سنن ابي داود
محمد بن شهاب الزهري (حدثنا / عن) علي زين العابدين
نوٹ: یہ رزلٹ صرف سنن ابی داود کی چند احادیث پر مشتمل ہے مکمل ریکارڈ کب پیش ہو رہا ہے جاننے کے لیے رابطہ کیجئیے۔
کتاب
حدیث نمبر
عربی متن
اردو ترجمہ
حکم البانی
سنن ابي داود
2010
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيْنَ تَنْزِلُ غَدًا فِي حَجَّتِهِ؟ قَالَ:" هَلْ تَرَكَ لَنَا عَقِيلٌ مَنْزِلًا؟" ثُمَّ قَالَ:" نَحْنُ نَازِلُونَ بِخَيْفِ بَنِي كِنَانَةَ حَيْثُ قَاسَمَتْ قُرَيْشٌ عَلَى الْكُفْرِ، يَعْنِي الْمُحَصَّبَ، وَذَلِكَ أَنْ بَنِي كِنَانَةَ حَالَفَتْ قُرَيْشًا عَلَى بَنِي هَاشِمٍ أَنْ لَا يُنَاكِحُوهُمْ وَلَا يُبَايِعُوهُمْ وَلَا يُؤْوُوهُمْ". قَالَ الزُّهْرِيُّ: وَالْخَيْفُ الْوَادِي.
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کل حج میں کہاں اتریں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا عقیل نے کوئی گھر ہمارے لیے (مکہ میں) چھوڑا ہے؟، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم خیف بنو کنانہ میں اتریں گے جہاں قریش نے کفر پر عہد کیا تھا (یعنی وادی محصب میں) ۱؎، اور وہ یہ کہ بنو کنانہ نے قریش سے بنی ہاشم کے خلاف قسم کھائی تھی کہ وہ ان سے نہ شادی بیاہ کریں گے، نہ خرید و فروخت، اور نہ انہیں پناہ دیں گے۔ زہری کہتے ہیں: خیف وادی کا نام ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
2069
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ كَثِيرٍ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَةَ الدِّيلِيُّ، أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ حَدَّثَهُ، أَنَّهُمْ حِينَ قَدِمُوا الْمَدِينَةَ مِنْ عِنْدِ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ مَقْتَلَ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، لَقِيَهُ الْمِسْوَرُ بْنُ مَخْرَمَةَ فَقَالَ لَهُ: هَلْ لَكَ إِلَيَّ مِنْ حَاجَةٍ تَأْمُرُنِي بِهَا؟ قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: لَا، قَالَ: هَلْ أَنْتَ مُعْطِيَّ سَيْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يَغْلِبَكَ الْقَوْمُ عَلَيْهِ، وَايْمُ اللَّهِ لَئِنْ أَعْطَيْتَنِيهِ لَا يُخْلَصُ إِلَيْهِ أَبَدًا حَتَّى يُبْلَغَ إِلَى نَفْسِي، إِنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ خَطَبَ بِنْتَ أَبِي جَهْلٍ عَلَى فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَخْطُبُ النَّاسَ فِي ذَلِكَ عَلَى مِنْبَرِهِ هَذَا وَأَنَا يَوْمَئِذٍ مُحْتَلِمٌ، فَقَالَ:" إِنَّ فَاطِمَةَ مِنِّي، وَأَنَا أَتَخَوَّفُ أَنْ تُفْتَنَ فِي دِينِهَا"، قَالَ: ثُمَّ ذَكَرَ صِهْرًا لَهُ مِنْ بَنِي عَبْدِ شَمْسٍ فَأَثْنَى عَلَيْهِ فِي مُصَاهَرَتِهِ إِيَّاهُ فَأَحْسَنَ، قَالَ:" حَدَّثَنِي فَصَدَقَنِي، وَوَعَدَنِي فَوَفَّى لِي، وَإِنِّي لَسْتُ أُحَرِّمُ حَلَالًا وَلَا أُحِلُّ حَرَامًا، وَلَكِنْ وَاللَّهِ لَا تَجْتَمِعُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ وَبِنْتُ عَدُوِّ اللَّهِ مَكَانًا وَاحِدًا أَبَدًا".
