سنن ابي داود
0 (حدثنا / عن) عيسى بن يونس السبيعي
نوٹ: یہ رزلٹ صرف سنن ابی داود کی چند احادیث پر مشتمل ہے مکمل ریکارڈ کب پیش ہو رہا ہے جاننے کے لیے رابطہ کیجئیے۔
کتاب
حدیث نمبر
عربی متن
اردو ترجمہ
حکم البانی
سنن ابي داود
35
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ ثَوْرٍ، عَنِ الْحُصَيْنِ الْحُبْرَانِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنِ اكْتَحَلَ فَلْيُوتِرْ، مَنْ فَعَلَ فَقَدْ أَحْسَنَ مَنْ لَا فَلَا حَرَجَ، وَمَنِ اسْتَجْمَرَ فَلْيُوتِرْ، مَنْ فَعَلَ فَقَدْ أَحْسَنَ وَمَنْ لَا فَلَا حَرَجَ، وَمَنْ أَكَلَ فَمَا تَخَلَّلَ فَلْيَلْفِظْ، وَمَا لَاكَ بِلِسَانِهِ فَلْيَبْتَلِعْ، مَنْ فَعَلَ فَقَدْ أَحْسَنَ وَمَنْ لَا فَلَا حَرَجَ، وَمَنْ أَتَى الْغَائِطَ فَلْيَسْتَتِرْ، فَإِنْ لَمْ يَجِدْ إِلَّا أَنْ يَجْمَعَ كَثِيبًا مِنْ رَمْلٍ فَلْيَسْتَدْبِرْهُ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَلْعَبُ بِمَقَاعِدِ بَنِي آدَمَ، مَنْ فَعَلَ فَقَدْ أَحْسَنَ وَمَنْ لَا فَلَا حَرَجَ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ثَوْرٍ، قَالَ حُصَيْنٌ الْحِمْيَرِيُّ: وَرَوَاهُ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ الصَّبَّاحِ، عَنْ ثَوْرٍ، فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ الْخَيْر، قَالَ أَبُو دَاوُد: أَبُو سَعِيدٍ الْخَيْر هُوَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص سرمہ لگائے تو طاق لگائے، جس نے ایسا کیا اس نے اچھا کیا، اور جس نے ایسا نہیں کیا تو اس میں کوئی مضائقہ اور حرج نہیں، جو شخص (استنجاء کے لیے) پتھر یا ڈھیلا لے تو طاق لے، جس نے ایسا کیا اس نے اچھا کیا، اور جس نے ایسا نہیں کیا تو کوئی حرج نہیں، اور جو شخص کھانا کھائے تو خلال کرنے سے جو کچھ نکلے اسے پھینک دے، اور جسے زبان سے نکالے اسے نگل جائے، جس نے ایسا کیا اس نے اچھا کیا، اور جس نے ایسا نہیں کیا تو کوئی حرج نہیں، جو شخص قضائے حاجت (پیشاب و پاخانہ) کے لیے جائے تو پردہ کرے، اگر پردہ کے لیے کوئی چیز نہ پائے تو بالو یا ریت کا ایک ڈھیر لگا کر اس کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھ جائے کیونکہ شیطان آدمی کی شرمگاہ سے کھیلتا ہے ۱؎، جس نے ایسا کیا اس نے اچھا کیا، اور جس نے نہیں کیا تو کوئی مضائقہ نہیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ابوعاصم نے ثور سے روایت کی ہے، اس میں (حصین حبرانی کی جگہ) حصین حمیری ہے، اور عبدالملک بن صباح نے بھی اسے ثور سے روایت کیا ہے، اس میں (ابوسعید کی جگہ) ابوسعید الخیر ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابوسعید الخیر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ہیں۔
ضعيف
سنن ابي داود
47
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي، لَأَمَرْتُهُمْ بِالسِّوَاكِ عِنْدَ كُلِّ صَلَاةٍ"، قَالَ أَبُو سَلَمَةَ: فَرَأَيْتُ زَيْدًا يَجْلِسُ فِي الْمَسْجِدِ وَإِنَّ السِّوَاكَ مِنْ أُذُنِهِ مَوْضِعَ الْقَلَمِ مِنْ أُذُنِ الْكَاتِبِ، فَكُلَّمَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ اسْتَاكَ.
زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: اگر میں اپنی امت پر دشواری محسوس نہ کرتا تو ہر نماز کے وقت انہیں مسواک کرنے کا حکم دیتا۔ ابوسلمہ (ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن) کہتے ہیں: میں نے زید بن خالد رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ نماز کے لیے مسجد میں بیٹھے رہتے اور مسواک ان کے کان پر ہوتی جیسے کاتب کے کان پر قلم لگا رہتا ہے، جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو مسواک کر لیتے (پھر کان کے اوپر رکھ لیتے)۔
صحيح
سنن ابي داود
51
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَيْحٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ بِأَيِّ شَيْءٍ كَانَ يَبْدَأُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ بَيْتَهُ؟ قَالَتْ:" بِالسِّوَاكِ".
شریح کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے گھر میں داخل ہوتے تو کس چیز سے ابتداء فرماتے؟ فرمایا: مسواک سے۔
صحيح
سنن ابي داود
109
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا عِيسَى، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي عَلْقَمَةَ، أَنَّ عُثْمَانَ، دَعَا بِمَاءٍ فَتَوَضَّأَ، فَأَفْرَغَ بِيَدِهِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى، ثُمَّ غَسَلَهُمَا إِلَى الْكُوعَيْنِ، قَالَ: ثُمَّ مَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ ثَلَاثًا، وَذَكَرَ الْوُضُوءَ ثَلَاثًا، قَالَ: وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَيْهِ، وَقَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ مِثْلَ مَا رَأَيْتُمُونِي تَوَضَّأْتُ. ثُمَّ سَاقَ نَحْوَ حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ وَأَتَمّ.
ابوعلقمہ کہتے ہیں کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے پانی منگوایا اور وضو کیا، پہلے داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالا پھر دونوں ہاتھوں کو پہونچوں تک دھویا، پھر تین بار کلی کی، اور تین بار ناک میں پانی ڈالا، اور اسی طرح وضو کے اندر بقیہ تمام اعضاء ء کو تین بار دھونے کا ذکر کیا، پھر کہا: اور آپ (عثمان رضی اللہ عنہ) نے اپنے سر کا مسح کیا پھر اپنے دونوں پیر دھوئے اور کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح وضو کرتے دیکھا ہے جیسے تم لوگوں نے مجھے وضو کرتے دیکھا، پھر زہری کی حدیث (نمبر ۱۰۶) کی طرح اپنی حدیث بیان کی اور ان کی حدیث سے کامل بیان کی۔
حسن صحيح
سنن ابي داود
540
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عِيسَى، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ يَحْيَى، بِإِسْنَادِهِ مِثْلَهُ، قَالَ: حَتَّى تَرَوْنِي قَدْ خَرَجْتُ، قَالَ أَبُو دَاوُد: لَمْ يَذْكُرْ قَدْ خَرَجْتُ إِلَّا مَعْمَرٌ، وَرَوَاهُ ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مَعْمَرٍ، لَمْ يَقُلْ فِيهِ: قَدْ خَرَجْتُ.
یحییٰ سے اسی سند سے گذشتہ حدیث کے ہم مثل حدیث مروی ہے، اس میں ہے یہاں تک کہ تم مجھے دیکھ لو کہ میں نکل چکا ہوں۔ ابوداؤد کہتے ہیں: معمر کے علاوہ کسی نے «قد خرجت» کا لفظ ذکر نہیں کیا۔ ابن عیینہ نے بھی اسے معمر سے روایت کیا ہے، اس میں بھی انہوں نے «قد خرجت» نہیں کہا ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
817
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا عِيسَى يَعْنِي ابْنَ يُونُسَ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ أَصْبَغَ مَوْلَى عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ، قَالَ: كَأَنِّي أَسْمَعُ صَوْتَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَقْرَأُ فِي صَلَاةِ الْغَدَاةِ: فَلا أُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ {15} الْجَوَارِ الْكُنَّسِ {16} سورة التكوير آية 15-16".
عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں گویا میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سن رہا ہوں، آپ فجر میں «فلا أقسم بالخنس * الجوار الكنس‏» پڑھ رہے ہیں۔
صحيح
سنن ابي داود
819
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا عِيسَى، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مَيْمُونٍ الْبَصْرِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ النَّهْدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اخْرُجْ فَنَادِ فِي الْمَدِينَةِ أَنَّهُ لَا صَلَاةَ إِلَّا بِقُرْآنٍ وَلَوْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَمَا زَادَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: تم جاؤ اور مدینہ میں اعلان کر دو کہ نماز بغیر قرآن کے نہیں ہوتی، اگرچہ سورۃ فاتحہ اور اس کے ساتھ کچھ اور ہی ہو۔
منكر
سنن ابي داود
1051
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا عِيسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَطَاءٌ الْخُرَاسَانِيُّ، عَنْ مَوْلَى امْرَأَتِهِ أُمِّ عُثْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى مِنْبَرِ الْكُوفَةِ، يَقُولُ:" إِذَا كَانَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ غَدَتِ الشَّيَاطِينُ بِرَايَاتِهَا إِلَى الْأَسْوَاقِ فَيَرْمُونَ النَّاسَ بِالتَّرَابِيثِ أَوِ الرَّبَائِثِ، وَيُثَبِّطُونَهُمْ عَنِ الْجُمُعَةِ، وَتَغْدُو الْمَلَائِكَةُ فَيَجْلِسُونَ عَلَى أَبْوَابِ الْمَسْجِدِ، فَيَكْتُبُونَ الرَّجُلَ مِنْ سَاعَةٍ وَالرَّجُلَ مِنْ سَاعَتَيْنِ حَتَّى يَخْرُجَ الْإِمَامُ، فَإِذَا جَلَسَ الرَّجُلُ مَجْلِسًا يَسْتَمْكِنُ فِيهِ مِنَ الِاسْتِمَاعِ وَالنَّظَرِ فَأَنْصَتَ وَلَمْ يَلْغُ كَانَ لَهُ كِفْلَانِ مِنْ أَجْرٍ، فَإِنْ نَأَى وَجَلَسَ حَيْثُ لَا يَسْمَعُ فَأَنْصَتَ وَلَمْ يَلْغُ كَانَ لَهُ كِفْلٌ مِنْ أَجْرٍ، وَإِنْ جَلَسَ مَجْلِسًا يَسْتَمْكِنُ فِيهِ مِنَ الِاسْتِمَاعِ وَالنَّظَرِ فَلَغَا وَلَمْ يُنْصِتْ كَانَ لَهُ كِفْلٌ مِنْ وِزْرٍ، وَمَنْ قَالَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ لِصَاحِبِهِ صَهٍ فَقَدْ لَغَا، وَمَنْ لَغَا فَلَيْسَ لَهُ فِي جُمُعَتِهِ تِلْكَ شَيْءٌ". ثُمَّ يَقُولُ فِي آخِرِ ذَلِكَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ ذَلِكَ. قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ ابْنِ جَابِرٍ، قَالَ: بِالرَّبَائِثِ، وَقَالَ مَوْلَى امْرَأَتِهِ أُمِّ عُثْمَانَ بْنِ عَطَاءٍ.
عطاء خراسانی اپنی بیوی ام عثمان کے غلام سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: میں نے کوفہ کے منبر پر علی رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ جب جمعہ کا دن آتا ہے تو شیطان اپنے جھنڈے لے کر بازاروں میں جاتے ہیں اور لوگوں کو ضرورتوں و حاجتوں کی یاد دلا کر ان کو جمعہ میں آنے سے روکتے ہیں اور فرشتے صبح سویرے مسجد کے دروازے پر آ کر بیٹھتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ کون پہلی ساعت (گھڑی) میں آیا، اور کون دوسری ساعت (گھڑی) میں آیا، یہاں تک کہ امام (خطبہ جمعہ کے لیے) نکلتا ہے، پھر جب آدمی ایسی جگہ بیٹھتا ہے، جہاں سے وہ خطبہ سن سکتا ہے اور امام کو دیکھ سکتا ہے اور (دوران خطبہ) چپ رہتا ہے، کوئی لغو حرکت نہیں کرتا تو اس کو دوہرا ثواب ملتا ہے اور اگر کوئی شخص دور بیٹھتا ہے جہاں سے خطبہ سنائی نہیں دیتا، لیکن خاموش رہتا ہے اور کوئی بیہودہ بات نہیں کرتا تو ایسے شخص کو ثواب کا ایک حصہ ملتا ہے اور اگر کوئی ایسی جگہ بیٹھا، جہاں سے خطبہ سن سکتا ہے اور امام کو دیکھ سکتا ہے لیکن (دوران خطبہ) بیہودہ باتیں کرتا رہا اور خاموش نہ رہا تو اس پر گناہ کا ایک حصہ لاد دیا جاتا ہے اور جس شخص نے جمعہ کے دن اپنے (بغل کے) ساتھی سے کہا: چپ رہو، تو اس نے لغو حرکت کی اور جس شخص نے لغو حرکت کی تو اسے اس جمعہ کا ثواب کچھ نہ ملے گا، پھر وہ اس روایت کے اخیر میں کہتے ہیں: میں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ولید بن مسلم نے ابن جابر سے روایت کیا ہے۔ اس میں بغیر شک کے «ربائث» ہے، نیز اس میں «مولى امرأته أم عثمان بن عطاء» ہے۔
