سنن ابي داود
محمد بن شهاب الزهري (حدثنا / عن) عروة بن الزبير الأسدي
نوٹ: یہ رزلٹ صرف سنن ابی داود کی چند احادیث پر مشتمل ہے مکمل ریکارڈ کب پیش ہو رہا ہے جاننے کے لیے رابطہ کیجئیے۔
کتاب
حدیث نمبر
عربی متن
اردو ترجمہ
حکم البانی
سنن ابي داود
237
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: قَالَ عُرْوَةُ، عَنْ عَائِشَةَ،" أَنَّ أُمَّ سُلَيْمٍ الْأَنْصَارِيَّةَ هِيَ أُمُّ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ، أَرَأَيْتَ الْمَرْأَةَ إِذَا رَأَتْ فِي النَّوْمِ مَا يَرَى الرَّجُلُ، أَتَغْتَسِلُ أَمْ لَا؟ قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نَعَمْ، فَلْتَغْتَسِلْ إِذَا وَجَدَتِ الْمَاءَ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَأَقْبَلْتُ عَلَيْهَا، فَقُلْتُ: أُفٍّ لَكِ، وَهَلْ تَرَى ذَلِكَ الْمَرْأَةُ؟ فَأَقْبَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: تَرِبَتْ يَمِينُكِ يَا عَائِشَةُ، وَمِنْ أَيْنَ يَكُونُ الشَّبَهُ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَكَذَلِكَ رَوَى عُقيْلٌ، وَالزُّبَيْدِيُّ،وَيُونُسُ، وَابْنُ أَخِي الزُّهْرِيِّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي الْوَزِيرِ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، وَوَافَقَ الزُّهْرِيُّ مُسَافِعًا الْحَجَبِيَّ، قَالَ: عَنْ عُرْوَةَ،عَنْ عَائِشَةَ، وَأَمَّا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، فَقَالَ: عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّ أُمَّ سُلَيْمٍ جَاءَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ام سلیم انصاریہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی والدہ نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ عزوجل حق سے نہیں شرماتا، آپ ہمیں بتائیے اگر عورت سوتے میں وہ چیز دیکھے جو مرد دیکھتا ہے تو کیا وہ غسل کرے یا نہیں؟ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں جب وہ تری دیکھے تو ضرور غسل کرے۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں ام سلیم کی طرف متوجہ ہوئی اور میں نے ان سے کہا: تجھ پر افسوس! کیا عورت بھی ایسا دیکھتی ہے؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: عائشہ! تیرا داہنا ہاتھ خاک آلود ہو ۱؎ (والدین اور ان کی اولاد میں) مشابہت کہاں سے ہوتی ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
238
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،" أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَغْتَسِلُ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ هُوَ الْفَرَقُ مِنَ الْجَنَابَةِ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَرَوَى ابْنُ عُيَيْنَةَ نَحْوَ حَدِيثِ مَالِكٍ، قَالَ أَبُو دَاوُد: قَالَ مَعْمَرٌ: عَنْ الزُّهْرِيِّ، فِي هَذَا الْحَدِيثِ، قَالَتْ: كُنْتُ أَغْتَسِلُ أَنَا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ، فِيهِ قَدْرُ الْفَرَقِ، قَالَ أَبُو دَاوُد: سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ، يَقُولُ: الْفَرَقُ: سِتَّةُ عَشَرَ رِطْلًا، وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: صَاعُ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ خَمْسَةُ أَرْطَالٍ وَثُلُثٌ، قَالَ: فَمَنْ قَالَ ثَمَانِيَةُ أَرْطَالٍ؟ قَالَ: لَيْسَ ذَلِكَ بِمَحْفُوظٍ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وسَمِعْت أَحْمَدَ يَقُولُ: مَنْ أَعْطَى فِي صَدَقَةِ الْفِطْرِ بِرِطْلِنَا هَذَا خَمْسَةَ أَرْطَالٍ وَثُلُثًا، فَقَدْ أَوْفَى، قِيلَ: الصَّيْحَانِيُّ ثَقِيلٌ، قَالَ: الصَّيْحَانِيُّ أَطْيَبُ، قَالَ: لَا أَدْرِي.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غسل جنابت ایک ایسے برتن سے کرتے تھے جس کا نام فرق ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابن عیینہ نے بھی مالک کی حدیث کی طرح روایت کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: معمر نے اس حدیث میں زہری سے روایت کی ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن سے غسل کرتے، جس میں ایک فرق (پیمانہ) کی مقدار پانی ہوتا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے احمد بن حنبل کو کہتے سنا کہ فرق سولہ رطل کا ہوتا ہے، میں نے انہیں یہ بھی کہتے سنا کہ ابن ابی ذئب کا صاع پانچ رطل اور تہائی رطل کا تھا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: کس نے کہا ہے کہ صاع آٹھ رطل کا ہوتا ہے؟ فرمایا: اس کا یہ (قول) محفوظ نہیں ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے احمد بن حنبل کو کہتے سنا ہے: جس شخص نے صدقہ فطر ہمارے اس رطل سے پانچ رطل اور تہائی رطل دیا اس نے پورا دیا، ان سے کہا گیا: صیحانی ۱؎ وزنی ہوتی ہے، ابوداؤد نے کہا: صیحانی عمدہ کھجور ہے، آپ نے فرمایا: مجھے نہیں معلوم۔
صحيح
سنن ابي داود
281
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ سُهَيْلٍ يَعْنِي ابْنَ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، حَدَّثَتْنِي فَاطِمَةُ بِنْتُ أَبِي حُبَيْشٍ، أَنَّهَا أَمَرَتْ أَسْمَاءَ، أَوْ أَسْمَاءُ حَدَّثَتْنِي أَنَّهَا أَمَرَتْهَا فَاطِمَةُ بِنْتُ أَبِي حُبَيْشٍ، أَنْ تَسْأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" فَأَمَرَهَا أَنْ تَقْعُدَ الْأَيَّامَ الَّتِي كَانَتْ تَقْعُدُ ثُمَّ تَغْتَسِلُ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَرَوَاهُ قَتَادَةُ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّ أُمَّ حَبِيبَةَ بِنْتَ جَحْشٍ اسْتُحِيضَتْ، فَأَمَرَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تَدَعَ الصَّلَاةَ أَيَّامَ أَقْرَائِهَا، ثُمَّ تَغْتَسِلَ وَتُصَلِّيَ، قَالَ أَبُو دَاوُد: لَمْ يَسْمَعْ قَتَادَةُ مِنْ عُرْوَةَ شَيْئًا، وَزَادَ ابْنُ عُيَيْنَةَ فِي حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ أُمَّ حَبِيبَةَ كَانَتْ تُسْتَحَاضُ، فَسَأَلَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَرَهَا أَنْ تَدَعَ الصَّلَاةَ أَيَّامَ أَقْرَائِهَا، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهَذَا وَهْمٌ مِنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ، لَيْسَ هَذَا فِي حَدِيثِ الْحِفَاظِ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، إِلَّا مَا ذَكَرَ سُهَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ، وَقَدْ رَوَى الْحُمَيْدِيُّ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ، لَمْ يَذْكُرْ فِيهِ: تَدَعُ الصَّلَاةَ أَيَّامَ أَقْرَائِهَا، وَرَوَتْ قَمِيرُ بِنْتُ عَمْرٍو زَوْجُ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، الْمُسْتَحَاضَةُ تَتْرُكُ الصَّلَاةَ أَيَّامَ أَقْرَائِهَا ثُمَّ تَغْتَسِلُ،وقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ: عَنْ أَبِيهِ، إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَمَرَهَا أَنْ تَتْرُكَ الصَّلَاةَ قَدْرَ أَقْرَائِهَا، وَرَوَى أَبُو بِشْرٍ جَعْفَرُ بْنُ أَبِي وَحْشِيَّةَ،عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ أُمَّ حَبِيبَةَ بِنْتَ جَحْشٍ اسْتُحِيضَتْ، فَذَكَرَ مِثْلَهُ، وَرَوَى شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي الْيَقْظَانِ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ،عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْمُسْتَحَاضَةُ تَدَعُ الصَّلَاةَ أَيَّامَ أَقْرَائِهَا، ثُمَّ تَغْتَسِلُ وَتُصَلِّي، وَرَوَى الْعَلَاءُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ، أَنَّ سَوْدَةَ اسْتُحِيضَتْ، فَأَمَرَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا مَضَتْ أَيَّامُهَا، اغْتَسَلَتْ وَصَلَّتْ، وَرَوَى سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، عَنْ عَلِيٍّ،وَابْنِ عَبَّاسٍ، الْمُسْتَحَاضَةُ تَجْلِسُ أَيَّامَ قُرْئِهَا، وَكَذَلِكَ رَوَاهُ عَمَّارٌ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ وَطَلْقُ بْنُ حَبِيبٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَكَذَلِكَ رَوَاهُ مَعْقِلٌ الْخَثْعَمِيُّ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَكَذَلِكَ رَوَى الشَّعْبِيُّ، عَنْ قَمِيرَ امْرَأَةِ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهُوَ قَوْلُ الْحَسَنِ، وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، وَعَطَاء، وَمَكْحُولٍ، وَإِبْرَاهِيمَ، وَسَالِمٍ، وَالْقَاسِمِ، أَنَّ الْمُسْتَحَاضَةَ تَدَعُ الصَّلَاةَ أَيَّامَ أَقْرَائِهَا، قَالَ أَبُو دَاوُد: لَمْ يَسْمَعْ قَتَادَةُ مِنْ عُرْوَةَ شَيْئًا.
عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ مجھ سے فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ انہوں نے اسماء رضی اللہ عنہا کو حکم دیا، یا اسماء نے مجھ سے بیان کیا کہ ان کو فاطمہ بنت ابی حبیش نے حکم دیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (استحاضہ کے خون کے بارے میں) دریافت کریں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ جتنے دن وہ (حیض کے لیے) بیٹھتی تھیں بیٹھی رہیں، پھر غسل کر لیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اور اسے قتادہ نے عروہ بن زبیر سے، عروہ نے زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ ام حبیبہ بنت جحش رضی اللہ عنہا کو استحاضہ کا خون آیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے ایام حیض میں نماز چھوڑ دیں، پھر غسل کریں، اور نماز پڑھیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں: قتادہ نے عروہ سے کچھ نہیں سنا ہے، اور ابن عیینہ نے زہری کی حدیث میں (جسے انہوں نے عمرہ سے اور عمرہ نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے) اضافہ کیا ہے کہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو استحاضہ کی شکایت تھی، تو انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایام حیض میں نماز چھوڑ دینے کا حکم دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ ابن عیینہ کا وہم ہے، کیونکہ زہری سے روایت کرنے والے حفاظ کی روایتوں میں یہ نہیں ہے، اس میں صرف وہی ہے جس کا ذکر سہیل بن ابی صالح نے کیا ہے، حمیدی نے بھی اس حدیث کو ابن عیینہ سے روایت کیا ہے، اس میں ایام حیض میں نماز چھوڑ دینے کا ذکر نہیں ہے۔ مسروق کی بیوی قمیر (قمیر بنت عمرو) نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ مستحاضہ اپنے حیض کے دنوں میں نماز چھوڑ دے گی، پھر غسل کرے گی۔ عبدالرحمٰن بن قاسم نے اپنے والد سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ان کے حیض کے بقدر نماز چھوڑ دینے کا حکم دیا۔ ابوبشر جعفر بن ابی وحشیہ نے عکرمہ رضی اللہ عنہ سے عکرمہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ ام حبیبہ بنت حجش رضی اللہ عنہا کو استحاضہ کا خون آیا، پھر راوی نے پوری حدیث اسی کے ہم مثل بیان کی۔ شریک نے ابوالیقظان سے، انہوں نے عدی بن ثابت سے، عدی نے اپنے والد ثابت سے، ثابت نے اپنے دادا سے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ مستحاضہ اپنے حیض کے ایام میں نماز چھوڑ دے، پھر غسل کرے اور نماز پڑھے۔ اور علاء بن مسیب نے حکم سے انہوں نے ابو جعفر سے روایت کی ہے کہ سودہ رضی اللہ عنہا کو استحاضہ کا خون آیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ جب ان کے ایام حیض گزر جائیں تو وہ غسل کریں اور نماز پڑھیں۔ نیز سعید بن جبیر نے علی اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت کی ہے کہ مستحاضہ اپنے ایام حیض میں بیٹھی رہے گی (نماز نہ پڑھے گی)، اور اسی طرح اسے عمار مولی بنی ہاشم اور طلق بن حبیب نے ابن عباس سے روایت کیا ہے، اور اسی طرح معقل خثعمی نے علی سے، اور اسی طرح شعبی نے مسروق کی بیوی قمیر سے، انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: حسن، سعید بن مسیب، عطاء، مکحول، ابراہیم، سالم اور قاسم کا بھی یہی قول ہے کہ مستحاضہ اپنے ایام حیض میں نماز چھوڑ دے گی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: قتادہ نے عروہ سے کچھ نہیں سنا ہے۔
0
سنن ابي داود
286
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ مُحَمَّدٍ يَعْنِي ابْنَ عَمْرٍو، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ أَبِي حُبَيْشٍ، أَنَّهَا كَانَتْ تُسْتَحَاضُ، فَقَالَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا كَانَ دَمُ الْحَيْضَةِ، فَإِنَّهُ أَسْوَدُ يُعْرَفُ، فَإِذَا كَانَ ذَلِكَ فَأَمْسِكِي عَنِ الصَّلَاةِ، فَإِذَا كَانَ الْآخَرُ فَتَوَضَّئِي وَصَلِّي، فَإِنَّمَا هُوَ عِرْقٌ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: وقَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا بِهِ ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، مِنْ كِتَابِهِ هَكَذَا، ثُمَّ حَدَّثَنَا بِهِ بَعْدُ حِفْظًا، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ فَاطِمَةَ كَانَتْ تُسْتَحَاضُ، فَذَكَرَ مَعْنَاهُ، قَالَ أَبُو دَاوُد وَقَدْ رَوَى أَنَسُ بْنُ سِيرِينَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِي الْمُسْتَحَاضَةِ، قَالَ: إِذَا رَأَتِ الدَّمَ الْبَحْرَانِيَّ فَلَا تُصَلِّي، وَإِذَا رَأَتِ الطُّهْرَ وَلَوْ سَاعَةً فَلْتَغْتَسِلْ وَتُصَلِّي، وقَالَ مَكْحُولٌ: إِنَّ النِّسَاءَ لَا تَخْفَى عَلَيْهِنَّ الْحَيْضَةُ، إِنَّ دَمَهَا أَسْوَدُ غَلِيظٌ، فَإِذَا ذَهَبَ ذَلِكَ وَصَارَتْ صُفْرَةً رَقِيقَةً، فَإِنَّهَا مُسْتَحَاضَةٌ فَلْتَغْتَسِلْ وَلْتُصَلِّ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَرَوَى حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، فِي الْمُسْتَحَاضَةِ، إِذَا أَقْبَلَتِ الْحَيْضَةُ تَرَكَتِ الصَّلَاةَ، وَإِذَا أَدْبَرَتِ اغْتَسَلَتْ وَصَلَّتْ، وَرَوَى سُمَيٌّ وَغَيْرُهُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، تَجْلِسُ أَيَّامَ أَقْرَائِهَا، وَكَذَلِكَ رَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَرَوَى يُونُسُ، عَنْ الْحَسَنِ، الْحَائِضُ إِذَا مَدَّ بِهَا الدَّمُ تُمْسِكُ بَعْدَ حَيْضَتِهَا يَوْمًا أَوْ يَوْمَيْنِ، فَهِيَ مُسْتَحَاضَةٌ، وقَالَ التَّيْمِيُّ , عَنْ قَتَادَةَ، إِذَا زَادَ عَلَى أَيَّامِ حَيْضِهَا خَمْسَةُ أَيَّامٍ، فَلْتُصَلِّ، وقَالَ التَّيْمِيُّ: فَجَعَلْتُ أَنْقُصُ حَتَّى بَلَغَتْ يَوْمَيْنِ، فَقَالَ: إِذَا كَانَ يَوْمَيْنِ فَهُوَ مِنْ حَيْضِهَا، وسُئِلَ ابْنُ سِيرِينَ عَنْهُ، فَقَالَ: النِّسَاءُ أَعْلَمُ بِذَلِكَ.
فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ انہیں استحاضہ کا خون آتا تھا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: حیض کا خون سیاہ ہوتا ہے جو پہچان لیا جاتا ہے، جب یہ خون آئے تو نماز سے رک جاؤ، اور جب اس کے علاوہ خون ہو تو وضو کرو اور نماز پڑھو، کیونکہ یہ رگ (کا خون) ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابن مثنی کا بیان ہے کہ ابن ابی عدی نے اسے ہم سے اپنی کتاب سے اسی طرح بیان کی ہے پھر اس کے بعد انہوں نے ہم سے اسے زبانی بھی بیان کیا، وہ کہتے ہیں: ہم سے محمد بن عمرو نے بیان کیا ہے، انہوں نے زہری سے، زہری نے عروہ سے اور عروہ نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو استحاضہ کا خون آتا تھا، پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: انس بن سیرین نے مستحاضہ کے سلسلے میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ جب وہ گاڑھا کالا خون دیکھے تو نماز نہ پڑھے اور جب پاکی دیکھے (یعنی کالا خون کا آنا بند ہو جائے) خواہ تھوڑی ہی دیر سہی، تو غسل کرے اور نماز پڑھے۔ اور مکحول نے کہا ہے کہ عورتوں سے حیض کا خون پوشیدہ نہیں ہوتا، اس کا خون کالا اور گاڑھا ہوتا ہے، جب یہ ختم ہو جائے اور زرد اور پتلا ہو جائے، تو وہ (عورت) مستحاضہ ہے، اب اسے غسل کر کے نماز پڑھنی چاہیئے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: مستحاضہ کے بارے میں حماد بن زید نے یحییٰ بن سعید سے، یحییٰ نے قعقاع بن حکیم سے، قعقاع نے سعید بن مسیب سے روایت کی ہے کہ جب حیض آئے تو نماز ترک کر دے، اور جب حیض آنا بند ہو جائے تو غسل کر کے نماز پڑھے۔ سمیّ وغیرہ نے سعید بن مسیب سے روایت کی ہے کہ وہ ایام حیض میں بیٹھی رہے (یعنی نماز سے رکی رہے)۔ ایسے ہی اسے حماد بن سلمہ نے یحییٰ بن سعید سے اور یحییٰ نے سعید بن مسیب سے روایت کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اور یونس نے حسن سے روایت کی ہے کہ حائضہ عورت کا خون جب زیادہ دن تک جاری رہے تو وہ اپنے حیض کے بعد ایک یا دو دن نماز سے رکی رہے، پھر وہ مستحاضہ ہو گی۔ تیمی، قتادہ سے روایت کرتے ہیں کہ جب اس کے حیض کے دنوں سے پانچ دن زیادہ گزر جائیں، تو اب وہ نماز پڑھے۔ تیمی کا بیان ہے کہ میں اس میں سے کم کرتے کرتے دو دن تک آ گیا: جب دو دن زیادہ ہوں تو وہ حیض کے ہی ہیں۔ ابن سیرین سے جب اس کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا: عورتیں اسے زیادہ جانتی ہیں۔
0
سنن ابي داود
290
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ فِيهِ: فَكَانَتْ تَغْتَسِلُ لِكُلِّ صَلَاةٍ، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ الْقَاسِمُ بْنُ مَبْرُورٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ بِنْتِ جَحْشٍ، وَكَذَلِكَ رَوَاهُ مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، وَرُبَّمَا قَالَ مَعْمَرٌ عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، بِمَعْنَاهُ، وَكَذَلِكَ رَوَاهُ إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، وَابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، وَقَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ فِي حَدِيثِهِ: وَلَمْ يَقُلْ إِنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهَا أَنْ تَغْتَسِلَ. وَكَذَلِكَ رَوَاهُ الْأَوْزَاعِيُّ أَيْضًا، قَالَ فِيهِ: قَالَتْ عَائِشَة: فَكَانَتْ تَغْتَسِلُ لِكُلِّ صَلَاةٍ.
اس سند سے بھی ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہی حدیث مروی ہے، اس میں ہے وہ (ام حبیبہ رضی اللہ عنہا) ہر نماز کے لیے غسل کرتی تھیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے قاسم بن مبرور نے یونس سے، انہوں نے ابن شہاب سے، انہوں نے عمرہ سے، انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے، اور انہوں نے ام حبیبہ بنت جحش رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے، اور اسی طرح اسے معمر نے زہری سے، انہوں نے عمرہ سے، اور انہوں نے ام المؤمنین عائشہ سے روایت کی ہے، اور کبھی کبھی معمر نے عمرہ سے، انہوں نے ام حبیبہ سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے، اور اسی طرح اسے ابراہیم بن سعد اور ابن عیینہ نے زہری سے، انہوں نے عمرہ سے، انہوں نے عائشہ سے روایت کی ہے، اور ابن عیینہ نے اپنی روایت میں کہا ہے کہ انہوں (زہری) نے یہ نہیں کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (ام حبیبہ کو) غسل کرنے کا حکم دیا، نیز اسی طرح اسے اوزاعی نے بھی روایت کی ہے اس میں ہے کہ عائشہ نے کہا: وہ ہر نماز کے لیے غسل کرتی تھیں۔
صحيح لم أجدها والصواب أنه من مسند عائشة
سنن ابي داود
292
حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ عَبْدَةَ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ أُمَّ حَبِيبَةَ بِنْتَ جَحْشٍ اسْتُحِيضَتْ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَرَهَا بِالْغُسْلِ لِكُلِّ صَلَاةٍ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَرَوَاهُ أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، وَلَمْ أَسْمَعْهُ مِنْهُ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ كَثِيرٍ، عَنْ الزُّهْرِيّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: اسْتُحِيضَتْ زَيْنَبُ بِنْتُ جَحْشٍ، فَقَالَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اغْتَسِلِي لِكُلِّ صَلَاةٍ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَرَوَاهُ عَبْدُ الصَّمَدِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ كَثِيرٍ، قَالَ: تَوَضَّئِي لِكُلِّ صَلَاةٍ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهَذَا وَهْمٌ مِنْ عَبْدِ الصَّمَدِ، وَالْقَوْلُ فِيهِ قَوْلُ أَبِي الْوَلِيدِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ام حبیبہ بنت حجش رضی اللہ عنہا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں استحاضہ کی شکایت ہوئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہر نماز کے لیے غسل کرنے کا حکم دیا، اور پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ابوالولید طیالسی نے روایت کیا ہے لیکن اسے میں نے ان سے نہیں سنا ہے، انہوں نے سلیمان بن کثیر سے، سلیمان نے زہری سے، زہری نے عروہ سے اور عروہ نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے، وہ کہتی ہیں: ام المؤمنین زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا کو استحاضہ ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: تم ہر نماز کے لیے غسل کر لیا کرو، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: نیز اسے عبدالصمد نے سلیمان بن کثیر سے روایت کیا ہے، اس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ہر نماز کے لیے وضو کرو۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ عبدالصمد کا وہم ہے اور اس سلسلے میں ابوالولید کا قول ہی صحیح ہے۔
0
سنن ابي داود
296
حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ، عَنْ سُهَيْلٍ يَعْنِي ابْنَ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ، قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ أَبِي حُبَيْشٍ اسْتُحِيضَتْ مُنْذُ كَذَا وَكَذَا فَلَمْ تُصَلِّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" سُبْحَانَ اللَّهِ، إِنَّ هَذَا مِنَ الشَّيْطَانِ، لِتَجْلِسْ فِي مِرْكَنٍ فَإِذَا رَأَتْ صُفْرَةً فَوْقَ الْمَاءِ فَلْتَغْتَسِلْ لِلظُّهْرِ وَالْعَصْرِ غُسْلًا وَاحِدًا وَتَغْتَسِلْ لِلْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ غُسْلًا وَاحِدًا وَتَغْتَسِلْ لِلْفَجْرِ غُسْلًا وَاحِدًا وَتَتَوَضَّأْ فِيمَا بَيْنَ ذَلِكَ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ مُجَاهِدٌ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، لَمَّا اشْتَدَّ عَلَيْهَا الْغُسْلُ، أَمَرَهَا أَنْ تَجْمَعَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَرَوَاهُ إِبْرَاهِيمُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَهُوَ قَوْلُ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادٍ.
اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! فاطمہ بنت ابی حبیش کو اتنے اتنے دنوں سے (خون) استحاضہ آ رہا ہے تو وہ نماز نہیں پڑھ سکی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سبحان اللہ! یہ تو شیطان کی طرف سے ہے، وہ ایک لگن میں بیٹھ جائیں، جب پانی پر زردی دیکھیں تو ظہر و عصر کے لیے ایک غسل، مغرب و عشاء کے لیے ایک غسل، اور فجر کے لیے ایک غسل کریں، اور اس کے درمیان میں وضو کرتی رہیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے مجاہد نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے، اس میں ہے کہ جب ان پر غسل کرنا دشوار ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک غسل سے دو نمازیں جمع کرنے کا حکم دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: نیز اسے ابراہیم نے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے اور یہی قول ابراہیم نخعی اور عبداللہ بن شداد کا بھی ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
304
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ مُحَمَّدٍ يَعْنِي ابْنَ عَمْرٍو، حَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ أَبِي حُبَيْشٍ، أَنَّهَا كَانَتْ تُسْتَحَاضُ، فَقَالَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا كَانَ دَمُ الْحَيْضِ فَإِنَّهُ دَمٌ أَسْوَدُ يُعْرَفُ، فَإِذَا كَانَ ذَلِكَ فَأَمْسِكِي عَنِ الصَّلَاةِ، فَإِذَا كَانَ الْآخَرُ فَتَوَضَّئِي وَصَلِّي"، قَالَ أَبُو دَاوُد: قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: وَحَدَّثَنَا بِهِ ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ حِفْظًا، فَقَالَ: عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ فَاطِمَةَ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَرُوِيَ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، وَشُعْبَةَ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ، قَالَ الْعَلَاءُ: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَوْقَفَهُ شُعْبَةُ عَلَى أَبِي جَعْفَرٍ: تَوَضَّأُ لِكُلِّ صَلَاةٍ.
فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ انہیں استحاضہ کی شکایت تھی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: جب حیض کا خون ہو (جو کہ بالکل سیاہ ہوتا ہے اور پہچان لیا جاتا ہے) تو تم نماز سے رک جاؤ اور جب دوسری طرح کا خون آنے لگے تو وضو کرو اور نماز پڑھو۔ ابوداؤد کہتے ہیں کہ ابن مثنی نے کہا ہے کہ ابن ابی عدی نے اسے ہم سے زبانی بیان کیا تو اس میں انہوں نے «عن عروة عن عائشة أن فاطمة» کہا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: نیز یہ حدیث علاء بن مسیب اور شعبہ سے مروی ہے انہوں نے حکم سے اور حکم نے ابو جعفر سے روایت کیا ہے مگر علاء نے اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً اور شعبہ نے ابو جعفر سے موقوفاً بیان کیا ہے، اس میں یہ ہے کہ وہ ہر نماز کے لیے وضو کرے۔
حسن
سنن ابي داود
394
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْمُرَادِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ اللَّيْثِيِّ، أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ كَانَ قَاعِدًا عَلَى الْمِنْبَرِ فَأَخَّرَ الْعَصْرَ شَيْئًا، فَقَالَ لَهُ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ: أَمَا إِنَّ جِبْرِيلَ عليه السلام قَدْ أَخْبَرَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوَقْتِ الصَّلَاةِ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: اعْلَمْ مَا تَقُولُ، فَقَالَ عُرْوَةُ، سَمِعْتُ بَشِيرَ بْنَ أَبِي مَسْعُودٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" نَزَلَ جِبْرِيلُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَنِي بِوَقْتِ الصَّلَاةِ، فَصَلَّيْتُ مَعَهُ ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ، يَحْسُبُ بِأَصَابِعِهِ خَمْسَ صَلَوَاتٍ، فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" صَلَّى الظُّهْرَ حِينَ تَزُولُ الشَّمْسُ وَرُبَّمَا أَخَّرَهَا حِينَ يَشْتَدُّ الْحَرُّ، وَرَأَيْتُهُ يُصَلِّي الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ بَيْضَاءُ قَبْلَ أَنْ تَدْخُلَهَا الصُّفْرَةُ، فَيَنْصَرِفُ الرَّجُلُ مِنَ الصَّلَاةِ فَيَأْتِي ذَا الْحُلَيْفَةِ قَبْلَ غُرُوبِ الشَّمْسِ وَيُصَلِّي الْمَغْرِبَ حِينَ تَسْقُطُ الشَّمْسُ، وَيُصَلِّي الْعِشَاءَ حِينَ يَسْوَدُّ الْأُفُقُ، وَرُبَّمَا أَخَّرَهَا حَتَّى يَجْتَمِعَ النَّاسُ، وَصَلَّى الصُّبْحَ مَرَّةً بِغَلَسٍ ثُمَّ صَلَّى مَرَّةً أُخْرَى فَأَسْفَرَ بِهَا، ثُمَّ كَانَتْ صَلَاتُهُ بَعْدَ ذَلِكَ التَّغْلِيسَ حَتَّى مَاتَ، وَلَمْ يَعُدْ إِلَى أَنْ يُسْفِرَ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَرَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الزُّهْرِيِّ مَعْمَرٌ، وَمَالِكٌ، وَابْنُ عُيَيْنَةَ، وَشُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، وَاللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، وَغَيْرُهُمْ، لَمْ يَذْكُرُوا الْوَقْتَ الَّذِي صَلَّى فِيهِ وَلَمْ يُفَسِّرُوهُ، وَكَذَلِكَ أَيْضًا رَوَاهُ هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، وَحَبِيبُ بْنُ أَبِي مَرْزُوقٍ، عَنْ عُرْوَةَ، نَحْوَ رِوَايَةِ مَعْمَرٍ وَأَصْحَابِهِ، إِلَّا أَنَّ حَبِيبًا لَمْ يَذْكُرْ بَشِيرًا، وَرَوَى وَهْبُ بْنُ كَيْسَانَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقْتَ الْمَغْرِبِ، قَالَ: ثُمَّ جَاءَهُ لِلْمَغْرِبِ حِينَ غَابَتِ الشَّمْسُ يَعْنِي مِنَ الْغَدِ وَقْتًا وَاحِدًا، قَالَ أَبُو دَاوُدَ: وَكَذَلِكَ رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ثُمَّ صَلَّى بِيَ الْمَغْرِبَ يَعْنِي مِنَ الْغَدِ وَقْتًا وَاحِدًا، وَكَذَلِكَ رُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ مِنْ حَدِيثِ حَسَّانَ بْنِ عَطِيَّةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز منبر پر بیٹھے ہوئے تھے، آپ نے عصر میں کچھ تاخیر کر دی، اس پر عروہ بن زبیر نے آپ سے کہا: کیا آپ کو معلوم نہیں کہ جبرائیل علیہ السلام نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کا وقت بتا دیا ہے؟ تو عمر بن عبدالعزیز نے کہا: جو تم کہہ رہے ہو اسے سوچ لو ۱؎۔ عروہ نے کہا: میں نے بشیر بن ابی مسعود کو کہتے سنا، وہ کہتے تھے کہ میں نے ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا، وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ جبرائیل علیہ السلام اترے، انہوں نے مجھے اوقات نماز کی خبر دی، چنانچہ میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی، آپ اپنی انگلیوں پر پانچوں (وقت کی) نماز کو شمار کرتے جا رہے تھے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے سورج ڈھلتے ہی ظہر پڑھی، اور جب کبھی گرمی شدید ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر دیر کر کے پڑھتے۔ اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عصر اس وقت پڑھتے دیکھا جب سورج بالکل بلند و سفید تھا، اس میں زردی نہیں آئی تھی کہ آدمی عصر سے فارغ ہو کر ذوالحلیفہ ۲؎ آتا، تو سورج ڈوبنے سے پہلے وہاں پہنچ جاتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مغرب سورج ڈوبتے ہی پڑھتے اور عشاء اس وقت پڑھتے جب آسمان کے کناروں میں سیاہی آ جاتی، اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء میں دیر کرتے تاکہ لوگ اکٹھا ہو جائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فجر غلس (اندھیرے) میں پڑھی، اور دوسری مرتبہ آپ نے اس میں اسفار ۳؎ کیا یعنی خوب اجالے میں پڑھی، مگر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر ہمیشہ غلس میں پڑھتے رہے یہاں تک کہ آپ کی وفات ہو گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر کبھی اسفار میں نماز نہیں ادا کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث زہری سے: معمر، مالک، ابن عیینہ، شعیب بن ابوحمزہ، لیث بن سعد وغیرہم نے بھی روایت کی ہے لیکن ان سب نے (اپنی روایت میں) اس وقت کا ذکر نہیں کیا، جس میں آپ نے نماز پڑھی، اور نہ ہی ان لوگوں نے اس کی تفسیر کی ہے، نیز ہشام بن عروہ اور حبیب بن ابی مرزوق نے بھی عروہ سے اسی طرح روایت کی ہے جس طرح معمر اور ان کے اصحاب نے روایت کی ہے، مگر حبیب نے (اپنی روایت میں) بشیر کا ذکر نہیں کیا ہے۔ اور وہب بن کیسان نے جابر رضی اللہ عنہ سے، جابر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مغرب کے وقت کی روایت کی ہے، اس میں ہے کہ جبرائیل علیہ السلام دوسرے دن مغرب کے وقت سورج ڈوبنے کے بعد آئے یعنی دونوں دن ایک ہی وقت میں آئے۔ ابوداؤد کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جبرائیل نے مجھے دوسرے دن مغرب ایک ہی وقت میں پڑھائی۔ اسی طرح عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے یعنی حسان بن عطیہ کی حدیث جسے وہ عمرو بن شعیب سے، وہ ان کے والد سے، وہ اپنے دادا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے، اور عبداللہ بن عمرو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔
0
سنن ابي داود
407
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ عُرْوَةُ: وَلَقَدْ حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ،" أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ فِي حُجْرَتِهَا قَبْلَ أَنْ تَظْهَرَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر ایسے وقت میں ادا فرماتے تھے کہ دھوپ میرے حجرے میں ہوتی، ابھی دیواروں پر چڑھی نہ ہوتی۔
صحيح
سنن ابي داود
785
حَدَّثَنَا قَطَنُ بْنُ نُسَيْرٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ الْأَعْرَجُ الْمَكِّيُّ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، وَذَكَرَ الْإِفْكَ، قَالَتْ: جَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَشَفَ عَنْ وَجْهِهِ، وَقَالَ:" أَعُوذُ بِالسَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ سورة النور آية 11 الْآيَةَ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهَذَا حَدِيثٌ مُنْكَرٌ، قَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ جَمَاعَةٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، لَمْ يَذْكُرُوا هَذَا الْكَلَامَ عَلَى هَذَا الشَّرْحِ، وَأَخَافُ أَنْ يَكُونَ أَمْرُ الِاسْتِعَاذَةِ مِنْ كَلَامِ حُمَيْدٍ.
عروہ نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہوئے واقعہ افک کا ذکر کیا، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے اور آپ نے اپنا چہرہ کھولا اور فرمایا: «أعوذ بالسميع العليم من الشيطان الرجيم * إن الذين جاءوا بالإفك عصبة منكم‏» ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث منکر ہے، اسے ایک جماعت نے زہری سے روایت کیا ہے مگر ان لوگوں نے یہ بات اس انداز سے ذکر نہیں کی اور مجھے اندیشہ ہے کہ استعاذہ کا معاملہ خود حمید کا کلام ہو۔
ضعيف
سنن ابي داود
880
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ يَدْعُو فِي صَلَاتِهِ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ" فَقَالَ لَهُ قَائِلٌ: مَا أَكْثَرَ مَا تَسْتَعِيذُ مِنَ الْمَغْرَمِ، فَقَالَ:" إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا غَرِمَ حَدَّثَ فَكَذَبَ وَوَعَدَ فَأَخْلَفَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز میں یہ دعا کرتے تھے: «اللهم إني أعوذ بك من عذاب القبر وأعوذ بك من فتنة المسيح الدجال وأعوذ بك من فتنة المحيا والممات اللهم إني أعوذ بك من المأثم والمغرم» یعنی اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے، میں تیری پناہ مانگتا ہوں مسیح (کانے) دجال کے فتنہ سے، اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں زندگی اور موت کے فتنہ سے، اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں گناہ اور قرض سے تو ایک شخص نے آپ سے عرض کیا: (اللہ کے رسول!) آپ قرض سے کس قدر پناہ مانگتے ہیں؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی جب قرض دار ہوتا ہے، بات کرتا ہے، تو جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ کرتا ہے، تو اس کے خلاف کرتا ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
914
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي خَمِيصَةٍ لَهَا أَعْلَامٌ، فَقَالَ:" شَغَلَتْنِي أَعْلَامُ هَذِهِ اذْهَبُوا بِهَا إِلَى أَبِي جَهْمٍ وَأْتُونِي".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسی چادر میں نماز پڑھی جس میں نقش و نگار تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اس چادر کے نقش و نگار نے نماز سے غافل کر دیا، اسے ابوجہم کے پاس لے جاؤ (ابوجہم ہی نے وہ چادر آپ کو تحفہ میں دی تھی) اور ان سے میرے لیے ان کی انبجانی چادر لے آؤ۔
صحيح
سنن ابي داود
1149
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ يُكَبِّرُ فِي الْفِطْرِ وَالْأَضْحَى فِي الْأُولَى سَبْعَ تَكْبِيرَاتٍ، وَفِي الثَّانِيَةِ خَمْسًا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر اور عید الاضحی کی پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں کہتے تھے ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
1188
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ بْنِ مَزْيَدٍ، أَخْبَرَنِي أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، أَخْبَرَنِي الزُّهْرِيُّ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" قَرَأَ قِرَاءَةً طَوِيلَةً، فَجَهَرَ بِهَا"، يَعْنِي فِي صَلَاةِ الْكُسُوفِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لمبی قرآت کی اور اس میں جہر کیا یعنی نماز کسوف میں ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
1190
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ نَمِرٍ، أَنَّهُ سَأَلَ الزُّهْرِيَّ، فَقَالَ الزُّهْرِيُّ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كُسِفَتِ الشَّمْسُ،" فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا، فَنَادَى أَنِ الصَّلَاةُ جَامِعَةٌ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ سورج گرہن لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو حکم دیا تو اس نے اعلان کیا کہ نماز (کسوف) جماعت سے ہو گی۔
صحيح
سنن ابي داود
1293
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ:" مَا سَبَّحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُبْحَةَ الضُّحَى قَطُّ وَإِنِّي لَأُسَبِّحُهَا، وَإِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَدَعُ الْعَمَلَ وَهُوَ يُحِبُّ أَنْ يَعْمَلَ بِهِ خَشْيَةَ أَنْ يَعْمَلَ بِهِ النَّاسُ فَيُفْرَضَ عَلَيْهِمْ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاشت کی نماز کبھی نہیں پڑھی، لیکن میں اسے پڑھتی ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بسا اوقات ایک عمل کو چاہتے ہوئے بھی اسے محض اس ڈر سے ترک فرما دیتے تھے کہ لوگوں کے عمل کرنے سے کہیں وہ ان پر فرض نہ ہو جائے۔
صحيح
سنن ابي داود
1335
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً يُوتِرُ مِنْهَا بِوَاحِدَةٍ، فَإِذَا فَرَغَ مِنْهَا اضْطَجَعَ عَلَى شِقِّهِ الْأَيْمَنِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے ان میں سے ایک رکعت وتر کی ہوتی تھی، جب آپ اس سے فارغ ہو جاتے تو داہنی کروٹ لیٹتے۔
صحيح
سنن ابي داود
1373
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى فِي الْمَسْجِدِ، فَصَلَّى بِصَلَاتِهِ نَاسٌ، ثُمَّ صَلَّى مِنَ الْقَابِلَةِ فَكَثُرَ النَّاسُ، ثُمَّ اجْتَمَعُوا مِنَ اللَّيْلَةِ الثَّالِثَةِ، فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا أَصْبَحَ، قَالَ:" قَدْ رَأَيْتُ الَّذِي صَنَعْتُمْ، فَلَمْ يَمْنَعْنِي مِنَ الْخُرُوجِ إِلَيْكُمْ إِلَّا أَنِّي خَشِيتُ أَنْ يُفْرَضَ عَلَيْكُمْ، وَذَلِكَ فِي رَمَضَانَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں نماز پڑھی تو آپ کے ساتھ کچھ اور لوگوں نے بھی پڑھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگلی رات کو بھی پڑھی تو لوگوں کی تعداد بڑھ گئی پھر تیسری رات کو بھی لوگ جمع ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے ہی نہیں، جب صبح ہوئی تو فرمایا: میں نے تمہارے عمل کو دیکھا، لیکن مجھے سوائے اس اندیشے کے کسی اور چیز نے نکلنے سے نہیں روکا کہ کہیں وہ تم پر فرض نہ کر دی جائے ۱؎ اور یہ بات رمضان کی ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
1475
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ الْقَارِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ هِشَامَ بْنَ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ يَقْرَأُ سُورَةَ الْفُرْقَانِ عَلَى غَيْرِ مَا أَقْرَؤُهَا، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْرَأَنِيهَا، فَكِدْتُ أَنْ أَعْجَلَ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَمْهَلْتُهُ حَتَّى انْصَرَفَ، ثُمَّ لَبَّبْتُهُ بِرِدَائِهِ، فَجِئْتُ بِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي سَمِعْتُ هَذَا يَقْرَأُ سُورَةَ الْفُرْقَانِ عَلَى غَيْرِ مَا أَقْرَأْتَنِيهَا، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اقْرَأْ" فَقَرَأَ الْقِرَاءَةَ الَّتِي سَمِعْتُهُ يَقْرَأُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَكَذَا أُنْزِلَتْ"، ثُمَّ قَالَ لِيَ:" اقْرَأْ" فَقَرَأْتُ، فَقَالَ:" هَكَذَا أُنْزِلَتْ"، ثُمَّ قَالَ:" إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ".
