وعن ابن عباس قال: إنما كانت المتعة في اول الإسلام كان الرجل يقدم البلدة ليس له بها معرفة فيتزوج المراة بقدر ما يرى انه يقيم فتحفظ له متاعه وتصلح له شيه حتى إذا نزلت الآية (إلا على ازواجهم او ما ملكت ايمانهم) قال ابن عباس: فكل فرج سواهما فهو حرام. رواه الترمذي وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: إِنَّمَا كَانَتِ الْمُتْعَةُ فِي أول الْإِسْلَام كَانَ الرجل يقدم الْبَلدة لَيْسَ لَهُ بِهَا مَعْرِفَةٌ فَيَتَزَوَّجُ الْمَرْأَةَ بِقَدْرِ مَا يرى أَنَّهُ يُقِيمُ فَتَحْفَظُ لَهُ مَتَاعَهُ وَتُصْلِحُ لَهُ شَيَّهُ حَتَّى إِذَا نَزَلَتِ الْآيَةُ (إِلَّا عَلَى أَزوَاجهم أَو مَا ملكت أَيْمَانهم) قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَكُلُّ فَرْجٍ سِوَاهُمَا فَهُوَ حرَام. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، متعہ اسلام کے ابتدائی دور میں تھا وہ اس طرح کہ آدمی شہر میں جاتا، اس کی وہاں جان پہچان نہ ہوتی تو وہ وہاں اپنے قیام کے اندازے کے مطابق عورت سے شادی کر لیتا تو وہ اس کے سامان کی حفاظت کرتی اور اس کے لیے کھانا تیار کرتی حتی کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: ”مگر اپنی بیویوں پر یا اپنی لونڈیوں پر۔ “ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”ان دونوں (بیوی اور لونڈی) کی شرم گاہ کے سوا ہر شرم گاہ حرام ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (1122) ٭ موسي بن عبيدة: ضعيف.»