الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: ایمان کے بیان میں
The Book of Belief (Faith)
4. بَابُ الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ:
4. باب: مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دیگر مسلمان بچے رہیں (کوئی تکلیف نہ پائیں)۔
(4) Chapter. A Muslim is the one who avoids harming Muslims with his tongue and hands.
حدیث نمبر: 10
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا آدم بن ابي إياس، قال: حدثنا شعبة، عن عبد الله بن ابي السفر، وإسماعيل بن ابي خالد، عن الشعبي، عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده، والمهاجر من هجر ما نهى الله عنه"، قال ابو عبد الله: وقال ابو معاوية: حدثنا داود، عن عامر، قال: سمعت عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وقال عبد الاعلى: عن داود، عن عامر، عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي السَّفَرِ، وَإِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ، وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللَّهُ عَنْهُ"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: وَقَالَ أَبُو مُعَاوِيَةَ: حَدَّثَنَا دَاوُد، عَنْ عَامِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ عَبْدُ الْأَعْلَى: عَنْ دَاوُدَ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے یہ حدیث بیان کی، ان کو شعبہ نے وہ عبداللہ بن ابی السفر اور اسماعیل سے روایت کرتے ہیں، وہ دونوں شعبی سے نقل کرتے ہیں، انہوں نے عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان بچے رہیں اور مہاجر وہ ہے جو ان کاموں کو چھوڑ دے جن سے اللہ نے منع فرمایا۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے فرمایا اور ابومعاویہ نے کہ ہم کو حدیث بیان کی داؤد بن ابی ہند نے، انہوں نے روایت کی عامر شعبی سے، انہوں نے کہا کہ میں نے سنا عبداللہ بن عمرو بن عاص سے، وہ حدیث بیان کرتے ہیں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے (وہی مذکورہ حدیث) اور کہا کہ عبدالاعلیٰ نے روایت کیا داؤد سے، انہوں نے عامر سے، انہوں نے عبداللہ بن عمرو بن عاص سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔


Hum se Adam bin Abi Iyaas ne yeh Hadees bayan ki, un ko Sho’bah ne woh Abdullah bin Abi As-Safar aur Ismail se riwayat karte hain, woh dono Sha’bi se naql karte hain, unhon ne Abdullah bin Amr bin Aas Radhiallahu Anhuma se, woh Nabi Kareem Sallallahu Alaihi Wasallam se riwayat karte hain ke Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ne farmaaya musalmaan woh hai jis ki zabaan aur haath se musalmaan bache rahen aur muhajir woh hai jo un kaamon ko chor de jin se Allah ne mana farmaaya. Abu Abdullah (Imam Bukhari Rahimahullah) ne farmaaya aur Abu Mu’aawiyah ne ke hum ko Hadees bayan ki Dawood bin Abi Hind ne, unhon ne riwayat ki Amir Sha’bi se, unhon ne kaha ke main ne suna Abdullah bin Amr bin Aas se, woh Hadees bayan karte hain janab Nabi Kareem Sallallahu Alaihi Wasallam se (wahi mazkoorah Hadees) aur kaha ke Abdul A’laa ne riwayat kiya Dawood se, unhon ne Amir se, unhon ne Abdullah bin Amr bin Aas se, unhon ne Nabi Kareem Sallallahu Alaihi Wasallam se.

Narrated 'Abdullah bin 'Amr: The Prophet said, "A Muslim is the one who avoids harming Muslims with his tongue and hands. And a Muhajir (emigrant) is the one who gives up (abandons) all what Allah has forbidden."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 2, Number 10


   صحيح البخاري10عبد الله بن عمروالمسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده المهاجر من هجر ما نهى الله عنه
   صحيح البخاري6484عبد الله بن عمروالمسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده المهاجر من هجر ما نهى الله عنه
   صحيح مسلم161عبد الله بن عمروالمسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده
   سنن أبي داود2481عبد الله بن عمروالمسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده المهاجر من هجر ما نهى الله عنه
   سنن النسائى الصغرى5000عبد الله بن عمروالمسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده المهاجر من هجر ما نهى الله عنه
   مشكوة المصابيح6عبد الله بن عمروالمسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده والمهاجر من هجر ما نهى الله عنه
   المعجم الصغير للطبراني27عبد الله بن عمرو المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده ، والمهاجر من هجر ما نهى الله عنه
   مسندالحميدي606عبد الله بن عمروالمسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده، والمهاجر من هجر السوء