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ہشام بن حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کو سورۃ الفرقان پڑھتے سنا، وہ اس طریقے سے ہٹ کر پڑھ رہے تھے جس طرح میں پڑھتا تھا حالانکہ مجھے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھایا تھا تو قریب تھا کہ میں ان پر جلدی کر بیٹھوں ۱؎ لیکن میں نے انہیں مہلت دی اور پڑھنے دیا یہاں تک کہ وہ فارغ ہو گئے تو میں نے ان کی چادر پکڑ کر انہیں گھسیٹا اور انہیں لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے انہیں سورۃ الفرقان اس کے برعکس پڑھتے سنا ہے جس طرح آپ نے مجھے سکھائی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہشام سے فرمایا: تم پڑھو، انہوں نے ویسے ہی پڑھا جیسے میں نے پڑھتے سنا تھا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ اسی طرح نازل ہوئی ہے، پھر مجھ سے فرمایا: تم پڑھو، میں نے بھی پڑھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسی طرح نازل ہوئی ہے، پھر فرمایا: قرآن مجید سات حرفوں ۲؎ پر نازل ہوا ہے، لہٰذا جس طرح آسان لگے پڑھ۔
صحيح
سنن ابي داود
1606
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أُخْبِرْتُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّهَا قَالَتْ: وَهِيَ تَذْكُرُ شَأْنَ خَيْبَرَ" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبْعَثُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ رَوَاحَةَ إِلَى يَهُودَ فَيَخْرُصُ النَّخْلَ حِينَ يَطِيبُ قَبْلَ أَنْ يُؤْكَلَ مِنْهُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا خیبر کے معاملہ کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو یہودیوں کے پاس بھیجتے تو وہ کھجور کو اس وقت اندازہ لگاتے جب وہ پکنے کے قریب ہو جاتی قبل اس کے کہ وہ کھائی جا سکے ۱؎۔
ضعيف
سنن ابي داود
1781
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ فَأَهْلَلْنَا بِعُمْرَةٍ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيُهِلَّ بِالْحَجِّ مَعَ الْعُمْرَةِ، ثُمَّ لَا يَحِلُّ حَتَّى يَحِلَّ مِنْهُمَا جَمِيعًا"، فَقَدِمْتُ مَكَّةَ وَأَنَا حَائِضٌ وَلَمْ أَطُفْ بِالْبَيْتِ وَلَا بَيْنَ الصَّفَا وَ الْمَرْوَةِ، فَشَكَوْتُ ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" انْقُضِي رَأْسَكِ وَامْتَشِطِي وَأَهِلِّي بِالْحَجِّ وَدَعِي الْعُمْرَةَ"، قَالَتْ: فَفَعَلْتُ، فَلَمَّا قَضَيْنَا الْحَجَّ، أَرْسَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ إِلَى التَّنْعِيمِ، فَاعْتَمَرْتُ، فَقَالَ:" هَذِهِ مَكَانُ عُمْرَتِكِ"، قَالَتْ: فَطَافَ الَّذِينَ أَهَلُّوا بِالْعُمْرَةِ بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَ الْمَرْوَةِ ثُمَّ حَلُّوا ثُمَّ طَافُوا طَوَافًا آخَرَ بَعْدَ أَنْ رَجَعُوا مِنْ مِنًى لِحَجِّهِمْ، وَأَمَّا الَّذِينَ كَانُوا جَمَعُوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ فَإِنَّمَا طَافُوا طَوَافًا وَاحِدًا. قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، وَ مَعْمَرٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ نَحْوَهُ، لَمْ يَذْكُرُوا: طَوَافَ الَّذِينَ أَهَلُّوا بِعُمْرَةٍ وَطَوَافَ الَّذِينَ جَمَعُوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ حجۃ الوداع میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے تو ہم نے عمرے کا احرام باندھا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے ساتھ ہدی ہو تو وہ عمرے کے ساتھ حج کا احرام باندھ لے پھر وہ حلال نہیں ہو گا جب تک کہ ان دونوں سے ایک ساتھ حلال نہ ہو جائے، چنانچہ میں مکہ آئی، میں حائضہ تھی، میں نے بیت اللہ کا طواف نہیں کیا اور نہ صفا و مروہ کے درمیان سعی کی، لہٰذا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا: اپنا سر کھول لو، کنگھی کر لو، حج کا احرام باندھ لو، اور عمرے کو ترک کر دو، میں نے ایسا ہی کیا، جب میں نے حج ادا کر لیا تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (میرے بھائی) عبدالرحمٰن بن ابی بکر کے ساتھ مقام تنعیم بھیجا (تو میں وہاں سے احرام باندھ کر آئی اور) میں نے عمرہ ادا کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تمہارے عمرے کی جگہ پر ہے، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: چنانچہ جنہوں نے عمرے کا احرام باندھ رکھا تھا انہوں نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کی، پھر ان لوگوں نے احرام کھول دیا، پھر جب منیٰ سے لوٹ کر آئے تو حج کا ایک اور طواف کیا، اور رہے وہ لوگ جنہوں نے حج و عمرہ دونوں کو جمع کیا تھا تو انہوں نے ایک ہی طواف کیا ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ابراہیم بن سعد اور معمر نے ابن شہاب سے اسی طرح روایت کیا ہے انہوں نے ان لوگوں کے طواف کا جنہوں نے عمرہ کے طواف کا احرام باندھا، اور ان لوگوں کے طواف کا جنہوں نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا ذکر نہیں کیا۔
صحيح
سنن ابي داود
1784
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ الذُّهَلِيُّ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَوِ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ لَمَّا سُقْتُ الْهَدْيَ، قَالَ مُحَمَّدٌ: أَحْسَبُهُ قَالَ: وَلَحَلَلْتُ مَعَ الَّذِينَ أَحَلُّوا مِنَ الْعُمْرَةِ"، قَالَ: أَرَادَ أَنْ يَكُونَ أَمْرُ النَّاسِ وَاحِدًا.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر مجھے پہلے یہ بات معلوم ہو گئی ہوتی جواب معلوم ہوئی ہے تو میں ہدی نہ لاتا، محمد بن یحییٰ ذہلی کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اور میں ان لوگوں کے ساتھ حلال ہو جاتا جو عمرہ کے بعد حلال ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ سب لوگوں کا معاملہ یکساں ہو ۱؎۔
صحيح ق دون قوله
سنن ابي داود
1896
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ،" أَنَّ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِينَ كَانُوا مَعَهُ لَمْ يَطُوفُوا حَتَّى رَمَوْا الْجَمْرَةَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے جو آپ کے ساتھ تھے، اس وقت تک طواف نہیں کیا جب تک کہ ان لوگوں نے رمی جمار نہیں کر لیا۔
صحيح
سنن ابي داود
2068
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ الْمِصْرِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ سورة النساء آية 3،قَالَتْ:" يَا ابْنَ أُخْتِي، هِيَ الْيَتِيمَةُ تَكُونُ فِي حِجْرِ وَلِيِّهَا، فَتُشَارِكُهُ فِي مَالِهِ فَيُعْجِبُهُ مَالُهَا وَجَمَالُهَا فَيُرِيدُ وَلِيُّهَا أَنْ يَتَزَوَّجَهَا بِغَيْرِ أَنْ يُقْسِطَ فِي صَدَاقِهَا، فَيُعْطِيَهَا مِثْلَ مَا يُعْطِيهَا غَيْرُهُ، فَنُهُوا أَنْ يَنْكِحُوهُنَّ إِلَّا أَنْ يُقْسِطُوا لَهُنَّ وَيَبْلُغُوا بِهِنَّ أَعْلَى سُنَّتِهِنَّ مِنَ الصَّدَاقِ، وَأُمِرُوا أَنْ يَنْكِحُوا مَا طَابَ لَهُمْ مِنَ النِّسَاءِ سِوَاهُنَّ"، قَالَ عُرْوَةُ: قَالَتْ عَائِشَةُ:" ثُمَّ إِنَّ النَّاسَ اسْتَفْتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ هَذِهِ الْآيَةِ فِيهِنَّ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ:وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ وَمَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ فِي يَتَامَى النِّسَاءِ اللَّاتِي لا تُؤْتُونَهُنَّ مَا كُتِبَ لَهُنَّ وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ سورة النساء آية 127، قَالَتْ: وَالَّذِي ذَكَرَ اللَّهُ أَنَّهُ يُتْلَى عَلَيْهِمْ فِي الْكِتَابِ الْآيَةُ الْأُولَى الَّتِي قَالَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ فِيهَا وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ سورة النساء آية 3، قَالَتْ عَائِشَةُ: وَقَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فِي الْآيَةِ الْآخِرَةِ: وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ سورة النساء آية 127 هِيَ رَغْبَةُ أَحَدِكُمْ عَنْ يَتِيمَتِهِ الَّتِي تَكُونُ فِي حِجْرِهِ حِينَ تَكُونُ قَلِيلَةَ الْمَالِ وَالْجَمَالِ، فَنُهُوا أَنْ يَنْكِحُوا مَا رَغِبُوا فِي مَالِهَا وَجَمَالِهَا مِنْ يَتَامَى النِّسَاءِ إِلَّا بِالْقِسْطِ مِنْ أَجْلِ رَغْبَتِهِمْ عَنْهُنَّ". قَالَ يُونُسُ: وَقَالَ رَبِيعَةُ فِي قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى سورة النساء آية 3، قَالَ: يَقُولُ: اتْرُكُوهُنَّ إِنْ خِفْتُمْ، فَقَدْ أَحْلَلْتُ لَكُمْ أَرْبَعًا.
عروہ بن زبیر نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے اللہ تعالیٰ کے فرمان: «وإن خفتم ألا تقسطوا في اليتامى فانكحواء ما طاب لكم من النساء سورة النساء» ۱؎ کے بارے میں دریافت کیا تو ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: بھانجے! اس سے وہ یتیم لڑکی مراد ہے، جو اپنے ایسے ولی کی پرورش میں ہو جس کے مال میں وہ شریک ہو اور اس کی خوبصورتی اور اس کا مال اسے بھلا لگتا ہو اس کی وجہ سے وہ اس سے بغیر مناسب مہر ادا کئے نکاح کرنا چاہتا ہو (یعنی جتنا مہر اس کو اور کوئی دیتا اتنا بھی نہ دے رہا ہو) چنانچہ انہیں ان سے نکاح کرنے سے روک دیا گیا، اگر وہ انصاف سے کام لیں اور انہیں اونچے سے اونچا مہر ادا کریں تو نکاح کر سکتے ہیں ورنہ فرمان رسول ہے کہ ان کے علاوہ جو عورتیں انہیں پسند ہوں ان سے نکاح کر لیں۔ عروہ کا بیان ہے کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کے نزول کے بعد یتیم لڑکیوں کے بارے میں حکم دریافت کیا تو یہ آیت نازل ہوئی: «ويستفتونك في النساء قل الله يفتيكم فيهن وما يتلى عليكم في الكتاب في يتامى النساء اللاتي لا تؤتونهن ما كتب لهن وترغبون أن تنكحوهن» ۲؎ ام المؤمنین عائشہ نے کہا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ وہ ان پر کتاب میں پڑھی جاتی ہیں اس سے مراد پہلی آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: «وإن خفتم أن لا تقسطوا في اليتامى فانكحواء ما طاب لكم من النساء» اور اس دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ کے قول: «وترغبون أن تنكحوهن» سے یہی غرض ہے کہ تم میں سے کسی کی پرورش میں کم مال والی کم حسن والی یتیم لڑکی ہو تو وہ اس کے ساتھ نکاح سے بے رغبتی نہ کرے چنانچہ انہیں منع کیا گیا کہ مال اور حسن کی بنا پر یتیم لڑکیوں سے نکاح کی رغبت کریں، ہاں انصاف کی شرط کے ساتھ درست ہے۔ یونس نے کہا کہ ربیعہ نے اللہ کے فرمان: «وإن خفتم أن لا تقسطوا في اليتامى» کا مطلب یہ بتایا ہے کہ اگر تمہیں یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر پانے کا ڈر ہو تو انہیں چھوڑ دو (کسی اور عورت سے نکاح کر لو) میں نے تمہارے لیے چار عورتوں سے نکاح جائز کر دیا ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
2083
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَإِنْ دَخَلَ بِهَا، فَالْمَهْرُ لَهَا بِمَا أَصَابَ مِنْهَا، فَإِنْ تَشَاجَرُوا فَالسُّلْطَانُ وَلِيُّ مَنْ لَا وَلِيَّ لَهُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے اس کا نکاح باطل ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تین بار فرمایا، (پھر فرمایا) اگر اس مرد نے ایسی عورت سے جماع کر لیا تو اس جماع کے عوض عورت کے لیے اس کا مہر ہے اور اگر ولی اختلاف کریں ۱؎ تو بادشاہ اس کا ولی ہے جس کا کوئی ولی نہ ہو ۲؎۔
صحيح
سنن ابي داود
2084
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ جَعْفَرٍ يَعْنِي ابْنَ رَبِيعَةَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمَعْنَاهُ. قَالَ أَبُو دَاوُد: جَعْفَرٌ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ الزُّهْرِيِّ، كَتَبَ إِلَيْهِ.