ضعيف
سنن ابي داود
1416
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا عِيسَى، عَنْ زَكَرِيَّا، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أَهْلَ الْقُرْآنِ، أَوْتِرُوا فَإِنَّ اللَّهَ وِتْرٌ يُحِبُّ الْوِتْرَ".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے قرآن والو! ۱؎ وتر پڑھا کرو اس لیے کہ اللہ وتر (طاق) ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
1513
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا عِيسَى، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ أَبِي عَمَّارٍ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ، عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَنْصَرِفَ مِنْ صَلَاتِهِ" اسْتَغْفَرَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ"، ثُمَّ قَالَ:" اللَّهُمَّ". فَذَكَرَ مَعْنَى حَدِيثِ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا.
ثوبان مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہو کر پلٹتے تو تین مرتبہ استغفار کرتے، اس کے بعد «اللهم» کہتے، پھر راوی نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی اوپر والی حدیث کے ہم معنی حدیث ذکر کی۔
صحيح
سنن ابي داود
1543
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا عِيسَى، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَدْعُو بِهَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ:" اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ النَّارِ، وَعَذَابِ النَّارِ، وَمِنْ شَرِّ الْغِنَى، وَالْفَقْرِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کلمات کے ساتھ دعا مانگتے: «اللهم إني أعوذ بك من فتنة النار، وعذاب النار، ومن شر الغنى، والفقر» اے اللہ! میں جہنم کے فتنے جہنم کے عذاب اور دولت مندی و فقر کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔
صحيح
سنن ابي داود
1553
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ،أَخْبَرَنَا عِيسَى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدٍ، حَدَّثَنِي مَوْلًى لِأَبِي أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي الْيَسَرِ، زَادَ فِيهِ" وَالْغَمِّ".
اس سند سے بھی ابوالیسر رضی اللہ عنہ سے اسی طرح کی روایت ہے اس میں «والغم» کا اضافہ ہے یعنی تیری پناہ مانگتا ہوں غم سے۔
صحيح
سنن ابي داود
2244
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا عِيسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ، أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي رَافِعِ بْنِ سِنَانٍ، أَنَّهُ أَسْلَمَ وَأَبَتِ امْرَأَتُهُ أَنْ تُسْلِمَ، فَأَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: ابْنَتِي وَهِيَ فَطِيمٌ أَوْ شَبَهُهُ، وَقَالَ رَافِعٌ: ابْنَتِي، قَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اقْعُدْ نَاحِيَةً"، وَقَالَ لَهَا:" اقْعُدِي نَاحِيَةً"، قَالَ:" وَأَقْعَدَ الصَّبِيَّةَ بَيْنَهُمَا"، ثُمَّ قَالَ:" ادْعُوَاهَا"، فَمَالَتِ الصَّبِيَّةُ إِلَى أُمِّهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اللَّهُمَّ اهْدِهَا"، فَمَالَتِ الصَّبِيَّةُ إِلَى أَبِيهَا فَأَخَذَهَا.