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 10  
´ایمان کی کمی و بیشی و پاکیزہ اعمال و نیک خصائل کا داخل ایمان ہونا ثابت ہے`
«. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ، وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللَّهُ عَنْهُ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان بچے رہیں اور مہاجر وہ ہے جو ان کاموں کو چھوڑ دے جن سے اللہ نے منع فرمایا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 10]

تشریح:
امیر المحدثین رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں یہ بات ثابت کی ہے کہ اسلام کی بنیاد اگرچہ پانچ چیزوں پر قائم کی گئی ہے۔ مگر اس سے آگے کچھ نیک عادات، پاکیزہ خصائل بھی ایسے ہیں جو اگر حاصل نہ ہوں تو انسان حقیقی مسلمان نہیں ہو سکتا۔ نہ پورے طور پر صاحب ایمان ہو سکتا ہے اور اسی تفصیل سے ایمان کی کمی و بیشی و پاکیزہ اعمال و نیک خصائل کا داخل ایمان ہونا ثابت ہے۔ جس سے مرجیہ وغیرہ کی تردید ہوتی ہے۔ جو ایمان کی کمی و بیشی کے قائل نہیں، نہ اعمال صالحہ و اخلاق حسنہ کو داخل ایمان مانتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کا قول نصوص صریحہ کے قطعاً خلاف ہے۔ زبان کو ہاتھ پر اس لیے مقدم کیا گیا کہ یہ ہر وقت قینچی کی طرح چل سکتی ہے اور پہلے اسی کے وار ہوتے ہیں۔ ہاتھ کی نوبت بعد میں آتی ہے جیسا کہ کہا گیا ہے۔
«جراحات السنان لها التيام ٭ ولايلتام ماجرح اللسان»
یعنی نیزوں کے زخم بھر جاتے ہیں اور زبانوں کے زخم عرصہ تک نہیں بھر سکتے۔

«من سلم المسلمون» کی قید کا یہ مطلب نہیں ہے کہ غیر مسلمانوں کو زبان یا ہاتھ سے ایذا رسانی جائز ہے۔ اس شبہ کو رفع کرنے کے لیے دوسری روایت میں «من امنه الناس» کے لفظ آئے ہیں۔ جہاں ہر انسان کے ساتھ صرف انسانی رشتہ کی بنا پر نیک معاملہ و اخلاق حسنہ کی تعلیم دی گئی ہے۔ اسلام کا ماخذ ہی «سلم» ہے جس کے معنی صلح جوئی، خیرخواہی، مصالحت کے ہیں۔ زبان سے ایذارسانی میں غیبت، گالی گلوچ، بدگوئی وغیرہ جملہ عادات بد داخل ہیں اور ہاتھ کی ایذارسانی میں چوری، ڈاکہ، مار پیٹ، قتل وغارت وغیرہ وغیرہ۔ پس کامل انسان وہ ہے جو اپنی زبان پر، اپنے ہاتھ پر پورا پورا کنٹرول رکھے اور کسی انسان کی ایذا رسانی کے لیے اس کی زبان نہ کھلے، اس کا ہاتھ نہ اٹھے۔ اس معیار پر آج تلاش کیا جائے تو کتنے مسلمان ملیں گے جو حقیقی مسلمان کہلانے کے مستحق ہوں گے۔ غیبت، بدگوئی، گالی گلوچ تو عوام کا ایسا شیوہ بن گیا ہے گویا یہ کوئی عیب ہی نہیں ہیں۔ استغفراللہ! شرعاً مہاجر وہ جو دارالحرب سے نکل کر دارالسلام میں آئے۔ یہ ہجرت ظاہر ی ہے۔ ہجرت باطنی یہ ہے جو یہاں حدیث میں بیان ہوئی اور یہی حقیقی ہجرت ہے جو قیامت تک ہر حال میں ہر جگہ جاری رہے گی۔

