الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: تہجد کا بیان
The Book of Salat-Ut-Tahajjud (Night Prayer)
5. بَابُ تَحْرِيضِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى صَلاَةِ اللَّيْلِ وَالنَّوَافِلِ مِنْ غَيْرِ إِيجَابٍ:
5. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رات کی نماز اور نوافل پڑھنے کے لیے ترغیب دلانا لیکن واجب نہ کرنا۔
(5) Chapter. The Prophet’s ﷺ exhorting (the people) to Tahajjud and Nawafil without making them compulsory.
حدیث نمبر: 1129
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف , قال: اخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن عروة بن الزبير، عن عائشة ام المؤمنين رضي الله عنها،" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى ذات ليلة في المسجد فصلى بصلاته ناس، ثم صلى من القابلة فكثر الناس، ثم اجتمعوا من الليلة الثالثة او الرابعة فلم يخرج إليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم , فلما اصبح قال: قد رايت الذي صنعتم ولم يمنعني من الخروج إليكم إلا اني خشيت ان تفرض عليكم" وذلك في رمضان.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ , قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى ذَاتَ لَيْلَةٍ فِي الْمَسْجِدِ فَصَلَّى بِصَلَاتِهِ نَاسٌ، ثُمَّ صَلَّى مِنَ الْقَابِلَةِ فَكَثُرَ النَّاسُ، ثُمَّ اجْتَمَعُوا مِنَ اللَّيْلَةِ الثَّالِثَةِ أَوِ الرَّابِعَةِ فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَلَمَّا أَصْبَحَ قَالَ: قَدْ رَأَيْتُ الَّذِي صَنَعْتُمْ وَلَمْ يَمْنَعْنِي مِنَ الْخُرُوجِ إِلَيْكُمْ إِلَّا أَنِّي خَشِيتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَيْكُمْ" وَذَلِكَ فِي رَمَضَانَ.
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی، انہیں ابن شہاب زہری نے، انہیں عروہ بن زبیر نے، انہیں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات مسجد میں نماز پڑھی۔ صحابہ نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ نماز پڑھی۔ دوسری رات بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز پڑھی تو نمازیوں کی تعداد بہت بڑھ گئی تیسری یا چوتھی رات تو پورا اجتماع ہی ہو گیا تھا۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس رات نماز پڑھانے تشریف نہیں لائے۔ صبح کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ جتنی بڑی تعداد میں جمع ہو گئے تھے۔ میں نے اسے دیکھا لیکن مجھے باہر آنے سے یہ خیال مانع رہا کہ کہیں تم پر یہ نماز فرض نہ ہو جائے۔ یہ رمضان کا واقعہ تھا۔

Narrated `Aisha the mother of the faithful believers: One night Allah's Apostle offered the prayer in the Mosque and the people followed him. The next night he also offered the prayer and too many people gathered. On the third and the fourth nights more people gathered, but Allah's Apostle did not come out to them. In the morning he said, "I saw what you were doing and nothing but the fear that it (i.e. the prayer) might be enjoined on you, stopped me from coming to you." And that happened in the month of Ramadan.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 21, Number 229


   صحيح البخاري729عائشة بنت عبد اللهخشيت أن تكتب عليكم صلاة الليل
   صحيح البخاري924عائشة بنت عبد اللهلم يخف علي مكانكم لكني خشيت أن تفرض عليكم فتعجزوا عنها
   صحيح البخاري1129عائشة بنت عبد اللهخشيت أن تفرض عليكم
   صحيح البخاري2012عائشة بنت عبد اللهخشيت أن تفترض عليكم فتعجزوا عنها
   صحيح البخاري2011عائشة بنت عبد اللهصلى وذلك في رمضان
   صحيح مسلم1783عائشة بنت عبد اللهرأيت الذي صنعتم فلم يمنعني من الخروج إليكم إلا أني خشيت أن تفرض عليكم قال وذلك في رمضان
   صحيح مسلم1784عائشة بنت عبد اللهلم يخف علي شأنكم الليلة ولكني خشيت أن تفرض عليكم صلاة الليل فتعجزوا عنها
   سنن أبي داود1373عائشة بنت عبد اللهرأيت الذي صنعتم فلم يمنعني من الخروج إليكم إلا أني خشيت أن يفرض عليكم وذلك في رمضان
   سنن النسائى الصغرى1605عائشة بنت عبد اللهرأيت الذي صنعتم فلم يمنعني من الخروج إليكم إلا أني خشيت أن يفرض عليكم
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم151عائشة بنت عبد اللهقد رايت الذى صنعتم فلم يمنعني من الخروج إليكم إلا اني خشيت ان يفرض عليكم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 151  
´نفل نماز باجماعت پڑھنا`
«. . . ان رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى فى المسجد فصلى بصلاته ناس، ثم صلى من القابلة فكثر الناس، ثم اجتمعوا من الليلة الثالثة او الرابعة فلم يخرج إليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم. فلما اصبح قال: قد رايت الذى صنعتم فلم يمنعني من الخروج إليكم إلا اني خشيت ان يفرض عليكم وذلك فى رمضان . . .»