اس سند سے بھی ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے اسی مفہوم کی حدیث مرفوعاً مروی ہے۔
0
سنن ابي داود
2086
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، أَنَّهَا كَانَتْ عِنْدَ ابْنِ جَحْشٍ فَهَلَكَ عَنْهَا وَكَانَ فِيمَنْ هَاجَرَ إِلَى أَرْضِ الْحَبَشَةِ، فَزَوَّجَهَا النَّجَاشِيُّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ عِنْدَهُمْ".
ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ ابن حجش کے نکاح میں تھیں، ان کا انتقال ہو گیا اور وہ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے سر زمین حبشہ کی جانب ہجرت کی تھی تو نجاشی (شاہ حبش) نے ان کا نکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دیا، اور وہ انہیں لوگوں کے پاس (ملک حبش ہی میں) تھیں۔
صحيح
سنن ابي داود
2107
حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ أَبِي يَعْقُوبَ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، أَنَّهَا كَانَتْ تَحْتَ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ جَحْشٍ فَمَاتَ بِأَرْضِ الْحَبَشَةِ فَزَوَّجَهَا النَّجَاشِيُّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَمْهَرَهَا عَنْهُ أَرْبَعَةَ آلَافٍ، وَبَعَثَ بِهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ شُرَحْبِيلَ ابْنِ حَسَنَةَ". قَالَ أَبُو دَاوُد: حَسَنَةُ هِيَ أُمُّهُ.
ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ عبیداللہ بن حجش کے نکاح میں تھیں، حبشہ میں ان کا انتقال ہو گیا تو نجاشی (شاہ حبشہ) نے ان کا نکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دیا، اور آپ کی جانب سے انہیں چار ہزار (درہم) مہر دے کر شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کے ہمراہ انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس روانہ کر دیا ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: حسنہ شرحبیل کی والدہ ۲؎ ہیں۔
صحيح
سنن ابي داود
2138
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ سَفَرًا أَقْرَعَ بَيْنَ نِسَائِهِ فَأَيَّتُهُنَّ خَرَجَ سَهْمُهَا خَرَجَ بِهَا مَعَهُ، وَكَانَ يَقْسِمُ لِكُلِّ امْرَأَةٍ مِنْهُنَّ يَوْمَهَا وَلَيْلَتَهَا، غَيْرَ أَنَّ سَوْدَةَ بِنْتَ زَمْعَةَ وَهَبَتْ يَوْمَهَا لِعَائِشَةَ".
ابن شہاب زہری سے روایت ہے کہ عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سفر کا ارادہ فرماتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ اندازی کرتے تو جس کا نام نکلتا اس کو لے کر سفر کرتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر بیوی کے لیے ایک دن رات کی باری بنا رکھی تھی، سوائے سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا کے انہوں نے اپنی باری عائشہ رضی اللہ عنہا کو دے رکھی تھی۔
صحيح
سنن ابي داود
2272
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، قَالَ: قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمِ بْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ،" أَنَّ النِّكَاحَ كَانَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ عَلَى أَرْبَعَةِ أَنْحَاءٍ، فَكَانَ مِنْهَا: نِكَاحُ النَّاسِ الْيَوْمَ يَخْطُبُ الرَّجُلُ إِلَى الرَّجُلِ وَلِيَّتَهُ فَيُصْدِقُهَا ثُمَّ يَنْكِحُهَا، وَنِكَاحٌ آخَرُ كَانَ الرَّجُلُ يَقُولُ لِامْرَأَتِهِ إِذَا طَهُرَتْ مِنْ طَمْثِهَا: أَرْسِلِي إِلَى فُلَانٍ فَاسْتَبْضِعِي مِنْهُ، وَيَعْتَزِلُهَا زَوْجُهَا وَلَا يَمَسُّهَا أَبَدًا حَتَّى يَتَبَيَّنَ حَمْلُهَا مِنْ ذَلِكَ الرَّجُلِ الَّذِي تَسْتَبْضِعُ مِنْهُ، فَإِذَا تَبَيَّنَ حَمْلُهَا أَصَابَهَا زَوْجُهَا إِنْ أَحَبَّ، وَإِنَّمَا يَفْعَلُ ذَلِكَ رَغْبَةً فِي نَجَابَةِ الْوَلَدِ، فَكَانَ هَذَا النِّكَاحُ يُسَمَّى نِكَاحَ الِاسْتِبْضَاعِ، وَنِكَاحٌ آخَرُ يَجْتَمِعُ الرَّهْطُ دُونَ الْعَشَرَةِ فَيَدْخُلُونَ عَلَى الْمَرْأَةِ كُلُّهُمْ يُصِيبُهَا، فَإِذَا حَمَلَتْ وَوَضَعَتْ وَمَرَّ لَيَالٍ بَعْدَ أَنْ تَضَعَ حَمْلَهَا أَرْسَلَتْ إِلَيْهِمْ فَلَمْ يَسْتَطِعْ رَجُلٌ مِنْهُمْ أَنْ يَمْتَنِعَ حَتَّى يَجْتَمِعُوا عِنْدَهَا، فَتَقُولُ لَهُمْ: قَدْ عَرَفْتُمُ الَّذِي كَانَ مِنْ أَمْرِكُمْ، وَقَدْ وَلَدْتُ وَهُوَ ابْنُكَ يَا فُلَانُ، فَتُسَمِّي مَنْ أَحَبَّتْ مِنْهُمْ بِاسْمِهِ فَيَلْحَقُ بِهِ وَلَدُهَا، وَنِكَاحٌ رَابِعٌ يَجْتَمِعُ النَّاسُ الْكَثِيرُ فَيَدْخُلُونَ عَلَى الْمَرْأَةِ لَا تَمْتَنِعُ مِمَّنْ جَاءَهَا وَهُنَّ الْبَغَايَا، كُنَّ يَنْصِبْنَ عَلَى أَبْوَابِهِنَّ رَايَاتٍ يَكُنَّ عَلَمًا لِمَنْ أَرَادَهُنَّ دَخَلَ عَلَيْهِنَّ، فَإِذَا حَمَلَتْ فَوَضَعَتْ حَمْلَهَا جُمِعُوا لَهَا وَدَعَوْا لَهُمُ الْقَافَةَ، ثُمَّ أَلْحَقُوا وَلَدَهَا بِالَّذِي يَرَوْنَ فَالْتَاطَهُ، وَدُعِيَ ابْنَهُ لَا يَمْتَنِعُ مِنْ ذَلِكَ، فَلَمَّا بَعَثَ اللَّهُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَدَمَ نِكَاحَ أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ كُلَّهُ، إِلَّا نِكَاحَ أَهْلِ الْإِسْلَامِ الْيَوْمَ".
محمد بن مسلم بن شہاب کہتے ہیں کہ عروہ بن زبیر نے مجھے خبر دی ہے کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں بتایا کہ زمانہ جاہلیت میں چار قسم کے نکاح ہوتے تھے: ایک تو ایسے ہی جیسے اس زمانے میں ہوتا ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص کے پاس اس کی بہن یا بیٹی وغیرہ کے لیے نکاح کا پیغام دیتا ہے وہ مہر ادا کرتا ہے اور نکاح کر لیتا ہے۔ نکاح کی دوسری قسم یہ تھی کہ آدمی اپنی بیوی سے حیض سے پاک ہونے کے بعد کہہ دیتا کہ فلاں شخص کو بلوا لے، اور اس کا نطفہ حاصل کر لے پھر وہ شخص تب تک اپنی بیوی سے صحبت نہ کرتا جب تک کہ مطلوبہ شخص سے حمل نہ قرار پا جاتا، حمل ظاہر ہونے کے بعد ہی وہ چاہتا تو اس سے جماع کرتا، ایسا اس لیے کیا جاتا تھا تاکہ لڑکا نجیب (عمدہ نسب کا) ہو، اس نکاح کو نکاح استبضاع (نطفہ حاصل کرنے کا نکاح) کہا جاتا تھا۔ نکاح کی تیسری قسم یہ تھی کہ نو افراد تک کا ایک گروہ بن جاتا پھر وہ سب اس سے صحبت کرتے رہتے، جب وہ حاملہ ہو جاتی اور بچے کی ولادت ہوتی تو ولادت کے کچھ دن بعد وہ عورت ان سب لوگوں کو بلوا لیتی، کوئی آنے سے انکار نہ کرتا، جب سب جمع ہو جاتے تو کہتی: تمہیں اپنا حال معلوم ہی ہے، اور میں نے بچہ جنا ہے، پھر وہ جسے چاہتی اس کا نام لے کر کہتی کہ اے فلاں! یہ تیرا بچہ ہے، اور اس بچے کو اس کے ساتھ ملا دیا جاتا۔ نکاح کی چوتھی قسم یہ تھی کہ بہت سے لوگ جمع ہو جاتے اور ایک عورت سے صحبت کرتے، وہ کسی بھی آنے والے کو منع نہ کرتی، یہ بدکار عورتیں ہوتیں، ان کے دروازوں پر بطور نشانی جھنڈے لگے ہوتے، جو شخص بھی چاہتا ان سے صحبت کرتا، جب وہ حاملہ ہو جاتی اور بچہ جن دیتی تو سب جمع ہو جاتے، اور قیافہ شناس کو بلاتے، وہ جس کا بھی نام لیتا اس کے ساتھ ملا دیا جاتا، وہ بچہ اس کا ہو جاتا اور وہ کچھ نہ کہہ پاتا، تو جب اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی بنا کر بھیجا تو زمانہ جاہلیت کے سارے نکاحوں کو باطل قرار دے دیا سوائے اہل اسلام کے نکاح کے جو آج رائج ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
2462
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ يَعْتَكِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ"، ثُمَّ اعْتَكَفَ أَزْوَاجُهُ مِنْ بَعْدِهِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول وفات تک رہا، پھر آپ کے بعد آپ کی بیویوں نے اعتکاف کیا۔
صحيح
سنن ابي داود
2467
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" إِذَا اعْتَكَفَ يُدْنِي إِلَيَّ رَأْسَهُ فَأُرَجِّلُهُ، وَكَانَ لَا يَدْخُلُ الْبَيْتَ إِلَّا لِحَاجَةِ الْإِنْسَانِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف میں ہوتے تو (مسجد ہی سے) اپنا سر میرے قریب کر دیتے اور میں اس میں کنگھی کر دیتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں کسی انسانی ضرورت ہی کے پیش نظر داخل ہوتے تھے۔
صحيح
سنن ابي داود
2473
حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ إِسْحَاقَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ:" السُّنَّةُ عَلَى الْمُعْتَكِفِ أَنْ لَا يَعُودَ مَرِيضًا وَلَا يَشْهَدَ جَنَازَةً وَلَا يَمَسَّ امْرَأَةً وَلَا يُبَاشِرَهَا وَلَا يَخْرُجَ لِحَاجَةٍ إِلَّا لِمَا لَا بُدَّ مِنْهُ، وَلَا اعْتِكَافَ إِلَّا بِصَوْمٍ، وَلَا اعْتِكَافَ إِلَّا فِي مَسْجِدٍ جَامِعٍ". قَالَ أَبُو دَاوُد: غَيْرُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ، لَا يَقُولُ فِيهِ: قَالَتْ: السُّنَّةُ. قَالَ أَبُو دَاوُد: جَعَلَهُ قَوْلَ عَائِشَةَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ سنت یہ ہے کہ اعتکاف کرنے والا کسی مریض کی عیادت نہ کرے، نہ جنازے میں شریک ہو، نہ عورت کو چھوئے، اور نہ ہی اس سے مباشرت کرے، اور نہ کسی ضرورت سے نکلے سوائے ایسی ضرورت کے جس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو، اور بغیر روزے کے اعتکاف نہیں، اور جامع مسجد کے سوا کہیں اور اعتکاف نہیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں: عبدالرحمٰن کے علاوہ دوسروں کی روایت میں «قالت السنة» کا لفظ نہیں ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: انہوں نے اسے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول قرار دیا ہے۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
2616
حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ صَالِحِ بْنِ أَبِي الأَخْضَرِ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ عُرْوَةُ، فَحَدَّثَنِي أُسَامَةُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عَهِدَ إِلَيْهِ فَقَالَ: أَغِرْ عَلَى أُبْنَى صَبَاحًا وَحَرِّقْ.
