سنن ابي داود
محمد بن شهاب الزهري (حدثنا / عن) عبد الرحمن بن كعب الأنصاري
نوٹ: یہ رزلٹ صرف سنن ابی داود کی چند احادیث پر مشتمل ہے مکمل ریکارڈ کب پیش ہو رہا ہے جاننے کے لیے رابطہ کیجئیے۔
کتاب
حدیث نمبر
عربی متن
اردو ترجمہ
حکم البانی
سنن ابي داود
2605
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَلَّمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجُ فِي سَفَرٍ إِلَّا يَوْمَ الْخَمِيسِ.
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بہت کم ایسا ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعرات کے علاوہ کسی اور دن سفر میں نکلیں (یعنی آپ اکثر جمعرات ہی کو نکلتے تھے)۔
صحيح
سنن ابي داود
2637
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ ثَوْرٍ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَرَادَ غَزْوَةً وَرَّى غَيْرَهَا، وَكَانَ يَقُولُ:" الْحَرْبُ خَدْعَةٌ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: لَمْ يَجِئْ بِهِ إِلَّا مَعْمَرٌ يُرِيدُ قَوْلَهُ الْحَرْبُ خَدْعَةٌ بِهَذَا الْإِسْنَادِ إِنَّمَا يُرْوَى مِنْ حَدِيثِ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ جَابِرٍ، وَمِنْ حَدِيثِ مَعْمَرٍ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی غزوہ کا ارادہ کرتے تو جس سمت جانا ہوتا اس کے علاوہ کا توریہ ۱؎ کرتے اور فرماتے: جنگ دھوکہ کا نام ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے معمر کے سوا کسی اور نے اس سند سے نہیں روایت کیا ہے، وہ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول «الحرب خدعة» کو مراد لے رہے ہیں، یہ لفظ صرف عمرو بن دینار کے واسطے سے جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے یا معمر کے واسطے سے ہمام بن منبہ سے مروی ہے جسے وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔
صحيح ق دون الشطر الثاني
سنن ابي داود
3004
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّ كُفَّارَ قُرَيْشٍ كَتَبُوا إِلَى ابْنِ أُبَيٍّ وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ مَعَهُ الأَوْثَانَ مِن الأَوْسِ وَ الْخَزْرَجِ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ بِالْمَدِينَةِ قَبْلَ وَقْعَةِ بَدْرٍ إِنَّكُمْ آوَيْتُمْ صَاحِبَنَا وَإِنَّا نُقْسِمُ بِاللَّهِ لَتُقَاتِلُنَّهُ أَوْ لَتُخْرِجُنَّهُ أَوْ لَنَسِيرَنَّ إِلَيْكُمْ بِأَجْمَعِنَا حَتَّى نَقْتُلَ مُقَاتِلَتَكُمْ وَنَسْتَبِيحَ نِسَاءَكُمْ، فَلَمَّا بَلَغَ ذَلِكَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ وَمَنْ كَانَ مَعَهُ مِنْ عَبَدَةِ الأَوْثَانِ اجْتَمَعُوا لِقِتَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا بَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقِيَهُمْ فَقَالَ:" لَقَدْ بَلَغَ وَعِيدُ قُرَيْشٍ مِنْكُمُ الْمَبَالِغَ مَا كَانَتْ تَكِيدُكُمْ بِأَكْثَرَ مِمَّا تُرِيدُونَ أَنْ تَكِيدُوا بِهِ أَنْفُسَكُمْ تُرِيدُونَ أَنْ تُقَاتِلُوا أَبْنَاءَكُمْ وَإِخْوَانَكُمْ، فَلَمَّا سَمِعُوا ذَلِكَ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَفَرَّقُوا، فَبَلَغَ ذَلِكَ كُفَّارَ قُرَيْشٍ فَكَتَبَتْ كُفَّارُ قُرَيْشٍ بَعْدَ وَقْعَةِ بَدْرٍ إِلَى الْيَهُودِ إِنَّكُمْ أَهْلُ الْحَلْقَةِ وَالْحُصُونِ وَإِنَّكُمْ لَتُقَاتِلُنَّ صَاحِبَنَا أَوْ لَنَفْعَلَنَّ كَذَا وَكَذَا وَلَا يَحُولُ بَيْنَنَا وَبَيْنَ خَدَمِ نِسَائِكُمْ شَيْءٌ وَهِيَ الْخَلَاخِيلُ، فَلَمَّا بَلَغَ كِتَابُهُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْمَعَتْ بَنُو النَّضِيرِ بِالْغَدْرِ فَأَرْسَلُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اخْرُجْ إِلَيْنَا فِي ثَلَاثِينَ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِكَ وَلْيَخْرُجْ مِنَّا ثَلَاثُونَ حَبْرًا حَتَّى نَلْتَقِيَ بِمَكَانِ الْمَنْصَفِ فَيَسْمَعُوا مِنْكَ فَإِنْ صَدَّقُوكَ وَآمَنُوا بِكَ آمَنَّا بِكَ فَقَصَّ خَبَرَهُمْ، فَلَمَّا كَانَ الْغَدُ غَدَا عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْكَتَائِبِ فَحَصَرَهُمْ فَقَالَ: لَهُمْ إِنَّكُمْ وَاللَّهِ لَا تَأْمَنُونَ عِنْدِي إِلَّا بِعَهْدٍ تُعَاهِدُونِي عَلَيْهِ"، فَأَبَوْا أَنْ يُعْطُوهُ عَهْدًا فَقَاتَلَهُمْ يَوْمَهُمْ ذَلِكَ، ثُمَّ غَدَا الْغَدُ عَلَى بَنِي قُرَيْظَةَ بِالْكَتَائِبِ وَتَرَكَ بَنِي النَّضِيرِ وَدَعَاهُمْ إِلَى أَنْ يُعَاهِدُوهُ فَعَاهَدُوهُ فَانْصَرَفَ عَنْهُمْ وَغَدَا عَلَى بَنِي النَّضِيرِ بِالْكَتَائِبِ فَقَاتَلَهُمْ حَتَّى نَزَلُوا عَلَى الْجَلَاءِ فَجَلَتْ بَنُو النَّضِيرِ وَاحْتَمَلُوا مَا أَقَلَّتِ الإِبِلُ مِنْ أَمْتِعَتِهِمْ وَأَبْوَابِ بُيُوتِهِمْ وَخَشَبِهَا، فَكَانَ نَخْلُ بَنِي النَّضِيرِ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاصَّةً أَعْطَاهُ اللَّهُ إِيَّاهَا وَخَصَّهُ بِهَا فَقَالَ: وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلا رِكَابٍ سورة الحشر آية 6، يَقُولُ: بِغَيْرِ قِتَالٍ، فَأَعْطَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكْثَرَهَا لِلْمُهَاجِرِينَ، وَقَسَمَهَا بَيْنَهُمْ وَقَسَمَ مِنْهَا لِرَجُلَيْنِ مِنَ الأَنْصَارِ، وَكَانَا ذَوِي حَاجَةٍ لَمْ يَقْسِمْ لِأَحَدٍ مِنَ الأَنْصَارِ غَيْرِهِمَا، وَبَقِيَ مِنْهَا صَدَقَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّتِي فِي أَيْدِي بَنِي فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا.
