وحدثني سلمة، حدثنا الحميدي، حدثنا سفيان، قال: سمعت جابرا، يحدث بنحو من ثلاثين الف حديث، ما استحل ان اذكر منها شيئا وان لي كذا وكذا، قال مسلم: وسمعت ابا غسان محمد بن عمرو الرازي، قال: سالت جرير بن عبد الحميد، فقلت: الحارث بن حصيرة لقيته؟ قال: نعم، شيخ طويل السكوت، يصر على امر عظيم.وحَدَّثَنِي سَلَمَةُ، حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرًا، يُحَدِّثُ بِنَحْوٍ مِنْ ثَلَاثِينَ أَلْفَ حَدِيثٍ، مَا أَسْتَحِلُّ أَنْ أَذْكُرَ مِنْهَا شَيْئًا وَأَنَّ لِي كَذَا وَكَذَا، قَالَ مُسْلِم: وَسَمِعْتُ أَبَا غَسَّانَ مُحَمَّدَ بْنَ عَمْرٍو الرَّازِيَّ، قَالَ: سَأَلْتُ جَرِيرَ بْنَ عَبْدِ الْحَمِيدِ، فَقُلْتُ: الْحَارِثُ بْنُ حَصِيرَةَ لَقِيتَهُ؟ قَالَ: نَعَمْ، شَيْخٌ طَوِيلُ السُّكُوتِ، يُصِرُّ عَلَى أَمْرٍ عَظِيمٍ.
سفیان سے روایت ہے، کہا: میں نے جابر کو تقریباً تیس ہزار احادیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے۔ میں ان میں سے ایک حدیث بیان کرنا بھی حلال نہیں سمجھتا، چاہے (اس کے بدلے) میرے لیے اتنا اور اتنا ہو۔ (امام) مسلم نے کہا: میں نے ابو غسان محمد بن عمرو رازی سے سنا، کہا: میں نے جریر بن عبد الحمید سے پوچھا، میں نے کہا: (یہ جو) حارث بن حصیرہ ہے، آپ اس سے ملے ہیں؟ کہا: ہاں، لمبی خاموشی والا بوڑھا ہے۔ ایک بہت بڑی بات پر اصرار کرتا ہے۔
سفیانؒ کہتے ہیں: ”میں نے جابر کو تقریباً تیس ہزار احادیث بیان کرتے سنا، اور میں اتنی اتنی دولت لے کر بھی ان میں سے کسی ایک کو بیان کرنا حلال نہیں سمجھتا (کیونکہ وہ سب موضوع اور جعلی ہیں)۔“ ابو غسان محمد بن عمرو رازیؒ کہتے ہیں: ”میں نے جریر بن عبدالحمیدؒ سے پوچھا: آپ حارث بن حصیرہ کو ملے ہیں؟ انھوں نے کہا: ہاں! وہ بوڑھا ہے، بہت خاموش (چپ چپ) رہتا ہے۔ ایک انتہائی ناگوار عقیدہ پر اصرار کرتا ہے۔ یعنی رجعت پر ایمان رکھتا ہے۔“
ترقیم فوادعبدالباقی: 7
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (18477 و 18774)»