حضرت امام قدس سرہ نے یہاں دو تعلیقات ذکر فرمائی ہیں۔ پہلی کا مقصد یہ بتلانا ہے کہ عامر اور شعبی ہر دو سے ایک ہی راوی مراد ہے۔ جس کا نام عامر اور لقب شعبی ہے۔ دوسرا مقصد یہ کہ ابن ہندہ کی روایت سے شبہ ہوتا تھا کہ عبداللہ بن عمرو بن عاص سے شعبی نے براہِ راست اس روایت کو نہیں سنا۔ اس شبہ کے دفعیہ کے لیے «عن عامر قال سمعت عبدالله بن عمرو» کے الفاظ نقل کئے گئے۔ جن سے براہ ِ راست شعبی کا عبداللہ بن عمرو بن عاص سے سماع ثابت ہو گیا۔

دوسری تعلیق کا مقصد یہ کہ عبدالاعلیٰ کے طریق میں «عبدالله» کو غیر منتسب ذکر کیا گیا جس سے شبہ ہوتا تھا کہ کہیں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مراد نہ ہوں جیسا کہ طبقہ صحابہ میں یہ اصطلاح ہے۔ اس لیے دوسری تعلیق میں «عن عبدالله بن عمرو» کی صراحت کر دی گئی۔ جس سے حضرت عبداللہ بن عمرو عاص مراد ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 10   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 6  
´مسلمان کے اوصاف`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللَّهُ عَنْهُ» هَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيِّ وَلِمُسْلِمٍ قَالَ: " إِنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ الْمُسْلِمِينَ خَيْرٌ؟ قَالَ: مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ من لِسَانه وَيَده " . . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان وہی ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان سلامتی سے رہیں اور مہاجر وہ ہے کہ جس نے ان چیزوں کو چھوڑ دیا ہو جس سے اللہ نے منع کیا ہے۔ یہ بخاری کے الفاظ ہیں اور مسلم میں اس طرح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے دریافت کیا کہ کون سا مسلمان اچھا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان بچے رہیں۔ (یعنی ہاتھ سے نہ کسی کو مارے اور نہ زبان سے کسی کی غیبت و چغلی کرے۔ ایسا مسلمان کامل مسلمان ہے۔) . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/0: 6]

تخریج الحدیث:
[صحيح بخاري 10]،
[صحيح مسلم 161]

