)
45. باب مَا جَاءَ فِي دُخُولِ الْكَعْبَةِ
45. باب: کعبہ کے اندر داخل ہونے کا بیان۔
Chapter: What has been Related About Entering The Ka'bah
حدیث نمبر: 873
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا وكيع، عن إسماعيل بن عبد الملك، عن ابن ابي مليكة، عن عائشة، قالت: " خرج النبي صلى الله عليه وسلم من عندي وهو قرير العين طيب النفس، فرجع إلي وهو حزين، فقلت له: فقال: " إني دخلت الكعبة ووددت اني لم اكن فعلت إني اخاف ان اكون اتعبت امتي من بعدي ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِي وَهُوَ قَرِيرُ الْعَيْنِ طَيِّبُ النَّفْسِ، فَرَجَعَ إِلَيَّ وَهُوَ حَزِينٌ، فَقُلْتُ لَهُ: فَقَالَ: " إِنِّي دَخَلْتُ الْكَعْبَةَ وَوَدِدْتُ أَنِّي لَمْ أَكُنْ فَعَلْتُ إِنِّي أَخَافُ أَنْ أَكُونَ أَتْعَبْتُ أُمَّتِي مِنْ بَعْدِي ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے نکل کر گئے، آپ کی آنکھیں ٹھنڈی تھیں اور طبیعت خوش، پھر میرے پاس لوٹ کر آئے، تو غمگین اور افسردہ تھے، میں نے آپ سے (وجہ) پوچھی، تو آپ نے فرمایا: میں کعبہ کے اندر گیا۔ اور میری خواہش ہوئی کہ کاش میں نے ایسا نہ کیا ہوتا۔ میں ڈر رہا ہوں کہ اپنے بعد میں نے اپنی امت کو زحمت میں ڈال دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الحج 95 (2029)، سنن ابن ماجہ/المناسک (79) (3064) (تحفة الأشراف: 16230) (ضعیف) (اس کے راوی ”اسماعیل بن عبدالملک“ کثیرالوہم ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (3064) // ضعيف سنن ابن ماجة (656)، ضعيف الجامع الصغير (2085)، ضعيف أبي داود (440 / 2029) //
46. باب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ فِي الْكَعْبَةِ
46. باب: کعبہ کے اندر نماز پڑھنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Salat In The Ka'bah
حدیث نمبر: 874
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا حماد بن زيد، عن عمرو بن دينار، عن ابن عمر، عن بلال، ان النبي صلى الله عليه وسلم " صلى في جوف الكعبة ". قال ابن عباس: لم يصل ولكنه كبر، قال: وفي الباب عن اسامة بن زيد، والفضل بن عباس، وعثمان بن طلحة، وشيبة بن عثمان. قال ابو عيسى: حديث بلال حديث حسن صحيح، والعمل عليه عند اكثر اهل العلم لا يرون بالصلاة في الكعبة باسا، وقال مالك بن انس: لا باس بالصلاة النافلة في الكعبة، وكره ان تصلى المكتوبة في الكعبة، وقال الشافعي: لا باس ان تصلى المكتوبة والتطوع في الكعبة، لان حكم النافلة والمكتوبة في الطهارة والقبلة سواء.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ بِلَالٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " صَلَّى فِي جَوْفِ الْكَعْبَةِ ". قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَمْ يُصَلِّ وَلَكِنَّهُ كَبَّرَ، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، وَالْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ، وَعُثْمَانَ بْنِ طَلْحَةَ، وَشَيْبَةَ بْنِ عُثْمَانَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ بِلَالٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ لَا يَرَوْنَ بِالصَّلَاةِ فِي الْكَعْبَةِ بَأْسًا، وقَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ: لَا بَأْسَ بِالصَّلَاةِ النَّافِلَةِ فِي الْكَعْبَةِ، وَكَرِهَ أَنْ تُصَلَّى الْمَكْتُوبَةُ فِي الْكَعْبَةِ، وقَالَ الشَّافِعِيُّ: لَا بَأْسَ أَنْ تُصَلَّى الْمَكْتُوبَةُ وَالتَّطَوُّعُ فِي الْكَعْبَةِ، لِأَنَّ حُكْمَ النَّافِلَةِ وَالْمَكْتُوبَةِ فِي الطَّهَارَةِ وَالْقِبْلَةِ سَوَاءٌ.
