الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: تطبیق کے احکام و مسائل
The Book of The At-Tatbiq (Clasping One\'s Hands Together)
96. بَابُ : الاِسْتِقْبَالِ بِأَطْرَافِ أَصَابِعِ الْقَدَمِ الْقِبْلَةَ عِنْدَ الْقُعُودِ لِلتَّشَهُّدِ
96. باب: تشہد میں بیٹھتے وقت پیر کی انگلیوں کے سروں کو قبلہ رخ کرنے کا بیان۔
Chapter: Pointing the toes toward the Qiblah when sitting for the first tashahhud
حدیث نمبر: 1159
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا الربيع بن سليمان بن داود، قال: حدثنا إسحاق بن بكر بن مضر، قال: حدثني ابي، عن عمرو بن الحارث، عن يحيى، ان القاسم حدثه، عن عبد الله وهو ابن عبد الله بن عمر، عن ابيه، قال:" من سنة الصلاة" ان تنصب القدم اليمنى واستقباله باصابعها القبلة والجلوس على اليسرى".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ، قال: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ بَكْرِ بْنِ مُضَرَ، قال: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ يَحْيَى، أَنَّ الْقَاسِمَ حَدَّثَهُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِيهِ، قال:" مِنْ سُنَّةِ الصَّلَاةِ" أَنْ تَنْصِبَ الْقَدَمَ الْيُمْنَى وَاسْتِقْبَالُهُ بِأَصَابِعِهَا الْقِبْلَةَ وَالْجُلُوسُ عَلَى الْيُسْرَى".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نماز کی سنت میں سے دائیں پیر کو کھڑا رکھنا، اور اس کی انگلیوں کو قبلہ رخ رکھنا اور بائیں پیر پر بیٹھنا ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح الإسناد)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

   سنن النسائى الصغرى1158عبد الله بن عمرتضجع رجلك اليسرى وتنصب اليمنى
   سنن النسائى الصغرى1159عبد الله بن عمرتنصب القدم اليمنى واستقباله بأصابعها القبلة والجلوس على اليسرى
   سنن النسائى الصغرى1161عبد الله بن عمروضع يده اليمنى على فخذه اليمنى أشار بأصبعه التي تلي الإبهام في القبلة ورمى ببصره إليها
   سنن النسائى الصغرى1267عبد الله بن عمرنصب اليمنى وأضجع اليسرى ووضع يده اليمنى على فخذه اليمنى ويده اليسرى على فخذه اليسرى أشار بالسبابة
   سنن النسائى الصغرى1268عبد الله بن عمرإذا جلس في الصلاة وضع كفه اليمنى على فخذه وقبض يعني أصابعه كلها أشار بإصبعه التي تلي الإبهام ووضع كفه اليسرى على فخذه اليسرى
