الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: وحی کے بیان میں
The Book of Revelation
1. بَابُ كَيْفَ كَانَ بَدْءُ الْوَحْيِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
1. باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی ابتداء کیسے ہوئی۔
(1) Chapter. How the Divine Revelation started to be revealed to Allah’s Messenger ﷺ.
حدیث نمبر: Q1
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقول الله جل ذكره: {إنا اوحينا إليك كما اوحينا إلى نوح والنبيين من بعده}:وَقَوْلُ اللَّهِ جَلَّ ذِكْرُهُ: {إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَى نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِنْ بَعْدِهِ}:
‏‏‏‏ اور اللہ عزوجل کا یہ فرمان «إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَى نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِنْ بَعْدِهِ» کہ ہم نے بلاشبہ (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ کی طرف وحی کا نزول اسی طرح کیا ہے جس طرح نوح (علیہ السلام) اور ان کے بعد آنے والے تمام نبیوں کی طرف کیا تھا۔


Aur Allah Azza wa Jalla ka yeh farmaan ke "hum ne bila-shubha (aye Muhammad Sallallahu Alaihi Wasallam) Aap ki taraf wahi ka nuzool usi tarah kiya hai jis tarah Nooh (Alaihissalam) aur un ke baad aane waale tamaam nabiyon ki taraf kiya tha."


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت قبل الحديث صحيح بخاري 1  
اعتراض:
کئی معترضین اس مسئلہ کو بھی تختہ مشق بنانے کی جستجو کرتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ اگر اتنے ہی عاملین حدیث تھے تو انہوں نے صحیح بخاری کا آغاز سنت کے خلاف کیوں کیا؟ نہ اس کے آغاز میں انہوں نے لکھنے سے قبل حمد لکھی اور نہ ہی صلوۃ پر کوئی توجہ دی حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا فرمان موجود ہے۔ «كل كلام لايبدأ فيه بحمد الله فهو اجزم» [سنن ابي داؤد كتاب الادب رقم الحديث 4840] ہر گفتگو جس کی ابتدا اللہ کی حمد سے نہ شروع ہو تو اس میں برکت نہیں ہوتی۔
لہذا امام بخاری رحمہ اللہ نے اتنی عظیم کتاب لکھی مگر اس کی مسنون طریقہ سے ابتدا نہ کی۔
الجواب:
اس اعتراض کا جواب کئی طریقوں سے دیا جا سکتا ہے سب سے پہلی بات تو یہ مدنظر رکھنی چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اچھے کام کی ابتدا حمد سے کرنے کا حکم صادر فرمایا تو ابتداء زبان کے لفظوں سے ہو گا نہ کہ اسے لکھا جائے، لکھنا کسی بھی طریقے سے حمد کی شرائط میں داخل نہیں ہے کیوں کہ حمد کی جو تعریف مشہور ہے وہ یہ ہے کہ «هوالثناء باللسان» یعنی زبان سے تعریف ادا کرنا اور ایسی کوئی شرط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں جس میں اس امر پر دلالت ہو کہ لکھنا بھی شرائط میں سے ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جب معاہدے کیے تو ان معاہدوں میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بسم اللہ ہی لکھنے پر اکتفا فرمایا جیسا کہ صحیح بخاری میں منقول ہے۔ [صحيح البخاري: كتاب الشروط فى الجهاد و المصالحته۔ رقم 4581]

قرآن مجید نے بھی اس مسئلہ کو واضح فرمایا جب سلیمان علیہ السلام نے بلقیس کو خط لکھا تو اس خط کے ابتدا میں بھی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ہی لکھا۔ [النمل 30/27]
ان دلائل و براہین سے معلوم ہوتا ہے کہ حمد کرنے کا تعلق زبان کے ساتھ ہے اور جب خط یا کسی خاص تحریر کو لکھا جائے گا تو بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کا لکھنا ہی مسنون ہو گا۔

یہی وجہ ہے کہ امام عالی مقام امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری کے ابتدا میں بسم اللہ۔۔۔۔۔ ہی کو لکھا پھر باب کو قائم فرمایا اور اگر غور کیا جائے تو بسم اللہ الرحمٰن الرحیم میں حمد موجود ہے۔ اللہ جو اللہ تعالیٰ کا ذاتی نام ہے الرحمٰن اور الرحیم جو اس کی صفات خاصہ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی بزرگی اور اس کی حمد کی دلیل ہے۔

یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ابتداء بھی حمد سے کی اور انتہا بھی حمد سے ہی کی بخاری شریف کی آخری حدیث: «سبحان الله وبحمد سبحان الله العظيم» [صحيح بخاري كتاب التوحيد رقم 7124] بھی حمد ہی پر دال ہے، چنانچہ ابتداء بھی حمد سے اور انتہا بھی حمد سے ہی ہوئی۔

اور جہاں تک تعلق ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ پڑھنے کا تو امام بخاری رحمہ اللہ نے جو باب قائم فرمایا۔
«باب كيف كان بدء الوحي الي رسول الله صلى الله عليه وسلم»
تو اس میں بھی صلی اللہ علیہ وسلم کو امام بخاری رحمہ اللہ نے ذکر فرمایا لہٰذا درود بھی پڑھنا یہاں ثابت ہو گیا۔ ویسے تو صحیح بخاری و مسلم کی صحت کو مشکوک بنانے کے لیے ہر منکر حدیث ان ہی کتب پر پہلے اپنا ہاتھ صاف کرتا ہے پھر اس کے بعد دیگر کتب احادیث کی طرف التفات کرتا ہے۔ مگر الحمداللہ ہر دور میں اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی حفاظت کے لیے اہل علم کو کھڑا فرمایا، جنہوں نے دفاع حدیث کے عظیم کام کو سر انجام دیا۔ ان بزرگوں میں:
◈ علامہ حافظ زین الدین عراقی (المتوفی806ھ) نے صحیحین کی متکلم فیہ روایات کا علمی جواب تحریر کیا «الاحاديث المخرجة فى الصحيحين التى تكلم فيها بضعف و انقطاع» کے عنوان سے لکھی جس کے بارے میں خود موصوف نے یہ فرمایا: «ففيه فوائد مهمات» [التبصرة و التذكرة ج1 ص71]

◈ علامہ الفقیہ محمد بن الحسن الحجوی الثعالبی الفاسی (المتوفی 1376ھ) نے «الدفاع عن الصحيحين دفاع الاسلام» کے نام سے کتاب تحریر فرمائی ہے جس میں آپ نے واضح طور پر لکھا ہے کہ کسی مسلم کے لیے بخاری و مسلم کی روایت پر طعن کرنا درست نہیں ہے

◈ علامہ عراقی کے صاحبزادے حافظ ولی الدین ابوزرعتہ احمد بن عبدالرحیم (المتوفی 826ھ) نے بھی «البيان والتوضيح لمن خرج له فى الصحيح و قدمس بضرب من التجريح» کے نام سے ایک مستقل رسالہ تحریر فرمایا۔

◈ اسی طرح حافظ ابوالحسین رشید الدین یحییٰ بن یحییٰ القرشی العطار (المتوفی662ھ) نے «غررالفوائد المجموعة فى بيان ماوقع فى صحيح مسلم من الاحاديث المقطوعة» کے نام سے رسالہ لکھا۔

◈ حافظ ابن حجر (المتوفی852ھ) نے فتح باری کے مقدمہ میں جو کہ مکمل جلد پر مبنی ہے بنام «هدي الساري» میں بھی صحیحیں کے دفاع پر کئی صفحات پر لکھا ہے اور امام دارقطنی کے بھی کئی اعتراضات کے جوابات دیئے ہیں۔

◈ اسی طرح سے امام نووی رحمہ اللہ نے بھی شرح مسلم میں کئی صحیح مسلم کی احادیث کا دفاع کیا ہے۔

◈ اسی طرح سے علامہ محمد بن اسماعیل ابن خلفون رحمہ اللہ نے بھی «رفع التماري فى من تكم فيه من رجال البخاري» کے نام سے ایک مستقل رسالہ تحریر فرمایا ہے۔

◈ الامام القصیمی نے بھی ایک مستقل رسالہ «حل المشكلات احاديث النبوية» کے نام سے تحریر فرمایا ہے۔

◈ اسی موضوع پر علامہ ابوالولید باجی کی «التعديل و التجريح لمن خرج عنه البخاري فى الصحيح» بھی اہل علم میں معروف ہے۔

◈ علامہ ابراہیم ابن السبط رحمہ اللہ (المتوفی 884ھ) نے «التوضيح للاوهام الواقعه فى الصحيح» کے نام سے تحریر فرمایا۔

