الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
ایمان کے احکام و مسائل
3. باب فِي بَيَانِ الإِيمَانِ بِاللَّهِ وَشَرَائِعِ الدِّينِ:
3. باب: اسلام کے ارکان پوچھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 102
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني عمرو بن محمد بن بكير الناقد ، حدثنا هاشم بن القاسم ابو النضر ، حدثنا سليمان بن المغيرة ، عن ثابت ، عن انس بن مالك ، قال: نهينا ان نسال رسول الله صلى الله عليه وسلم عن شيء، فكان يعجبنا ان يجيء الرجل من اهل البادية العاقل، فيساله ونحن نسمع، فجاء رجل من اهل البادية، فقال: يا محمد، اتانا رسولك فزعم لنا انك تزعم ان الله ارسلك، قال: صدق، قال: " فمن خلق السماء،؟ قال: الله، قال: فمن خلق الارض؟ قال: الله، قال: فمن نصب هذه الجبال وجعل فيها ما جعل؟ قال: الله، قال: فبالذي خلق السماء، وخلق الارض، ونصب هذه الجبال، آلله ارسلك؟ قال: نعم، قال: وزعم رسولك ان علينا خمس صلوات في يومنا وليلتنا؟ قال: صدق، قال: فبالذي ارسلك آلله امرك بهذا؟ قال: نعم، قال: وزعم رسولك ان علينا زكاة في اموالنا؟ قال: صدق، قال: فبالذي ارسلك آلله امرك بهذا؟ قال: نعم، قال: وزعم رسولك ان علينا صوم شهر رمضان في سنتنا؟ قال: صدق، قال: فبالذي ارسلك آلله امرك بهذا؟ قال: نعم، قال: وزعم رسولك ان علينا حج البيت من استطاع إليه سبيلا؟ قال: صدق "، قال ثم ولى: قال: والذي بعثك بالحق، لا ازيد عليهن، ولا انقص منهن، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " لئن صدق، ليدخلن الجنة "،حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ بُكَيْرٍ النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ أَبُو النَّضْرِ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: نُهِينَا أَنْ نَسْأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ شَيْءٍ، فَكَانَ يُعْجِبُنَا أَنْ يَجِيءَ الرَّجُلُ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ الْعَاقِلُ، فَيَسْأَلَهُ وَنَحْنُ نَسْمَعُ، فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، أَتَانَا رَسُولُكَ فَزَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ اللَّهَ أَرْسَلَكَ، قَالَ: صَدَقَ، قَالَ: " فَمَنْ خَلَقَ السَّمَاءَ،؟ قَالَ: اللَّهُ، قَالَ: فَمَنْ خَلَقَ الأَرْضَ؟ قَالَ: اللَّهُ، قَالَ: فَمَنْ نَصَبَ هَذِهِ الْجِبَالَ وَجَعَلَ فِيهَا مَا جَعَلَ؟ قَالَ: اللَّهُ، قَالَ: فَبِالَّذِي خَلَقَ السَّمَاءَ، وَخَلَقَ الأَرْضَ، وَنَصَبَ هَذِهِ الْجِبَالَ، آللَّهُ أَرْسَلَكَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: وَزَعَمَ رَسُولُكَ أَنَّ عَلَيْنَا خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي يَوْمِنَا وَلَيْلَتِنَا؟ قَالَ: صَدَقَ، قَالَ: فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: وَزَعَمَ رَسُولُكَ أَنَّ عَلَيْنَا زَكَاةً فِي أَمْوَالِنَا؟ قَالَ: صَدَقَ، قَالَ: فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: وَزَعَمَ رَسُولُكَ أَنَّ عَلَيْنَا صَوْمَ شَهْرِ رَمَضَانَ فِي سَنَتِنَا؟ قَالَ: صَدَقَ، قَالَ: فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: وَزَعَمَ رَسُولُكَ أَنَّ عَلَيْنَا حَجَّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا؟ قَالَ: صَدَقَ "، قَالَ ثُمَّ وَلَّى: قَالَ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، لَا أَزِيدُ عَلَيْهِنَّ، وَلَا أَنْقُصُ مِنْهُنَّ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَئِنْ صَدَقَ، لَيَدْخُلَنَّ الْجَنَّةَ "،
