الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
مقدمہ
19. باب مَنْ هَابَ الْفُتْيَا وَكَرِهَ التَّنَطُّعَ وَالتَّبَدُّعَ:
19. ان لوگوں کا بیان جنہوں نے فتوی دینے سے خوف کھایا اور غلو و زیادتی یا بدعت ایجاد کرنے کو برا سمجھا
حدیث نمبر: 150
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا عبد الله بن صالح، حدثني الليث، اخبرني ابن عجلان، عن نافع مولى عبد الله، ان صبيغا العراقي، جعل يسال عن اشياء من القرآن في اجناد المسلمين حتى قدم مصر، فبعث به عمرو بن العاص رضي الله عنه إلى عمر بن الخطاب رضي الله عنه، فلما اتاه الرسول بالكتاب فقراه، فقال: اين الرجل؟، قال: في الرحل، قال عمر: "ابصر ان يكون ذهب فتصيبك مني به العقوبة الموجعة، فاتاه به، فقال عمر: تسال محدثة، فارسل عمر إلى رطائب من جريد، فضربه بها حتى ترك ظهره دبرة، ثم تركه حتى برا، ثم عاد له، ثم تركه حتى برا، فدعا به ليعود له، قال: فقال صبيغ: إن كنت تريد قتلي، فاقتلني قتلا جميلا، وإن كنت تريد ان تداويني، فقد والله برئت، فاذن له إلى ارضه، وكتب إلى ابي موسى الاشعري رضي الله عنه، ان لا يجالسه احد من المسلمين، فاشتد ذلك على الرجل، فكتب ابو موسى إلى عمر: ان قد حسنت توبته، فكتب عمر: ان ائذن للناس بمجالسته".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، أَخْبَرَنِي ابْنُ عَجْلَانَ، عَنْ نَافِعٍ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ صَبِيغًا الْعِرَاقِيَّ، جَعَلَ يَسْأَلُ عَنْ أَشْيَاءَ مِنْ الْقُرْآنِ فِي أَجْنَادِ الْمُسْلِمِينَ حَتَّى قَدِمَ مِصْرَ، فَبَعَثَ بِهِ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَلَمَّا أَتَاهُ الرَّسُولُ بِالْكِتَابِ فَقَرَأَهُ، فَقَالَ: أَيْنَ الرَّجُلُ؟، قَالَ: فِي الرَّحْلِ، قَالَ عُمَرُ: "أَبْصِرْ أَنْ يَكُونُ ذَهَبَ فَتُصِيبَكَ مِنِّي بِهِ الْعُقُوبَةُ الْمُوجِعَةُ، فَأَتَاهُ بِهِ، فَقَالَ عُمَرُ: تَسْأَلُ مُحْدَثَةً، فَأَرْسَلَ عُمَرُ إِلَى رَطَائِبَ مِنْ جَرِيدٍ، فَضَرَبَهُ بِهَا حَتَّى تَرَكَ ظَهْرَهُ دَبِرَةً، ثُمَّ تَرَكَهُ حَتَّى بَرَأَ، ثُمَّ عَادَ لَهُ، ثُمَّ تَرَكَهُ حَتَّى بَرَأَ، فَدَعَا بِهِ لِيَعُودَ لَهُ، قَالَ: فَقَالَ صَبِيغٌ: إِنْ كُنْتَ تُرِيدُ قَتْلِي، فَاقْتُلْنِي قَتْلًا جَمِيلًا، وَإِنْ كُنْتَ تُرِيدُ أَنْ تُدَاوِيَنِي، فَقَدْ وَاللَّهِ بَرِئْتُ، فَأَذِنَ لَهُ إِلَى أَرْضِهِ، وَكَتَبَ إِلَى أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنْ لَا يُجَالِسَهُ أَحَدٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ، فَاشْتَدَّ ذَلِكَ عَلَى الرَّجُلِ، فَكَتَبَ أَبُو مُوسَى إِلَى عُمَرَ: أَنْ قَدْ حَسُنَتْ تَوْبَتُهُ، فَكَتَبَ عُمَرُ: أَنْ ائْذَنْ لِلنَّاسِ بِمُجَالَسَتِهِ".
سیدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما کے آزاد کردہ غلام نافع نے کہا کہ صبیغ (ابن غسل) عراقی مسلمانوں کے لشکر میں کچھ آیتوں کے بارے میں سوالات کرتے ہوئے مصر پہنچے تو سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے انہیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا، جب قاصد ان کے پاس پیغام لایا تو انہوں نے پوچھا: وہ آدمی کہاں ہے؟ کہا: خیمہ میں ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: جا کر دیکھو، اگر بھاگ گیا تو تمہیں دردناک سزا دوں گا، چنانچہ قاصد اسے (صبیغ کو) لے کر حاضر خدمت ہوا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نئی باتیں نکالتے ہو؟ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سرسبز ٹہنیاں منگائیں اور اس کی اتنی پٹائی لگائی کہ وہ لہولہان ہو گیا، پھر اسے چھوڑ دیا، جب وہ اور اس کے زخم اچھے ہو گئے تو پھر مار لگائی، پھر مہلت دیدی، پھر اس کو بلایا تاکہ مزہ چکھائیں، تو صبیغ نے کہا: اگر آپ مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں تو ایک بارگی مار ڈالئے، اور اگر میرا علاج کرنا چاہتے ہیں تو الله کی قسم میں اب اچھا ہو گیا ہوں، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسے اس کے وطن جانے کی اجازت دیدی، اور سیدنا ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کو لکھ بھیجا کہ اس کے پاس کوئی مسلمان نہ بیٹھے، اور یہ چیز اس صبیغ پر بہت گراں گزری، چنانچہ سیدنا ابوموسی رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس لکھا کہ اس نے اچھی طرح سچی توبہ کر لی ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جواب میں لکھا کہ اب لوگوں کو اس سے ملنے جلنے اور بیٹھنے کی اجازت دیدو۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح، [مكتبه الشامله نمبر: 150]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے، کیونکہ اس میں ایک راوی عبدالله بن صالح ضعیف ہیں، نیز اسے ابن وضاح نے [البدعة ص: 56] میں اور آجری نے [الشريعة ص:75] میں ذکر کیا ہے، لیکن ان دونوں طرق میں انقطاع ہے، جیسا کہ حدیث رقم (146) میں گزر چکا ہے۔

وضاحت:
(تشریح حدیث 149)
بدعتی کے پاس بیٹھنا بھی درست نہیں جیسا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا تھا، نیز اس اثر میں بدعتی کی سزا اور عقوبت کا بیان بھی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.