. . .سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں (رات کی) نماز (تراویح) پڑھی تو (بعض) لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (آپ کے پیچھے) نماز پڑھی، پھر آنے والی رات جب آپ نے نماز پڑھی تو لوگ زیادہ ہو گئے، پھر تیسری یا چوتھی رات کو (بہت) لوگ اکٹھے ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس (نماز پڑھانے کے لیے) باہر تشریف نہ لائے، جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے (رات کو) جو کیا وہ میں نے دیکھا تھا لیکن میں صرف اس وجہ سے تمہارے پاس نہ آیا کیونکہ مجھے خوف ہو گیا تھا کہ یہ (قیام) تم پر فرض نہ ہو جائے۔ یہ واقعہ رمضان میں ہوا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 151]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1129، ومسلم 761، من حديث ما لك به]

تفقه:
➊ نماز تراویح سنت ہے واجب یا فرض نہیں ہے۔ دیکھئے: [صحيح مسلم 759/174 و الموطأ رواية يحييٰ 113/1 ح 247]
➋ چونکہ اب فرضیت کا خوف زائل ہو گیا ہے لہذا نماز تراویح با جماعت افضل ہے۔ دیکھئے: [الموطأ حديث: 29، تفقه 1، البخاري 2009، ومسلم 759/173]
➌ اس پر اجماع ہے کہ نوافل (تراویح وغیرہ) میں نہ اذان ہے اور نہ اقامت۔ [التمهيد 108/8]
➍ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت پر بہت زیادہ مہربان اور شفیق تھے۔
➎ علمائے کرام کا تراویح کی تعداد میں بہت اختلاف ہے۔ دیکھئے: [التمهيد 113/8، وعمدة القاري للعيني 126/11، والحاوي للفتاوي 338/1، والفهم لما اشكل من تلخيص كتاب مسلم 389/2، وسنن الترمذي 806]
قرطبی (متوفی 656 ھ) نے کہا:
اور اکثر علماء نے کہا ہے کہ گیارہ رکعات پڑھنی چاہئے، انھوں نے اس مسئلے میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سابق سے استدلال کیا ہے۔ [المفهم:390/2]
➏ بیس تراویح پر اجماع کا دعویٰ باطل ہے۔ امام شافعی نے فرمایا: اگر رکعتیں کم اور قیام لمبا ہو تو بہتر ہے اور (یہ) مجھے زیادہ پسند ہے۔ [ملخصاً / مقريزي كي مختصر قيام اليل للمروزي ص202، 203، تعداد ركعات قيام رمضان كا جائزه ص 85]
➐ اس حدیث سے صحابہ کرام کا شوق عبادت ظاہر ہوتا ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 36   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1373  
´ماہ رمضان میں قیام اللیل (تراویح) کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں نماز پڑھی تو آپ کے ساتھ کچھ اور لوگوں نے بھی پڑھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگلی رات کو بھی پڑھی تو لوگوں کی تعداد بڑھ گئی پھر تیسری رات کو بھی لوگ جمع ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے ہی نہیں، جب صبح ہوئی تو فرمایا: میں نے تمہارے عمل کو دیکھا، لیکن مجھے سوائے اس اندیشے کے کسی اور چیز نے نکلنے سے نہیں روکا کہ کہیں وہ تم پر فرض نہ کر دی جائے ۱؎ اور یہ بات رمضان کی ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب شهر رمضان /حدیث: 1373]
1373. اردو حاشیہ: فائدہ: صحیح بخاری میں تیسری رات بھی نماز پڑھنے کا ذکر ہے۔ دیکھئے [صحیح بخاری، الجمعة، حدیث:924]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1373   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1129  
1129. ام المومنین حضرت عائشہ‬ ؓ ہ‬ی سے مروی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک رات مسجد میں نماز (تہجد) ادا کی تو لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ نماز ادا کی۔ پھر دوسری رات بھی آپ نے اسے مسجد میں ادا کیا تو لوگ زیادہ جمع ہو گئے۔ پھر تیسری یا چوتھی رات لوگ اس سے بھی زیادہ جمع ہو گئے لیکن رسول اللہ ﷺ ان کے پاس باہر تشریف نہ لائے۔ جب صبح ہوئی تو آپ نے فرمایا: میں تمہارے جذبات کو ملاحظہ کرتا رہا لیکن مجھے اس بات نے آپ لوگوں کے پاس آنے سے باز رکھا کہ مبادا نمازِ شب تم پر فرض ہو جائے۔ واضح رہے کہ یہ واقعہ رمضان میں پیش آیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1129]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ آنحضرت ﷺ نے چند راتوں میں رمضان کی نفل نماز صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو جماعت سے پڑھائی بعد میں اس خیال سے کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ کر دی جائے آپ نے جماعت کا اہتمام ترک فرمادیا۔