◈ علامہ جلال الدین عبدالرحمٰن بن عمر البلقینی رحمہ اللہ (المتوفی 828ھ) نے «الافهام بمادقع فى البخاري من الابهام» کے نام سے کتاب لکھی۔

◈ علامہ القاضی محمد بن احمد علوی الاسماعیلی نے «توضيح طرق الرشاد لحسم مادة الالحاد» صحیحین کے دفاع پر رسالہ لکھا۔

◈ شیخ ربیع بن ھادی حفظہ اللہ نے امام دار قطنی کے اعتراضات کے جوابات بنام «الاستدراك والتتبع» لکھا۔

◈ مولانا ابوالقاسم بنارسی رحمہ اللہ نے ڈاکٹر عمر کریم کے رسالوں کا مختلف انداز میں جواب دیئے بنام «حل مشكلات البخاري» «الكوثر الجاري فى جواب الجرع على البخاري» کے نام سے دیا۔

◈ الشیخ حافظ ثناءاللہ الذٰھدی حفظہ اللہ نے بھی اس موضوع پر ایک رسالہ تحریر کیا بنام «احاديث الصحيحين» الشیخ شمس الحق محدث ڈیانوی رحمہ اللہ نے بھی امام دار قطنی کے اعتراضات کے جوابات «الاستددراك» پر حاشیہ لکھا ہے۔

◈ مولانا ارشاد الحق اثری حفظ اللہ نے بھی بخاری و مسلم کے دفاع پر حبیب الرحمن صدیق کاندھلوی کی کتاب مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت کا جواب لکھا۔ ان کے علاوہ بھی کئی اہل علم ہیں جنہوں نے بھرپور انداز سے احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خصوصاً صحیحین کی احادیث کے دفاع کا فریضہ انجام دیا۔ «جزاهم الله خيراً»
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 88   
حدیث نمبر: 1
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا الحميدي عبد الله بن الزبير ، قال: حدثنا سفيان ، قال: حدثنا يحيى بن سعيد الانصاري ، قال: اخبرني محمد بن إبراهيم التيمي ، انه سمع علقمة بن وقاص الليثي ، يقول: سمعت عمر بن الخطاب رضي الله عنه على المنبر، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إنما الاعمال بالنيات، وإنما لكل امرئ ما نوى، فمن كانت هجرته إلى دنيا يصيبها او إلى امراة ينكحها، فهجرته إلى ما هاجر إليه".(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيُّ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيُّ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَلْقَمَةَ بْنَ وَقَّاصٍ اللَّيْثِيَّ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى الْمِنْبَرِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ".
ہم کو حمیدی نے یہ حدیث بیان کی، انہوں نے کہا کہ ہم کو سفیان نے یہ حدیث بیان کی، وہ کہتے ہیں ہم کو یحییٰ بن سعید انصاری نے یہ حدیث بیان کی، انہوں نے کہا کہ مجھے یہ حدیث محمد بن ابراہیم تیمی سے حاصل ہوئی۔ انہوں نے اس حدیث کو علقمہ بن وقاص لیثی سے سنا، ان کا بیان ہے کہ میں نے مسجد نبوی میں منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی زبان سے سنا، وہ فرما رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا۔ پس جس کی ہجرت (ترک وطن) دولت دنیا حاصل کرنے کے لیے ہو یا کسی عورت سے شادی کی غرض ہو۔ پس اس کی ہجرت ان ہی چیزوں کے لیے ہو گی جن کے حاصل کرنے کی نیت سے اس نے ہجرت کی ہے۔


Hum ko Humaidi ne yeh Hadees bayan ki , unhon ne kaha ke hum ko Sufyan ne yeh Hadees bayan ki , woh kehte hain hum ko Yahya bin Sa’eed Ansaari ne yeh Hadees bayan ki , unhon ne kaha ke mujhe yeh Hadees Muhammad bin Ibrahim Taymi se hue . unhon ne us Hadees ko Alqamah bin Waqqas Laithi se suna , un ka bayan hai ke main ne Masjid-e-Nabwi main mimbar Rasool Sallallahu Alaihi Wasallam par Umar bin Khattaab Radhiallahu Anhu ki zabaan se suna , woh farmaa rahe the ke main ne janab Rasoolulllah Sallallahu Alaihi Wasallam se suna aap Sallallahu Alaihi Wasallam farmaa rahe the ke tamaam a’maal ka daar-o-madaar niyyat par hai aur har amal ka nateeja har insaan ko us ki niyyat ke mutabiq hi milega . pas jis ki hijrat ( tark watan ) daulat duniya karne ke liye ho ya kisi aurat se shaadi ki gharz ho . pas us ki hijrat un hi cheezon ke liye hogi jin ke karne ki niyyat se us ne hijrat ki hai .

Narrated 'Umar bin Al-Khattab: I heard Allah's Apostle saying, "The reward of deeds depends upon the intentions and every person will get the reward according to what he has intended. So whoever emigrated for worldly benefits or for a woman to marry, his emigration was for what he emigrated for."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 1, Number 1


   صحيح البخاري2529عمر بن الخطابالأعمال بالنية ولامرئ ما نوى فمن كانت هجرته إلى الله ورسوله فهجرته إلى الله ورسوله ومن كانت هجرته لدنيا يصيبها أو امرأة يتزوجها فهجرته إلى ما هاجر إليه
   صحيح البخاري6689عمر بن الخطابإنما الأعمال بالنية وإنما لامرئ ما نوى فمن كانت هجرته إلى الله ورسوله فهجرته إلى الله ورسوله ومن كانت هجرته إلى دنيا يصيبها أو امرأة يتزوجها فهجرته إلى ما هاجر إليه
   صحيح البخاري5070عمر بن الخطابالعمل بالنية وإنما لامرئ ما نوى فمن كانت هجرته إلى الله ورسوله فهجرته إلى الله ورسوله ومن كانت هجرته إلى دنيا يصيبها أو امرأة ينكحها فهجرته إلى ما هاجر إليه
   صحيح البخاري6953عمر بن الخطابالأعمال بالنية وإنما لامرئ ما نوى فمن كانت هجرته إلى الله ورسوله فهجرته إلى الله ورسوله ومن هاجر إلى دنيا يصيبها أو امرأة يتزوجها فهجرته إلى ما هاجر إليه
   صحيح البخاري54عمر بن الخطابالأعمال بالنية ولكل امرئ ما نوى فمن كانت هجرته إلى الله ورسوله فهجرته إلى الله ورسوله ومن كانت هجرته لدنيا يصيبها أو امرأة يتزوجها فهجرته إلى ما هاجر إليه
   صحيح البخاري3898عمر بن الخطابالأعمال بالنية فمن كانت هجرته إلى دنيا يصيبها أو امرأة يتزوجها فهجرته إلى ما هاجر إليه ومن كانت هجرته إلى الله ورسوله فهجرته إلى الله ورسوله
   صحيح البخاري1عمر بن الخطابإنما الأعمال بالنيات وإنما لكل امرئ ما نوى فمن كانت هجرته إلى دنيا يصيبها أو إلى امرأة ينكحها فهجرته إلى ما هاجر إليه
   صحيح مسلم4927عمر بن الخطابالأعمال بالنية وإنما لامرئ ما نوى فمن كانت هجرته إلى الله ورسوله فهجرته إلى الله ورسوله ومن كانت هجرته لدنيا يصيبها أو امرأة يتزوجها فهجرته إلى ما هاجر إليه
   جامع الترمذي1647عمر بن الخطابالأعمال بالنية وإنما لامرئ ما نوى فمن كانت هجرته إلى الله وإلى رسوله فهجرته إلى الله وإلى رسوله ومن كانت هجرته إلى دنيا يصيبها أو امرأة يتزوجها فهجرته إلى ما هاجر إليه
   سنن أبي داود2201عمر بن الخطابالأعمال بالنيات وإنما لكل امرئ ما نوى فمن كانت هجرته إلى الله ورسوله فهجرته إلى الله ورسوله ومن كانت هجرته لدنيا يصيبها أو امرأة يتزوجها فهجرته إلى ما هاجر إليه
   سنن النسائى الصغرى3825عمر بن الخطابإنما الأعمال بالنية وإنما لامرئ ما نوى فمن كانت هجرته إلى الله ورسوله فهجرته إلى الله ورسوله ومن كانت هجرته لدنيا يصيبها أو امرأة يتزوجها فهجرته إلى ما هاجر إليه
   سنن النسائى الصغرى75عمر بن الخطابإنما الأعمال بالنية وإنما لامرئ ما نوى فمن كانت هجرته إلى الله وإلى رسوله فهجرته إلى الله وإلى رسوله ومن كانت هجرته إلى دنيا يصيبها أو امرأة ينكحها فهجرته إلى ما هاجر إليه
   سنن النسائى الصغرى3467عمر بن الخطابإنما الأعمال بالنية وإنما لامرئ ما نوى فمن كانت هجرته إلى الله ورسوله فهجرته إلى الله ورسوله ومن كانت هجرته لدنيا يصيبها أو امرأة يتزوجها فهجرته إلى ما هاجر إليه
   سنن ابن ماجه4227عمر بن الخطابإنما الأعمال بالنيات ولكل امرئ ما نوى فمن كانت هجرته إلى الله وإلى رسوله فهجرته إلى الله وإلى رسوله ومن كانت هجرته لدنيا يصيبها أو امرأة يتزوجها فهجرته إلى ما هاجر إليه
   مشكوة المصابيح1عمر بن الخطابإنما الأعمال بالنيات وإنما لكل امرئ ما نوى فمن كانت هجرته إلى دنيا يصيبها أو إلى امرأة ينكحها فهجرته إلى ما هاجر إليه
   مسندالحميدي28عمر بن الخطابإنما الأعمال بالنيات، وإنما لكل امرئ ما نوى، فمن كانت هجرته إلى الله ورسوله، فهجرته إلى الله ورسوله، ومن كانت هجرته إلى دنيا يصيبها أو إلى امرأة ينكحها، فهجرته إلى ما هاجر إليه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 1  
´اعمال نیتوں کے ساتھ ہیں`
«. . . ‏‏‏‏عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّمَا الْأَعْمَال بِالنِّيَّاتِ وَإِنَّمَا لكل امْرِئ مَا نَوَى فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوِ امْرَأَةٍ يَتَزَوَّجُهَا فَهجرَته إِلَى مَا هَاجر إِلَيْهِ» . . .»
. . . سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی ہے، پس جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہوئی ہے تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول ہی کے لیے ہے اور جس کی ہجرت حصول دنیا یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لیے ہوئی ہے تو اس کی ہجرت اسی چیز کی طرف ہوئی ہے جس کے لیے اس نے ہجرت کی ہے۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/مُقَدِّمَةٌ: 1]

تخریج الحدیث:
[صحيح بخاري 1، 54، 2529، 3898، 5070، 6689، 6953]،
[صحيح مسلم 1907]،
[سنن نسائي 3825]،
[التعليقات السلفيه واللفظ له الا عنده لدنيا بدل الى دنيا وجاء فى بعض نسخ النسائي: الى دنيا.‏‏‏‏]

فقہ الحدیث:
➊ یہ حدیث «يحيٰي بن سعيد الانصاري عن محمد بن ابراهيم التيمي عن علقمه بن وقاص الليثي عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه» کی سند کے ساتھ صحیح بخاری، صحیح مسلم اور دوسری کتب حدیث میں موجود ہے نیز صحیح غریب، خبر واحد ہے۔
➋ اس صحیح حدیث اور دیگر دلائل سے یہ ثابت ہے کہ حدیث مقبول کے لئے متواتر یا مشہور ہونا ضروری نہیں بلکہ خبر واحد صحیح بھی حجت ہے۔
➌ عمل کی مقبولیت کا دارومدار نیت پر ہے، لہٰذا وضو، غسل، نماز، روزہ، حج اور تمام عبادات کے لئے نیت کا ہونا ضروری ہے اور اسی پر فقہاء کا اجماع ہے۔ ديكهئے: [الايضاح عن معاني الصحاح، لابن هبيرة ج1 ص56]
سوائے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے، ان کے نزدیک وضو اور غسل جنابت میں نیت واجب نہیں (بلکہ) سنت ہے۔ ديكهئے: [الهدايه مع الداريه ج 1 ص 20]
➍ عربی لغت (زبان) میں دلی ارادے، عزم اور قصد کو نیت کہتے ہیں۔ ديكهئے: [القاموس الوحيد ص1730]
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نیت دل کے ارادے اور قصد کو کہتے ہیں، قصد و ارادہ کا مقام دل ہے زبان نہیں۔ [الفتاوي الكبري ج1 ص1، وهذا مفهوم العبارة بالاردية]
نماز کی نیت زبان سے کہنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ میں کسی سے ثابت نہیں ہے، لہٰذا اس زبانی عمل سے اجتناب کرنا چاہئے۔
➎ کسی عمل کے عنداللہ مقبول ہونے کی تین شرطیں ہیں:
① عامل کا عقیدہ کتاب و سنت اور فہم سلف صالحین کے مطابق ہو۔
② عمل اور طریقہ کار عین کتاب و سنت کے مطابق ہو۔
③ اس عمل کو صرف اللہ کی رضا کے لئے سرانجام دیا جائے۔
➏ رسالہ الحدیث حضرو، کی ابتدا میں اس حدیث اور فقہ الحدیث کا مقصد یہ ہے کہ الحدیث کے اجراء سے ہمارا مقصد، اللہ تعالیٰ کی رضامندی اور بخشش ہے (اشاعتہ الحدیث ہے، دفاع حدیث ہے) کوئی دنیاوی فائدہ پیش نظر نہیں ہے۔
➐ بعض علماء اس حدیث کو دین اسلام کا ثلث [1/3] قرار دیتے ہیں کیونکہ تمام اعمال کا تعلق: ① دل ② زبان ③ اور «جوارح» ہاتھ پاؤں وغیرہ سے ہے۔
چونکہ نیت کا تعلق دل سے ہے، لہٰذا یہ اسلام کا ثلث (ایک تہائی) ہے۔
➑ یہ حدیث ان بدعتیوں (مثلاً مرجیہ وغیرہ) کا رد ہے جن کا یہ دعویٰ ہے کہ ایمان دلی اعتقاد کے بغیر صرف زبانی قول کا نام ہے۔
عینی نے کہا: «فيه رد على المرجئة في قولهم الايمان اقرار باللسان دون الاعتقاد بالقلب» اس میں مرجیہ کے اس قول پر رد ہے کہ ایمان زبانی اقرار ہے، دل کا اعتقاد نہیں ہے۔ [عمدة القاري34/1]
➒ صحیح بخاری میں «انما الاعمال بالنيات. الخ» والی پہلی روایت میں «فمن كانت هجرته الي الله ورسوله فهجرته الى الله و رسوله .» کے الفاظ موجود نہیں ہیں [ح1] جبکہ دوسری روایت [ح54 و صحیح مسلم] میں موجود ہیں، اس سے دو مسئلے ثابت ہوئے:
اول: ایک روایت میں ذکر ہو اور دوسری میں عدم ذکر ہو تو عدم ذکر، نفی ذکر کی دلیل نہیں ہوتا۔
دوم: ثقہ راوی کی زیادت، جب ثقہ راویوں یا اوثق کے ہر لحاظ سے خلاف نہ ہو تو یہ زیادت معتبر و مقبول ہوتی ہے۔
➓ بعض علماء نے امام بخاری کے طرز عمل سے استنباط کیا ہے کہ انہوں نے کتاب بدء الوحی کے شروع میں «انماالاعمال بالنيات» والی حدیث ذکر کر کے دو مسئلے ثابت کئے ہیں:
اول: حدیث بھی وحی ہے۔
دوم: امام الحمیدی المکی سے روایت میں یہ اشارہ ہے کہ دین اسلام اور نزول وحی کی ابتدا مکے سے ہوئی، اسی طرح صحیح بخاری کی آخری حدیث ابوہریرہ المدنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، جس میں یہ اشارہ ہے کہ دین اسلام مدینے میں مکمل ہو گیا۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 1   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1  
´تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے`
«. . . يَقُولُ: إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا۔ پس جس کی ہجرت (ترک وطن) دولت دنیا حاصل کرنے کے لیے ہو یا کسی عورت سے شادی کی غرض ہو۔ پس اس کی ہجرت ان ہی چیزوں کے لیے ہو گی جن کے حاصل کرنے کی نیت سے اس نے ہجرت کی ہے . . . [صحيح البخاري/كِتَابُ بَدْءِ الْوَحْيِ: 1]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
➊ امام بخاری رحمہ اللہ نے عملوں کے دارومدار نیت پر ہے۔ اس حدیث کو کتاب الوحی میں اس لیے ذکر فرمایا کہ بخاری شریف پڑھنے والا اپنی نیت کو درست کر لے کیونکہ احادیث مبارکہ بھی وحی ہوا کرتی ہیں، لہٰذا طالب حق بخاری کی تلاوت سے قبل اپنی نیت کو خالص کر لے تاکہ علم نبوت اس کے قلب پر جا کے اثر ہو اور زندگی میں اطاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتداء ہو۔
➋ حدیث مشتمل ہے ہجرت پر کیونکہ ہجرت صرف اور صرف اللہ وحدہ لا شریک کے لیے ہی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ہجرت کی اور آپ کے ہجرت کرنا بلا کسی تردد و شک کے وحی کی اقتدا میں تھا، لہٰذا اگر کوئی شخص اپنی نیت کو خالص کر کے اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہجرت کرتا ہے تو یقیناً وہ شخص اپنی نیت کو خالص کرنے کی وجہ سے وحی کی پیروی کرتا ہے۔
◈ علامہ محمود حسن رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
شروع اصول میں ہم عرض کر چکے ہیں بسا اوقات ترجمتہ الباب کا مدلول مطابق مؤلف کو مطلوب نہیں ہوتا، بلکہ اس سے کسی خاص غرض کی طرف اشارہ ہوتا ہے اسی کو احادیث باب سے ثابت کرنا منظور ہوتا ہے۔ یہاں یہی صورت ہے، اول تو ملاحظہ فرمائیے کہ مؤلف نے کتاب کو باب وحی سے شروع کیوں فرمایا؟ اس کی کیا وجہ ہے؟ حالانکہ دیگر کتب احادیث کے موافق ابواب فضائل قرآن کو اپنے موقع پر بیان کیا ہے اور متعدد ابواب نزول وحی کے متعلق وہاں مذکور ہیں۔ یہاں صرف ایک باب کے مقدم لانے میں کیا غرض ہے؟ اس لیے سب سے پہلے حتی کہ ایمان اور علم سے بھی اول وحی کا ذکر مناسب ہوا۔ چنانچہ شراح محققین صاف یہی ارشاد فرماتے ہیں۔ سو اس سے معلوم ہو گیا کہ مؤلف رحمہ اللہ کی غرض اس موقع میں یہ ہے کہ وحی پر چونکہ جملہ امور اسلامیہ کا مدار ہے اور یہی ایک ایسی دلیل ہے کہ جس میں کسی طرف سے خطاء و غلطی کا ادنیٰ احتمال نہیں ہو سکتا۔ (پس یہیں سے ترجمة الباب اور احادیث میں مناسبت ہو گی)۔‏‏‏‏ [الابواب والتراجم للمحمود حسن۔ ص16-17]
➌ کتاب الوحی میں «انما الاعمال بالنيات» کی حدیث کو درج کرنے کی غرض یہ ہے کہ تمام اعمال، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج وغیرہ کا علم یہ سب کچھ وحی کے ذریعے دیا گیا ہے۔ چنانچہ مذکورہ حدیث کا تعلق باب کے ساتھ یہی ہے کہ اسلام میں ہر رکن کا تعلق وحی کے ساتھ لازم و ملزوم ہے کیونکہ وحی ہی کے ذریعے تمام اعمالوں کی تعلیم دی گئی ہے۔ لہٰذا یہیں سے باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت ہے۔

فائدہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ پہلی وحی تھی جس میں قرآن کی پہلی سورت « ﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ﴾ » نازل ہوئی آیت مبارک کے پس منظر میں جو بھی واقعہ پیش آیا قرآن کی اس سورت کے ساتھ ساتھ وہ واقعہ بھی محفوظ ہے، امت کا اس امر پر اجماع ہے کہ جس طرح قرآن مجید اللہ تعالی کی وحی ہے بعین ہی اسی طرح سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان آپ کی احادیث بھی اللہ تعالی کی وحی ہیں۔

حسان بن عطیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
«كان جبريل عليه السلام ينزل بالقرآن والسنة»
جبريل عليه السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن و حدیث دونوں لے کر اترتے تھے۔‏‏‏‏ [ذم الکلام ج2 ص149]
اور عیسی و روح کی روایت میں اضافہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جس طرح قرآن سکھایا جاتا اسی طرح سے حدیث بھی۔ [ذم الکلام ج2ص149]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس مسئلے کو واضح فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد عالی شان ہے:
خبردار مجھے قرآن کے ساتھ اس جیسی ایک اور بھی چیز دی گئی ہے (یعنی احادیث رسول)۔ [سنن ابي داؤد رقم الحديث 4604]
واضح ہوا کہ قرآن مجید کے ساتھ ساتھ احادیث بھی وحی ہیں اور ان دونوں کا تعلق بہت گہرا ہے۔

الشیخ موسی جار اللہ رحمہ اللہ جو مصنف ہیں «الوشيعة فى النقد على عقائد الشيعه» کے آپ ایک روسی عالم دین ہیں آپ نے سنت کے دفاع پر اور اس کی وحی ہونے کے بارے میں ایک عمدہ اور لطیف وضاحت فرماتے ہیں آپ لکھتے ہیں:
«السنه أصل اول من بين اصول الأدلة الاربعة فى شرع الاسلام فى اثبات الاحكام، لم يثبت حكم فى الاسلام اول ثبوته الا بالسنه وآيات الكتاب الكريم كانت تنزل بعد مؤيدة مثبتة لفعل النبى صلى الله عليه وسلم و اقراره و افعاله» [كتاب السنة لموسيٰ جار الله ص32]
اثبات احکام کے لحاظ سے ادلہ اربعہ میں سنت کا درجہ اول ہے اسلام کے تمام احکامات اولاً سنت میں ثابت ہوئے اس کے بعد قرآن عزیز نے ان کی تائید فرمائی اور یہ تائید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقرار، افعال سب کو حاصل ہوئی

شیخ اس مسئلے پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے رقمطراز ہیں:
ایمان ارکان دین، فرائص ابتدا سنت سے ثابت ہوئے اس کے بعد قرآن مجید نے اس کی تائید فرمائی۔ سورۃ مائدہ 6 ہجری میں نازل ہوئی اور اس میں وضو کا ذکر کیا گیا ہے نماز اس سے بہت پہلے مکہ معظمہ میں فرض ہوئی معلوم ہے کہ سالہا سال تک نماز بے وضو تو ادا نہیں ہوتی رہی، ظاہر ہے کہ وضو کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی سنت کے طور پر بتا دیا گیا تھا 6ھ میں قرآن حکیم نے اس حکم کی تائید فرما دی۔ معزوریاں انسان کے لوازم سے ہیں، عرب کی سرزمین میں پانی کی قلت معمولات میں سے ہے، بیماریاں بھی کسی قائدے کی پابند نہیں معلوم ہے کہ ان حالات میں تیمم کے سوا چارہ نہیں لیکن تیمم کا حکم سورۃ مائدہ کی آیت نمبر [6] میں مرقوم ہے جو سن 6ھ کے بعد اتری اصل تیمم سنت سے ثابت ہوا قرآن نے اس کی تائید فرمائی۔۔۔۔

موسی جار اللہ رحمہ اللہ کے ان اقتباسات سے کئی ایک فوائد حاصل ہوئے جس میں سب سے مفید نکتہ یہ ہے کہ اگر سنت وحی نہ ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو وضو اور تیمم کا طریقہ کس اعتبار سے سکھاتے جب کہ قرآن کئی سالوں بعد اس فعل کی تائید کرتا ہے لہٰذا وحی کی دو قسمیں واضح ہوئیں ایک وحی جلی (Express Revelation) قرآن مجید اور دوسری وحی، وحی خفی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم (Tacit Revelation) جو کہ دونوں قطعی اور منزل من اللہ ہیں۔

نوٹ: احادیث کے بارے میں شکوک و شبہات کے مستحکم جوابات کے لئے راقم کی کتاب اسلام کے مجرم کون؟ کا مطالعہ مفید رہے گا۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 90   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6953  
´حیلے چھوڑنے کا بیان`
«. . . عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَخْطُبُ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ، وَإِنَّمَا لِامْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَمَنْ هَاجَرَ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا، أَوِ امْرَأَةٍ يَتَزَوَّجُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ . . .»
. . . علقمہ بن وقاص لیثی نے بیان کیا کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے خطبہ میں سنا انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا: اے لوگو! اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی وہ نیت کرے گا پس جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہو اسے ہجرت (کا ثواب ملے گا) اور جس کی ہجرت کا مقصد دنیا ہو گی کہ جسے وہ حاصل کر لے یا کوئی عورت ہو گی جس سے وہ شادی کر لے تو اس کی ہجرت اسی کے لیے ہو گی جس کے لیے اس نے ہجرت کی ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْحِيَلِ: 6953]

صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6953 کا باب: «بَابٌ في تَرْكِ الْحِيَلِ وَأَنَّ لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى فِي الأَيْمَانِ وَغَيْرِهَا:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت سے قبل حیلہ کے بارے میں ضروری وضاحت کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے، جسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کتاب الحیل کی ابتداء میں ذکر فرمائی ہے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کتاب الحیل کا تعارف کرواتے ہوئے رقمطراز ہیں:
«جمع حيلة و هي ما يتوصل به إلى مقصود بطريق خفي وهي عند العلماء على أقسام بحسب الحامل عليها، فان توصل بها بطريق مباح إلى إبطال حق أو إثبات باطل فهي حرام، أو إلى إثبات حق أو دفع باطل فهي واجبة أو مستحبة، و ان توصل بها بطريق مباح إلى سلامة من وقوع فى مكره فيه مستحبة أو مباحة، أو إلى ترك مندوب فهي مكروهة.» [فتح الباري لابن حجر: 780/13]
حیلہ کہتے ہیں ایک پوشیدہ تدبیر سے اپنا مقصود حاصل کرنے کو، اور یہ علماء کے نزدیک بحسب حامل اقسام پر ہے، پس اگر حیلہ کر کے حق کا ابطال یا باطل کا اثبات کیا جائے تب تو یہ حیلہ حرام ہو گا، اور اگر حق کا اثبات اور باطل کا ابطال کیا جائے تو وہ واجب یا مستحب ہو گا، اور اگر کسی آفت سے بچنے کے لیے کیا جائے تو مباح ہو گا، اگر ترک مستحب کے لیے کیا جائے تو مکروہ ہو گا، اب علماء میں اختلاف ہے کہ پہلی قسم کا حیلہ کرنا صحیح ہے یا غیر صحیح، اور نافذ ہے یا غیر نافذ، اور ایسا حیلہ کرنے سے آدمی گناہ گار ہو گا یا نہیں؟
اس مختصر سی تعریف کو سمجھیں اور اب دیکھیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ «باب فى ترك الحيل» میں کون سا مسئلہ سمجھانا چاہتے ہیں اور ترجمۃ الباب اور حدیث میں کیا مناسبت ہو گی۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے «إنما الأعمال بالنية» والی حدیث کو پیش کر کے حیلوں کے عدم جواز پر دلیل کو اخذ فرمایا ہے، کیوں کہ حیلہ کرنے والے حضرات ظاہر میں کسی اور چیز کو واضح کرتے ہیں جبکہ نیت ظاہری عمل کے مخالف ہوتی ہے، اسی لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ والی حدیث پیش فرمائی تاکہ عدم جواز کی دلیل کو اخذ کیا جائے۔
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وجه مطابقة الحديث للترجمة التى هي ترك الحيل: أن مهاجر أم قيس جعل الهجرة حيلة فى تزوج أمّ قيس.» [ارشاد الساري: 316/11]
یعنی ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت اس جہت سے ہے کہ اس میں ترک حیلہ کا جواز ہے، کیونکہ مہاجر ام قیس نے جو ہجرت کی تھی وہ ام قیس سے نکاح کے لیے تھی۔
امام قسطلانی رحمہ اللہ کے مطابق مہاجر ام قیس نے جب ہجرت کی تو آپ نے وہاں پر حیلہ کو اختیار فرمایا تاکہ ام قیس سے آپ کا نکاح ہو جائے۔
دراصل امام بخاری رحمہ اللہ اس مقام پر عبادات کے ساتھ ساتھ معاملات پر بھی قیاس فرما رہے ہیں کہ جس طرح عبادات میں مطلق حیلہ جائز نہیں بعین اسی طرح سے معاملات میں بھی جائز نہیں ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ کہنا «وان لكل امرىءٍ ما نوى فى الإيمان و غيرها»
اس میں «في الإيمان و غيرها» امام بخاری رحمہ اللہ کا تفقہ ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
یہ الفاظ امام بخاری رحمہ اللہ کے تفقہ میں سے ہے، حدیث کے الفاظ نہیں ہیں۔
اس مناسبت کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ علامہ ابن المنیر رحمہ اللہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«اتسع البخاري فى الاستنباط، و المشهور عند النظار حمل الحديث على العبادات، وحمله البخاري عليها وعلى المعاملات.» [فتح الباري لابن حجر: 386/13]
یعنی امام بخاری رحمہ اللہ نے استنباط میں توسیع پیدا فرمائی ہے، جبکہ دیکھنے والے کے ہاں مشہور اس حدیث کا حمل عبادات پر ہے، مگر امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات کے ساتھ معاملات پر بھی اسے محمول فرمایا ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کی عادات میں یہ امر شامل ہے کہ آپ حدیث کے کسی ٹکڑے سے بہت دور کے مسائل کو بھی حل فرماتے ہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ کی عادات کو تفصیلی جاننے کے لیے علامہ عبدالحق بن عبدالواحد الہاشمی المکی رحمہ اللہ کی کتاب «عادات الامام البخاري فى صحيحه» کا مطالعہ مفید رہے گا، یا پھر امام بخاری رحمہ اللہ کے ابواب کے مقاصد اور انواع کی تفصیلی بحث اور معلومات کے لیے راقم کی کتاب «تحفة القاري فى أنواع التراجم للبخاري» کا مطالعہ مفید رہے گا۔ ان شاء اللہ
ان گفتگو کا خلاصہ یہ ہوا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑے دقیق انداز سے حدیث ام قیس سے عدم حیلہ کا جواز اخذ فرمایا ہے اور ساتھ ہی ساتھ عبادات سے معاملات کا استنباط فرمایا ہے، لہٰذا امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ حدیث «إنما الأعمال . . . . .» میں اعمال صرف عبادات کے ساتھ خاص نہیں ہیں بلکہ معاملات میں بھی یہ مسئلہ داخل ہے۔
ایک ضروری وضاحت:
مولانا انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ اپنی شرح فیض الباری میں فرماتے ہیں: «إنما الأعمال بالنيات» والی حدیث کا جو قصہ ہے وہ مہاجر سیدہ ام قیس رضی اللہ عنہا کا ہے، چنانچہ آپ کہتے ہیں: «واقعته: ما رواه الطبراني بسند رجاله ثقات عن ابن مسعود رضي الله عنه قال: كان فبينا رجل خطب امرأة يقال لها: أم قيس . . . . .» [فيض الباري: 80/1]، شاہ صاحب کی یہ بات محل نظر ہے کہ حدیث «إنما الأعمال . . . . .» کا تعلق قصہ مہاجر ام قیس کے ساتھ ہے بلکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بایں طور پر واضح فرمایا کہ اس واقعہ میں ایسی کوئی بات مذکور نہیں ہے جو اس پر دلالت کرے کہ «إنما الأعمال . . . . .» والی حدیث اس کی وجہ سے بیان ہوئی ہے۔ ہمارے شیخ محدث گوندلوی رحمہ اللہ اور حافظ نور پوری رحمہ اللہ نے شاہ صاحب کی فیض الباری سے کئی مسائل کا نقد فرمایا ہے، تفصیل کے لیے مطالعہ فرمائیں: «إرشاد القاري إلى نقد فيض الباري» ۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 266   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1  
´تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے`
«. . . يَقُولُ: إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا۔ پس جس کی ہجرت (ترک وطن) دولت دنیا حاصل کرنے کے لیے ہو یا کسی عورت سے شادی کی غرض ہو۔ پس اس کی ہجرت ان ہی چیزوں کے لیے ہو گی جن کے حاصل کرنے کی نیت سے اس نے ہجرت کی ہے . . . [صحيح البخاري/كِتَابُ بَدْءِ الْوَحْيِ: 1]

تشریح:
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جامع صحیح کے افتتاح کے لیے یا تو صرف «بسم الله الرحمن الرحيم» ہی کو کافی سمجھا کہ اس میں بھی اللہ کی حمد کامل طور پر موجود ہے یا آپ نے حمد کا تلفظ زبان سے ادا فرما لیا کہ اس کے لیے لکھنا ہی ضروری نہیں۔ یا پھر آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہی کو ملحوظِ خاطر رکھا ہو کہ تحریرات نبوی کی ابتدا صرف «بسم الله الرحمن الرحيم» ہی سے ہوا کرتی تھی جیسا کہ کتب تواریخ و سیر سے ظاہر ہے۔ حضرت الامام قدس سرہ نے پہلے وحی کا ذکر مناسب سمجھا اس لیے کہ قرآن وسنت کی اولین بنیاد وحی ہے۔ اسی پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت موقوف ہے۔