علی بن حسین کا بیان ہے وہ لوگ حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے زمانے میں یزید بن معاویہ کے پاس سے مدینہ آئے تو ان سے مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ ملے اور کہا: اگر میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتائیے تو میں نے ان سے کہا: نہیں، انہوں نے کہا: کیا آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار دے سکتے ہیں؟ کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ لوگ آپ سے اسے چھین لیں گے، اللہ کی قسم! اگر آپ اسے مجھے دیدیں گے تو اس تک کوئی ہرگز نہیں پہنچ سکے گا جب تک کہ وہ میرے نفس تک نہ پہنچ جائے ۱؎۔ علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہوتے ہوئے ابوجہل کی بیٹی ۲؎ کو نکاح کا پیغام دیا تو میں نے اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اسی منبر پر خطبہ دیتے ہوئے سنا، اس وقت میں جوان تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فاطمہ میرا ٹکڑا ہے، مجھے ڈر ہے کہ وہ دین کے معاملہ میں کسی آزمائش سے دو چار نہ ہو جائے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی عبد شمس میں سے اپنے ایک داماد کا ذکر فرمایا، اور اس رشتہ دامادی کی خوب تعریف کی، اور فرمایا: جو بات بھی اس نے مجھ سے کی سچ کر دکھائی، اور جو بھی وعدہ کیا پورا کیا، میں کسی حلال کو حرام اور حرام کو حلال قطعاً نہیں کر رہا ہوں لیکن اللہ کی قسم، اللہ کے رسول کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ہرگز ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتی۔
صحيح
سنن ابي داود
2470
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنُ شَبُّوَيْهِ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنْ صَفِيَّةَ، قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُعْتَكِفًا، فَأَتَيْتُهُ أَزُورُهُ لَيْلًا فَحَدَّثْتُهُ ثُمَّ قُمْتُ، فَانْقَلَبْتُ فَقَامَ مَعِي لِيَقْلِبَنِي"، وَكَانَ مَسْكَنُهَا فِي دَارِ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ. فَمَرَّ رَجُلَانِ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَلَمَّا رَأَيَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْرَعَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَلَى رِسْلِكُمَا، إِنَّهَا صَفِيَّةُ بِنْتُ حُيَيٍّ. قَالَا: سُبْحَانَ اللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ: إِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنَ الْإِنْسَانِ مَجْرَى الدَّمِ، فَخَشِيتُ أَنْ يَقْذِفَ فِي قُلُوبِكُمَا شَيْئًا، أَوْ قَالَ: شَرًّا.
ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معتکف تھے تو میں رات میں ملاقات کی غرض سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے بات چیت کی، پھر میں کھڑی ہو کر چلنے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مجھے واپس کرنے کے لیے کھڑے ہو گئے، (اس وقت ان کی رہائش اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کے مکان میں تھی) اتنے میں دو انصاری وہاں سے گزرے، وہ آپ کو دیکھ کر تیزی سے نکلنے لگے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٹھہرو، یہ صفیہ بنت حیی (میری بیوی) ہے (ایسا نہ ہو کہ تمہیں کوئی غلط فہمی ہو جائے)، وہ بولے: سبحان اللہ! اللہ کے رسول! (آپ کے متعلق ایسی بدگمانی ہو ہی نہیں سکتی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شیطان انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے، مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں وہ تمہارے دل میں کچھ (یا کہا: کوئی شر) نہ ڈال دے۔
صحيح
سنن ابي داود
2909
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا يَرِثُ الْمُسْلِمُ الْكَافِرَ وَلَا الْكَافِرُ الْمُسْلِمَ".