ہاشم بن قاسم ابونضر نے کہا: ہمیں سلیمان بن مغیرہ نے ثابت کے حوالے سے یہ حدیث سنائی، انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (غیر ضروری طور پر) کسی چیز کے بارے میں سوال کرنے سے روک دیا گیا تو ہمیں بہت اچھا لگتا تھا کہ کوئی سمجھ دار بادیہ نشیں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے سوال کرے اور ہم (بھی جواب) سنیں، چنانچہ ایک بدوی آیا اور کہنے لگا، اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ کا قاصد ہمارے پاس آیا تھا، اس نے ہم سے کہا کہ آپ نے فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے۔ آپ نے فرمایا: اس نے سچ کہا۔ اس نے پوچھا: آسمان کس نے بنایا ہے؟ آپ نے جواب دیا: اللہ نے۔ اس نےکہا: زمین کس نےبنائی؟ آپ نے فرمایا: اللہ نے۔ اس نے سوال کیا: یہ پہاڑ کس نے گاڑے ہیں اور ان میں جو کچھ رکھا ہے کس نے رکھا ہے؟ آپ نے فرمایا: اللہ نے۔ بدوی نے کہا: اس ذات کی قسم ہے جس نے آسمان بنایا، زمین بنائی اور یہ پہاڑ نصب کیے! کیا اللہ ہی نے آپ کو (رسول بنا کر) بھیجا ہے؟ آپ نے جواب دیا: ہاں! اس نے کہا: آپ کے قاصد نے بتایا ہے کہ ہمارے دن او رات میں پانچ نمازیں ہیں۔ آپ نے فرمایا: اس نے درست کہا۔ اس نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو بھیجا ہے! کیا اللہ ہی نے آپ کو اس کاحکم دیا ہے؟ آپ نے جواب دیا: ہاں! اس نے کہا: آپ کو ایلچی کا خیال ہے کہ ہمارے ذمے ہمارے مالوں کی زکاۃ ہے۔ آپ نے فرمایا: اس نے سچ کہا۔ بدوی نے کہا: ا س ذات کی قسم جس نے آپ کو رسول بنا یا! کیا اللہ ہی نے آپ کو یہ حکم دیا ہے؟ آپ نے جواب دیا: ہاں! اعرابی نے کہا: آپ کو ایلچی کا خیال ہے کہ ہمارے سال میں ہمارے ذمے ماہ رمضان کے روزے ہیں۔ آپ نے فرمایا: اس نے صحیح کہا۔ اس نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو بھیجا ہے! کیا للہ ہی نے آپ کو اس کاحکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں! وہ کہنے لگا: آپ کے بھیجے ہوئے (قاصد) کا خیال ہے کہ ہم پر بیت اللہ کا حج فرض ہے، اس شخص پر جو اس کے راستے (کو طے کرنے) کی استطاعت رکھتا ہو۔ آپ نے فرمایا، اس نے سچ کہا۔ (حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا:) پھر وہ واپس چل پڑا اور (چلتے چلتے) کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں ان پر کوئی اضافہ کروں گا نہ ان میں کوئی کمی کروں گا۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر اس نے سچ کر دکھایا تو یقیناً جنت میں داخل ہو گا۔
حضرت انس رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ ہمیں (بلا ضرورت) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنے سے روک دیا گیا تو ہمیں اس بات سے خوشی ہوتی تھی کہ کوئی سمجھ دار بدوی آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپؐ سے سوال کرے اور ہم سنیں۔ تو ایک بدوی آیا اور کہنے لگا: اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)! آپ کا ایلچی ہمارے پاس آیا اس نے ہمیں بتایا، آپ کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو رسول بنایا ہے آپ نے فرمایا: اس نے سچ کہا۔ اس نے پوچھا: تو آسمان کس نے بنایا ہے؟ آپؐ نے جواب دیا: اللہ نے۔ اس نے کہا: تو زمین کو کس نے بنایاہے؟ ارشاد ہوا: اللہ نے۔ اس نے سوال کیا تو یہ پہاڑ کس نے گاڑے ہیں اور ان میں جو کچھ رکھا ہے، کس نے رکھا ہے؟آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے۔ بدوی نے کہا: اس ذات کی قسم! جس نے آسمان بنایا، زمین بنائی اور یہ پہاڑ نصب کیے۔ کیا اللہ ہی نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے؟ آپؐ نے جواب دیا: ہاں اس نے پوچھا آپ کے قاصد نے کہا ہمارے ذمے دن رات میں پانچ نمازیں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس نے درست کہا اس نے کہا تو اس ذات کی قسم! جس نے آپؐ کو بھیجا کیا اللہ ہی نے آپ کو یہ حکم دیا (کہ ہم پانچ نمازیں ادا کریں) آپ نے جواب دیا:ہاں (یہ اللہ ہی کا حکم ہے) اس نے سوال کیا آپ کے ایلچی کا گمان ہے ہمارے ذمے ہمارے مالوں کی زکوٰۃ ہے؟ آپؐ نے کہا: اس نے سچ کہا بدوی نے کہا تو اس ذات کی قسم جس نے آپ کو رسول بنایا کیا اللہ ہی نے آپ کو یہ حکم دیا ہے۔ آپ نے جواب دیا: ہاں اعرابی نے کہا آپ کے پیغامبر کا خیال ہے ہمارے سال میں ہمارے ذمے ماہِ رمضان کے روزے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: اس نے صحیح کہا اس نے کہا تو جس نے آپ کو بھیجا ہے اس کی قسم! کیا اللہ ہی نے آپ کو یہ حکم دیا آپ نے جواب دیا ہاں بدوی نے کہا: آپ کے ایلچی نے کہا ہمارے ذمے بیت اللہ کا حج ہے اس پر جو اس تک پہنچ سکتا ہو۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کہا: اس نے سچ کہا صحابی بیان کرتے پھر وہ واپس چل پڑا اور چلتے چلتے کہا اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا میں ان پر اضافہ کروں گا نہ ہی ان میں کمی کروں گا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر یہ سچا ہے تو یقیناً جنت میں داخل ہو گا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 12

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري فى ((صحيحه)) فى العلم، باب: ما جاء فى العلم وقوله تعالى: ﴿ رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا ﴾ و تعليقا برقم (63) والترمذى فى ((جامعه)) فى الزكاة، باب: ماجاء اذا اديت الزكاة فقد قضيت ما عليك برقم (619) والنسائي فى ((المجتبى)) فى الصوم، باب: وجوب الصيام برقم (2090) انظر تحفة الاشواق (404)»

   صحيح البخاري63أنس بن مالكآلله أرسلك إلى الناس كلهم فقال اللهم نعم أمرك أن نصلي الصلوات الخمس في اليوم والليلة قال اللهم نعم
   صحيح مسلم102أنس بن مالكمن خلق السماء قال الله قال فمن خلق الأرض قال الله قال فمن نصب هذه الجبال وجعل فيها ما جعل قال الله قال فبالذي خلق السماء وخلق الأرض ونصب هذه الجبال آلله أرسلك قال نعم قال وزعم رسولك أن علينا خمس صلوات في يومنا وليلتنا قال صدق
   جامع الترمذي619أنس بن مالكآلله أرسلك فقال النبي نعم رسولك زعم لنا أنك تزعم أن علينا خمس صلوات في اليوم والليلة فقال النبي نعم قال فبالذي أرسلك آلله أمرك بهذا قال نعم رسولك زعم لنا أنك تزعم أن علينا صوم شهر في السنة
   سنن النسائى الصغرى2093أنس بن مالكمن خلق السماء قال الله من خلق الأرض قال الله من نصب هذه الجبال قال الله آلله أرسلك قال نعم زعم رسولك أن علينا خمس صلوات في يومنا وليلتنا قال صدق زعم رسولك أن علينا زكاة في أموالنا قال صدق زعم رسولك أن علينا صوم شهر رمضان في سنتنا قال صدق زعم رسولك أن علين
   سنن النسائى الصغرى2094أنس بن مالكآلله أرسلك إلى الناس كلهم فقال رسول الله اللهم نعم آلله أمرك أن تصلي الصلوات الخمس في اليوم والليلة
   سنن النسائى الصغرى2095أنس بن مالكآلله أرسلك إلى الناس كلهم فقال رسول الله اللهم نعم أمرك أن تصوم هذا الشهر من السنة قال قال رسول الله اللهم نعم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 63  
´روایت حدیث کا ایک طریقہ شاگرد استاد کو پڑھ کر سنائے`
«. . . أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِك، يَقُولُ:" بَيْنَمَا نَحْنُ جُلُوسٌ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ . . .»