   سنن النسائى الصغرى1270عبد الله بن عمرإذا جلس في الصلاة وضع يديه على ركبتيه رفع أصبعه التي تلي الإبهام فدعا بها ويده اليسرى على ركبته باسطها عليها
   صحيح مسلم1310عبد الله بن عمروضع يده اليسرى على ركبته اليسرى ووضع يده اليمنى على ركبته اليمنى وعقد ثلاثة وخمسين أشار بالسبابة
   صحيح مسلم1309عبد الله بن عمروضع يديه على ركبتيه ورفع إصبعه اليمنى التي تلي الإبهام فدعا بها ويده اليسرى على ركبته اليسرى باسطها عليها
   صحيح مسلم1311عبد الله بن عمرإذا جلس في الصلاة وضع كفه اليمنى على فخذه اليمنى وقبض أصابعه كلها أشار بإصبعه التي تلي الإبهام ووضع كفه اليسرى على فخذه اليسرى
   جامع الترمذي294عبد الله بن عمرإذا جلس في الصلاة وضع يده اليمنى على ركبته رفع إصبعه التي تلي الإبهام اليمنى يدعو بها ويده اليسرى على ركبته باسطها عليه
   سنن أبي داود959عبد الله بن عمرمن سنة الصلاة أن تضجع رجلك اليسرى وتنصب اليمنى
   سنن أبي داود987عبد الله بن عمرإذا جلس في الصلاة وضع كفه اليمنى على فخذه اليمنى وقبض أصابعه كلها أشار بأصبعه التي تلي الإبهام ووضع كفه اليسرى على فخذه اليسر
   سنن أبي داود958عبد الله بن عمرسنة الصلاة أن تنصب رجلك اليمنى وتثني رجلك اليسرى
   سنن ابن ماجه913عبد الله بن عمرإذا جلس في الصلاة وضع يديه على ركبتيه رفع إصبعه اليمنى التي تلي الإبهام فيدعو بها واليسرى على ركبته باسطها عليها
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم124عبد الله بن عمرإذا جلس فى الصلاة وضع كفه اليمنى على فخذه اليمنى
   بلوغ المرام246عبد الله بن عمرإذا قعد للتشهد وضع يده اليسرى على ركبتيه اليسرى واليمنى على اليمنى وعقد ثلاثا وخمسين واشار بإصبعه السبابة.
   مسندالحميدي662عبد الله بن عمر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 124  
´نماز کے ہر تشہد میں شہادت کی انگلی کے ساتھ اشارہ کرنا مسنون ہے`
«. . . كان إذا جلس فى الصلاة وضع كفه اليمنى على فخذه اليمنى، وقبض اصابعه كلها واشار بإصبعه التى تلي الإبهام، ووضع كفه اليسرى على فخذه اليسرى . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں بیٹھتے تو دائیں ہتھیلی کو دائیں ران پر رکھتے اور اپنی ساری انگلیاں بند کر کے انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی (سبابہ) سے اشارہ کرتے اور بائیں ہتھیلی کو بائیں ران پر رکھتے تھے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 124]