فقہ الحدیث
➊ کامل مسلمان کی (ایک) نشانی یہ ہے کہ دوسرے مسلمان اس کی زبان اور ہاتھ سے محفوظ رہتے ہیں، وہ انہیں ضرر نہیں پہنچاتا، جب کہ منافق کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ نہیں رہتے، وہ ہر وقت مسلمانوں کو ایذا رسانی میں مصروف رہتا ہے۔
➋ کتاب و سنت میں جو احکامات آتے ہیں ان میں مرد و عورت دونوں شامل ہیں، الا یہ کہ تخصیص کی واضح دلیل ہو، لہٰذا اس حدیث میں «المسلم» کے مفہوم میں «المسلمه» (مسلمان عورت) بھی شامل ہے۔
➌ زبان سے محفوظ رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو گالی، لعن و طعن، غیبت، چغلی، بہتان، مذاق اڑانا، ذلیل کرنا اور جھوٹے پروپیگنڈے وغیرہ کا نشانہ نہیں بناتا۔ اور ہاتھ سے محفوظ رہنے کا مفہوم یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو مارکٹائی، قتل و غارت، دھکے دینا، مال و جائیداد کی تباہی، باطل تحریروں اور ایذا رسانی کا نشانہ نہیں بناتا۔
تنبیہ: دلائل کے ساتھ اہل باطل پر رد کرنا اس سے مستثنیٰ ہے، بلکہ انتہائی ثواب کا کام ہے۔
◈ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«فكل من لم يناظر أهل الإلحاد والبدع مناظرة تقطع دابرهم، لم يكن أعطى الإسلام حقه»
پس ہر وہ شخص جو (اپنی استطاعت کے مطابق) ملحدین و مبتدعین سے مناظرہ کر کے انہیں لاجواب نہ کر دے (تو) اس نے اسلام کا (صحیح) حق ادا نہیں کیا۔ [درء تعارض العقل والنقل، ج 1، ص357]
علمائے حق نے ہر دور میں اہل بدعت پر رد کیا ہے، جس کے دلائل کتاب و سنت سے ثابت ہیں۔ «والحمدلله»
➍ مہاجر کا لفظ ہجرت (جدائی) سے نکلا ہے نفس امارہ اور شیطان سے بچنا، باطنی ہجرت ہے اور فتنوں، بدعتوں، گمراہیوں اور گناہوں سے بچنا ظاہری ہجرت ہے۔
➎ ❀ سیدنا فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«والمجاهد من جاهد نفسه فى طاعة الله والمهاجر من هجر الخطايا والذنوب»
مجاہد وہ ہے جو اللہ کی اطاعت میں (خوب) کوشش کرے، اور مہاجر وہ ہے جو غلطیوں اور گناہوں سے دور رہے۔ [شعب الايمان للبيهقي: 11123، وسنده حسن و اضواء المصابيح: 34، صحيح ابن حبان، موارد الظمآن: 25]
یہ روایت الفاظ کے اختلاف اور کمی بیشی کے ساتھ درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے:
سنن ابن ماجہ [3934]، مسند احمد [21/6، 22]، المستدرک [10/1، 11]، مسند الشہاب للقضاعی [109/1 ح 131]، کشف الاستار [مسند البزار: 1143] اور کتاب الایمان لابن مندۃ [ح 315]
➑ ایک صحیح و حسن روایت میں کچھ الفاظ موجود نہ ہوں اور دوسری صحیح یا حسن روایت میں کچھ الفاظ کا اضافہ موجود ہو، اور یہ اضافہ پہلی روایت کے سراسر خلاف نہ ہو، تو الفاظ کے اضافے والی روایت ضعیف نہیں ہو جاتی، بلکہ ثقہ کی زیادت جب تک ثقہ راویوں کے بخلاف نہ ہو مقبول ہی رہتی ہے، جیسا کہ اصول حدیث میں مقرر ہے۔
اس حدیث میں ایمان کے دو اعلیٰ درجوں کا ذکر ہے۔
اس میں مرجیہ وغیرہ کا رد ہے، جو ایمان کی کمی و بیشی کے قائل نہیں ہیں اور جن کے نزدیک سب کا ایمان اور اسلام برابر ہوتا ہے، حالانکہ حدیث مذکور اور دیگر دلائل سے صاف ثابت ہے کہ ایمان اور اسلام میں لوگوں کے مختلف درجات ہیں۔
تنبیہ:
یہ فوائد مرعاۃ المفاتیح وغیرہ سے استفادہ کرتے ہوئے لکھے گئے ہیں۔
➐ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما وہ مشہور صحابی ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث لکھ لیتے تھے۔
❀ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
«ما من اصحاب النبى صلى الله عليه وسلم احد اكثر حديثا عنه مني الا ماكان من عبدالله بن عمرو فانه كان يكتب ولا اكتب»
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں مجھ سے زیادہ حدیثیں آپ سے بیان کرنے والا کوئی نہیں سوائے عبداللہ بن عمرو کے وہ (حدیثیں) لکھتے تھے اور میں نہیں لکھتا تھا۔ [صحيح البخاري: 113]
عبداللہ بن عمرو کی لکھی ہوئی کتاب کانام «الصحيفة الصادقة» ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 6   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2481  
´کیا ہجرت ختم ہو گئی؟`
عامر شعبی کہتے ہیں کہ ایک آدمی عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے پاس آیا، ان کے پاس کچھ لوگ بیٹھے تھے یہاں تک کہ وہ بھی آ کر آپ کے پاس بیٹھ گیا اور کہنے لگا: مجھے کوئی ایسی بات بتائیے جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان محفوظ رہیں، اور مہاجر وہ ہے جو اللہ کی منع کردہ چیزوں کو چھوڑ دے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2481]
فوائد ومسائل:
ایک باکردار مسلمان کے اوصاف کو اس حدیث میں جس مختصر اور جامع اندا ز میں پیش کیا گیا ہے۔
وہ یقینا ً الہامی ہیں۔
ہرمسلمان اپنے آپ کو اس آئینے میں جانچ کراندازہ لگا سکتا ہے کہ وہ کس درجے کا مسلمان ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2481   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:10  
10. حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ اور مہاجر وہ ہے جو ان کاموں کو چھوڑ دے جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے فرمایا: اور ابو معاویہ نے کہا: ہمیں (یہ) حدیث داؤد نے بیان کی، ان کو عامر (شعبی) نے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے سنا، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں۔ اور عبدالاعلیٰ نے داؤد سے بیان کی، انہوں نے عامر (شعبی) سے، انہوں نے عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے، انہوں نے نبی ﷺ سے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:10]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث سے اس بے عملی یا بدعملی کے طوفان کو روکنا چاہتے ہیں جو مرجیہ کے موقف کی وجہ سے لوگوں میں پائی جاتی ہے کیونکہ مرجیہ کے نزدیک ایمان صرف تصدیق قلبی کا نام ہے۔
اس کی موجودگی میں اعمال صالحہ کی چنداں ضرورت نہیں بلکہ مومن صرف تصدیق ہی سے ان بشارتوں کا حقدار بن جاتا ہے جو اس کے لیے قرآن وحدیث میں موجود ہیں۔
نیز آپ یہ بھی ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اسلام کی بنیاد اگرچہ پانچ چیزوں پر ہے لیکن ان کے علاوہ بھی کچھ نیک عادات اور پاکیزہ خصائل ایسے ہیں جن کے بغیر انسان حقیقی مسلمان نہیں بن سکتا۔
حدیث کا مطلب ہے کہ مسلمان میں اسلام کی کوئی شان تو نمایاں ہونی چاہیے، کم از کم مسلمان ہونے کی حیثیت سے سلامت روی اور سلامت جوئی توضرور ہو۔
اگرکسی شخص میں ادعائے اسلام کے باوجود یہ شان موجود نہیں تو اسے یہ دعویٰ زیب نہیں دیتا۔