رافع بن سنان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اسلام قبول کر لیا، لیکن ان کی بیوی نے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا، اور آپ کے پاس آ کر کہنے لگی: بیٹی میری ہے (اسے میں اپنے پاس رکھوں گی) اس کا دودھ چھوٹ چکا تھا، یا چھوٹنے والا تھا، اور رافع نے کہا کہ بیٹی میری ہے (اسے میں اپنے پاس رکھوں گا) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رافع کو ایک طرف اور عورت کو دوسری طرف بیٹھنے کے لیے فرمایا، اور بچی کو درمیان میں بٹھا دیا، پھر دونوں کو اپنی اپنی جانب بلانے کے لیے کہا بچی ماں کی طرف مائل ہوئی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اسے ہدایت دے، چنانچہ بچی اپنے باپ کی طرف مائل ہو گئی تو انہوں نے اسے لے لیا ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
2430
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عِيسَى، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ يَعْنِي ابْنَ حَكِيمٍ، قَالَ: سَأَلْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ عَنْ صِيَامِ رَجَبٍ. فَقَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ يَصُومُ حَتَّى نَقُولَ لَا يُفْطِرُ وَيُفْطِرُ حَتَّى نَقُولَ لَا يَصُومُ".
عثمان بن حکیم کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن جبیر سے رجب کے روزوں کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھے بتایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے رکھتے تو رکھتے چلے جاتے یہاں تک کہ ہم کہتے: افطار ہی نہیں کریں گے، اسی طرح جب روزے چھوڑتے تو چھوڑتے چلے جاتے یہاں تک کہ ہم کہتے: اب روزے رکھیں گے ہی نہیں۔
صحيح
سنن ابي داود
2479
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا عِيسَى، عَنْ حَرِيزِ بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَوْفٍ، عَنْ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لَا تَنْقَطِعُ الْهِجْرَةُ حَتَّى تَنْقَطِعَ التَّوْبَةُ، وَلَا تَنْقَطِعُ التَّوْبَةُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا".
معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ہجرت ختم نہیں ہو گی یہاں تک کہ توبہ کا سلسلہ ختم ہو جائے، اور توبہ ختم نہیں ہو گی یہاں تک کہ سورج پچھم سے نکل آئے ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
2795
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا عِيسَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي عَيَّاشٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: ذَبَحَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الذَّبْحِ كَبْشَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ مُوجَأَيْنِ، فَلَمَّا وَجَّهَهُمَا قَالَ:" إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ عَلَى مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ، اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ وَعَنْ مُحَمَّدٍ وَأُمَّتِهِ بِاسْمِ اللَّهِ وَاللَّهُ أَكْبَرُ"، ثُمَّ ذَبَحَ.
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن سینگ دار ابلق خصی کئے ہوئے دو دنبے ذبح کئے، جب انہیں قبلہ رخ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا پڑھی: «إني وجهت وجهي للذي فطر السموات والأرض على ملة إبراهيم حنيفا وما أنا من المشركين، إن صلاتي ونسكي ومحياي ومماتي لله رب العالمين لا شريك له، وبذلك أمرت وأنا من المسلمين، اللهم منك ولك وعن محمد وأمته باسم الله والله أكبر» میں اپنا رخ اس ذات کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، میں ابراہیم کے دین پر ہوں، کامل موحد ہوں، مشرکوں میں سے نہیں ہوں بیشک میری نماز میری تمام عبادتیں، میرا جینا اور میرا مرنا خالص اس اللہ کے لیے ہے جو سارے جہان کا رب ہے، کوئی اس کا شریک نہیں، مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے، اور میں مسلمانوں میں سے ہوں، اے اللہ! یہ قربانی تیری ہی عطا ہے، اور خاص تیری رضا کے لیے ہے، محمد اور اس کی امت کی طرف سے اسے قبول کر، (بسم اللہ واللہ اکبر) اللہ کے نام کے ساتھ، اور اللہ بہت بڑا ہے پھر ذبح کیا۔
ضعيف
سنن ابي داود
2952
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا عِيسَى، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نِيَارٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِظَبْيَةٍ فِيهَا خَرَزٌ فَقَسَمَهَا لِلْحُرَّةِ وَالأَمَةِ، قَالَتْ عَائِشَةُ: كَانَ أَبِي رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقْسِمُ لِلْحُرِّ وَالْعَبْدِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک تھیلا لایا گیا جس میں خونگے (قیمتی پتھر) تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد عورتوں اور لونڈیوں میں تقسیم کر دیا۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میرے والد (ابوبکر رضی اللہ عنہ) آزاد مردوں اور غلاموں میں تقسیم کرتے تھے ۱؎۔
صحيح
سنن ابي داود
3183
حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ،حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ. ح وحَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عِيسَى يَعْنِي ابْنَ يُونُسَ، عَنْ عُيَيْنَةَ، بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَا فِي جَنَازَةِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ وَقَالَ: فَحَمَلَ عَلَيْهِمْ بَغْلَتَهُ، وَأَهْوَى بِالسَّوْطِ.