تخریج الحدیث: [وأخرجه مسلم 580/116، من حديث ما لك به .]
تفقه:
➊ نماز میں فضول حرکتیں کرنا منع ہے۔ اگر کنکریاں ہٹانا ہی ضروری ہے تو صرف ایک دفعہ انھیں ہٹالے۔
➋ نماز کے ہر تشہد میں شہادت کی انگلی کے ساتھ اشارہ کرنا مسنون ہے اور یہ اشاره شروع تشہد سے لے کر سلام تک جاری رہتا ہے۔ آخر میں دعا کے وقت اسے مسلسل حرکت دینا صحیح محفوظ حدیث سے ثابت ہے۔دیکھئے [سنن النسائي:1269، وسنده ميں محفوظ مختصرصحيح نماز نبوي ص 22 حاشيه فقره:39]
➌ اشارے کے وقت شہادت کی انگلی کو تھوڑا سا جھکا در بنایا ہے۔ دیکھئے [سنن ابي داود 991، وسنده حسن روحه ابن خزيمه 716، وابن حبان (الاحسان:1943)]
➍ جس روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہادت کی انگلی کو حرکت نہیں دیتے تھے۔ [سنن ابي داود: 989 وسنن النسائي: 1271] یہ روایت محمد بن عجلان مدلس کی تدلیس (یعنی عن) کی وجہ سے ضعیف ہے۔
➎ و ہروقت حتی الوسع امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں مصروف رہنا چاہئے۔
➏ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث حجت ہے بشرطیکہ وہ حسن سند کے ساتھ ثابت ہو۔
➐ نماز میں فضول کام ممنوع ہیں۔ صرف وہی امور جائزہ ہیں جن کی شریعت میں دلیل ہے یا عذر شرعی ہو۔
➑ قاسم بن محمد بن ابی بکر رحمہ اللہ نے لوگوں کو تشہد میں بیٹھنے کا طریقہ بتایا تو دایاں پاؤں کھڑا کیا اور بایاں پاؤں بچھایا اور بائیں ران پر بیٹھ گئے، پاوں پر نہ بیٹھے پھر انھوں نے بتایا کہ مجھے یہ طریقہ عبداللہ بن عبداللہ بن عمر نے (عملاً) دکھایا تھا اور انہوں نے اپنے والد (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما) کو ایسا کرتے دیکھا تھا۔ [الموطأ 90/1 ح 199 وسنده صحيح]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 194   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 987  
´تشہد میں انگلی سے اشارہ کرنے کا بیان۔`
علی بن عبدالرحمٰن معاوی کہتے ہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے مجھے نماز میں کنکریوں سے کھیلتے ہوئے دیکھا، جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو مجھے اس سے منع کیا اور کہا: تم نماز میں اسی طرح کرو جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے، میں نے عرض کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے کرتے تھے؟ انہوں نے کہا: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں بیٹھتے تو اپنی داہنی ہتھیلی اپنی داہنی ران پر رکھتے اور اپنی تمام انگلیاں سمیٹ لیتے اور شہادت کی انگلی جو انگوٹھے سے متصل ہوتی ہے، اشارہ کرتے ۱؎ اور اپنی بائیں ہتھیلی بائیں ران پر رکھتے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 987]
987۔ اردو حاشیہ:
معلوم ہوا کہ تشہد میں بیٹھتے ہی یہ کیفیت ہوتی کہ دایئں ہاتھ کی مٹھی سی بنا لیتے تھے اور اشارہ کرتے تھے۔ یعنی انگشت شہادت کو اٹھائے رکھتے تھے، تاہم بار بار حرکت دینے کی ضرورت نہیں ہے، جیسے کہ آگے آ رہا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 987   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث913  
´تشہد کے دوران انگلی سے اشارہ کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں بیٹھتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھتے، اور دائیں ہاتھ کے انگوٹھے سے متصل انگلی کو اٹھاتے اور اس سے دعا کرتے، اور بائیں ہاتھ کو بائیں گھٹنے پہ پھیلا کر رکھتے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 913]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
انگلی سے اشارہ تشہد میں ہوتا ہے۔
سجدوں کےدرمیان جلسے میں نہیں۔
اس حدیث میں، نماز میں بیٹھنے کا مطلب، تشہد میں، بیٹھنا ہے۔
جیسے کہ حدیث: 912 سے واضح ہے۔
|
(2)
تشہد میں بایاں ہاتھ تو اسی طرح رکھا جائے گا۔
جسطرح سجدوں کے درمیان جلسے میں ہوتا ہے۔
دایئں ہاتھ کا ایک طریقہ اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔
کہ انگوٹھے کو درمیانی انگلی کے ساتھ ملا کر حلقہ بنایا جائے۔
اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا جائے۔
اس صورت میں چھوٹی دونوں انگلیاں بند رکھی جایئں گی۔ (سنن ابی داؤد، الصلاۃ، تفریع أبواب الرکوع والسجود۔
۔
۔
، باب الإشارہ فی التشھد، حدیث: 987)