عروہ کہتے ہیں کہ اسامہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں وصیت کی تھی اور فرمایا تھا: ابنی ۱؎ پر صبح سویرے حملہ کرو اور اسے جلا دو۔
ضعيف
سنن ابي داود
2765
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ ثَوْرٍ حدَّثَهُمْ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، قَالَ: خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَمَنَ الْحُدَيْبِيَةِ فِي بِضْعَ عَشْرَةَ مِائَةً مِنْ أَصْحَابِهِ حَتَّى إِذَا كَانُوا بِذِي الْحُلَيْفَةِ قَلَّدَ الْهَدْيَ وَأَشْعَرَهُ وَأَحْرَمَ بِالْعُمْرَةِ وَسَاقَ الْحَدِيثَ قَالَ: وَسَارَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا كَانَ بِالثَّنِيَّةِ الَّتِي يُهْبِطُ عَلَيْهِمْ مِنْهَا بَرَكَتْ بِهِ رَاحِلَتُهُ فَقَالَ النَّاسُ: حَلْ حَلْ خَلَأَتِ الْقَصْوَاءُ مَرَّتَيْنِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا خَلَأَتْ وَمَا ذَلِكَ لَهَا بِخُلُقٍ وَلَكِنْ حَبَسَهَا حَابِسُ الْفِيلِ، ثُمَّ قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يَسْأَلُونِي الْيَوْمَ خُطَّةً يُعَظِّمُونَ بِهَا حُرُمَاتِ اللَّهِ إِلَّا أَعْطَيْتُهُمْ إِيَّاهَا، ثُمَّ زَجَرَهَا فَوَثَبَتْ فَعَدَلَ عَنْهُمْ حَتَّى نَزَلَ بِأَقْصَى الْحُدَيْبِيَةِ عَلَى ثَمَدٍ قَلِيلِ الْمَاءِ، فَجَاءَهُ بُدَيْلُ بْنُ وَرْقَاءَ الْخُزَاعِيُّ، ثُمَّ أَتَاهُ يَعْنِي عُرْوَةَ بْنَ مَسْعُودٍ، فَجَعَلَ يُكَلِّمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكُلَّمَا كَلَّمَهُ أَخَذَ بِلِحْيَتِهِ والْمُغِيَرةُ بْنُ شُعْبَةَ قَائِمٌ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ السَّيْفُ، وَعَلَيْهِ الْمِغْفَرُ، فَضَرَبَ يَدَهُ بِنَعْلِ السَّيْفِ، وَقَالَ: أَخِّرْ يَدَكَ عَنْ لِحْيَتِهِ فَرَفَعَ عُرْوَةُ رَأْسَهُ فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ، فَقَالَ: أَيْ غُدَرُ أَوَلَسْتُ أَسْعَى فِي غَدْرَتِكَ، وَكَانَ الْمُغِيرَةُ صَحِبَ قَوْمًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَقَتَلَهُمْ وَأَخَذَ أَمْوَالَهُمْ، ثُمَّ جَاءَ فَأَسْلَمَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَّا الْإِسْلَامُ فَقَدْ قَبِلْنَا، وَأَمَّا الْمَالُ فَإِنَّهُ مَالُ غَدْرٍ لَا حَاجَةَ لَنَا فِيهِ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اكْتُبْ هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ، وَقَصَّ الْخَبَرَ فَقَالَ سُهَيْلٌ، وَعَلَى: أَنَّهُ لَا يَأْتِيكَ مِنَّا رَجُلٌ وَإِنْ كَانَ عَلَى دِينِكَ إِلَّا رَدَدْتَهُ إِلَيْنَا، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قَضِيَّةِ الْكِتَابِ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ: قُومُوا فَانْحَرُوا، ثُمَّ احْلِقُوا، ثُمَّ جَاءَ نِسْوَةٌ مُؤْمِنَاتٌ مُهَاجِرَاتٌ الْآيَةَ، فَنَهَاهُمُ اللَّهُ أَنْ يَرُدُّوهُنَّ وَأَمَرَهُمْ أَنْ يَرُدُّوا الصَّدَاقَ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى الْمَدِينَةِ فَجَاءَهُ أَبُو بَصِيرٍ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ يَعْنِي فَأَرْسَلُوا فِي طَلَبِهِ فَدَفَعَهُ إِلَى الرَّجُلَيْنِ فَخَرَجَا بِهِ حَتَّى إِذْ بَلَغَا ذَا الْحُلَيْفَةِ نَزَلُوا يَأْكُلُونَ مِنْ تَمْرٍ لَهُمْ، فَقَالَ أَبُو بَصِيرٍ لِأَحَدِ الرَّجُلَيْنِ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَى سَيْفَكَ هَذَا يَا فُلَانُ جَيِّدًا، فَاسْتَلَّهُ الْآخَرُ فَقَالَ: أَجَلْ قَدْ جَرَّبْتُ بِهِ فَقَالَ أَبُو بَصِيرٍ: أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْهِ فَأَمْكَنَهُ مِنْهُ فَضَرَبَهُ حَتَّى بَرَدَ وَفَرَّ الْآخَرُ حَتَّى أَتَى الْمَدِينَةَ فَدَخَلَ الْمَسجِدَ يَعْدُو، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَقَدْ رَأَى هَذَا ذُعْرًا فَقَالَ: قَدْ قُتِلَ وَاللَّهِ صَاحِبِي وَإِنِّي لَمَقْتُولٌ، فَجَاءَ أَبُو بَصِيرٍ فَقَالَ: قَدْ أَوْفَى اللَّهُ ذِمَّتَكَ فَقَدْ رَدَدْتَنِي إِلَيْهِمْ، ثُمَّ نَجَّانِي اللَّهُ مِنْهُمْ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَيْلَ أُمِّهِ مِسْعَرَ حَرْبٍ لَوْ كَانَ لَهُ أَحَدٌ فَلَمَّا سَمِعَ ذَلِكَ عَرَفَ أَنَّهُ سَيَرُدُّهُ إِلَيْهِمْ، فَخَرَجَ حَتَّى أَتَى سَيْفَ الْبَحْرِ وَيَنْفَلِتُ أَبُو جَنْدَلٍ، فَلَحِقَ بِأَبِي بَصِيرٍ حَتَّى اجْتَمَعَتْ مِنْهُمْ عِصَابَةٌ".
مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ کے سال ایک ہزار سے زائد صحابہ کے ہمراہ نکلے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحلیفہ پہنچے تو ہدی کو قلادہ پہنایا، اور اشعار کیا، اور عمرہ کا احرام باندھا، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی، اس میں ہے: اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے چلے یہاں تک کہ جب ثنیہ میں جہاں سے مکہ میں اترتے ہیں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی آپ کو لے کر بیٹھ گئی، لوگوں نے کہا: حل حل ۱؎ قصواء اڑ گئی، قصواء اڑ گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قصواء اڑی نہیں اور نہ ہی اس کو اڑنے کی عادت ہے، لیکن اس کو ہاتھی کے روکنے والے نے روک دیا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے قریش جو چیز بھی مجھ سے طلب کریں گے جس میں اللہ کے حرمات کی تعظیم ہوتی ہو تو وہ میں ان کو دوں گا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹنی کو ڈانٹ کر اٹھایا تو وہ اٹھی اور آپ ایک طرف ہوئے یہاں تک کہ میدان حدیبیہ کے آخری سرے پر ایک جگہ جہاں تھوڑا سا پانی تھا جا اترے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بدیل بن ورقاء خزاعی آیا، پھر وہ یعنی عروہ بن مسعود ثقفی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے گفتگو کرنے لگا، گفتگو میں عروہ باربار آپ کی ریش مبارک کو ہاتھ لگاتا، مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے تھے، وہ تلوار لیے ہوئے اور زرہ پہنے ہوئے تھے، انہوں نے عروہ کے ہاتھ پر تلوار کی کاٹھی ماری اور کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی سے اپنا ہاتھ دور رکھ، تو عروہ نے اپنا سر اٹھایا اور پوچھا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا: مغیرہ بن شعبہ ہیں، اس پر عروہ نے کہا: اے بدعہد! کیا میں نے تیری عہد شکنی کی اصلاح میں سعی نہیں کی؟ اور وہ واقعہ یوں ہے کہ مغیرہ رضی اللہ عنہ نے زمانہ جاہلیت میں چند لوگوں کو اپنے ساتھ لیا تھا، پھر ان کو قتل کیا اور ان کے مال لوٹے ۲؎ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر مسلمان ہو گئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رہا اسلام تو ہم نے اسے قبول کیا، اور رہا مال تو ہمیں اس کی ضرورت نہیں ۳؎ اس کے بعد مسور رضی اللہ عنہ نے آخر تک حدیث بیان کی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لکھو، یہ وہ صلح نامہ ہے جس پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصالحت کی ہے، پھر پورا قصہ بیان کیا۔ سہیل نے کہا: اور اس بات پر بھی کہ جو کوئی قریش میں سے آپ کے پاس آئے گا گو وہ مسلمان ہو کر آیا ہو تو آپ اسے ہماری طرف واپس کر دیں گے، پھر جب آپ صلح نامہ لکھا کر فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا: اٹھو اور اونٹ نحر (ذبح) کرو، پھر سر منڈا ڈالو، پھر مکہ کی کچھ عورتیں مسلمان ہو کر مسلمانوں کے پاس ہجرت کر کے آئیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو واپس کر دینے سے منع فرمایا اور حکم دیا کہ جو مہر ان کے کافر شوہروں نے انہیں دیا تھا انہیں واپس کر دیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس آئے تو ایک شخص قریش میں سے جس کا نام ابوبصیر تھا، آپ کے پاس مسلمان ہو کر آ گیا، قریش نے اس کو واپس لانے کے لیے دو آدمی بھیجے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبصیر کو ان کے حوالہ کر دیا، وہ ابوبصیر کو ساتھ لے کر نکلے، جب وہ ذوالحلیفہ پہنچے تو اتر کر اپنی کھجوریں کھانے لگے، ابوبصیر نے ان دونوں میں سے ایک کی تلوار دیکھ کر کہا: اللہ کی قسم! تمہاری تلوار بہت ہی عمدہ ہے، اس نے میان سے نکال کر کہا: ہاں میں اس کو آزما چکا ہوں، ابوبصیر نے کہا: مجھے دکھاؤ ذرا میں بھی تو دیکھوں، اس قریشی نے اس تلوار کو ابوبصیر کے ہاتھ میں دے دی، تو انہوں نے (اسی تلوار سے) اسے مارا یہاں تک کہ وہ ٹھنڈا ہو گیا، (یہ دیکھ کر) دوسرا ساتھی بھاگ کھڑا ہوا یہاں تک کہ وہ مدینہ واپس آ گیا اور دوڑتے ہوئے مسجد میں جا گھسا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ڈر گیا ہے، وہ بولا: قسم اللہ کی! میرا ساتھی مارا گیا اور میں بھی مارا جاؤں گا، اتنے میں ابوبصیر آ پہنچے اور بولے: اللہ کے رسول! آپ نے اپنا عہد پورا کیا، مجھے کافروں کے حوالہ کر دیا، پھر اللہ نے مجھے ان سے نجات دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تباہی ہو اس کی ماں کے لیے، عجب لڑائی کو بھڑکانے والا ہے، اگر اس کا کوئی ساتھی ہوتا، ابوبصیر نے جب یہ سنا تو سمجھ گئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر انہیں ان کے حوالہ کر دیں گے، چنانچہ وہ وہاں سے نکل کھڑے ہوئے اور سمندر کے کنارے پر آ گئے اور (ابوجندل جو صلح کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے لیکن آپ نے انہیں واپس کر دیا تھا) کافروں کی قید سے اپنے آپ کو چھڑا کر ابوبصیر سے آ ملے یہاں تک کہ وہاں ان کی ایک جماعت بن گئی۔
صحيح
سنن ابي داود
2766
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ إِسْحَاق، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، وَمَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ، أنهم اصطلحوا على وضع الحرب عشر سنين، يأمن فيهن الناس وعلى أن بيننا عيبة مكفوفة وأنه لا إسلال ولا إغلال.
عروہ بن زیبر سے روایت ہے کہ مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ اور مروان بن حکم نے اس بات پر صلح کی کہ دس برس تک لڑائی بند رہے گی، اس مدت میں لوگ امن سے رہیں گے، طرفین کے دل ایک دوسرے کے بارے میں صاف رہیں گے ۱؎ اور نہ اعلانیہ لوٹ مار ہو گی نہ چوری چھپے ۲؎۔
حسن
سنن ابي داود
2941
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْه أخبرته عن بَيْعَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النِّسَاءَ، قَالَتْ: مَا مَسَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَدَ امْرَأَةٍ قَطُّ إِلَّا أَنْ يَأْخُذَ عَلَيْهَا فَإِذَا أَخَذَ عَلَيْهَا فَأَعْطَتْهُ، قَالَ:"اذْهَبِي فَقَدْ بَايَعْتُكِ".
عروہ کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں سے کس طرح بیعت لیا کرتے تھے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی اجنبی عورت کا ہاتھ نہیں چھوا، البتہ عورت سے عہد لیتے جب وہ عہد دے دیتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: جاؤ میں تم سے بیعت لے چکا۔
صحيح
سنن ابي داود
2968
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهِبٍ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ عُقَيْلِ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ،عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ، أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَرْسَلَتْ إِلَى أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْهِ بِالْمَدِينَةِ وَفَدَكَ وَمَا بَقِيَ مِنْ خُمُسِ خَيْبَرَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ"، إِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ مِنْ هَذَا الْمَالِ وَإِنِّي وَاللَّهِ لَا أُغَيِّرُ شَيْئًا مِنْ صَدَقَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ حَالِهَا الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَأَعْمَلَنَّ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَبَى أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنْ يَدْفَعَ إِلَى فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام مِنْهَا شَيْئًا.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا نے (کسی کو) ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا، وہ ان سے اپنی میراث مانگ رہی تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ترکہ میں سے جسے اللہ نے آپ کو مدینہ اور فدک میں اور خیبر کے خمس کے باقی ماندہ میں سے عطا کیا تھا، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہے، ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آل اولاد اس مال سے صرف کھا سکتی ہے (یعنی کھانے کے بمقدار لے سکتی ہے)، اور میں قسم اللہ کی! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صدقہ کی جو صورت حال تھی اس میں ذرا بھی تبدیلی نہ کروں گا، میں اس مال میں وہی کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے، حاصل یہ کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اس مال میں سے (بطور وراثت) کچھ دینے سے انکار کر دیا۔
صحيح
سنن ابي داود
2969
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: وَفَاطِمَةُ عَلَيْهَا السَّلَام حِينَئِذٍ تَطْلُبُ صَدَقَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّتِي بِالْمَدِينَةِ وَفَدَكَ وَمَا بَقِيَ مِنْ خُمُسِ خَيْبَرَ، قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ"، وَإِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ فِي هَذَا الْمَالِ يَعْنِي مَالَ اللَّهِ لَيْسَ لَهُمْ أَنْ يَزِيدُوا عَلَى الْمَأْكَلِ.
ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ مجھ سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے یہی حدیث روایت کی ہے، اس میں یہ ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اس وقت (اپنے والد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس صدقے کی طلب گار تھیں جو مدینہ اور فدک میں تھا اور جو خیبر کے خمس میں سے بچ رہا تھا، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہے، ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد اس مال میں سے (یعنی اللہ کے مال میں سے) صرف اپنے کھانے کی مقدار لے گی اس مال میں خوراکی کے سوا ان کا کوئی حق نہیں ہے۔
صحيح ق دون قوله يعني مال الله
سنن ابي داود
2970
حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ أَبِي يَعْقُوبَ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَخْبَرَتْهُ بِهَذَا الْحَدِيثِ قَالَ فِيهِ: فَأَبَى أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَيْهَا ذَلِكَ، وَقَالَ: لَسْتُ تَارِكًا شَيْئًا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْمَلُ بِهِ إِلَّا عَمِلْتُ بِهِ، إِنِّي أَخْشَى إِنْ تَرَكْتُ شَيْئًا مِنْ أَمْرِهِ أَنْ أَزِيغَ فَأَمَّا صَدَقَتُهُ بِالْمَدِينَةِ فَدَفَعَهَا عُمَرُ إِلَى عَلِيٍّ، وَعَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَغَلَبَهُ عَلِيٌّ عَلَيْهَا وَأَمَّا خَيْبَرُ وَفَدَكُ فَأَمْسَكَهُمَا عُمَرُ وَقَالَ: هُمَا صَدَقَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتَا لِحُقُوقِهِ الَّتِي تَعْرُوهُ وَنَوَائِبِهِ وَأَمْرُهُمَا إِلَى مَنْ وَلِيَ الأَمْرَ، قَالَ: فَهُمَا عَلَى ذَلِكَ إِلَى الْيَوْمِ.
اس سند سے بھی ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہی حدیث مروی ہے اس میں یہ ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کے دینے سے انکار کیا اور کہا: میں کوئی ایسی چیز چھوڑ نہیں سکتا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے رہے ہوں، میں بھی وہی کروں گا، میں ڈرتا ہوں کہ آپ کے کسی حکم کو چھوڑ کر گمراہ نہ ہو جاؤں۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کے مدینہ کے صدقے کو علی اور عباس رضی اللہ عنہما کی تحویل میں دے دیا، علی رضی اللہ عنہ اس پر غالب اور قابض رہے، رہا خیبر اور فدک تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کو روکے رکھا اور کہا کہ یہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ صدقے ہیں جو آپ کی پیش آمدہ ضروریات اور مشکلات و حوادث، مجاہدین کی تیاری، اسلحہ کی خریداری اور مسافروں کی خبرگیری وغیرہ امور) میں کام آتے تھے ان کا اختیار اس کو رہے گا جو والی (یعنی خلیفہ) ہو۔ راوی کہتے ہیں: تو وہ دونوں آج تک ایسے ہی رہے۔
صحيح
سنن ابي داود
2976
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَدْنَ أَنْ يَبْعَثْنَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ فَيَسْأَلْنَهُ ثُمُنَهُنَّ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ لَهُنَّ عَائِشَةُ: أَلَيْسَ قَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا فَهُوَ صَدَقَةٌ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو امہات المؤمنین نے ارادہ کیا کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث سے اپنا آٹھواں حصہ طلب کریں، تو ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سب سے کہا (کیا تمہیں یاد نہیں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہے، ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
3045
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنَّ هِشَامَ بْنَ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ وَجَدَ رَجُلًا وَهُوَ عَلَى حِمْصَ يُشَمِّسُ نَاسًا مِنَ الْقِبْطِ فِي أَدَاءِ الْجِزْيَةِ، فَقَالَ: مَا هَذَا؟ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِنَّ اللَّهَ يُعَذِّبُ الَّذِينَ يُعَذِّبُونَ النَّاسَ فِي الدُّنْيَا".
عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ ہشام بن حکیم بن حزام رضی اللہ عنہما نے حمص کے ایک عامل (محصل) کو دیکھا کہ وہ کچھ قبطیوں (عیسائیوں) سے جزیہ وصول کرنے کے لیے انہیں دھوپ میں کھڑا کر کے تکلیف دے رہا تھا، تو انہوں نے کہا: یہ کیا ہے؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ اللہ عزوجل ایسے لوگوں کو عذاب دے گا جو دنیا میں لوگوں کو عذاب دیا کرتے ہیں ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
3094
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ عَرَفَ فِيهِ الْمَوْتَ، قَالَ:" قَدْ كُنْتُ أَنْهَاكَ عَنْ حُبِّ يَهُودَ"، قَالَ: فَقَدْ أَبْغَضَهُمْ أسْعَدُ بْنُ زُرَارَةَ فَمَهْ، فَلَمَّا مَاتَ أَتَاهُ ابْنُهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ قَدْ مَاتَ، فَأَعْطِنِي قَمِيصَكَ أُكَفِّنْهُ فِيهِ، فَنَزَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَمِيصَهُ، فَأَعْطَاهُ إِيَّاهُ.
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن ابی کے مرض الموت میں اس کی عیادت کے لیے نکلے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس پہنچے تو اس کی موت کو بھانپ لیا، فرمایا: میں تجھے یہود کی دوستی سے منع کرتا تھا، اس نے کہا: عبداللہ بن زرارہ نے ان سے بغض رکھا تو کیا پایا، جب عبداللہ بن ابی مر گیا تو اس کے لڑکے (عبداللہ) آپ کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! عبداللہ بن ابی مر گیا، آپ مجھے اپنی قمیص دے دیجئیے تاکہ اس میں میں اسے کفنا دوں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی قمیص اتار کر دے دی۔
ضعيف الإسناد لكن قصة القميص صحيحة ق
سنن ابي داود
3413
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أُخْبِرْتُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَبْعَثُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ رَوَاحَةَ، فَيَخْرُصُ النَّخْلَ حِينَ يَطِيبُ، قَبْلَ أَنْ يُؤْكَلَ مِنْهُ، ثُمَّ يُخَيِّرُ يَهُودَ، يَأْخُذُونَهُ بِذَلِكَ الْخَرْصِ، أَوْ يَدْفَعُونَهُ إِلَيْهِمْ بِذَلِكَ الْخَرْصِ، لِكَيْ تُحْصَى الزَّكَاةُ قَبْلَ أَنْ تُؤْكَلَ الثِّمَارُ وَتُفَرَّقَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو (خیبر) بھیجتے تھے، تو وہ کھجوروں کا اٹکل اندازہ لگاتے تھے جس وقت وہ پکنے کے قریب ہو جاتا کھائے جانے کے قابل ہونے سے پہلے پھر یہود کو اختیار دیتے کہ یا تو وہ اس اندازے کے مطابق نصف لے لیں یا آپ کو دے دیں تاکہ وہ زکوٰۃ کے حساب و کتاب میں آ جائیں، اس سے پہلے کہ پھل کھائے جائیں اور ادھر ادھر بٹ جائیں۔
ضعيف الإسناد
سنن ابي داود
3533
حَدَّثَنَا خُشَيْشُ بْنُ أَصْرَمَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: جَاءَتْ هِنْدٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ، رَجُلٌ مُمْسِكٌ، فَهَلْ عَلَيَّ مِنْ حَرَجٍ أَنْ أُنْفِقَ عَلَى عِيَالِهِ مِنْ مَالِهِ بِغَيْرِ إِذْنِهِ؟، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا حَرَجَ عَلَيْكِ أَنْ تُنْفِقِي بِالْمَعْرُوفِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں ہند رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا: اللہ کے رسول! ابوسفیان کنجوس آدمی ہیں، اگر ان کے مال میں سے ان سے اجازت لیے بغیر ان کی اولاد کے کھانے پینے پر کچھ خرچ کر دوں تو کیا میرے لیے کوئی حرج (نقصان و گناہ) ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: معروف (عام دستور) کے مطابق خرچ کرنے میں تمہارے لیے کوئی حرج نہیں۔
صحيح
سنن ابي داود
3551
حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ الْفَضْلِ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبٍ، أَخْبَرَنِي الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ جَابِرٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ أُعْمِرَ عُمْرَى فَهِيَ لَهُ، وَلِعَقِبِهِ يَرِثُهَا مَنْ يَرِثُهُ مِنْ عَقِبِهِ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جسے عمر بھر کے لیے کوئی چیز دی گئی تو وہ اس کی ہو گی اور اس کے مرنے کے بعد اس کے اولاد کی ہو گی ۱؎، اس کی اولاد میں سے جو اس کے وارث ہوں گے وہی اس چیز کے بھی وارث ہوں گے۔
صحيح
سنن ابي داود
3637
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا اللَّيْثِ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ:" أَنَّ رَجُلًا خَاصَمَ الزُّبَيْرَ فِي شِرَاجِ الْحَرَّةِ الَّتِي يَسْقُونَ بِهَا، فَقَالَ الْأَنْصَارِيُّ: سَرِّحْ الْمَاءَ يَمُرُّ، فَأَبَى عَلَيْهِ الزُّبَيْرُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلزُّبَيْرِ: اسْقِ يَا زُبَيْرُ، ثُمَّ أَرْسِلْ إِلَى جَارِكَ، فَغَضِبَ الْأَنْصَارِيُّ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنْ كَانَ ابْنَ عَمَّتِكَ؟، فَتَلَوَّنَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: اسْقِ، ثُمَّ احْبِسِ الْمَاءَ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى الْجَدْرِ، فَقَالَ الزُّبَيْرُ: فَوَاللَّهِ إِنِّي لَأَحْسَبُ هَذِهِ الْآيَةَ نَزَلَتْ فِي ذَلِكَ: فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ سورة النساء آية 65".
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے زبیر رضی اللہ عنہ سے حرۃ کی نالیوں کے سلسلہ میں جھگڑا کیا جس سے وہ سینچائی کرتے تھے، انصاری نے زبیر رضی اللہ عنہ سے کہا: پانی کو بہنے دو، لیکن زبیر رضی اللہ عنہ نے اس سے انکار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تم اپنے کھیت سینچ لو پھر پانی کو اپنے پڑوسی کے لیے چھوڑ دو یہ سن کر انصاری کو غصہ آ گیا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! یہ آپ کے پھوپھی کے لڑکے ہیں نا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا اور آپ نے زبیر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تم اپنے کھیت سینچ لو اور پانی روک لو یہاں تک کہ کھیت کے مینڈھوں تک بھر جائے۔ زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم! میں سمجھتا ہوں یہ آیت «فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك» قسم ہے تیرے رب کی وہ اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپ کو اپنا فیصل نہ مان لیں (سورة النساء: ۶۵) اسی بابت اتری ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
3654
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ الطُّوسِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، قَالَ: جَلَسَ أَبُو هُرَيْرَةَ إِلَى جَنْبِ حُجْرَةِ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَهِيَ تُصَلِّي، فَجَعَلَ يَقُولُ:" اسْمَعِي يَا رَبَّةَ الْحُجْرَةِ مَرَّتَيْنِ، فَلَمَّا قَضَتْ صَلَاتَهَا، قَالَتْ: أَلَا تَعْجَبُ إِلَى هَذَا وَحَدِيثِهِ؟ إِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُحَدِّثُ الْحَدِيثَ لَوْ شَاءَ الْعَادُّ أَنْ يُحْصِيَهُ أَحْصَاهُ".
عروہ کہتے ہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کے بغل میں بیٹھے تھے اور وہ نماز پڑھ رہی تھیں تو وہ کہنے لگے: سن اے حجرے والی! دو بار یہ جملہ کہا، جب ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نماز سے فارغ ہوئیں تو کہنے لگیں: کیا تمہیں اس پر اور اس کی حدیث پر تعجب نہیں کہ وہ کیسے جلدی جلدی بیان کر رہا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کلام کرتے تو اگر شمار کرنے والا اسے شمار کرنا چاہتا تو شمار کر لیتا (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم صاف صاف اور بالکل واضح انداز میں بات کرتے تھے)۔
صحيح
سنن ابي داود
3655
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ:" أَلَا يُعْجِبُكَ أَبُو هُرَيْرَةَ؟ جَاءَ فَجَلَسَ إِلَى جَانِبِ حُجْرَتِي يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسْمِعُنِي ذَلِكَ، وَكُنْتُ أُسَبِّحُ، فَقَامَ قَبْلَ أَنْ أَقْضِيَ سُبْحَتِي، وَلَوْ أَدْرَكْتُهُ لَرَدَدْتُ عَلَيْهِ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ يَسْرُدُ الْحَدِيثَ مِثْلَ سَرْدِكُمْ".
عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: کیا تمہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر تعجب نہیں کہ وہ آئے اور میرے حجرے کے ایک جانب بیٹھے اور مجھے سنانے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کرنے لگے، میں نفل نماز پڑھ رہی تھی، تو وہ قبل اس کے کہ میں اپنی نماز سے فارغ ہوتی اٹھے (اور چلے گئے) اور اگر میں انہیں پاتی تو ان سے کہتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری طرح جلدی جلدی باتیں نہیں کرتے تھے۔
صحيح
سنن ابي داود
3902
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ إِذَا اشْتَكَى: يَقْرَأُ فِي نَفْسِهِ بِالْمُعَوِّذَاتِ، وَيَنْفُثُ، فَلَمَّا اشْتَدَّ وَجَعُهُ كُنْتُ أَقْرَأُ عَلَيْهِ وَأَمْسَحُ عَلَيْهِ بِيَدِهِ رَجَاءَ بَرَكَتِهَا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار ہوتے تو آپ اپنے اوپر معوذات پڑھ کر دم فرماتے تھے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکلیف بڑھ گئی تو میں اسے آپ پر پڑھ کر دم کرتی اور برکت کی امید سے آپ کا ہاتھ آپ کے جسم پر پھیرتی۔
صحيح
سنن ابي داود
4052
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ الزُّهْرِيُّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى فِي خَمِيصَةٍ لَهَا أَعْلَامٌ، فَنَظَرَ إِلَى أَعْلَامِهَا فَلَمَّا سَلَّمَ قَالَ:" اذْهَبُوا بِخَمِيصَتِي هَذِهِ إِلَى أَبِي جَهْمٍ فَإِنَّهَا أَلْهَتْنِي آنِفًا فِي صَلَاتِي وَأْتُونِي بِأَنْبِجَانِيَّتِهِ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: أَبُو جَهْمٍ بْنُ حُذَيْفَةَ مِنْ بَنِي عَدِيِّ بْنِ كَعْبِ بْنِ غَانِمٍ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دھاری دار چادر میں نماز پڑھی تو آپ کی نظر اس کی دھاریوں پر پڑی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو فرمایا: میری یہ چادر ابوجہم کو لے جا کر دے آؤ کیونکہ اس نے ابھی مجھے نماز سے غافل کر دیا (یعنی میرا خیال اس کے بیل بوٹوں میں بٹ گیا) اور اس کی جگہ مجھے ایک سادہ چادر لا کر دو۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابوجہم بن حذیفہ بنو عدی بن کعب بن غانم میں سے ہیں۔
صحيح
سنن ابي داود
4053
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ فِي آخَرِينَ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ نَحْوَهُ وَالْأَوَّلُ أَشْبَعُ.
اس سند سے بھی ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے اسی جیسی حدیث مروی ہے اور پہلی روایت زیادہ کامل ہے۔
0
سنن ابي داود
4083
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، قَالَ: قَالَ الزُّهْرِيُّ، قَالَ عُرْوَةُ، قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا:"بَيْنَا نَحْنُ جُلُوسٌ فِي بَيْتِنَا فِي نَحْرِ الظَّهِيرَةِ، قَالَ قَائِلٌ لِأَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُقْبِلًا مُتَقَنِّعًا فِي سَاعَةٍ لَمْ يَكُنْ يَأْتِينَا فِيهَا، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَأْذَنَ فَأُذِنَ لَهُ فَدَخَلَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں ہم اپنے گھر میں گرمی میں عین دوپہر کے وقت بیٹھے تھے کہ اسی دوران ایک کہنے والے نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سر ڈھانپے ایک ایسے وقت میں تشریف لا رہے ہیں جس میں آپ نہیں آیا کرتے ہیں چنانچہ آپ آئے اور اندر آنے کی اجازت مانگی ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کو اجازت دی تو آپ اندر تشریف لائے۔
صحيح
سنن ابي داود
4108
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ بِمَعْنَاهُ.
اس سند سے بھی ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے اسی مفہوم کی (حدیث) مروی ہے۔
0
سنن ابي داود
4109
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ بِهَذَا الْحَدِيثِ زَادَ وَأَخْرَجَهُ، فَكَانَ بِالْبَيْدَاءِ يَدْخُلُ كُلَّ جُمْعَةٍ يَسْتَطْعِمُ.
اس سند سے بھی ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہی حدیث مروی ہے اور اس میں اتنا اضافہ ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نکال دیا، اور وہ بیداء میں رہنے لگا، ہر جمعہ کو وہ کھانا مانگنے آیا کرتا تھا۔
صحيح
سنن ابي داود
4373
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ الْهَمْدَانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي. ح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ قُرَيْشًا أَهَمَّهُمْ شَأْنُ الْمَرْأَةِ الْمَخْزُومِيَّةِ الَّتِي سَرَقَتْ، فَقَالُوا: مَنْ يُكَلِّمُ فِيهَا يَعْنِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: وَمَنْ يَجْتَرِئُ إِلَّا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ حِبُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَكَلَّمَهُ أُسَامَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أُسَامَةُ أَتَشْفَعُ فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ، ثُمَّ قَامَ فَاخْتَطَبَ، فَقَالَ: إِنَّمَا هَلَكَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ وَايْمُ اللَّهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ قریش کو ایک مخزومی عورت جس نے چوری کی تھی کے معاملہ نے فکرمند کر دیا، وہ کہنے لگے: اس عورت کے سلسلہ میں کون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کرے گا؟ لوگوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہیتے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کے سوا اور کس کو اس کی جرات ہو سکتی ہے؟ چنانچہ اسامہ رضی اللہ عنہ نے آپ سے اس سلسلہ میں گفتگو کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسامہ! کیا تم اللہ کے حدود میں سے ایک حد کے سلسلہ میں مجھ سے سفارش کرتے ہو! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا، آپ نے اس خطبہ میں فرمایا: تم سے پہلے کے لوگ اسی وجہ سے ہلاک ہوئے کیونکہ ان میں جب کوئی معزز آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کسی کمزور سے یہ جرم سرزد ہو جاتا تو اس پر حد قائم کرتے، قسم اللہ کی اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرے تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ ڈالوں گا۔
صحيح
سنن ابي داود
4396
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ، عَنِ اللَّيْثِ، قَالَ: حَدَّثَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: كَانَ عُرْوَةُ يُحَدِّثُ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ:" اسْتَعَارَتِ امْرَأَةٌ تَعْنِي حُلِيًّا عَلَى أَلْسِنَةِ أُنَاسٍ يُعْرَفُونَ وَلَا تُعْرَفُ هِيَ فَبَاعَتْهُ فَأُخِذَتْ فَأُتِيَ بِهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَ بِقَطْعِ يَدِهَا وَهِيَ الَّتِي شَفَعَ فِيهَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، وَقَالَ فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا قَالَ".
ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ عروہ بیان کرتے تھے کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا ہے کہ ایک عورت نے جسے کوئی نہیں جانتا تھا چند معروف لوگوں کی شہادت اور ذمہ داری پر ایک زیور منگنی لی اور اسے بیچ کر کھا گئی تو اسے پکڑ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا، تو آپ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا، یہ وہی عورت ہے جس کے سلسلہ میں اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے سفارش کی تھی، اور اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو فرمانا تھا فرمایا تھا۔
صحيح
سنن ابي داود
4534
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ" أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ أَبَا جَهْمِ بْنَ حُذَيْفَةَ مُصَدِّقًا، فَلَاجَّهُ رَجُلٌ فِي صَدَقَتِهِ فَضَرَبَهُ أَبُو جَهْمٍ فَشَجَّهُ، فَأَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: الْقَوَدَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَكُمْ كَذَا وَكَذَا، فَلَمْ يَرْضَوْا، فَقَالَ: لَكُمْ كَذَا وَكَذَا، فَلَمْ يَرْضَوْا، فَقَالَ: لَكُمْ كَذَا وَكَذَا، فَرَضُوا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّي خَاطِبٌ الْعَشِيَّةَ عَلَى النَّاسِ وَمُخْبِرُهُمْ بِرِضَاكُمْ، فَقَالُوا: نَعَمْ، فَخَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ، فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ هَؤُلَاءِ اللَّيْثِيِّينَ أَتَوْنِي يُرِيدُونَ الْقَوَدَ، فَعَرَضْتُ عَلَيْهِمْ كَذَا وَكَذَا فَرَضُوا، أَرَضِيتُمْ؟ قَالُوا: لَا، فَهَمَّ الْمُهَاجِرُونَ بِهِمْ، فَأَمَرَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَكُفُّوا عَنْهُمْ فَكَفُّوا، ثُمَّ دَعَاهُمْ فَزَادَهُمْ، فَقَالَ: أَرَضِيتُمْ، فَقَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: إِنِّي خَاطِبٌ عَلَى النَّاسِ وَمُخْبِرُهُمْ بِرِضَاكُمْ، قَالُوا: نَعَمْ، فَخَطَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَرَضِيتُمْ، قَالُوا: نَعَمْ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہم بن حذیفہ کو زکاۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا، ایک شخص نے اپنی زکاۃ کے سلسلہ میں ان سے جھگڑا کر لیا، ابوجہم نے اسے مارا تو اس کا سر زخمی ہو گیا، تو لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: اللہ کے رسول! قصاص دلوائیے، اس پر آپ نے ان سے فرمایا: تم اتنا اور اتنا لے لو لیکن وہ لوگ راضی نہیں ہوئے، تو آپ نے فرمایا: اچھا اتنا اور اتنا لے لو وہ اس پر بھی راضی نہیں ہوئے تو آپ نے فرمایا: اچھا اتنا اور اتنا لے لو اس پر وہ رضامند ہو گئے پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج شام کو میں لوگوں کے سامنے خطبہ دوں گا اور انہیں تمہاری رضا مندی کی خبر دوں گا لوگوں نے کہا: ٹھیک ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا، اور فرمایا: قبیلہ لیث کے یہ لوگ قصاص کے ارادے سے میرے پاس آئے ہیں تو میں نے ان کو اتنا اور اتنا مال پیش کیا اس پر یہ راضی ہو گئے ہیں (پھر آپ نے انہیں مخاطب کر کے پوچھا:) بتاؤ کیا تم لوگ راضی ہو؟ انہوں نے کہا: نہیں، تو مہاجرین ان پر جھپٹے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ان سے باز رہنے کا حکم دیا، چنانچہ وہ رک گئے، پھر آپ نے انہیں بلایا، اور کچھ اضافہ کیا پھر پوچھا: کیا اب تم راضی ہو؟ انہوں نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: میں لوگوں کو خطاب کروں گا، اور انہیں تمہاری رضا مندی کے بارے میں بتاؤں گا لوگوں نے کہا: ٹھیک ہے، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطاب کیا، اور پوچھا: کیا تم راضی ہو؟ وہ بولے: ہاں۔
صحيح
سنن ابي داود
4655
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ ثَوْرٍ حَدَّثَهُمْ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، قَالَ:" خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَمَنَ الْحُدَيْبِيَةِ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ: فَأَتَاهُ يَعْنِي عُرْوَةَ بْنَ مَسْعُودٍ، فَجَعَلَ يُكَلِّمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكُلَّمَا كَلَّمَهُ أَخَذَ بِلِحْيَتِهِ، وَالْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ قَائِمٌ عَلَى رَأْسِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ السَّيْفُ وَعَلَيْهِ الْمِغْفَرُ فَضَرَبَ يَدَهُ بِنَعْلِ السَّيْفِ، وَقَالَ: أَخِّرْ يَدَكَ عَنْ لِحْيَتِهِ، فَرَفَعَ عُرْوَةُ رَأْسَهُ، فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ".
مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ کے زمانے میں نکلے، پھر راوی نے حدیث بیان کی، وہ کہتے ہیں کہ آپ کے پاس وہ یعنی عروہ بن مسعود آیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرنے لگا، جب وہ آپ سے بات کرتا، تو آپ کی ڈاڑھی پر ہاتھ لگاتا، مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے تھے، ان کے پاس تلوار تھی اور سر پر خود، انہوں نے تلوار کے پر تلے کے نچلے حصہ سے اس کے ہاتھ پر مارا اور کہا: اپنا ہاتھ ان کی ڈاڑھی سے دور رکھ، عروہ نے اپنا سر اٹھایا اور بولا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا: مغیرہ بن شعبہ ہیں۔
صحيح
سنن ابي داود
4785
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: مَا خُيِّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَمْرَيْنِ إِلَّا اخْتَارَ أَيْسَرَهُمَا مَا لَمْ يَكُنْ إِثْمًا، فَإِنْ كَانَ إِثْمًا كَانَ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنْهُ، وَمَا انْتَقَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِنَفْسِهِ إِلَّا أَنْ تُنْتَهَكَ حُرْمَةُ اللَّهِ تَعَالَى، فَيَنْتَقِمُ لِلَّهِ بِهَا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو کاموں میں جب بھی اختیار کا حکم دیا گیا تو آپ نے اس میں آسان تر کو منتخب کیا، جب تک کہ وہ گناہ نہ ہو، اور اگر وہ گناہ ہوتا تو آپ لوگوں میں سب سے زیادہ اس سے دور رہنے والے ہوتے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی خاطر کبھی انتقام نہیں لیا، اس صورت کے علاوہ کہ اللہ تعالیٰ کی حرمت کو پامال کیا جاتا ہو تو آپ اس صورت میں اللہ تعالیٰ کے لیے اس سے بدلہ لیتے ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
4786
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: مَا ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَادِمًا، وَلَا امْرَأَةً قَطُّ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کبھی کسی خادم کو مارا، اور نہ کبھی کسی عورت کو۔
صحيح

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.