اس حدیث میں زبان اور ہاتھ سے ایذا نہ پہنچانے کا حکم ہے کیونکہ ایذا کا تعلق اکثر انھی دو سے ہوتا ہے بصورت دیگر یہ مطلب نہیں کہ پاؤں سے ایذا رسانی جائز ہے، بلکہ مطلق طورپر ایذا رسانی جرم ہے۔
پھر ان دونوں میں زبان کو ہاتھ پر اس لیے مقدم کیا ہے کہ نقصان کا تعلق ہاتھ کے مقابلے میں زبان سے زیادہ ہوتا ہے اس لیے کہ اس میں زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی، صرف اسے حرکت دینا ہوتی ہے اور نقصان زیادہ ہوجاتا ہے۔
بعض اوقات ایک ہی کلمے سے پوری قوم یا پوری انسانیت کو نقصان پہنچایا جاسکتا ہے جبکہ ہاتھ سے صرف اسے نقصان پہنچایا جاسکتا ہے جو سامنے موجود ہو، نیز زبان سے سب وشتم پہلے ہوتا ہے اور ہاتھ استعمال کرنے کی نوبت بعد میں آتی ہے۔

زبان کی برائی سے سب وشتم، غیبت، بدگوئی وغیرہ اور ہاتھ کی بُرائی سے چوری، ڈاکا زنی، لوٹ مار، مارپیٹ وغیرہ مراد ہیں۔