بلال رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کے اندر نماز پڑھی۔ جب کہ ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: آپ نے نماز نہیں پڑھی بلکہ آپ نے صرف تکبیر کہی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- بلال رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں اسامہ بن زید، فضل بن عباس، عثمان بن طلحہ اور شیبہ بن عثمان رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ وہ کعبہ کے اندر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے،
۴- مالک بن انس کہتے ہیں: کعبے میں نفل نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، اور انہوں نے کعبہ کے اندر فرض نماز پڑھنے کو مکروہ کہا ہے،
۵- شافعی کہتے ہیں: کعبہ کے اندر فرض اور نفل کوئی بھی نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں اس لیے کہ نفل اور فرض کا حکم وضو اور قبلے کے بارے میں ایک ہی ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 2039) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الصلاة 30 (397)، و81 (486)، و96 (504)، والتہجد 25 (1167)، والحج 51 (1598)، والجہاد 127 (2988)، والمغازي 49 (4289)، و77 (4400)، صحیح مسلم/الحج 28 (1329)، سنن ابی داود/ الحج 93 (2023)، سنن النسائی/المساجد 5 (691)، والقبلة 6 (748)، والحج 126 (2908)، و127 (2909)، سنن ابن ماجہ/المناسک 79 (3063)، موطا امام مالک/الحج 63 (193)، مسند احمد (2/33، 55، 113، 1200، 138)، سنن الدارمی/المناسک 43 (1908) من غیر ہذا الطریق وبتغیر یسیر فی السیاق۔»

وضاحت:
۱؎: راجح بلال رضی الله عنہ کی روایت ہے کیونکہ اس سے کعبہ کے اندر نماز پڑھنا ثابت ہو رہا ہے، رہی ابن عباس رضی الله عنہما کی نفی، تو یہ نفی ان کے اپنے علم کی بنیاد پر ہے کیونکہ اسامہ بن زید رضی الله عنہما نے انہیں اسی کی خبر دی تھی اور اسامہ کے اس سے انکار کی وجہ یہ ہے کہ جب یہ لوگ کعبہ کے اندر گئے تو ان لوگوں نے دروازہ بند کر لیا اور ذکر و دعا میں مشغول ہو گئے جب اسامہ نے دیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دعا میں مشغول ہیں تو وہ بھی ایک گوشے میں جا کر دعا میں مشغول ہو گئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے گوشے میں تھے اور بلال رضی الله عنہ آپ سے قریب تھے اور آپ دونوں کے بیچ میں تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز چونکہ بہت ہلکی تھی اور اسامہ خود ذکر و دعا میں مشغول و منہمک تھے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بیچ میں بلال حائل تھے اس لیے اسامہ کو آپ کے نماز پڑھنے کا علم نہ ہو سکا ہو گا اسی بنا پر انہوں نے اس کی نفی کی، «واللہ اعلم» ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3063)
47. باب مَا جَاءَ فِي كَسْرِ الْكَعْبَةِ
47. باب: کعبہ میں توڑ پھوڑ کرنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Demolishing The Ka'bah
حدیث نمبر: 875
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو داود، عن شعبة، عن ابي إسحاق، عن الاسود بن يزيد، ان ابن الزبير، قال له: حدثني بما كانت تفضي إليك ام المؤمنين يعني عائشة، فقال: حدثتني ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال لها: " لولا ان قومك حديثو عهد بالجاهلية لهدمت الكعبة وجعلت لها بابين ". قال: فلما ملك ابن الزبير هدمها وجعل لها بابين. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ، أَنَّ ابْنَ الزُّبَيْرِ، قَالَ لَهُ: حَدِّثْنِي بِمَا كَانَتْ تُفْضِي إِلَيْكَ أُمُّ الْمُؤْمِنِينَ يَعْنِي عَائِشَةَ، فَقَالَ: حَدَّثَتْنِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهَا: " لَوْلَا أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثُو عَهْدٍ بِالْجَاهِلِيَّةِ لَهَدَمْتُ الْكَعْبَةَ وَجَعَلْتُ لَهَا بَابيْنِ ". قَالَ: فَلَمَّا مَلَكَ ابْنُ الزُّبَيْرِ هَدَمَهَا وَجَعَلَ لَهَا بَابيْنِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