اس سے رمضان شریف میں نماز تراویح با جماعت کی مشروعیت ثابت ہوئی۔
آپ نے یہ نفل نماز گیارہ رکعات پڑھائی تھی۔
جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے۔
چنانچہ علامہ شوکانی ؒ فرماتے ہیں:
وأما العدد الثابت عنه صلی اللہ علیه وسلم في صلوته في رمضان فأخرج البخاري وغیرہ عن عائشة أنھا قالت ماکان النبي صلی اللہ علیه وسلم یزید في رمضان ولا في غیرہ علی إحدی عشرة رکعة وأخرج ابن حبان في صحیحه من حدیث جابر أنه صلی اللہ علیه وسلم صلیٰ بھم ثمان رکعات ثم أوتر۔
(نیل الأوطار)
اور رمضان کی اس نماز میں آنحضرت ﷺ سے جو عدد صحیح سند کے ساتھ ثابت ہیں وہ یہ کہ حضرت عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ آپ ﷺ نے رمضان اور غیر رمضان میں اس نماز کو گیارہ رکعات سے زیادہ ادا نہیں فرمایا اور مسند ابن حبان میں بسند صحیح مزید وضاحت یہ موجود ہے کہ آپ نے آٹھ رکعتیں پڑھائیں پھر تین وتر پڑھائے۔
پس ثابت ہوا کہ آپ ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کو رمضان میں تراویح باجماعت گیارہ رکعات پڑھائی تھیں اور تراویح وتہجد میں یہی عدد مسنون ہے، باقی تفصیلات اپنے مقام پر آئیں گی۔
إن شاءاللہ تعالی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1129   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1129  
1129. ام المومنین حضرت عائشہ‬ ؓ ہ‬ی سے مروی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک رات مسجد میں نماز (تہجد) ادا کی تو لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ نماز ادا کی۔ پھر دوسری رات بھی آپ نے اسے مسجد میں ادا کیا تو لوگ زیادہ جمع ہو گئے۔ پھر تیسری یا چوتھی رات لوگ اس سے بھی زیادہ جمع ہو گئے لیکن رسول اللہ ﷺ ان کے پاس باہر تشریف نہ لائے۔ جب صبح ہوئی تو آپ نے فرمایا: میں تمہارے جذبات کو ملاحظہ کرتا رہا لیکن مجھے اس بات نے آپ لوگوں کے پاس آنے سے باز رکھا کہ مبادا نمازِ شب تم پر فرض ہو جائے۔ واضح رہے کہ یہ واقعہ رمضان میں پیش آیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1129]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ کا خود تین رات نماز شب کا اہتمام کرنا اور لوگوں کا آپ کے ساتھ اسے ادا کرنا اس سے ترغیب ثابت ہوتی ہے، پھر فرض ہونے کے اندیشے کے پیش نظر باہر تشریف نہ لانا اس کے عدم وجوب کی دلیل ہے۔
امام بخاری ؒ اس سے یہی ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
(2)
اس روایت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ نفل نماز کی جماعت صحیح ہے، لیکن اس کے لیے لوگوں کو دعوت دینا صحیح نہیں، البتہ نماز تراویح کا معاملہ اس سے الگ ہے، کیونکہ حضرت عمر ؓ نے، فرضیت کا اندیشہ، جس کے باعث نبی ؓ نے جماعت تراویح ترک کی تھی، ختم ہونے پر اپنے دور خلافت میں اس کی جماعت کا اہتمام سرکاری طور پر فرمایا تھا، کیونکہ اس وقت فرضیت کا اندیشہ نہیں رہا تھا۔
تراویح کے علاوہ دیگر نوافل تداعی کے بغیر جماعت سے پڑھے جا سکتے ہیں۔
تداعی کے معنی یہ ہیں کہ لوگوں کو اس کے لیے اہتمام کے ساتھ دعوت دی جائے۔
ایسا کرنا صحیح نہیں۔
(3)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس نے شروع نماز میں امامت کی نیت نہیں کی، اس کی اقتدا میں نماز باجماعت ادا کی جا سکتی ہے۔
اگرچہ حافظ ابن حجر ؒ نے اسے محل نظر قرار دیا ہے، لیکن دیگر احادیث سے حافظ ابن حجر ؒ کا موقف محل نظر قرار پاتا ہے۔
جیسا کہ حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے جبکہ انہوں نے اپنی خالہ حضرت میمونہ ؓ کے گھر رات گزاری تھی اور رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نماز شب میں شامل ہوئے تھے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1129   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.