(مقطوع) اخبرنا عمرو بن يحيى بن الحارث، قال: حدثنا محبوب، قال: انبانا ابو إسحاق، عن موسى بن ابي عائشة، قال: سالت يحيى بن الجزار، عن هذه الآية واعلموا انما غنمتم من شيء فان لله خمسه وللرسول سورة الانفال آية 41، قال: قلت:" كم كان للنبي صلى الله عليه وسلم من الخمس؟ قال: خمس الخمس". (مقطوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَحْبُوبٌ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو إِسْحَاق، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ، قَالَ: سَأَلْتُ يَحْيَى بْنَ الْجَزَّارِ، عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ سورة الأنفال آية 41، قَالَ: قُلْتُ:" كَمْ كَانَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْخُمُسِ؟ قَالَ: خُمُسُ الْخُمُسِ".
مطرف کہتے ہیں کہ عامر شعبی سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے اور آپ کے صفی کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ ایک مسلمان شخص کے حصے کی طرح ہوتا تھا۔ رہا «صفی»۱؎ کے حصے کا معاملہ تو آپ کو اختیار ہوتا کہ غلام، لونڈی اور گھوڑے وغیرہ میں سے جسے چاہیں لے لیں۔
وضاحت: ۱؎: «صفی» مالِ غنیمت کے اس حصے کو کہتے ہیں جسے حاکم تقسیم سے قبل اپنے لیے مقرر کر لے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الخراج21(2991)، تحفة الأشراف: 18868) (صحیح الإسناد مرسل) (سند صحیح ہے، لیکن رسول اکرم صلی للہ علیہ وسلم سے روایت کرنے والے صحابی کا تذکرہ سند میں نہیں ہے)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد مرسل
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابو داود (2991) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 352
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4150
اردو حاشہ: (1)”صفی“ اس خصوصی حصے کو کہا جاتا ہے جو امام و رئیس مال غنیمت کی تقسیم سے پہلے اپنی ذات کے لیے چن لے، مثلاً: لونڈی، غلام، اونٹ اور گھوڑا وغیرہ۔ (2) گویا آپ کو خمس میں مکمل اختیار تھا۔ آپ کسی بھی چیز کو اپنے لیے خصوصی طور پر پسند فرما سکتے تھے جیسے آپ نے خیبر کے قیدیوں سے حضرت صفیہ ام المومنین رضی اللہ عنہا کو پسند فرمایا اور ان کو آزاد فرما کر ان سے نکاح فرما لیا۔ (3) دلائل کی رو سے مذکورہ روایت مرسل صحیح ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4150