عبدالرحمٰن بن کعب بن مالک ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ کفار قریش نے اس وقت جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آ گئے تھے اور جنگ بدر پیش نہ آئی تھی عبداللہ بن ابی اور اس کے اوس و خزرج کے بت پرست ساتھیوں کو لکھا کہ تم نے ہمارے ساتھی (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اپنے یہاں پناہ دی ہے، ہم اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ تم اس سے لڑ بھڑ (کر اسے قتل کر دو) یا اسے وہاں سے نکال دو، نہیں تو ہم سب مل کر تمہارے اوپر حملہ کر دیں گے، تمہارے لڑنے کے قابل لوگوں کو قتل کر دیں گے اور تمہاری عورتوں کو اپنے لیے مباح کر لیں گے۔ جب یہ خط عبداللہ بن ابی اور اس کے بت پرست ساتھیوں کو پہنچا تو وہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑنے کے لیے جمع ہوئے، جب یہ خبر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ جا کر ان سے ملے اور انہیں سمجھایا کہ قریش کی دھمکی اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی دھمکی ہے، قریش تمہیں اتنا ضرر نہیں پہنچا سکتے جتنا تم خود اپنے تئیں ضرر پہنچا سکتے ہو، کیونکہ تم اپنے بیٹوں اور اپنے بھائیوں سے لڑنا چاہتے ہو، جب ان لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا تو وہ آپس میں ایک رائے نہیں رہے، بٹ گئے، (جنگ کا ارادہ سب کا نہیں رہا) تو یہ بات کفار قریش کو پہنچی تو انہوں نے واقعہ بدر کے بعد پھر اہل یہود کو خط لکھا کہ تم لوگ ہتھیار اور قلعہ والے ہو تم ہمارے ساتھی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) سے لڑو نہیں تو ہم تمہاری ایسی تیسی کر دیں گے (یعنی قتل کریں گے) اور ہمارے درمیان اور تمہاری عورتوں کی پنڈلیوں و پازیبوں کے درمیان کوئی چیز حائل نہ ہو گی، جب ان کا خط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ لگا، تو بنو نضیر نے فریب دہی و عہدشکنی کا پلان بنا لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہلا بھیجا کہ آپ اپنے اصحاب میں سے تیس آدمی لے کر ہماری طرف نکلئے، اور ہمارے بھی تیس عالم نکل کر آپ سے ایک درمیانی مقام میں رہیں گے، وہ آپ کی گفتگو سنیں گے اگر آپ کی تصدیق کریں گے اور آپ پر ایمان لائیں گے تو ہم سب آپ پر ایمان لے آئیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے ان کی یہ سب باتیں بیان کر دیں، دوسرے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا لشکر لے کر ان کی طرف گئے اور ان کا محاصرہ کر لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: اللہ کی قسم ہمیں تم پر اس وقت تک اطمینان نہ ہو گا جب تک کہ تم ہم سے معاہدہ نہ کر لو گے، تو انہوں نے عہد دینے سے انکار کیا (کیونکہ ان کا ارادہ دھوکہ دینے کا تھا)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس دن جنگ کی، پھر دوسرے دن آپ نے اپنے لشکر کو لے کر قریظہ کے یہودیوں پر چڑھائی کر دی اور بنو نضیر کو چھوڑ دیا اور ان سے کہا: تم ہم سے معاہدہ کر لو، انہوں نے معاہدہ کر لیا کہ (ہم آپ سے نہ لڑیں گے اور نہ آپ کے دشمن کی مدد کریں گے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنو قریظہ سے معاہدہ کر کے واپس آ گئے، دوسرے دن پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوجی دستے لے کر بنو نضیر کی طرف بڑھے اور ان سے جنگ کی یہاں تک کہ وہ جلا وطن ہو جانے پر راضی ہو گئے تو وہ جلا وطن کر دئیے گئے، اور ان کے اونٹ ان کا جتنا مال و اسباب گھروں کے دروازے اور کاٹ کباڑ لاد کر لے جا سکے وہ سب لاد کر لے گئے، ان کے کھجوروں کے باغ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص ہو گئے، اللہ نے انہیں آپ کو عطا کر دیا، اور آپ کے لیے خاص کر دیا، اور ارشاد فرمایا: «وما أفاء الله على رسوله منهم فما أوجفتم عليه من خيل ولا ركاب» اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو کافروں کے مال میں سے جو کچھ عطا کیا ہے وہ تمہارے اونٹ اور گھوڑے دوڑانے یعنی جنگ کرنے کے نتیجہ میں نہیں دیا ہے (سورۃ الحشر: ۶)۔ راوی کہتے ہیں: «فما أوجفتم عليه من خيل ولا ركاب» کے معنی ہیں جو آپ کو بغیر لڑائی کے حاصل ہوا ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا زیادہ تر حصہ مہاجرین کو دیا اور انہیں کے درمیان تقسیم فرمایا اور اس میں سے آپ نے دو ضرورت مند انصاریوں کو بھی دیا، ان دو کے علاوہ کسی دوسرے انصاری کو نہیں دیا، اور جس قدر باقی رہا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صدقہ تھا جو فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد کے ہاتھ میں رہا۔
صحيح الإسناد

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.