وعن بريدة قال: جاء ماعز بن مالك إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله طهرني فقال: «ويحك ارجع فاستغفر الله وتب إليه» . فقال: فرجع غير بعيد ثم جاء فقال: يا رسول الله طهرني. فقال النبي صلى الله عليه وسلم مثل ذلك حتى إذا كانت الرابعة قاله له رسول الله صلى الله عليه وسلم: «فيم اطهرك؟» قال: من الزنا قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ابه جنون؟» فاخبر انه ليس بمجنون فقال: «اشرب خمرا؟» فقام رجل فاستنكهه فلم يجد منه ريح خمر فقال: «ازنيت؟» قال: نعم فام به فرجم فلبثوا يومين او ثلاثة ثم جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: «استغفروا لماعز بن مالك لقد تاب توبة لو قسمت بين امة لوسعتهم» ثم جاءته امراة من غامد من الازد فقالت: يا رسول الله طهرني فقال: «ويحك ارجعي فاستغفري الله وتوبي إليه» فقالت: تريد ان ترددني كما رددت ماعز بن مالك: إنها حبلى من الزنا فقال: «انت؟» قالت: نعم قال لها: «حتى تضعي ما في بطنك» قال: فكفلها رجل من الانصار حتى وضعت فاتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: قد وضعت الغامدية فقال: «إذا لا نرجمها وندع ولدها صغيرا ليس له من يرضعه» فقام رجل من الانصار فقال: إلي رضاعه يا نبي الله قال: فرجمها. وفي رواية: انه قال لها: «اذهبي حتى تلدي» فلما ولدت قال: «اذهبي فارضعيه حتى تفطميه» فلما فطمته اتته بالصبي في يده كسرة خبز فقالت: هذا يا نبي الله قد فطمته وقد اكل الطعام فدفع الصبي إلى رجل من المسلمين ثم امر بها فحفر لها إلى صدرها وامر الناس فرجموها فيقبل خالد بن الوليد بحجر فرمى راسها فتنضح الدم على وجه خالد فسبها فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «مهلا يا خالد فو الذي نفسي بيده لقد تابت توبة لو تابها صاحب مكس لغفر له» ثم امر بها فصلى عليها ودفنت. رواه مسلم وَعَنْ بُرَيْدَةَ قَالَ: جَاءَ مَاعِزُ بْنُ مَالِكٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ طَهِّرْنِي فَقَالَ: «وَيْحَكَ ارْجِعْ فَاسْتَغْفر الله وَتب إِلَيْهِ» . فَقَالَ: فَرَجَعَ غَيْرَ بَعِيدٍ ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ طَهِّرْنِي. فَقَالَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ ذَلِكَ حَتَّى إِذَا كَانَتِ الرَّابِعَة قَالَه لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فِيمَ أُطَهِّرُكَ؟» قَالَ: مِنَ الزِّنَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَبِهِ جُنُونٌ؟» فَأُخْبِرَ أَنَّهُ لَيْسَ بِمَجْنُونٍ فَقَالَ: «أَشَرِبَ خَمْرًا؟» فَقَامَ رَجُلٌ فَاسْتَنْكَهَهُ فَلَمْ يَجِدْ مِنْهُ رِيحَ خَمْرٍ فَقَالَ: «أَزَنَيْتَ؟» قَالَ: نَعَمْ فَأَمَ َ بِهِ فَرُجِمَ فَلَبِثُوا يَوْمَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةً ثُمَّ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «اسْتَغْفِرُوا لِمَاعِزِ بْنِ مَالِكٍ لَقَدْ تَابَ تَوْبَةً لَوْ قُسِّمَتْ بَيْنَ أُمَّةٍ لَوَسِعَتْهُمْ» ثُمَّ جَاءَتْهُ امْرَأَةٌ مِنْ غَامِدٍ مِنَ الْأَزْدِ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ طَهِّرْنِي فَقَالَ: «وَيَحَكِ ارْجِعِي فَاسْتَغْفِرِي اللَّهَ وَتُوبِي إِلَيْهِ» فَقَالَتْ: تُرِيدُ أَنْ تَرْدُدَنِي كَمَا رَدَدْتَ مَاعِزَ بْنَ مَالِكٍ: إِنَّهَا حُبْلَى مِنَ الزِّنَا فَقَالَ: «أَنْتِ؟» قَالَتْ: نَعَمْ قَالَ لَهَا: «حَتَّى تَضَعِي مَا فِي بَطْنِكِ» قَالَ: فكَفَلَها رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ حَتَّى وَضَعَتْ فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: قَدْ وَضَعَتِ الغامديَّةُ فَقَالَ: «إِذاً لَا نرجُمها وندعُ وَلَدَهَا صَغِيرًا لَيْسَ لَهُ مَنْ يُرْضِعُهُ» فَقَامَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ فَقَالَ: إِلَيَّ رَضَاعُهُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ قَالَ: فَرَجَمَهَا. وَفِي رِوَايَةٍ: أَنَّهُ قَالَ لَهَا: «اذْهَبِي حَتَّى تَلِدِي» فَلَمَّا وَلَدَتْ قَالَ: «اذْهَبِي فَأَرْضِعِيهِ حَتَّى تَفْطِمِيهِ» فَلَمَّا فَطَمَتْهُ أَتَتْهُ بِالصَّبِيِّ فِي يَدِهِ كِسْرَةُ خُبْزٍ فَقَالَتْ: هَذَا يَا نَبِيَّ اللَّهِ قَدْ فَطَمْتُهُ وَقَدْ أَكَلَ الطَّعَامَ فَدَفَعَ الصَّبِيَّ إِلَى رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ ثُمَّ أَمَرَ بِهَا فَحُفِرَ لَهَا إِلَى صَدْرِهَا وَأَمَرَ النَّاسَ فَرَجَمُوهَا فَيُقْبِلُ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ بِحَجْرٍ فَرَمَى رَأْسَهَا فَتَنَضَّحَ الدَّمُ عَلَى وَجْهِ خَالِدٍ فَسَبَّهَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «مهلا يَا خَالِد فو الَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَةً لَوْ تَابَهَا صَاحِبُ مَكْسٍ لَغُفِرَ لَهُ» ثُمَّ أَمَرَ بِهَا فصلى عَلَيْهَا ودفنت. رَوَاهُ مُسلم
بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے عرض کیا، اللہ کے رسول! مجھے پاک کر دیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تجھ پر افسوس ہے، واپس جاؤ اور اللہ سے مغفرت طلب کرو اور اس کے حضور توبہ کرو۔ “ راوی بیان کرتے ہیں، وہ تھوڑی دیر بعد واپس آیا اور عرض کیا، اللہ کے رسول! مجھے پاک کر دیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر اسی طرح فرمایا حتی کہ جب اس نے چوتھی مرتبہ وہی جملہ کہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا: ”میں کس چیز سے تمہیں پاک کر دوں؟“ اس نے عرض کیا: زنا (کے گناہ) سے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا اسے جنون ہے؟“ آپ کو بتایا گیا کہ اسے جنون نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا اس نے شراب پی ہے؟“ ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے اس کے منہ سے شراب کی بُو سونگھی تو اس نے اس سے شراب کی بُو نہ پائی پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم نے زنا کیا ہے؟“ اس نے عرض کیا، جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے متعلق حکم فرمایا تو اسے رجم کیا گیا، اس کے بعد صحابہ دو یا تین دن (اس معاملہ میں) خاموش رہے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا: ”ماعز بن مالک کے بارے میں مغفرت طلب کرو۔ اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اسے ایک جماعت کے درمیان تقسیم کر دیا جائے تو وہ ان کے لیے کافی ہو جائے۔ “ پھر قبیلہ غامد کی شاخ ازد سے ایک عورت آئی تو اس نے عرض کیا، اللہ کے رسول! مجھے پاک کر دیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تجھ پر افسوس ہے چلی جاؤ، اللہ سے مغفرت طلب کرو اور اللہ کے حضور توبہ کرو۔ “ اس نے عرض کیا: آپ مجھے ویسے ہی واپس کرنا چاہتے ہیں، جیسے آپ نے ماعز بن مالک کو واپس کر دیا تھا، میں تو زنا سے حاملہ ہو چکی ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کہ کیا: ”تو (حاملہ) ہے؟“ اس نے عرض کیا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا: ”وضع حمل تک صبر کر۔ “ راوی بیان کرتے ہیں، انصار میں سے ایک آدمی نے اس کی کفالت کی، حتی کہ اس نے بچے کو جنم دیا تو وہ (انصاری) نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا، غامدیہ نے بچے کو جنم دے دیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تب ہم اسے رجم نہیں کریں گے، اور ہم اس کے چھوٹے سے بچے کو چھوڑ دیں جبکہ اس کی رضاعت کا انتظام کرنے والا بھی کوئی نہیں؟“ پھر انصار میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا، اللہ کے نبی! اس کی رضاعت میرے ذمہ ہے، راوی بیان کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے رجم کیا۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا: ”تم جاؤ حتی کہ تم بچے کو جنم دو۔ “ جب اس نے بچے کو جنم دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”چلی جاؤ اور اسے دودھ چھڑانے کی مدت تک اسے دودھ پلاؤ۔ “ جب اس نے اس کا دودھ چھڑایا تو وہ بچے کو لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور بچے کے ہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا تھا، اس نے عرض کیا: اللہ کے نبی! یہ دیکھیں میں نے اس کا دودھ چھڑا دیا ہے اور یہ کھانا کھانے لگا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچہ کسی مسلمان شخص کے حوالے کیا، پھر اس کے متعلق حکم فرمایا تو اس کے سینے کے برابر گڑھا کھودا گیا، اور آپ نے لوگوں کو حکم فرمایا تو انہوں نے اسے رجم کیا۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ایک پتھر لے کر آئے اور اس کے سر پر مارا جس سے خون کا چھینٹا ان کے چہرے پر پڑا تو انہوں نے اسے بُرا بھلا کہا، جس پر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”خالد! ٹھہرو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس نے ایسی توبہ کی ہے، کہ اگر محصول لینے والا ایسی توبہ کرے تو اس کی بھی مغفرت ہو جائے۔ “ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے متعلق حکم فرمایا اور اس کی نمازِ جنازہ خود پڑھائی اور اسے دفن کر دیا گیا۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (1695/22 و الرواية الثانية 1695/23)»