وعن ابي سعيد الخدري ان اسيد بن حضير قال: بينما هو يقرا من الليل سورة البقرة وفرسه مربوطة عنده إذ جالت الفرس فسكت فسكتت فقرا فجالت الفرس فسكت فسكتت الفرس ثم قرا فجالت الفرس فانصرف وكان ابنه يحيى قريبا منها فاشفق ان تصيبه فلما اخره رفع راسه إلى السماء فإذا مثل الظلة فيها امثال المصابيح فلما اصبح حدث النبي صلى الله عليه وسلم فقال: «اقرا يا ابن حضير اقرا يا ابن حضير» . قال فاشفقت يا رسول الله ان تطا يحيى وكان منها قريبا فرفعت راسي فانصرفت إليه ورفعت راسي إلى السماء فإذا مثل الظلة فيها امثال المصابيح فخرجت حتى لا اراها قال: «وتدري ما ذاك؟» قال لا قال: «تلك الملائكة دنت لصوتك ولو قرات لاصبحت ينظر الناس إليها لا تتوارى منهم» . متفق عليه. واللفظ للبخاري وفي مسلم: «عرجت في الجو» بدل: «خرجت على صيغة المتكلم» وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ أُسَيْدَ بنَ حُضَيْرٍ قَالَ: بَيْنَمَا هُوَ يَقْرَأُ مِنَ اللَّيْلِ سُورَةَ الْبَقَرَةِ وَفَرَسُهُ مَرْبُوطَةٌ عِنْدَهُ إِذْ جَالَتِ الْفرس فَسكت فَسَكَتَتْ فَقَرَأَ فجالت الْفرس فَسكت فَسَكَتَتْ الْفرس ثُمَّ قَرَأَ فَجَالَتِ الْفَرَسُ فَانْصَرَفَ وَكَانَ ابْنُهُ يحيى قَرِيبا مِنْهَا فأشفق أَن تصيبه فَلَمَّا أَخَّرَهُ رَفْعَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ فَإِذَا مِثْلُ الظُّلَّةِ فِيهَا أَمْثَالُ الْمَصَابِيحِ فَلَمَّا أَصْبَحَ حَدَّثَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «اقْرَأْ يَا ابْنَ حُضَيْرٍ اقْرَأْ يَا ابْنَ حُضَيْرٍ» . قَالَ فَأَشْفَقْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْ تَطَأَ يحيى وَكَانَ مِنْهَا قَرِيبا فَرفعت رَأْسِي فَانْصَرَفْتُ إِلَيْهِ وَرَفَعْتُ رَأْسِي إِلَى السَّمَاءِ فَإِذَا مِثْلُ الظُّلَّةِ فِيهَا أَمْثَالُ الْمَصَابِيحِ فَخَرَجَتْ حَتَّى لَا أَرَاهَا قَالَ: «وَتَدْرِي مَا ذَاكَ؟» قَالَ لَا قَالَ: «تِلْكَ الْمَلَائِكَةُ دَنَتْ لِصَوْتِكَ وَلَوْ قَرَأْتَ لَأَصْبَحَتْ يَنْظُرُ النَّاسُ إِلَيْهَا لَا تَتَوَارَى مِنْهُمْ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَاللَّفْظُ لِلْبُخَارِيِّ وَفِي مُسْلِمٍ: «عرجت فِي الجو» بدل: «خرجت على صِيغَة الْمُتَكَلّم»
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اُسید بن حضیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ وہ رات کے وقت سورۂ بقرہ تلاوت کر رہے تھے اور ان کا گھوڑا ان کے پاس بندھا ہوا تھا کہ گھوڑا اچانک اچھلنے لگا، وہ خاموش ہو گئے تو وہ (گھوڑا) بھی ٹھہر گیا، انہوں نے پھر پڑھا تو گھوڑا پھر اچھلنے لگا وہ خاموش ہو گئے تو وہ (گھوڑا) بھی ٹھہر گیا۔ انہوں نے پھر پڑھا تو گھوڑا پھر اچھلنے لگا، وہ فارغ ہوئے، اور ان کا بیٹا یحیی اس (گھوڑے) کے قریب ہی تھا، لہذا انہیں اندیشہ ہوا کہ وہ اسے نقصان نہ پہنچائے اور جب انہوں نے اسے دور کیا، اور آسمان کی طرف سر اٹھایا تو سائبان سا دکھائی دیا جس میں چراغوں کی طرح روشنی تھی، جب صبح ہوئی تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ابن حضیر! پڑھ، ابن حضیر! تم پڑھتے رہتے۔ “ انہوں نے عرض کیا اللہ کے رسول! مجھے اندیشہ ہوا کہ (اگر میں پڑھتا رہتا تو) وہ یحیی کو روند ڈالتا، کیونکہ وہ اس کے قریب تھا، لہذا میں اس کی طرف متوجہ ہو گیا، میں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا تو (اوپر) سائبان کی طرح کوئی چیز تھی اور اس میں چراغوں جیسی کوئی چیز تھی، میں باہر نکلا حتیٰ کہ میں نے اس (روشنی) کو نہ دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم جانتے ہو وہ کیا تھا؟“ انہوں نے عرض کیا، نہیں، فرمایا: ”وہ فرشتے تھے جو تمہاری آواز کے قریب آ گئے تھے، اگر تم پڑھتے رہتے تو وہ وہیں رہتے اور لوگ انہیں دیکھ لیتے اور وہ ان سے مخفی نہ رہتے۔ “ متفق علیہ۔ اور یہ الفاظ حدیث بخاری کے ہیں، اور صحیح مسلم میں ہے: ”میں باہر نکلا“ صیغہ متکلم کے بدل لفظ: ”وہ فضا میں بلند ہو گئے“ استعمال ہوا ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (5018) و مسلم (796/242)»