اس سند سے بھی عیینہ سے یہی حدیث مروی ہے مگر اس میں خالد بن حارث اور عیسیٰ بن یوسف دونوں نے کہا ہے کہ یہ واقعہ عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہ کے جنازہ کا ہے نیز اس میں یہ بھی ہے کہ ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے ان پر اپنا خچر دوڑایا اور کوڑے سے (جلدی) چلنے کا اشارہ کیا۔
صحيح وهذا هو المحفوظ
سنن ابي داود
3229
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا عِيسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، عَنْ بُسْرِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ وَاثِلَةَ بْنَ الْأَسْقَعِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا مَرْثَدٍ الْغَنَوِيَّ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَجْلِسُوا عَلَى الْقُبُورِ، وَلَا تُصَلُّوا إِلَيْهَا".
واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ابومرثد غنوی رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قبروں پر نہ بیٹھو، اور نہ ان کی طرف منہ کر کے نماز پڑھو۔
صحيح
سنن ابي داود
3330
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا عِيسَى، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا، عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ:" وَبَيْنَهُمَا مُشَبَّهَاتٌ، لَا يَعْلَمُهَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ، فَمَنِ اتَّقَى الشُّبُهَاتِ اسْتَبْرَأَ عِرْضَهُ وَدِينَهُ، وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ وَقَعَ فِي الْحَرَامِ.
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ یہی حدیث بیان فرما رہے تھے اور فرما رہے تھے: ان دونوں کے درمیان کچھ شبہے کی چیزیں ہیں جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتے، جو شبہوں سے بچا وہ اپنے دین اور اپنی عزت و آبرو کو بچا لے گیا، اور جو شبہوں میں پڑا وہ حرام میں پھنس گیا۔
صحيح
سنن ابي داود
3392
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا عِيسَى، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ. ح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ كِلَاهُمَا، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَاللَّفْظُ لِلْأَوْزَاعِيِّ، حَدَّثَنِي حَنْظَلَةُ بْنُ قَيْسٍ الْأَنْصَارِيُّ، قَالَ: سَأَلْتُ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ بِالذَّهَبِ وَالْوَرِقِ؟ فَقَالَ:" لَا بَأْسَ بِهَا إِنَّمَا كَانَ النَّاسُ يُؤَاجِرُونَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا عَلَى الْمَاذِيَانَاتِ، وَأَقْبَالِ الْجَدَاوِلِ، وَأَشْيَاءَ مِنِ الزَّرْعِ، فَيَهْلَكُ هَذَا، وَيَسْلَمُ هَذَا، وَيَسْلَمُ هَذَا، وَيَهْلَكُ هَذَا، وَلَمْ يَكُنْ لِلنَّاسِ كِرَاءٌ إِلَّا هَذَا، فَلِذَلِكَ زَجَرَ عَنْهُ، فَأَمَّا شَيْءٌ مَضْمُونٌ مَعْلُومٌ فَلَا بَأْسَ بِهِ". وَحَدِيثُ إِبْرَاهِيمَ أَتَمُّ، وقَالَ قُتَيْبَةُ: عَنْ حَنْظَلَةَ، عَنْ رَافِعٍ، قَالَ أَبُو دَاوُد: رِوَايَةُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ حَنْظَلَةَ، نَحْوَهُ.
