الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
The Book on Jana\'iz (Funerals)
40. باب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ عَلَى الْجَنَازَةِ وَالشَّفَاعَةِ لِلْمَيِّتِ
40. باب: نماز جنازہ اور میت کے لیے شفاعت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1029
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا عبد الوهاب الثقفي، عن ايوب، وحدثنا احمد بن منيع، وعلي بن حجر، قالا: حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، عن ايوب، عن ابي قلابة، عن عبد الله بن يزيد رضيع كان لعائشة، عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " لا يموت احد من المسلمين فتصلي عليه امة من المسلمين يبلغون ان يكونوا مائة فيشفعوا له إلا شفعوا فيه ". وقال علي بن حجر في حديثه: مائة فما فوقها. قال ابو عيسى: حديث عائشة حديث حسن صحيح، وقد اوقفه بعضهم ولم يرفعه.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، عَنْ أَيُّوبَ، وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ رَضِيعٍ كَانَ لِعَائِشَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا يَمُوتُ أَحَدٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ فَتُصَلِّي عَلَيْهِ أُمَّةٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ يَبْلُغُونَ أَنْ يَكُونُوا مِائَةً فَيَشْفَعُوا لَهُ إِلَّا شُفِّعُوا فِيهِ ". وقَالَ عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ فِي حَدِيثِهِ: مِائَةٌ فَمَا فَوْقَهَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ أَوْقَفَهُ بَعْضُهُمْ وَلَمْ يَرْفَعْهُ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو مسلمان مر جائے اور مسلمانوں کی ایک جماعت جس کی تعداد سو کو پہنچتی ہو اس کی نماز جنازہ پڑھے اور اس کے لیے شفاعت کرے تو ان کی شفاعت قبول کی جاتی ہے ۱؎۔ علی بن حجر نے اپنی حدیث میں کہا: «مائة فما فوقها» سویا اس سے زائد لوگ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عائشہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- بعض نے اسے موقوفاً روایت کیا ہے، مرفوع نہیں کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجنائز 18 (947)، سنن النسائی/الجنائز 78 (1993)، (تحفة الأشراف: 16291)، مسند احمد (6/32، 40، 97، 231) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس سے نماز جنازہ میں کثرت تعداد کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، مسلم کی ایک روایت میں چالیس مسلمان مردوں کا ذکر ہے، اور بعض روایتوں میں تین صفوں کا ذکر ہے، ان میں تطبیق اس طرح سے دی گئی ہے کہ یہ احادیث مختلف موقعوں پر سائلین کے سوالات کے جواب میں بیان کی گئیں ہیں، اور یہ بھی ممکن ہے کہ پہلے آپ کو سو آدمیوں کی شفاعت قبول کئے جانے کی خبر دی گئی ہو پھر چالیس کی پھر تین صفوں کی گو وہ چالیس سے بھی کم ہوں، یہ اللہ کی اپنے بندوں پر نوازش و انعام ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الأحكام (98)

   سنن النسائى الصغرى1994عائشة بنت عبد اللهلا يموت أحد من المسلمين فيصلي عليه أمة من الناس فيبلغوا أن يكونوا مائة فيشفعوا إلا شفعوا فيه
   جامع الترمذي1029عائشة بنت عبد اللهلا يموت أحد من المسلمين فتصلي عليه أمة من المسلمين يبلغون أن يكونوا مائة فيشفعوا له إلا شفعوا فيه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1029  
´نماز جنازہ اور میت کے لیے شفاعت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو مسلمان مر جائے اور مسلمانوں کی ایک جماعت جس کی تعداد سو کو پہنچتی ہو اس کی نماز جنازہ پڑھے اور اس کے لیے شفاعت کرے تو ان کی شفاعت قبول کی جاتی ہے ۱؎۔ علی بن حجر نے اپنی حدیث میں کہا: «مائة فما فوقها» سویا اس سے زائد لوگ۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1029]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس سے صلاۃِ جنازہ میں کثرت تعدادکی فضیلت ثابت ہوتی ہے،
مسلم کی ایک روایت میں چالیس مسلمان مردوں کا ذکر ہے،
اوربعض روایتوں میں تین صفوں کا ذکرہے،
ان میں تطبیق اس طرح سے دی گئی ہے کہ یہ احادیث مختلف موقعوں پر سائلین کے سوالات کے جواب میں بیان کی گئیں ہیں،
اوریہ بھی ممکن ہے کہ پہلے آپ کو سوآدمیوں کی شفاعت قبول کئے جانے کی خبردی گئی ہوپھرچالیس کی پھرتین صفوں کی گووہ چالیس سے بھی کم ہوں،
یہ اللہ کی اپنے بندوں پر نوازش وانعام ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1029   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.