وعن عائشة رضي الله عنها في قوله تعالى: «لا يؤاخذكم الله باللغو في ايمانكم» قالت: هو قول الرجل لا والله وبلى والله. اخرجه البخاري ورواه ابو داود مرفوعا.وعن عائشة رضي الله عنها في قوله تعالى: «لا يؤاخذكم الله باللغو في أيمانكم» قالت: هو قول الرجل لا والله وبلى والله. أخرجه البخاري ورواه أبو داود مرفوعا.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد «لا يؤاخذكم الله باللغو في أيمانكم» ” تم سے تمہاری لغو قسموں کا مواخذہ نہیں کرتا۔“ کی تفسیر میں فرمایا اس سے مراد انسان کا یہ کہنا ہے «لا والله»(نہیں بخدا) اور «وبلى والله» ہاں اللہ کی قسم۔ اس کی تخریج بخاری نے کی ہے اور ابوداؤد نے اسے مرفوعا روایت کیا ہے۔
हज़रत आयशा रज़ि अल्लाहु अन्हा से रिवायत है कि उन्हों ने अल्लाह तआला का कहना « لَّا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّـهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ » ’’ तुम से तुम्हारी अनजाने में खाई हुई क़समों की पकड़ नहीं करता।” की तफ़्सीर में कहा इस से मुराद इंसान का ये कहना है « لا والله » (नहीं बख़ुदा) और « وبلى والله » हाँ अल्लाह की क़सम। इस की तख़रीज बुख़ारी ने की है और अबू दाऊद ने इसे मरफ़ूअन रिवायत किया है।
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الأيمان والنذور، باب: ﴿لا يؤاخذكم الله باللغو في أيمانكم﴾، حديث:6621، وأبوداود، الأيمان والنذور، حديث:3254.»
Narrated 'Aishah (RA) regarding the saying of Allah the Most High:
"Allah will not punish you for what is unintentional in your oaths (5:89)." She said: It (was sent down about such phrases as) a person's sayying: 'No, by Allah' and 'Yes, by Allah.' [al-Bukhari reported it (Mauquf, i.e. as a saying of 'Aishah). Abu Dawud reported it as Marfu' (attributed to the Prophet).]
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3254
´یمین لغو کا بیان۔` عطاء سے یمین لغو کے بارے میں روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یمین لغو یہ ہے کہ آدمی اپنے گھر میں (تکیہ کلام کے طور پر) «كلا والله وبلى والله»(ہرگز نہیں قسم اللہ کی، ہاں قسم اللہ کی) کہے۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: ابراہیم صائغ ایک نیک آدمی تھے، ابومسلم نے عرندس میں انہیں قتل کر دیا تھا، ابراہیم صائغ کا حال یہ تھا کہ اگر وہ ہتھوڑا اوپر اٹھائے ہوتے اور اذان کی آواز آ جاتی تو (مارنے سے پہلے) اسے چھوڑ دیتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اس حدیث کو داود بن ابوالفرات نے ابراہیم صائغ سے ام المؤمنین ع۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الأيمان والنذور /حدیث: 3254]
فوائد ومسائل: لغو قسم معاف ہے۔ اور اس کا کوئی کفارہ نہیں۔ تاہم آدمی کو اس سے پرہیز کرتے ہوئے اپنی عادت بدلنی چاہیے۔ فرمایا۔ (لَّا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّـهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَـٰكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ)(البقرہ۔ 225) اللہ تمھیں تمھاری لغو قسموں پر نہ پکڑے گا البتہ اس کی پکڑ اس چیز پر ہے۔ جوتمہارےدلوں کا فعل ہو۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3254