الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: تہجد کا بیان
The Book of Salat-Ut-Tahajjud (Night Prayer)
5. بَابُ تَحْرِيضِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى صَلاَةِ اللَّيْلِ وَالنَّوَافِلِ مِنْ غَيْرِ إِيجَابٍ:
5. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رات کی نماز اور نوافل پڑھنے کے لیے ترغیب دلانا لیکن واجب نہ کرنا۔
(5) Chapter. The Prophet’s ﷺ exhorting (the people) to Tahajjud and Nawafil without making them compulsory.
حدیث نمبر: 1128
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف , قال: اخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن عروة، عن عائشة رضي الله عنها , قالت:" إن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليدع العمل وهو يحب ان يعمل به خشية ان يعمل به الناس فيفرض عليهم، وما سبح رسول الله صلى الله عليه وسلم سبحة الضحى قط وإني لاسبحها".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ , قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا , قَالَتْ:" إِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَدَعُ الْعَمَلَ وَهُوَ يُحِبُّ أَنْ يَعْمَلَ بِهِ خَشْيَةَ أَنْ يَعْمَلَ بِهِ النَّاسُ فَيُفْرَضَ عَلَيْهِمْ، وَمَا سَبَّحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُبْحَةَ الضُّحَى قَطُّ وَإِنِّي لَأُسَبِّحُهَا".
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے امام مالک نے ابن شہاب زہری سے بیان کیا، ان سے عروہ نے، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کام کو چھوڑ دیتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا کرنا پسند ہوتا۔ اس خیال سے ترک کر دیتے کہ دوسرے صحابہ بھی اس پر (آپ کو دیکھ کر) عمل شروع کر دیں اور اس طرح وہ کام ان پر فرض ہو جائے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاشت کی نماز کبھی نہیں پڑھی لیکن میں پڑھتی ہوں۔

Narrated `Aisha: Allah's Apostle used to give up a good deed, although he loved to do it, for fear that people might act on it and it might be made compulsory for them. The Prophet never prayed the Duha prayer, but I offer it.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 21, Number 228


   صحيح البخاري1177عائشة بنت عبد اللهما رأيت رسول الله سبح سبحة الضحى وإني لأسبحها
   صحيح البخاري1128عائشة بنت عبد اللهليدع العمل وهو يحب أن يعمل به خشية أن يعمل به الناس فيفرض عليهم ما سبح رسول الله سبحة الضحى قط
   صحيح مسلم2717عائشة بنت عبد اللهإن صام شهرا معلوما سوى رمضان حتى مضى لوجهه ولا أفطره حتى يصيب منه
   صحيح مسلم1662عائشة بنت عبد اللهما رأيت رسول الله يصلي سبحة الضحى قط وإني لأسبحها يدع العمل وهو يحب أن يعمل به خشية أن يعمل به الناس فيفرض عليهم
   صحيح مسلم1661عائشة بنت عبد اللهأكان النبي يصلي الضحى قالت لا إلا أن يجيء من مغيبه
   صحيح مسلم1660عائشة بنت عبد اللههل كان النبي يصلي الضحى قالت لا إلا أن يجيء من مغيبه
   سنن أبي داود1293عائشة بنت عبد اللهما سبح رسول الله سبحة الضحى قط وإني لأسبحها يدع العمل وهو يحب أن يعمل به خشية أن يعمل به الناس فيفرض عليهم
   سنن أبي داود1292عائشة بنت عبد اللههل كان رسول الله يصلي الضحى فقالت لا إلا أن يجيء من مغيبه هل كان رسول الله يقرن بين السورتين قالت من المفصل
   سنن النسائى الصغرى2186عائشة بنت عبد اللهأكان رسول الله يصلي صلاة الضحى قالت لا إلا أن يجيء من مغيبه هل كان رسول الله يصوم شهرا كله قالت لا ما علمت صام شهرا كله إلا رمضان ولا أفطر حتى يصوم منه حتى مضى لسبيله
   سنن النسائى الصغرى2187عائشة بنت عبد اللهأكان رسول الله يصلي صلاة الضحى قالت لا إلا أن يجيء من مغيبه هل كان رسول الله له صوم معلوم سوى رمضان قالت والله إن صام شهرا معلوما سوى رمضان حتى مضى لوجهه ولا أفطر حتى يصوم منه
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم145عائشة بنت عبد الله ما سبح رسول الله صلى الله عليه وسلم سبحة الضحى قط وإني لاستحبها

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 145  
´چاشت کی نماز مستحب ہے`
«. . . عن عائشة ام المؤمنين انها قالت: ما سبح رسول الله صلى الله عليه وسلم سبحة الضحى قط وإني لاستحبها، وإن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليدع العمل وهو يحب ان يعمل به خشية ان يعمل به الناس فيفرض عليهم . . .»
. . . ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاشت کی نماز (ہمیشہ) کبھی نہیں پڑھی اور میں اس نماز کو مستحب سمجھتی ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک عمل کو پسند کرنے کے باوجود (بعض اوقات) اس خوف کی وجہ سے چھوڑ دیتے تھے کہ کہیں اس پر لوگوں کے عمل کرنے کی وجہ سے فرض نہ ہو جائے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 145]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1128، ومسلم 718، من حديث مالك به نحو المعنيٰ]