اسود بن یزید سے روایت ہے کہ عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہما نے ان سے کہا: تم مجھ سے وہ باتیں بیان کرو، جسے ام المؤمنین یعنی عائشہ رضی الله عنہا تم سے رازدارانہ طور سے بیان کیا کرتی تھیں، انہوں نے کہا: مجھ سے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: اگر تمہاری قوم کے لوگ جاہلیت چھوڑ کر نئے نئے مسلمان نہ ہوئے ہوتے، تو میں کعبہ کو گرا دیتا اور اس میں دو دروازے کر دیتا، چنانچہ ابن زبیر رضی الله عنہما جب اقتدار میں آئے تو انہوں نے کعبہ گرا کر اس میں دو دروازے کر دیئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الحج 125 (2905) (تحفة الأشراف: 16030) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الحج 42 (1583)، والأنبیاء 10 (3368)، وتفسیر البقرة 10 (4484)، صحیح مسلم/الحج 69 (1333)، سنن النسائی/الحج 125 (2903)، موطا امام مالک/الحج 33 (104)، مسند احمد (6/113، 177، 247، 253، 252) من غیر ہذا الطریق وبتغیر یسیر في السیاق۔»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (875)
48. باب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ فِي الْحِجْرِ
48. باب: حطیم میں نماز پڑھنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Salat In The Hijr
حدیث نمبر: 876
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن علقمة بن ابي علقمة، عن امه، عن عائشة، قالت: " كنت احب ان ادخل البيت فاصلي فيه، فاخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم بيدي فادخلني الحجر، فقال: " صلي في الحجر إن اردت دخول البيت، فإنما هو قطعة من البيت، ولكن قومك استقصروه حين بنوا الكعبة، فاخرجوه من البيت ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وعلقمة بن ابي علقمة هو علقمة بن بلال.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ أَبِي عَلْقَمَةَ، عَنْ أُمِّهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " كُنْتُ أُحِبُّ أَنْ أَدْخُلَ الْبَيْتَ فَأُصَلِّيَ فِيهِ، فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِي فَأَدْخَلَنِي الْحِجْرَ، فَقَالَ: " صَلِّي فِي الْحِجْرِ إِنْ أَرَدْتِ دُخُولَ الْبَيْتِ، فَإِنَّمَا هُوَ قِطْعَةٌ مِنْ الْبَيْتِ، وَلَكِنَّ قَوْمَكِ اسْتَقْصَرُوهُ حِينَ بَنَوْا الْكَعْبَةَ، فَأَخْرَجُوهُ مِنْ الْبَيْتِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَعَلْقَمَةُ بْنُ أَبِي عَلْقَمَةَ هُوَ عَلْقَمَةُ بْنُ بِلَالٍ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: میں چاہتی تھی کہ بیت اللہ میں داخل ہو کر اس میں نماز پڑھوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے حطیم ۱؎ کے اندر کر دیا اور فرمایا: اگر تم بیت اللہ کے اندر داخل ہونا چاہتی ہو تو حطیم میں نماز پڑھ لو، یہ بھی بیت اللہ کا ایک حصہ ہے، لیکن تمہاری قوم کے لوگوں نے کعبہ کی تعمیر کے وقت اسے چھوٹا کر دیا، اور اتنے حصہ کو بیت اللہ سے خارج کر دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الحج 94 (2028)، سنن النسائی/الحج 128 (2915) (تحفة الأشراف: 17961)، مسند احمد (6/92) (حسن صحیح)»

وضاحت:
۱؎: حطیم کعبہ کے شمالی جانب ایک طرف کا چھوٹا ہوا حصہ ہے جو گول دائرے میں دیوار سے گھیر دیا گیا ہے، یہ بھی بیت اللہ کا ایک حصہ ہے اس لیے طواف اس کے باہر سے کرنا چاہیئے، اگر کوئی طواف میں حطیم کو چھوڑ دے اور اس کے اندر سے آئے تو طواف درست نہ ہو گا۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، صحيح أبي داود (1769)، الصحيحة (43)

Previous    3    4    5    6    7    8    9    10    11    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.