حنظلہ بن قیس انصاری کہتے ہیں میں نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے سونے چاندی کے بدلے زمین کرایہ پر دینے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: اس میں کوئی مضائقہ نہیں، لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اجرت پر لینے دینے کا معاملہ کرتے تھے پانی کی نالیوں، نالوں کے سروں اور کھیتی کی جگہوں کے بدلے (یعنی ان جگہوں کی پیداوار میں لوں گا) تو کبھی یہ برباد ہو جاتا اور وہ محفوظ رہتا اور کبھی یہ محفوظ رہتا اور وہ برباد ہو جاتا، اس کے سوا کرایہ کا اور کوئی طریقہ رائج نہ تھا اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرما دیا، اور رہی محفوظ اور مامون صورت تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ ابراہیم کی حدیث مکمل ہے اور قتیبہ نے «عن حنظلة عن رافع» کہا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یحییٰ بن سعید کی روایت جسے انہوں نے حنظلہ سے روایت کیا ہے اسی طرح ہے۔
صحيح
سنن ابي داود
3585
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا عِيسَى، حَدَّثَنَا أُسَامَةُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَافِعٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أُمَّ سَلَمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِهَذَا الْحَدِيث، قَالَ: يَخْتَصِمَانِ فِي مَوَارِيثَ وَأَشْيَاءَ قَدْ دَرَسَتْ، فَقَالَ: إِنِّي إِنَّمَا أَقْضِي بَيْنَكُمْ بِرَأْيِي فِيمَا لَمْ يُنْزَلْ عَلَيَّ فِيهِ.
اس سند سے بھی ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے یہی حدیث مروی ہے، اس میں اتنا اضافہ ہے کہ وہ دونوں ترکہ اور کچھ چیزوں کے متعلق جھگڑ رہے تھے جو پرانی ہو چکی تھیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہارے درمیان اپنی رائے سے فیصلہ کرتا ہوں جس میں مجھ پر کوئی حکم نہیں نازل کیا گیا ہے۔
ضعيف
سنن ابي داود
3656
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا عِيسَى، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعْدٍ، عَنِ الصُّنَابِحِيِّ، عَنْ مُعَاوِيَةَ: أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنِ الْغُلُوطَاتِ".
معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی باتوں سے منع فرمایا ہے جس میں بکثرت غلطی واقع ہو ۱؎۔
ضعيف
سنن ابي داود
3943
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ أَعْتَقَ شِرْكًا مِنْ مَمْلُوكٍ لَهُ، فَعَلَيْهِ عِتْقُهُ كُلِّهِ إِنْ كَانَ لَهُ مَا يَبْلُغُ ثَمَنَهُ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ مَالٌ عَتَقَ نَصِيبَهُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص (مشترک) غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دے تو اس پر اس کی مکمل آزادی لازم ہے اگر اس کے پاس اتنا مال ہو کہ اس کی قیمت کو پہنچ سکے، اور اگر اس کے پاس مال نہ ہو تو صرف اس کا حصہ آزاد ہو گا (اور باقی شرکاء کو اختیار ہو گا چاہیں تو آزاد کریں اور چاہیں تو غلام رہنے دیں)۔
صحيح
سنن ابي داود
3984
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا عِيسَى، عَنْ حَمْزَةَ الزَّيَّاتِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَعَا بَدَأَ بِنَفْسِهِ، وَقَالَ:" رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْنَا وَعَلَى مُوسَى لَوْ صَبَرَ لَرَأَى مِنْ صَاحِبِهِ الْعَجَبَ، وَلَكِنَّهُ قَالَ: إِنْ سَأَلْتُكَ عَنْ شَيْءٍ بَعْدَهَا فَلا تُصَاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي سورة الكهف آية 76 طَوَّلَهَا حَمْزَةُ".
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دعا فرماتے تو پہلے اپنی ذات سے شروعات کرتے یوں کہتے: اللہ کی رحمت ہو ہم پر اور موسیٰ پر اگر وہ صبر کرتے تو اپنے ساتھی (خضر) کی طرف سے عجیب عجیب چیزیں دیکھتے، لیکن انہوں نے تو کہہ دیا  «إن سألتك عن شىء بعدها فلا تصاحبني قد بلغت من لدني» اگر اب اس کے بعد میں آپ سے کسی چیز کے بارے میں سوال کروں تو بیشک آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھنا یقیناً آپ میری طرف سے حد عذر کو پہنچ چکے (سورۃ الکہف: ۷۶)۔ حمزہ نے «لدنی» کے نون کو کھینچ کر بتایا کہ آپ یوں پڑھا کرتے۔
صحيح ق دون قوله ولكنه
سنن ابي داود
4118
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا عِيسَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ ابْنُ إِسْحَاق، وَأَيُّوبُ بْنُ مُوسَى، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ صَفِيَّةَ.