وحی کی تعریف علامہ قسطلانی شارح بخاری کے لفظوں میں یہ ہے «والوحي الاعلام فى خفاءوفي اصطلاح الشرع اعلام الله تعالىٰ انبياءه الشي امابكتاب او برسالة ملك او منام اوالهام» [ارشاد الساری 48/1] یعنی وحی لغت میں اس کو کہتے ہیں کہ مخفی طور پر کوئی چیز علم میں آ جائے اور شرعاً وحی یہ ہے کہ اللہ پاک اپنے نبیوں رسولوں کو براہِ راست کسی مخفی چیز پر آگاہ فرما دے۔ اس کی بھی مختلف صورتیں ہیں، یا تو ان پر کوئی کتاب نازل فرمائے یا کسی فرشتے کو بھیج کر اس کے ذریعہ سے خبر دے یا خواب میں آگاہ فرما دے، یادل میں ڈال دے۔ وحی محمدی کی صداقت کے لیے حضرت امام نے آیت کریمہ «انآاوحينآ اليك كما اوحينا الي نوح» [النساء: 163] درج فرما کر بہت سے لطیف اشارات فرمائے ہیں، جن کی تفصیل طوالت کا باعث ہے۔ مختصر یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی وحی کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ یہ سلسلہ عالیہ حضرت آدم، نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ وجملہ انبیاء ورسل علیہم السلام سے مربوط ہے اور اس سلسلے کی آخری کڑی حضرت سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اس طرح آپ کی تصدیق جملہ انبیاء و رسل علیہم السلام کی تصدیق ہے اور آپ کی تکذیب جملہ انبیاء و رسل علیہم السلام کی تکذیب ہے۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں «ومناسبة الآية للترجمة واضح من جهة ان صفة الوحي الٰي نبينا صلى الله عليه وسلم توافق صفة الوحي الٰي من تقدمه من النبيين» [فتح الباری9/1] یعنی باب بدء الوحی کے انعقاد اور آیت «انااوحينا اليك» الآیۃ میں مناسبت اس طور پر واضح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول قطعی طور پر اسی طرح ہے جس طرح آپ سے قبل تمام نبیوں رسولوں پر وحی کا نزول ہوتا رہا ہے۔

ذکر وحی کے بعد حضرت الامام نے الحدیث «انما الاعمال بالنيات» کو نقل فرمایا، اس کی بہت سی وجوہ ہیں۔ ان میں سے ایک وجہ یہ ظاہر کرنا بھی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خزانہ وحی سے جو کچھ بھی دولت نصیب ہوئی یہ سب آپ کی اس پاک نیت کا ثمرہ ہے جو آپ کو ابتداء عمر ہی سے حاصل تھی۔ آپ کا بچپن، جوانی، الغرض قبل نبوت کا سارا عرصہ نہایت پاکیزگی کے ساتھ گزرا۔ آخر میں آپ نے دنیا سے قطعی علیحدگی اختیار فرماکر غار حرا میں خلوت فرمائی۔ آخر آپ کی پاک نیت کا ثمرہ آپ کو حاصل ہوا اور خلعت رسالت سے آپ کو نوازا گیا۔ روایت حدیث کے سلسلہ عالیہ میں حضرت الامام قدس سرہ نے امام حمیدی رحمۃ اللہ علیہ سے اپنی سند کا افتتاح فرمایا۔ حضرت امام حمیدی رحمہ اللہ علم و فضل، حسب و نسب ہر لحاظ سے اس کے اہل تھے اس لیے کہ ان کی علمی و عملی جلالت شان کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے اساتذہ میں سے ہیں، حسب ونسب کے لحاظ سے قریشی ہیں۔ ان کا سلسلہ نسب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم و حضرت خدیجۃ الکبریٰ ر ضی اللہ عنہا سے جا ملتا ہے ان کی کنیت ابوبکر، نام عبداللہ بن زبیر بن عیسیٰ ہے، ان کے اجداد میں کوئی بزرگ حمید بن اسامہ نامی گزرے ہیں، ان کی نسبت سے یہ حمیدی مشہور ہوئے۔ اس حدیث کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ حمیدی سے جو کہ مکی ہیں، لا کر یہ اشارہ فرما رہے ہیں کہ وحی کی ابتدا مکہ سے ہوئی تھی۔

حدیث «انماالاعمال بالنيات» کی بابت علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «وهذاالحديث احد الاحاديث التى عليها مدار الاسلام و قال الشافعي واحمد انه يدخل فيه ثلث العلم» [ارشاد الساري 56,57/1] یعنی یہ حدیث ان احادیث میں سے ایک ہے جن پر اسلام کا دارومدار ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور احمد رحمہ اللہ جیسے اکابر امت نے صرف اس ایک حدیث کو علم دین کا تہائی یا نصف حصہ قرار دیا ہے۔ اسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے علاوہ اور بھی تقریباً بیس اصحاب کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل فرمایا ہے۔ بعض علماءنے اسے حدیث متواتر بھی قرار دیا ہے۔ اس کے راویوں میں سعد بن ابی وقاص، علی بن ابی طالب، ابوسعیدخدری، عبداللہ بن مسعود، انس، عبداللہ بن عباس، ابوہریرہ، جابر بن عبداللہ، معاویہ بن ابی سفیان، عبادۃ بن صامت عتبہ بن عبدالسلمی، ہلال بن سوید، عقبہ بن عامر، ابوذر عقبہ بن المنذر عقبہ بن مسلم اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اسمائے گرامی نقل کئے گئے ہیں۔ (قسطلانی رحمہ اللہ)

امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی جامع صحیح کو اس حدیث سے اس لیے شروع فرمایا کہ ہر نیک کام کی تکمیل کے لیے خلوص نیت ضروری ہے۔ احادیث نبوی کا جمع کرنا، ان کا لکھنا، ان کا پڑھنا، یہ بھی ایک نیک ترین عمل ہے، پس اس فن شریف کے حاصل کرنے والوں کے لیے آداب شرعیہ میں سے یہ ضروری ہے کہ اس علم شریف کو خالص دل کے ساتھ محض رضائے الٰہی و معلومات سنن رسالت پناہی کے لیے حاصل کریں، کوئی غرض فاسد ہرگز درمیان میں نہ ہو۔ ورنہ یہ نیک عمل بھی اجر و ثواب کے لحاظ سے ان کے لیے مفید عمل نہ ہو سکے گا۔ جیسا کہ اس حدیث کے شان و رود سے ظاہر ہے کہ ایک شخص نے ایک عورت ام قیس نامی کو نکاح کا پیغام دیا تھا، اس نے جواب میں خبر دی کہ آپ ہجرت کر کے مدینہ آ جائیں تو شادی ہو سکتی ہے۔ چنانچہ وہ شخص اسی غرض سے ہجرت کر کے مدینہ پہنچا اور اس کی شادی ہو گئی۔ دوسرے صحابہ کرام اس کو مہاجر ام قیس کہا کرتے تھے۔ اسی واقعہ سے متاثر ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث ارشاد فرمائی۔

حضرت امام قسطلانی فرماتے ہیں۔ «واخرجه المولف فى الايمان والعتق والهجرة والنكاح والايمان والنذور وترك الحيل ومسلم والترمذي والنسائي وابن ماجة واحمد والدارقطني وابن حبان والبيهقي» یعنی امام بخاری رحمہ اللہ اپنی جامع صحیح میں اس حدیث کو یہاں کے علاوہ کتاب الایمان میں بھی لائے ہیں اور وہاں آپ نے یہ باب منعقد فرمایا ہے «باب ماجاءان الاعمال بالنية والحسبة ولكل امرءما نوي» یہاں آپ نے اس حدیث سے استدلال فرمایا ہے کہ وضو، زکوۃ، حج روزہ جملہ اعمال خیر کا اجر اسی صورت میں حاصل ہو گا کہ خلوص نیت سے بغرض طلب ثواب ان کو کیا جائے۔ یہاں آپ نے استشہاد مزید کے لیے قرآنی آیت کریمہ «قل كل يعمل على شاكلته» کو نقل کرتے ہوئے بتلایا ہے کہ «شاكلته» سے نیت ہی مراد ہے۔ مثلاً کوئی شخص اپنے اہل و عیال پر بہ نیت ثواب خرچ کرتا ہے تو یقینا اسے ثواب حاصل ہو گا۔ تیسرے امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کو کتاب العتق میں لائے ہیں۔ چوتھے باب الہجرۃ میں پانچویں کتاب النکاح میں چھٹے نذورکے بیان میں۔ ساتویں کتاب الحیل میں۔ ہر جگہ اس حدیث کی نقل سے غرض یہ ہے کہ صحت اعمال و ثواب اعمال سب نیت ہی پر موقوف ہیں اور حدیث ہذا کا مفہوم بطور عموم ہر دو صورتوں کو شامل ہے۔ اس حدیث کے ذیل میں فقہاء شوافع صرف صحت اعمال کی تخصیص کرتے ہیں اور فقہاء احناف صرف ثواب اعمال کی۔ حضرت مولاناانور شاہ صاحب کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے ان ہر دو کی تغلیط فرماتے ہوئے امام المحدثین بخاری رحمۃ اللہ علیہ ہی کے موقف کی تائید کی ہے کہ یہ حدیث ہر دو صورتوں کو شامل ہے۔ دیکھئے: [انوارالباری 16,17/1]