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کافر کا اور کافر مسلمان کا وارث نہیں ہو سکتا۔
صحيح
سنن ابي داود
2910
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، قَالَ: قُلْتُ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيْنَ تَنْزِلُ غَدًا فِي حِجَّتِهِ؟ قَالَ: وَهَلْ تَرَكَ لَنَا عَقِيلٌ مَنْزِلًا؟، ثُمَّ قَالَ: نَحْنُ نَازِلُونَ بِخَيْفِ بَنِي كِنَانَةَ حَيْثُ تَقَاسَمَتْ قُرَيْشٌ عَلَى الْكُفْرِ يَعْنِي الْمُحَصَّبِ، وَذَاكَ أَنَّ بَنِي كِنَانَةَ حَالَفَتْ قُرَيْشًا عَلَى بَنِي هَاشِمٍ أَنْ لَا يُنَاكِحُوهُمْ وَلَا يُبَايِعُوهُمْ وَلَا يُئْوُوهُمْ"، قَالَ الزُّهْرِيُّ: وَالْخَيْفُ الْوَادِي.
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کل آپ (مکہ میں) کہاں اتریں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا عقیل نے ہمارے لیے کوئی جائے قیام چھوڑی ہے؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم بنی کنانہ کے خیف یعنی وادی محصب میں اتریں گے، جہاں قریش نے کفر پر جمے رہنے کی قسم کھائی تھی۔ بنو کنانہ نے قریش سے عہد لیا تھا کہ وہ بنو ہاشم سے نہ نکاح کریں گے، نہ خرید و فروخت، اور نہ انہیں اپنے یہاں جگہ (یعنی پناہ) دیں گے۔ زہری کہتے ہیں: خیف ایک وادی کا نام ہے ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
2986
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ، أَنَّ حُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: كَانَتْ لِي شَارِفٌ مِنْ نَصِيبِي مِنَ الْمَغْنَمِ يَوْمَ بَدْرٍ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَانِي شَارِفًا مِنَ الْخُمُسِ يَوْمَئِذٍ، فَلَمَّا أَرَدْتُ أَنْ أَبْنِيَ بِفَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاعَدْتُ رَجُلًا صَوَّاغًا مِنْ بَنِي قَيْنُقَاعٍ أَنْ يَرْتَحِلَ مَعِي فَنَأْتِيَ بِإِذْخِرٍ أَرَدْتُ أَنْ أَبِيعَهُ مِنَ الصَّوَّاغِينَ فَأَسْتَعِينَ بِهِ فِي وَلِيمَةِ عُرْسِي، فَبَيْنَا أَنَا أَجَمْعُ لِشَارِفَيَّ مَتَاعًا مِنَ الأَقْتَابِ وَالْغَرَائِرِ وَالْحِبَالِ وَشَارِفَايَ مُنَاخَانِ إِلَى جَنْبِ حُجْرَةِ رَجُلٍ مِنْ الأَنْصَارِ أَقْبَلْتُ حِينَ جَمَعْتُ مَا جَمَعْتُ فَإِذَا بِشَارفَيَّ قَدِ اجْتُبَّتْ أَسْنِمَتُهُمَا وَبُقِرَتْ خَوَاصِرُهُمَا وَأُخِذَ مِنْ أَكْبَادِهِمَا، فَلَمْ أَمْلِكْ عَيْنَيَّ حِينَ رَأَيْتُ ذَلِكَ الْمَنْظَرَ، فَقُلْتُ: مَنْ فَعَلَ هَذَا قَالُوا: فَعَلَهُ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وهُوَ فِي هَذَا الْبَيْتِ فِي شَرْبٍ مِنْ الأَنْصَارِ غَنَّتْهُ قَيْنَةٌ وَأَصْحَابَهُ، فَقَالَتْ فِي غِنَائِهَا: أَلَا يَا حَمْزُ لِلشُّرُفِ النِّوَاءِ؟، فَوَثَبَ إِلَى السَّيْفِ فَاجْتَبَّ أَسْنِمَتَهُمَا وَبَقَرَ خَوَاصِرَهُمَا، وَأَخَذَ مِنْ أَكْبَادِهِمَا قَالَ عَلِيٌّ: فَانْطَلَقْتُ حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعِنْدَهُ زَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ، قَالَ: فَعَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي لَقِيتُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا لَكَ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا رَأَيْتُ كَالْيَوْمِ عَدَا حَمْزَةُ عَلَى نَاقَتَيَّ فَاجْتَبَّ أَسْنِمَتَهُمَا وَبَقَرَ خَوَاصِرَهُمَا وَهَهُوَ ذَا فِي بَيْتٍ مَعَهُ شَرْبٌ فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرِدَائِهِ فَارْتَدَاهُ، ثُمَّ انْطَلَقَ يَمْشِي وَاتَّبَعْتُهُ أَنَا وَزَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ. حتَّى جَاءَ الْبَيْتَ الَّذِي فِيهِ حَمْزَةُ فَاسْتَأْذَنَ فَأُذِنَ لَهُ فَإِذَا هُمْ شَرْبٌ فَطَفِقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلُومُ حَمْزَةَ فِيمَا فَعَلَ، فَإِذَا حَمْزَةُ ثَمِلٌ مُحْمَرَّةٌ عَيْنَاهُ، فَنَظَرَ حَمْزَةُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ صَعَّدَ النَّظَرَ فَنَظَرَ إِلَى رُكْبَتَيْهِ ثُمَّ صَعَّدَ النَّظَرَ فَنَظَرَ إِلَى سُرَّتِهِ ثُمَّ صَعَّدَ النَّظَرَ فَنَظَرَ إِلَى وَجْهِهِ، ثُمَّ قَالَ: حَمْزَةُ وَهَلْ أَنْتُمْ إِلَّا عَبِيدٌ لِأَبِي، فَعَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ ثَمِلٌ فَنَكَصَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عَقِبَيْهِ الْقَهْقَرَى فَخَرَجَ وَخَرَجْنَا مَعَهُ.
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے پاس ایک زیادہ عمر والی اونٹنی تھی جو مجھے بدر کے دن مال غنیمت کی تقسیم میں ملی تھی اور اسی دن مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور بہت عمر والی اونٹنی مال خمس میں سے عنایت فرمائی تھی تو جب میں نے ارادہ کیا کہ میں فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھر لاؤں، تو میں نے بنو قینقاع کے ایک سنار سے وعدہ لے لیا کہ وہ میرے ساتھ چلے اور ہم دونوں جا کر اذخر (ایک خوشبودار گھاس ہے) لائیں میرا ارادہ یہ تھا کہ میں اسے سناروں سے بیچ کر اپنے ولیمہ کی تیاری میں اس سے مدد لوں، اسی دوران کہ میں اپنی اونٹنیوں کے لیے پالان، گھاس کے ٹوکرے اور رسیاں (وغیرہ) اکٹھا کر رہا تھا اور میری دونوں اونٹنیاں ایک انصاری کے حجرے کے بغل میں بیٹھی ہوئی تھیں، جو ضروری سامان میں مہیا کر سکتا تھا کر کے لوٹ کر آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ دونوں اونٹنیوں کے کوہان کاٹ دئیے گئے ہیں اور پیٹ چاک کر دئیے گئے ہیں، اور ان کے کلیجے نکال لیے گئے ہیں، جب میں نے یہ منظر دیکھا تو میں اپنی آنکھوں پر قابو نہ پا سکا میں نے کہا: یہ کس نے کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: یہ سب حمزہ بن عبدالمطلب نے کیا ہے، وہ اس گھر میں چند انصاریوں کے ساتھ شراب پی رہے ہیں، ایک مغنیہ نے ان کے اور ان کے ساتھیوں کے سامنے یوں گا یا: «ألا يا حمز للشرف النواء»  ۱؎ (اے حمزہ ان موٹی موٹی اونٹنیوں کے لیے جو میدان میں بندھی ہوئی ہیں اٹھ کھڑے ہو) یہ سن کر وہ تلوار کی طرف جھپٹے اور جا کر ان کے کوہان کاٹ ڈالے، ان کے پیٹ چاک کر ڈالے، اور ان کے کلیجے نکال لیے، میں وہاں سے چل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا، آپ کے پاس زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (میرے چہرے کو دیکھ کر) جو (صدمہ) مجھے لاحق ہوا تھا اسے بھانپ لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں کیا ہوا؟ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے آج کے دن کے جیسا کبھی نہیں دیکھا، حمزہ نے میری اونٹنیوں پر ظلم کیا ہے، ان کے کوہان کاٹ ڈالے، ان کے پیٹ پھاڑ ڈالے اور وہ یہاں ایک گھر میں شراب پینے والوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر منگوائی اور اس کو اوڑھ کر چلے، میں بھی اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے چلے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس گھر میں پہنچے جہاں حمزہ تھے، آپ نے اندر جانے کی اجازت مانگی تو اجازت دے دی گئی، جب اندر گئے تو دیکھا کہ سب شراب پئے ہوئے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حمزہ کو ان کے کئے پر ملامت کرنے لگے، دیکھا تو حمزہ نشے میں تھے، آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں، حمزہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا، پھر تھوڑی نظر بلند کی تو آپ کے گھٹنوں کو دیکھا، پھر تھوڑی نظر اور بلند کی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناف کی طرف دیکھا، پھر تھوڑی نظر اور بلند کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ کو دیکھا، پھر بولے: تم سب میرے باپ کے غلام ہی تو ہو، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جان لیا کہ حمزہ نشے میں دھت ہیں (یہ دیکھ کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الٹے پاؤں وہاں سے پلٹے اور نکل آئے اور آپ کے ساتھ ہم بھی نکل آئے (اس وقت تک شراب حرام نہ ہوئی تھی)۔
صحيح
سنن ابي داود
2989
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ،عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ بِهَذِهِ الْقِصَّةِ، قَالَ: وَلَمْ يُخْدِمْهَا.
علی بن حسین سے بھی یہی واقعہ مروی ہے اس میں یہ ہے کہ اس میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خادم نہیں دیا۔
ضعيف
سنن ابي داود
4994
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنْ صَفِيَّةَ، قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُعْتَكِفًا فَأَتَيْتُهُ أَزُورُهُ لَيْلًا، فَحَدَّثْتُهُ وَقُمْتُ فَانْقَلَبْتُ، فَقَامَ مَعِي لِيَقْلِبَنِي , وَكَانَ مَسْكَنُهَا فِي دَارِ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، فَمَرَّ رَجُلَانِ مِنْ الْأَنْصَارِ فَلَمَّا رَأَيَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْرَعَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَلَى رِسْلِكُمَا إِنَّهَا صَفِيَّةُ بِنْتُ حُيَيٍّ , قَالَا: سُبْحَانَ اللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ , قال: إِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنَ الْإِنْسَانِ مَجْرَى الدَّمِ، فَخَشِيتُ أَنْ يَقْذِفَ فِي قُلُوبِكُمَا شَيْئًا أَوْ قَالَ: شَرًّا".
ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف میں تھے، میں ایک رات آپ کے پاس آپ سے ملنے آئی تو میں نے آپ سے گفتگو کی اور اٹھ کر جانے لگی، آپ مجھے پہنچانے کے لیے میرے ساتھ اٹھے اور اس وقت وہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کے گھر میں رہتی تھیں، اتنے میں انصار کے دو آدمی گزرے انہوں نے جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو تیزی سے چلنے لگے، آپ نے فرمایا: تم دونوں ٹھہرو، یہ صفیہ بنت حیی ہیں ان دونوں نے کہا: سبحان اللہ، اللہ کے رسول! (یعنی کیا ہم آپ کے سلسلہ میں بدگمانی کر سکتے ہیں) آپ نے فرمایا: شیطان آدمی میں اسی طرح پھرتا ہے، جیسے خون (رگوں میں) پھرتا ہے، تو مجھے اندیشہ ہوا کہ تمہارے دل میں کچھ ڈال نہ دے، یا یوں کہا: کوئی بری بات نہ ڈال دے ۱؎۔
صحيح

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.