اس سند سے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی حدیث مرفوعاً مروی ہے۔
0
سنن ابي داود
4442
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ الْمُهَاجِرِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ: أَنَّ امْرَأَةً يَعْنِي مِنْ غَامِدَ أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ:" إِنِّي قَدْ فَجَرْتُ، فَقَالَ: ارْجِعِي فَرَجَعَتْ، فَلَمَّا أَنْ كَانَ الْغَدُ أَتَتْهُ، فَقَالَتْ: لَعَلَّكَ أَنْ تَرُدَّنِي كَمَا رَدَدْتَ مَاعِزَ بْنَ مَالِكٍ فَوَاللَّهِ إِنِّي لَحُبْلَى، فَقَالَ لَهَا: ارْجِعِي فَرَجَعَتْ، فَلَمَّا كَانَ الْغَدُ أَتَتْهُ، فَقَالَ لَهَا: ارْجِعِي حَتَّى تَلِدِي فَرَجَعَتْ، فَلَمَّا وَلَدَتْ أَتَتْهُ بِالصَّبِيِّ، فَقَالَتْ: هَذَا قَدْ وَلَدْتُهُ، فَقَالَ لَهَا: ارْجِعِي فَأَرْضِعِيهِ حَتَّى تَفْطِمِيهِ فَجَاءَتْ بِهِ وَقَدْ فَطَمَتْهُ وَفِي يَدِهِ شَيْءٌ يَأْكُلُهُ، فَأَمَرَ بِالصَّبِيِّ فَدُفِعَ إِلَى رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَأَمَرَ بِهَا فَحُفِرَ لَهَا وَأَمَرَ بِهَا فَرُجِمَتْ، وَكَانَ خَالِدٌ فِيمَنْ يَرْجُمُهَا فَرَجَمَهَا بِحَجَرٍ فَوَقَعَتْ قَطْرَةٌ مِنْ دَمِهَا عَلَى وَجْنَتِهِ فَسَبَّهَا، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَهْلًا يَا خَالِدُ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَةً لَوْ تَابَهَا صَاحِبُ مَكْسٍ لَغُفِرَ لَهُ، وَأَمَرَ بِهَا فَصُلِّيَ عَلَيْهَا فَدُفِنَتْ".
بریدہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ قبیلہ غامد کی ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی اور عرض کیا: میں نے زنا کر لیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: واپس جاؤ، چنانچہ وہ واپس چلی گئی، دوسرے دن وہ پھر آئی، اور کہنے لگی: شاید جیسے آپ نے ماعز بن مالک کو لوٹایا تھا، اسی طرح مجھے بھی لوٹا رہے ہیں، قسم اللہ کی میں تو حاملہ ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جاؤ واپس جاؤ چنانچہ وہ پھر واپس چلی گئی، پھر تیسرے دن آئی تو آپ نے اس سے فرمایا: جاؤ واپس جاؤ بچہ پیدا ہو جائے پھر آنا چنانچہ وہ چلی گئی، جب اس نے بچہ جن دیا تو بچہ کو لے کر پھر آئی، اور کہا: اسے میں جن چکی ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جاؤ واپس جاؤ اور اسے دودھ پلاؤ یہاں تک کہ اس کا دودھ چھڑا دو دودھ چھڑا کر پھر وہ لڑکے کو لے کر آئی، اور بچہ کے ہاتھ میں کوئی چیز تھی جسے وہ کھا رہا تھا، تو بچہ کے متعلق آپ نے حکم دیا کہ اسے مسلمانوں میں سے کسی شخص کو دے دیا جائے، اور اس کے متعلق حکم دیا کہ اس کے لیے گڈھا کھودا جائے، اور حکم دیا کہ اسے رجم کر دیا جائے، تو وہ رجم کر دی گئی۔ خالد رضی اللہ عنہ اسے رجم کرنے والوں میں سے تھے انہوں نے اسے ایک پتھر مارا تو اس کے خون کا ایک قطرہ ان کے رخسار پر آ کر گرا تو اسے برا بھلا کہنے لگے، ان سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خالد! قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ ٹیکس اور چنگی وصول کرنے والا بھی ایسی توبہ کرتا تو اس کی بھی بخشش ہو جاتی، پھر آپ نے حکم دیا تو اس کی نماز جنازہ پڑھی گئی اور اسے دفن کیا گیا۔
صحيح

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.