نیت سے دل کا ارادہ مراد ہے۔ جو ہر فعل اختیاری سے پہلے دل میں پیدا ہوتا ہے، نماز، روزہ، وغیرہ کے لیے زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنا غلط ہے۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور دیگر اکابر امت نے تصریح کی ہے کہ زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنے کا ثبوت نہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے نہ صحابہ رضی اللہ عنہ و تابعین رضوان اللہ علیہم اجمعین سے، لہٰذا زبان سے نیت کے الفاظ کا ادا کرنا محض ایجاد بندہ ہے جس کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔

آج کل ایک جماعت منکرین حدیث کی بھی پیدا ہو گئی ہے جو اپنی ہفوات کے سلسلے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اسم گرامی بھی استعمال کیا کرتے ہیں اور کہا کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ روایت حدیث کے خلاف تھے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جامع صحیح کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت سے شروع فرمایا ہے۔ جس سے روز روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ منکرین حدیث کا حضرت عمررضی اللہ عنہ پر یہ الزام بالکل غلط ہے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ خود احادیث نبوی کو روایت فرمایا کرتے تھے۔ ہاں صحت کے لیے آپ کی طرف سے احتیاط ضرور مدنظر تھا۔ اور یہ ہر عالم، امام، محدث کے سامنے ہونا ہی چاہئیے۔ منکرین حدیث کو معلوم ہونا چاہئیے کہ سیدنا حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں احادیث نبوی کی نشر و اشاعت کا غیر معمولی اہتمام فرمایا تھا اور دنیائے اسلام کے گوشہ گوشہ میں ایسے جلیل القدر صحابہ کو اس غرض کے لیے روانہ فرمایا تھا، جن کی پختگی سیرت اور بلندی کردار کے علاوہ ان کی جلالت علمی تمام صحابہ میں مسلم تھی۔ جیسا کہ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ ازالۃ الخفاءمیں تحریر فرماتے ہیں۔ جس کا ترجمہ یہ ہے:

فاروق اعظم نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو ایک جماعت کے ساتھ کوفہ بھیجا۔ اور معقل بن یسار وعبداللہ بن مغفل و عمران بن حصین کو بصرہ میں مقرر فرمایا اور عبادہ بن صامت اور ابودرداءکو شام روانہ فرمایا اور ساتھ ہی وہاں کے عمال کو لکھا کہ ان حضرات کو ترویج احادیث کے لیے مقرر کیا جاتا ہے۔ لہٰذا یہ حضرات جو حدیث بیان کریں ان سے ہرگز تجاوز نہ کیا جائے۔ معاویہ بن ابی سفیان جو اس وقت شام کے گورنر تھے ان کو خصوصیت کے ساتھ اس پر توجہ دلائی۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ 7 نبوی میں ایمان لائے اور آپ کے مسلمان ہونے پر کعبہ شریف میں مسلمانوں نے نماز باجماعت ادا کی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ باطل کے مقابلہ پر حق سر بلند ہوا۔ اسی وجہ سے آپ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فاروق کا لقب عطا فرمایا۔ آپ بڑے نیک، عادل اور صائب الرائے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی تعریف میں فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے عمر کی زبان اور دل پر حق جاری کر دیا ہے۔ 13 نبوی میں آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد خلافت اسلامیہ کو سنبھالا اور آپ کے دور میں فتوحات اسلامی کا سیلاب دور دور تک پہنچ گیا تھا۔ آپ ایسے مفکر اور ماہر سیاست تھے کہ آپ کا دور اسلامی حکومت کا زریں دور کہا جاتا ہے۔ مغیرہ بن شعبہ کے ایک پارسی غلام فیروز نامی نے آپ کے دربار میں اپنے آقا کی ایک غلط شکایت پیش کی تھی۔ چنانچہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اس پر توجہ نہ دی۔ مگر وہ پارسی غلام ایسا برافروختہ ہوا کہ صبح کی نماز میں خنجر چھپا کر لے گیا اور نماز کی حالت میں آپ پر اس ظالم نے حملہ کر دیا۔ اس کے تین دن بعد یکم محرم 24 ھ کو آپ نے جام شہادت نوش فرمایا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے مخلص رفیق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پہلو میں قیامت تک کے لیے سو گئے۔ «انا لله وانااليه راجعون۔ اللهم اغفرلهم اجمعين۔ آمين۔»
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1   
  الشيخ عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1  
´ خلوص نیت `
«إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى»
اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر انسان کے لئے وہی کچھ ہے جس کی اس نے نیت کی۔ [صحیح بخاري/بدء الوحي: 1]

فوائد:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث کے مکمل الفاظ حسب ذیل ہیں۔
«الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ وَلِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ لدُنْيَا يُصِيبُهَا أَوِ امْرَأَةٍ يَتَزَوَّجُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ»
اگر کوئی اپنا وطن اللہ اور اس کے رسول کے لیے چھوڑتا ہے تو اس کی یہ ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہو گی اور اگر کسی کی ہجرت دنیا کمانے یا کسی عورت سے شادی رچانے کے لئے ہو گی تو اس کی ہجرت اسی کے لیے ہے جس کے لئے اس نے ہجرت کی ہے۔ [صحیح بخاري/الايمان: 54]
نیت کے شرعی معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے لیے کسی کام کا ارادہ کیا جائے، اس شرعی معنی کے اعتبار سے صرف عبادات میں حسن نیت کی ضرورت ہوتی ہے، عادات وغیرہ میں حسن نیت یعنی اخلاص کی ضرورت نہیں مثلاً کھانا، پینا اور سونا وغیرہ۔ ان کاموں میں حسن نیت کی چنداں ضرورت نہیں بلکہ اس کے بغیر ہی دنیاوی مقاصد حاصل ہو جاتے ہیں۔ البتہ اخلاص اور حسن نیت سے ایسے کاموں کو عبادات میں شامل کیا جا سکتا ہے اور ان کی بجاآوری باعث ثواب ہو سکتی ہے جیسا کہ حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إِذَا أَنْفَقَ الرَّجُلُ عَلَى أَهْلِهِ يَحْتَسِبُهَا فَهُوَ لَهُ صَدَقَةٌ»
جب مرد اپنے اہل و عیال پر ثواب کی نیت سے خرچ کرتا ہے تو وہ اس کے حق میں صدقہ بن جاتا ہے۔ [صحیح بخاري/الايمان: 55]
اسی طرح رات کو سونا انسان کی عادت اور طبعی تقاضا ہے لیکن اگر سوتے وقت یہ نیت کی کہ صبح جلدی اٹھوں گا اور نماز فجر باجماعت ادا کروں گا تو اس بناء پر سونا مقدمہ عبادت ہونے کی وجہ سے باعث اجر و ثواب ہے، واضح رہے کہ اخلاص کے لیے درج ذیل تین چیزوں میں سے کسی ایک کا ہونا ضروری ہے۔
➊ عبادت اللہ کی رضا کے لیے ہو۔
➋ جنت حاصل کرنے کے لیے کی جائے۔
➌ جہنم سے ڈرتے ہوئے کی جائے۔
   انوار حدیث، حدیث\صفحہ نمبر: 14   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1  
1. حضرت علقمہ بن وقاص لیثی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب ؓ کو منبر پر یہ کہتے سنا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ فرما رہے تھے: اعمال کا مدار نیتوں پر ہے اور ہر آدمی کو اس کی نیت ہی کے مطابق پھل ملے گا، پھر جس شخص نے دنیا کمانے یا کسی عورت سے شادی رچانے کے لیے وطن چھوڑا تو اس کی ہجرت اسی کام کے لیے ہے جس کے لیے اس نے ہجرت کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو نیت کی اہمیت یا اس کے احکام ومسائل بیان کرنے کے لیے پیش نہیں کیا کیونکہ انھوں نے اس مقدمے کے لیے کتاب الایمان کے آخر میں ایک الگ باب بعنوان (بَابٌ:
مَا جَاءَ إِنَّ الأَعْمَالَ بِالنِّيَّةِ وَالحِسْبَةِ)

