علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 534
´(روزے کے متعلق احادیث)`
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”لوگ اس وقت تک بھلائی پر قائم رہیں گے جب تک روزہ افطار کرنے میں جلدی کریں گے۔“ (بخاری و مسلم) اور ترمذی میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے میرے بندوں میں میرے محبوب و پسندیدہ بندے وہ ہیں جو افطار کرنے میں عجلت سے کام لیتے ہیں۔“ [بلوغ المرام/حدیث: 534]
لغوی تشریح 534:
مَاعَجَّلُو الفِطْرَ عَجَّلُو تعجیل سے ماخوذ ہے، مطلب یہ ہے کہ جب تک افطار کرنے میں جلدی کریں گے، یعنی تحقیق سے جب یہ ثابت ہو جائے کہ سورج غروب ہو چکا ہے تو فورًا روزہ افطار کر لینا چاہیے۔ افطار میں جلدی کرنااہلِ اسلام کا شعار ہے، جبکہ اہلِ کتاب تاخیر سے افطار کرتے ہیں۔ اس میں آسانی کا پہلو بھی ہے۔ اطاعت و فرمانبرداری کا بھی یہی تقاضا ہے، اس لیے شعائرِ اسلام کا احتمام کرنا، شریعت کی دی ہوئی سہولت کو لینا اور معاملات میں تکلیف و مشقت سے بچنا خیر و برکت کا باعث ہے اور یہ بات کسی وضاحت کی محتاج نہیں۔
فوائد و مسائل 534:
➊ جامع ترمذی کی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سندًا ضعیف قرار دیا ہے، البتہ سنن ابنِ ماجہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس مسئلے کی بابت یوں مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگ اسوقت تک بھلائی پر رہیں گے جب تک روزہ جلدی کھولتے رہیں گے۔ روزہ جلدی کھولا کرو کیونکہ یہودی دیر کرتے ہیں۔“ [سنن ابنِ ماجه، الصيام، حديث: 1698]
بنابریں مطلع صاف ہو، گردوغبار اور ابر نہ ہو اور غروبِ آفتاب کا یقین ہو جائے تو پھر روزہ افطار کرنے میں بلاوجہ تاخیر کرنا جائز نہیں۔
➋ تاخیر سے روزہ افطار کرنااہلِ کتاب یہود و نصاریٰ کا طریقہ ہے۔ اور شرح مصابیح میں یہ بھی ہے کہ افطاری میں تاخیر کرنااہلِ بدعت کی علامت ہے، لہٰذا غروبِ آفتاب کے فورًا بعد روزہ افطار کرلینا چاہیے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 534