"المسلمون" کی قید سے ثابت نہیں ہوتا کہ غیرمسلم کو زبان اور ہاتھ سے تکلیف دینا جائز ہے بلکہ مسلمان تو تمام لوگوں کا خیر اندیش ہوتا ہے۔
وہ نسب یا رنگ ونسل یا مذہب کو تلاش نہیں کرتا، اگر کسی کے ساتھ مذہبی یانسلی رشتہ نہیں ہے تو انسانی تعلق ہی مراعات کے لیے کافی ہے۔
دوسری روایت میں ہے کہ مسلمان وہ ہے جس سے تمام لوگ محفوظ ہیں۔
(مسند أحمد: 379/2)
الغرض اسلام کا ہم سے مطالبہ ہے کہ بلاوجہ کسی غیر مسلم پر بھی دست درازی نہ کریں بلکہ اس کے ساتھ بھی انسانی رشتے کی بنا پر رواداری سے پیش آئیں۔

ہجرت صرف ترک وطن کا نام نہیں بلکہ ان چیزوں کو چھوڑدینے کانام ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔
ترک وطن اس لیے ہوتا ہے کہ ہم اس کے بغیر اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل نہیں کرسکتے کیونکہ جس وطن میں احکام الٰہی کی تعمیل نہ ہو، اسے خیر باد کہنا ہی بہتر ہے۔
گویا ہجرت کی دوقسمیں ہیں:
ظاہری اور باطنی۔
ظاہری ہجرت ترک وطن ہے اور باطنی ہجرت منہیات سے اجتناب ہے۔
اس حدیث کی دواغراض ہیں:
(الف)
مہاجرین کو تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ تمہارا صرف ہجرت کر لینا کافی نہیں بلکہ ہجرت کے بعد گناہوں سے احتراز کرنا ہی اللہ کی رضا کا باعث ہوگا۔
یہ خیال نہ کیا جائے کہ ہجرت کے بعد ہمیں کسی عمل خیر کی ضرورت نہیں۔
(فتح الباري: 74/1) (ب)
۔
ان لوگوں کو تسلی دینا مقصود ہے جو کسی وجہ سے ہجرت نہیں کرسکے کہ اصل ہجرت یہ نہیں بلکہ ہجرت یہ ہے کہ آدمی گناہ اور ہر قسم کی منہیات سے بازرہے، یہ فضیلت تو ہروقت حاصل ہوسکتی ہے، چنانچہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت کے متعلق دریافت کیا تو آپ نےفرمایا:
تیرابھلا ہو ہجرت کا معاملہ بہت سخت ہے۔
پھر آپ نے اس سے پوچھا:
کیاتیرے پاس اونٹ ہیں اور ان کی زکاۃ دیتا ہے؟ (اس نے)
عرض کیا:
ہاں۔
آپ نے فرمایا:
سمندر پاررہتے ہوئے عمل خیر کرتے رہو۔
تجھے وہی اجر ملے گا۔
اس میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔
(صحیح البخاري، الزکاة، حدیث: 1452)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کے اختتام پر دو تعلیقات بھی ذکر کی ہیں، پہلی تعلیق کا مقصد یہ ہے کہ امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ نے جن کا نام عامرہے اس روایت کو حضرت عبداللہ بن عمرو سے براہ راست سنا ہے کیونکہ اس تعلیق میں تصریح سماع ہے جبکہ مذکورہ روایت میں ان کے سماع کی وضاحت نہ تھی۔
ابومعایہ کے اس طریق سے اس شبے کو دور فرمایا ہے۔
دوسری تعلیق میں یہ بتانا مقصود ہے کہ اس میں عبداللہ نامی راوی سے مراد، حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔
اس وضاحت کی ضرورت اس لیے پڑی کہ طبقہ صحابہ میں جب عبداللہ مطلق ذکر کیا جاتا ہے تو اس سے مراد عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوتے ہیں جیسا کہ طبقہ تابعین رحمۃ اللہ علیہ میں مطلق عبداللہ سے حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ سے مراد ہوتے ہیں۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ تنبیہ فرمانے کے لیے دوسری تعلیق کو ذکرکیا ہے۔

اگر کسی کو اقامت حد کے پیش نظر سزا دی جائے اگرچہ بظاہر یہ ایذا رسانی ہے تو جائز ہوگا کیونکہ اس سے مقصد تکلیف دینا نہیں بلکہ فساد و فواحش اور منکرات کا انسداد مقصود ہے۔
(فتح الباري: 75/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 10   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.