قائم کیا ہے۔
حضرت امام غالباً اس مقام پر یہ بتانا چاہتے ہیں کہ عمل کا تعلق وحی کے ساتھ بھی ہے اور عامل کی نیت کے ساتھ بھی، وہ اس طرح کہ انسان کو اس عالم رنگ وبو میں ایسے اعمال کے بجا لانے کا مکلف ٹھہرایا گیا ہے جن کا اچھا یا بُرا ہونا وحی الٰہی پر موقوف ہے۔
پھر اللہ کے ہاں ان اعمال کا اعتبار کیا جائے گا جو خلوص نیت پر مبنی ہوں گے، یعنی نہ تو کوئی انسان وحی کے بغیر اچھے اعمال اختیار کر سکتا ہے اور نہ نیت کے بغیر اچھے اعمال لائق اعتبار ہی ہوسکتے ہیں۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ آیت کریمہ سے بھی عظمت وحی کو ثابت کرتے ہیں، ان کا استدلال آیت کے ان الفاظ سے ہے:
﴿إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ﴾ یعنی ہم نے وحی بھیجی ہے۔
مقصد یہ ہے کہ کسی معمولی ذات نے وحی کا نزول نہیں کیا کہ اس کی عظمت و تقدیس میں کچھ قصور(کمی)
ہو۔
پھر حدیث نیت لا کر یہ اشارہ فرمایا کہ اتنی عظیم الشان وحی کے نزول کا سبب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اعلیٰ درجے کااخلاص نیت ہی ہے۔

اس حدیث کی مذکورہ بالا عنوان سے بایں طور مطابقت بیان کی گئی ہے کہ اگرچہ نبوت ورسالت ایسی چیز نہیں ہے جسے محنت و ریاضت کے بل بوتے پر حاصل کیا جا سکے بلکہ یہ خاص عنایات ربانی کا نتیجہ ہے، تاہم اہل دنیا سے کٹ کر اللہ کی طرف ہجرت کرکے غارحرامیں خلوت گزیں ہونا عطیہ نبوت ملنے کا سبب ضرور بنا ہے۔
اور یہ خلوت گزینی بھی اللہ کے فضل اور احسان ہی سے نصیب ہوئی۔
گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے گھر سے غارحرا تک ہجرت کرنا نزول وحی کا مقدمہ اور مکے سے مدینے کی طرف ہجرت کرنا ظہور وحی کے لیے پیش خیمہ ثابت ہوا کیونکہ مکے میں کفار کی مخالفت کی وجہ سے وحی کو عام کرنے کا موقع نہ مل سکا اور ہجرت مدینہ کے بعد اس وحی کا خوب چرچا ہوا۔
(المتواري علي تراجم ابواب البخاري، ص: 49)

اس حدیث میں اعمال سے مراد انسان کے وہ اختیاری افعال ہیں جو عبادات کے زمرے میں آتے ہیں کیونکہ عبادات ہی میں اخلاص اور حسن نیت کی ضرورت ہوتی ہے۔
فساد نیت سے عبادات کی ادائیگی نہ صرف ثواب سے محرومی کا باعث ہے بلکہ اللہ کے ہاں اس پر سخت سزا کا بھی اندیشہ ہے۔
اس کے برعکس عادات و معاملات نیت کے بغیر بھی وقوع پذیر ہو جاتے ہیں، مثلاً:
کوئی شخص کسی کو ہزار روپے دیتا ہے تو دوسرے کی ملکیت ثابت ہوجائے گی، البتہ اگر وہ اس میں نیت اللہ کی رضا کرلے تو پھر اخلاص آجانے سے اسے بھی عبادت کا درجہ حاصل ہوجاتا ہے جس پر اللہ کے ہاں اجروثواب کا وعدہ ہے۔

چونکہ نیت دل کا فعل ہے، اس لیے زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنا تکلف محض ہے، نیز جن عبادات واعمال کا تعلق ہی دل سے ہے، مثلاً:
خشیت وانابت اور خوف ورجا وغیرہ، ان میں سرے سے نیت کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
بہرحال حج اور عمرے کی نیت کے علاوہ کسی بھی عمل کی نیت کے لیے زبان سے نیت کے الفاظ بولنا بدعت ہے۔
ہرعمل کے لیے دل میں جو نیت ہوتی ہے، وہی کافی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 75  
´وضو میں نیت کا بیان۔`
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، آدمی کے لیے وہی چیز ہے جس کی اس نے نیت کی، تو جس نے اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کی تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہو گی، اور جس نے دنیا کے حصول یا کسی عورت سے شادی کرنے کی غرض سے ہجرت کی تو اس کی ہجرت اسی چیز کے واسطے ہو گی جس کے لیے اس نے ہجرت کی ۱؎۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 75]
75۔ اردو حاشیہ: (1) یہ حدیث دین اسلام کی چند اساسی احادیث میں سے ہے جن پر دین کی بنیاد ہے۔ اعمال سے نیک اعمال ہی مراد ہیں، یعنی ان کی صحت و اعتبار کے لیے نیت کا خالص ہونا شرط ہے، بخلاف برے اعمال کے کہ وہ اچھی نیت سے اچھے نہیں بن سکتے جبکہ نیک اعمال خراب نیت سے برے بن سکتے ہیں۔
➋ اس حدیث کی رو سے نیت کے بغیر کوئی عمل معتبر نہیں جن میں وضو بھی داخل ہے اور یہی جمہور اہل علم و فقہاء اور محدثین کا مسلک ہے مگر احناف کے نزدیک وضونیت کے بغیر بھی معتبر ہے کیونکہ یہ اصل عبادت نہیں، بلکہ اصل عبادت (نماز وغیرہ) کے لیے وسیلہ ہے، حالانکہ صحیح احادیث کی رو سے ضو گناہوں کی معافی اور درجات کے حصول کا بھی سبب ہے۔ دیکھیے: [صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: 832]
اور یہ بغیر نیت کے ممکن نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 75   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4227  
´نیت کا بیان۔`
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، اور ہر آدمی کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی ہے، تو جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہوئی تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہی ہو گی، اور جس کی ہجرت کسی دنیاوی مفاد کے لیے یا کسی عورت سے شادی کے لیے ہو تو اس کی ہجرت اسی کے لیے مانی جائے گی جس کے لیے اس نے ہجرت کی ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4227]
اردو حاشہ:
فوائدومسائل:

(1)
اعمال میں نیت ضروری ہے اور ثواب وعذاب کا دارومدار نیت پر ہے۔

(2)
نیت دل کا فعل ہے زبان سے اس کا اظہار ضروری نہیں مثلاً نماز پڑھتے وقت زبان سے جو الفاظ ادا کیے جاتے ہیں یا روزہ رکھنے کی جو نیت عوام میں مشہور ہے حدیث میں اس کا کوئی ثبوت نہیں چنانچہ یہ بدعت ہے۔

(3)
ہر کام کے لیے اخلاص ضروری ہے۔
جو کام اللہ کی رضا کے لیے کیا جائے گا وہی قبول ہوسکے گا جس میں کوئی اور مقصد شامل ہوجائے گا وہ اللہ کے ہاں قبول نہیں ہوگا۔

(4)
خلوص نیت ہی شرعی احکام کی بنیاد ہے۔
یاد رہے کہ ہر کار خیر کے بار آور ہونے کے لیے درست اور خالص نیت کا ہونا ضروری ہے ورنہ خطرہ ہے کہ نہ صرف ثواب سے محروم ہونا پڑے بلکہ اللہ کے ہاں سخت سزا بھی ملے گی۔

(5)
اس حدیث کو اہل علم نے دین کا ایک چوتھائی حصہ قرار دیا ہے۔
واللہ اعلم
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 4227   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2201  
´اشارہ کنایہ سے طلاق دینے کا بیان اور یہ کہ احکام کا دارومدار نیتوں پر ہے۔`
علقمہ بن وقاص لیثی کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، ہر آدمی کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی چنانچہ جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہو گی تو اسی کی ہجرت اللہ اور رسول کے لیے مانی جائے گی، اور جس نے دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کی غرض سے ہجرت کی ہو گی تو اس کی ہجرت اسی چیز کے لیے مانی جائے گی جس کے لیے اس نے ہجرت کی۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2201]
فوائد ومسائل:
کلمات کنایہ سے طلاق ہو جاتی ہے بشرطیکہ طلاق کی نیت ہو اگر یہ نیت نہ ہو تو نہیں ہوتی۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2201   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.