الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: تہجد کا بیان
The Book of Salat-Ut-Tahajjud (Night Prayer)
7. بَابُ مَنْ نَامَ عِنْدَ السَّحَرِ:
7. باب: جو شخص سحر کے وقت سو گیا۔
(7) Chapter. Sleeping in the last hours of the night.
حدیث نمبر: 1133
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل , قال: حدثنا إبراهيم بن سعد , قال: ذكر ابي، عن ابي سلمة، عن عائشة رضي الله عنها , قالت:" ما الفاه السحر عندي إلا نائما تعني النبي صلى الله عليه وسلم".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ , قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ , قَالَ: ذَكَرَ أَبِي، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا , قَالَتْ:" مَا أَلْفَاهُ السَّحَرُ عِنْدِي إِلَّا نَائِمًا تَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، کہا کہ میرے باپ سعد بن ابراہیم نے اپنے چچا ابوسلمہ سے بیان کیا کہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بتلایا کہ انہوں نے اپنے یہاں سحر کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ لیٹے ہوئے پایا۔

Narrated `Aisha: In my house he (Prophet (p.b.u.h) ) never passed the last hours of the night but sleeping.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 21, Number 234


   صحيح البخاري1133عائشة بنت عبد اللهما ألفاه السحر عندي إلا نائما
   صحيح مسلم1731عائشة بنت عبد اللهما ألفى رسول الله السحر الأعلى في بيتي أو عندي إلا نائما
   سنن أبي داود1318عائشة بنت عبد اللهما ألفاه السحر عندي إلا نائما
   سنن ابن ماجه1197عائشة بنت عبد اللهما كنت ألفي النبي من آخر الليل إلا وهو نائم عندي
   مسندالحميدي189عائشة بنت عبد اللهما ألفى النبي صلى الله عليه وسلم السحر الآخر قط عندي إلا نائما

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1197  
´وتر کے بعد اور فجر کی دو رکعت سنت کے بعد لیٹنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی اخیر رات میں پاتی تو اپنے پاس سویا ہوا پاتی ۱؎۔ وکیع نے کہا: ان کی مراد وتر کے بعد۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1197]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
رسول اللہ ﷺ کا اکثر معمول نصف رات کے بعد تہجد شروع کرکے فجر سےگھنٹہ دو گھنٹہ پہلے فارغ ہوجانے کا تھا۔
اس لئے صبح صادق کے وقت رسول اللہ ﷺ آرام فرما رہے ہوتے تھے۔
لیکن بہت دفعہ رات کے آخر تک بھی نماز میں مشغول رہتے تھے جیسے کہ دوسری روایات میں مذکور ہے۔

(2)
ہرشخص اپنی سہولت کے مطابق رات کے کسی حصے میں تہجد ادا کرسکتا ہے۔
اور اس کا وقت بھی کم وبیش ہوسکتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1197   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1318  
´نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تہجد پڑھنے کے وقت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں صبح ہوتی تو آپ یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سوئے ہوئے ہی ملتے۔ [سنن ابي داود/أبواب قيام الليل /حدیث: 1318]
1318. اردو حاشیہ: توضیح: نبیﷺ کا یہ سونا قیام اللیل کے بعد راحت کے لیے ہوتا تھا۔ بعض اوقات محض لیٹنا ہوتا اور بعض اوقات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے گفتگو فرماتے۔ اور ممکن ہے کہ یہ لمبی راتوں کی بات ہو نہ کہ چھوٹی راتوں کی۔ علامہ قسطلانی فرماتے ہیں کہ قیام اللیل کے بعد آرام کرنا، بدن کو راحت دیتا اور جاگنے کی مشقت دورکرتا ہے علاوہ ازیں جس کو نحیف بھی نہیں ہونے دیتا۔ بخلاف صبح تک جاگتے رہنے کے، اس سے کمزوری ہو جاتی ہے۔ (عون المعبود)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1318   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1133  
1133. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو آخر شب، یعنی بوقت سحر سوئے ہوئے ہی دیکھا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1133]
حدیث حاشیہ:
عادت مبارکہ تھی کہ تہجد سے فارغ ہو کر آپ ﷺ قبل فجر سحرکے وقت تھوڑی دیر آرام فرمایا کرتے تھے حضرت عائشہ ؓ یہی بیان فرما رہی ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1133   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1133  
1133. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو آخر شب، یعنی بوقت سحر سوئے ہوئے ہی دیکھا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1133]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ نے قبل ازیں حضرت داود ؑ کی شب بیداری کو بیان فرمایا تھا۔
ان احادیث میں رسول اللہ ﷺ کے عمل کو اس کے مطابق ثابت کیا ہے کہ مرغ عام طور پر آدھی رات کو آواز دیتا ہے۔
یہ اس کی فطرت ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے اسے پیدا کیا ہے۔
اس سے قبل رسول اللہ ﷺ نصف رات تک محو استراحت رہتے، اس کے بعد مرغ کی آواز سن کر اٹھ کھڑے ہوتے اور نماز میں مصروف رہتے، پھر سحری کے وقت تک سوئے رہتے۔
اس سے آپ ﷺ کے اور حضرت داود ؑ کے عمل میں یکسانیت ثابت ہوئی اور بوقت سحر سونا بھی ثابت ہوا، لیکن رمضان المبارک میں آپ کا یہ معمول نہیں ہوتا تھا، کیونکہ آپ رات کے آخری حصے میں سحری تناول فرمانے میں مصروف ہو جاتے۔
اس سے فراغت کے بعد صبح کی نماز ادا فرماتے، جیسا کہ آئندہ عنوان میں اس کی وضاحت ہو گی۔
(فتح الباري: 25/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1133   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.