. . . انس بن مالک سے سنا کہ ایک بار ہم مسجد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں ایک شخص اونٹ پر سوار ہو کر آیا اور اونٹ کو مسجد میں بٹھا کر باندھ دیا۔ پھر پوچھنے لگا (بھائیو) تم لوگوں میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کون سے ہیں . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 63]

تشریح:
مسلم کی روایت میں حج کا بھی ذکر ہے۔ مسند احمد میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں یوں ہے «فاناخ بعيره على باب المسجد» یعنی اس نے اپنا اونٹ مسجد کے دروازے پر باندھ دیا تھا۔ اس نے بے تکلفی سے سوالات کئے اور آپ بھی بے تکلفی سے جواب دیتے رہے اور لفظ «مبارك اللهم نعم» کا استعمال فرماتے رہے۔ «اللهم» تمام اسمائے حسنیٰ کے قائم مقام ہے، اس لیے گویا آپ نے جواب کے وقت اسمائے حسنیٰ کو شامل فرما لیا۔ یہ عربوں کے محاورے کے مطابق بھی تھا کہ وہ وثوق کامل کے مقام پر اللہ کا نام بطور قسم استعمال کرتے تھے۔ ضمام کا آنا 9ھ کی بات ہے جیسا کہ محمد بن اسحاق اور ابوعبیدہ وغیرہ کی تحقیق ہے، اس کی تائید طبرانی کی روایت سے ہوتی ہے جس کے راوی ابن عباس ہیں اور ظاہر ہے کہ وہ فتح مکہ کے بعد تشریف لائے تھے۔

حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ عرض و قرات کا طریقہ بھی معتبر ہے جیسا کہ ضمام نے بہت سی دینی باتوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا اور آپ تصدیق فرماتے رہے۔ پھر ضمام اپنی قوم کے ہاں گئے اور انہوں نے ان کا اعتبار کیا اور ایمان لائے۔

حاکم نے اس روایت سے عالی سند کے حصول کی فضیلت پر استدلال کیا ہے۔ کیونکہ ضمام نے اپنے ہاں آپ کے قاصد کے ذریعہ یہ ساری باتیں معلوم کر لی تھیں لیکن پھر خود حاضر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بالمشافہ ساری باتوں کو معلوم کیا۔ لہٰذا اگر کسی کے پاس کوئی روایت چند واسطوں سے ہو اور کسی شیخ کی اجازت سے ان واسطوں میں کمی آ سکتی ہو تو ملاقات کر کے عالی سند حاصل کرنا بہرحال بڑی فضیلت کی چیز ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 63   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 619  
´زکاۃ ادا کرنے سے اپنے اوپر عائد فریضہ کے ادا ہو جانے کا بیان۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگوں کی خواہش ہوتی تھی کہ کوئی عقلمند اعرابی (دیہاتی) آئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھے اور ہم آپ کے پاس ہوں ۱؎ ہم آپ کے پاس تھے کہ اسی دوران آپ کے پاس ایک اعرابی آیا ۲؎ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھ گیا۔ اور پوچھا: اے محمد! آپ کا قاصد ہمارے پاس آیا اور اس نے ہمیں بتایا کہ آپ کہتے ہیں کہ آپ کو اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے (کیا یہ صحیح ہے؟)۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، یہ صحیح ہے، اس نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آسمان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الزكاة/حدیث: 619]
اردو حاشہ:
1؎:
کیونکہ ہمیں سورہ مائدہ میں نبی اکرم ﷺ سے سوال کرنے سے روک دیا گیا تھا،
اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا چالاک اعرابی آئے جسے اس ممانعت کاعلم نہ ہو اور وہ آ کر آپ سے سوال کرے۔

2؎:
اس اعرابی کا نام ضمام بن ثعلبہ تھا۔

3؎:
اس اعتقاد کے ساتھ کہ یہ فرض ہے،
مسلم کی روایت میں ((وَالَّذِى بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لاَ أَزِيدُ عَلَيْهِنَّ وَلاَ أَنْقُصُ)) کے الفاظ آئے ہیں۔

4؎:
یعنی سماع من لفظ الشیخ کی طرح القراء ۃ علی الشیخ (استاذ کے پاس شاگرد کا پڑھنا) بھی جائز ہے،
مؤلف نے اس کے ذریعہ اہل عراق کے ان متشددین کی تردید کی ہے جو یہ کہتے تھے کہ قراء ۃ علی الشیخ جائز نہیں،
صحیح یہ ہے کہ دونوں جائز ہیں البتہ اخذ حدیث کے طریقوں میں سب سے اعلیٰ طریقہ سماع من لفظ الشیخ (استاذکی زبان سے سننے) کا ہے،
اس طریقے میں استاذ اپنی مرویات اپنے حافظہ سے یا اپنی کتاب سے خود روایت کرتا ہے اور طلبہ سنتے ہیں اور شاگرد اسے روایت کرتے وقت سمعت،
سمعنا،
حدثنا،
حدثني،
أخبرنا،
أخبرني،
أنبأنا،
أنبأني کے صیغے استعمال کرتا ہے،
اس کے بر خلاف القراء ۃ علی الشیخ (استاذ پر پڑھنے) کے طریقے میں شاگرد شیخ کو اپنے حافظہ سے یا کتاب سے پڑھ کر سناتا ہے اس کا دوسرا نام عرض بھی ہے اس صورت میں شاگرد قرأت على فلان يا قري على فلان وأنا أسمع،
يا حدثنا فلان قرائة عليه کہہ کر روایت کرتا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 619   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 102  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
أَهْلُ الْبَادِيَة:
اعرابی،
بدوی یا جنگلی لوگ،
جن میں جہالت اور جفا (درشتی و ترشی)
عام ہے۔
(2)
اَلْعَاقِلُ:
دانشمند،
سمجھ دار۔
(3)
زَعْم:
محض گمان یا ظن کے معنی میں نہیں،
بلکہ یقین قول (بات)
کے معنی میں استعمال ہوا ہے،
اس لیے آپ نے تصدیق کی۔
(4)
نَصَبَ:
گاڑنا،
پیوست کرنا۔
(5)
جِبَال:
جبل کی جمع ہے،
پہاڑ۔
فوائد ومسائل:
(1)
سوال کی بندش کرنے میں قرآن مجید کی سورہ مائدہ کی آیت کی طرف اشارہ ہے:
﴿لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ﴾ (المائدہ: 101)
ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہارے لیے ناگواری کا باعث بنیں۔
اصل بات یہ ہے کہ نئے نئے سوالات کرنا انسانی فطرت ہے،
لیکن اس عادت کو اگر بالکل آزاد چھوڑ دیا جائے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان غیر متعلق اور بے فائدہ چیزوں کے متعلق سوالات کرنا شروع کر دیتا ہے،
اور اس کا رجحان موشگافیوں کی طرف بڑھ جاتا ہے،
وہ بال کی کھال اتارتا ہے،
جس سے عمل کی طرف توجہ کم ہو جاتی ہے،
حالانکہ اصل مقصد عمل ہے،
نیز رسول سے زیادہ سوال کرنے کا نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ پابندیوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
(جیسا کہ بنو اسرائیل کے گائے کے بارے میں سوالات سے یہ بات ظاہر ہے)
جس سے عمل میں دشواری پیدا ہوتی ہے اور جذبہ عمل مزید کمزور ہو جاتا ہے،
اس وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو غیر ضروری اور بے مقصد سوال کرنے سے روک دیا گیا،
اس لیے وہ براہ راست بہت کم سوال کرتے تھے،
اور اس بات کے آرزو مند رہا کرتے کہ کوئی عاقل اور سمجھ دار اعرابی آئے،
جو سوال کرنے کی کیفیت،
آداب اور ضرورت کو سمجھتا ہو،
وہ آپ سے سوال کرے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو سننے کا موقع مل جائے۔
(2)
قسم بعض دفعہ محض تاکید اور تقریر کے لیے اٹھائی جاتی ہے،
کسی شک وشبہ کو دور کرنا مقصود نہیں ہوتا۔
(3)
سائل کو جواب دیتے وقت اس کی حیثیت ومقام اور معاشرتی سطح کا لحاظ رکھنا چاہیے،
رسول اللہ ﷺ کے ہاں بدویوں کے لیے بڑی وسعت وکشادگی تھی،
وہ سوالات میں بڑی جرأت وجسارت دکھاتے اور بے دھڑک جو چاہتے پوچھ لیتے۔
بسا اوقات سخت رویہ اختیار کرتے وہ شہری تہذیب وسلیقہ یا ادب وآداب کا لحاظ نہ رکھتے،
لیکن آپ کے رخ انوار پر ملال ظاہر نہ ہوتا،
خندہ روئی سے جواب دیتے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 102   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.