تفقه:
➊ ایک روایت میں آیا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا: کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کی نماز پڑھتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا: نہیں، الا یہ کہ جب سفر سے واپس آتے (تو پڑھتے تھے) دیکھئے: [صحيح مسلم 717]
● دوسری روایت میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کی نماز چار رکعتیں یا زیادہ پڑھتے تھے۔ [صحيح مسلم: 719]
◄ معلوم ہوا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کی نماز پڑھتے تھے مگر ہمیشہ نہیں پڑھتے تھے۔ دیکھئے: [السنن الكبري للبيهقي 49/3]
➋ چاشت کی نماز واجب یا سنت موکدہ نہیں ہے بلکہ مستحب اور افضل ہے۔
➌ چاشت کی نماز دو رکعتیں، چار رکعتیں یا آٹھ رکعتیں ہیں۔ دیکھئے: [صحيح مسلم 719، 720، 721 وصحيح بخاري: 1176، وصحيح مسلم 336 بعدح 719] ہر دو رکعت پر سلام پھیرنا مسنون ہے۔
➍ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوہریرہ اور سیدنا ابوالدرداء رضی اللہ عنہما کو چاشت کی نماز پڑھنے کا حکم دیا تھا۔ [صحيح مسلم:722، 721]
➎ چاشت کی نماز کا وقت سورج کے طلوع کے فوراً بعد شروع ہوتا ہے اور اس کا افضل وقت اونٹ کے بچے کے پاؤں دھوپ سے گرم ہونے پر ہے۔ [صحيح مسلم: 748]
● اسے صلٰوۃ الاوابین (بہت زیادہ توبہ کرنے والوں کی نماز) بھی کہتے ہیں۔ یہ وقت دن کے ابتدائی تقریباً چوتھے حصے تک ہوتا ہے۔
➏ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد مبارک کا خلاصہ یہ ہے کہ جو شخص گھر سے وضو کر کے فرض نماز پڑھنے کے لئے (مسجد کی طرف) نکلتا ہے تو اسے حج کا ثواب ملتا ہے اور جو چاشت کی نماز پڑھنے کے لئے جاتا ہے تو اسے عمرے کا ثواب ملتا ہے۔ دیکھئے: [سنن ابي داود 558، وسنده حسن، ومسند أحمد 268/5] والحمدللہ
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 37   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1292  
´نماز الضحیٰ (چاشت کی نماز) کا بیان۔`
عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کی نماز پڑھتے تھے؟ انہوں نے کہا: نہیں، سوائے اس کے کہ جب آپ سفر سے آتے۔ میں نے عرض کیا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو سورتیں ملا کر پڑھتے تھے؟ آپ نے کہا: مفصل کی سورتیں (ملا کر پڑھتے تھے) ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1292]
1292۔ اردو حاشیہ:
صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ سفر سے واپسی پر پہلے مسجد میں تشریف لاتے، دو رکعتیں پڑھتے، احباب سے ملاقات ہوتی، پھر گھر تشریف لے جاتے۔ [صحيح بخاري: 4418]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1292   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1128  
1128. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ ایک کام، اگرچہ وہ آپ کو پسند ہی ہوتا، اس خوف سے ترک کر دیتے تھے کہ لوگ اس پر عمل کریں گے تو وہ ان پر فرض ہو جائے گا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے نماز چاشت کبھی نہیں پڑھی لیکن میں پڑھتی ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1128]
حدیث حاشیہ:
حضرت عائشہ ؓ کو شاید وہ قصہ معلوم نہ ہوگا جس کو ام ہانی ؓ نے نقل کیا کہ آپ ﷺ نے فتح مکہ کے دن چاشت کی نماز پڑھی۔
باب کا مطلب حدیث سے یوں نکلتا ہے کہ چاشت کی نفل نماز کا پڑھنا آپ کو پسند تھا۔
جب پسند ہوا تو گویا آپ ﷺ نے اس پر ترغیب دلائی اور پھر اس کو واجب نہ کیا۔
کیونکہ آپ نے خود اس کو نہیں پڑھا۔
بعضوں نے کہا آپ نے کبھی چاشت کی نماز نہیں پڑھی، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے ہمیشگی کے ساتھ کبھی نہیں پڑھی کیونکہ دوسری روایت سے آپ کا یہ نمازپڑھنا ثابت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1128   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1128  
1128. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ ایک کام، اگرچہ وہ آپ کو پسند ہی ہوتا، اس خوف سے ترک کر دیتے تھے کہ لوگ اس پر عمل کریں گے تو وہ ان پر فرض ہو جائے گا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے نماز چاشت کبھی نہیں پڑھی لیکن میں پڑھتی ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1128]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے رسول اللہ ﷺ کے عمومی طرز عمل کا پتہ چلتا ہے کہ آپ کا کسی کام کو پسند کرنا اس کام کی ترغیب ہے۔
عنوان کا پہلا حصہ یہی ہے، لیکن اس کام کو اس اندیشے کے پیش نظر ترک کر دینا کہ لوگوں کے مسلسل عمل سے کہیں فرض نہ ہو جائے، اس سے عنوان کا دوسرا جز، عدم وجوب سے ثابت ہوتا ہے، کیونکہ فرض عمل کو کسی خطرے کی وجہ سے ترک نہیں کیا جا سکتا۔
امام مالک ؒ نے موطا میں یہ الفاظ مزید بیان کیے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ لوگوں پر تخفیف پسند کرتے تھے تاکہ کسی کام کی وجہ سے ان پر بوجھ نہ ہو۔
(فتح الباري: 18/3)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اچھا کام اگر کسی خرابی کا پیش خیمہ ہو تو اسے ترک کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
(2)
حضرت عائشہ ؓ نے اپنی معلومات کے پیش نظر نماز چاشت کے متعلق کہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اسے نہیں پڑھا کرتے تھے، حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ والے دن حضرت ام ہانی ؓ کے گھر نماز چاشت پڑھی، نیز آپ نے حضرت ابو ہریرہ اور حضرت ابو ذر غفاری ؓ کو اس کے پڑھنے کی تلقین بھی فرمائی تھی۔
نماز چاشت کے متعلق ہم آئندہ تفصیل سے بیان کریں گے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1128   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.