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ انگوٹھا شہادت کی انگلی کی نچلے پور پر رکھا جائے۔
اور باقی تینوں انگلیاں بند ہوں۔
اسے حدیث میں ترپن کےعدد سے تعبیر کیا گیا ہے۔
دیکھئے: (صحیح مسلم، المساجد، باب صفة الجلوس فی الصلاة۔
۔
۔
، حدیث: 580)

اہل عرب میں اعداد کے جوخاص اشارات رائج تھے ان کے مطابق ترپن کا عدد اس طرح بنتا ہے۔
اس لئے اس کیفیت کو اس لفظ سے ظاہر کیا گیا۔

(3)
انگلی کے ساتھ دعا کرنے کامطلب یہ ہے کہ دعا کےدوران میں انگلی اٹھا کر اشارہ کیا جائے۔

(4)
یہ اشارہ ابتداء سے انتہا یعنی سلام پھیرنے تک کیا جائے۔

(5)
اشارے کے ساتھ انگلی کو حرکت دینا یا دیتے رہنا ضروری نہیں ہے بعض لوگ صرف (الااللہ)
پرانگلی کو اٹھاتے اور پھر رکھ دیتے ہیں۔
یہ بالکل بے بنیاد ہے اور بعض لوگ مسلسل حرکت دیتے رہتے ہیں۔
یہ بھی صحیح نہیں۔
بعض روایات میں (یحرکھا)
کے الفاظ تو آتے ہیں لیکن اس کا مطلب بھی (یدعو بھا یا یشیر بھا)
ہی ہے۔
یعنی دعا یا اشارہ کرتے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 913   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 246  
´نماز کی صفت کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب تشہد کیلئے بیٹھتے تو اپنا بایاں ہاتھ اپنے بائیں گھٹنے پر دایاں ہاتھ اپنے دائیں گھٹنے پر رکھتے اور ترپن کی گرہ دیتے (یعنی تریپن کا عدد بناتے) اور اپنی انگشت شہادت سے اشارہ کرتے۔ (مسلم) اور ایک روایت میں ہے جسے مسلم، ہی نے روایت کیا ہے کہ اپنی تمام انگلیاں بند کر لیتے اور انگوٹھے کے ساتھ ملی ہوئی انگلی سے اشارہ کرتے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 246»
تخریج:
«أخرجه مسلم، المساجد، باب صفة الجلوس في الصلاة، حديث:580.»
تشریح:
1. اس حدیث میں ہے: «عَقَدَ ثلَاَثًا وَّخَمْسِینَ» تشہد میں بیٹھے ہوئے جب اشارہ فرماتے تو اپنے انگوٹھے کو پاس والی انگلی کی جڑ میں رکھتے اور باقی انگلیوں کو بند رکھتے۔
اسی طرح ہمیں کرنا چاہیے‘ تاکہ سنت پر عمل ہو جائے۔
2. تشہد میں انگشت شہادت سے اشارے پر سب ائمہ متفق ہیں۔
ملا علی قاری مشہور حنفی عالم نے رفع سبابہ پر دو مستقل رسالے لکھے ہیں جن میں صحیح احادیث لا کر ثابت کیا ہے کہ رفع سبابہ مسنون ہے اور خلاصۂ کیدانی وغیرہ میں جو اسے حرام لکھا گیا ہے اس کی بڑی سخت تردید کی ہے جو قابل مطالعہ ہے۔
فقہ حنفی کی مشہور کتب در مختار‘ شامی اور شرح وقایہ وغیرہ میں بھی اسی طرح ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 246   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 294  
´تشہد میں اشارہ کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جب نماز میں بیٹھتے تو اپنا دایاں ہاتھ اپنے (دائیں) گھٹنے پر رکھتے اور اپنے داہنے ہاتھ کے انگوٹھے کے قریب والی انگلی اٹھاتے اور اس سے دعا کرتے یعنی اشارہ کرتے، اور اپنا بایاں ہاتھ اپنے (بائیں) گھٹنے پر پھیلائے رکھتے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 294]
اردو حاشہ:
1؎:
احادیث میں تشہد کی حالت میں داہنے ہاتھ کے ران پر رکھنے کی مختلف ہیئتوں کا ذکر ہے،
انہیں ہیئتوں میں سے ایک ہیئت یہ بھی ہے اس میں انگلیوں کے بند رکھنے کا ذکر نہیں ہے،
دوسری یہ ہے کہ خنصر بنصر اور وسطیٰ (یعنی سب سے چھوٹی انگلی چھنگلیا،
اور اس کے بعد والی اور درمیانی تینوں)
کو بند رکھے اور شہادت کی انگلی (انگوٹھے سے ملی ہوئی) کو کھلی چھوڑ دے اور انگوٹھے کو شہادت کی انگلی کی جڑسے ملا لے،
یہی ترپن کی گرہ ہے،
تیسری ہیئت یہ ہے کہ خنصر،
بنصر (سب سے چھوٹی یعنی چھنگلیا اور اس کے بعد والی انگلی) کو بند کر لے اور شہادت کی انگلی کو چھوڑ دے اور انگوٹھے اور بیچ والی انگلی سے حلقہ بنا لے۔
چوتھی صورت یہ ہے کہ ساری انگلیاں بند رکھے اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کرے،
ان ساری صورتوں سے متعلق احادیث وارد ہیں،
جس طرح چاہے کرے،
سب جائز ہے،
لیکن یہ واضح رہے کہ یہ ساری صورتیں شروع تشہد ہی سے ہیں نہ کہ ((أَشْهَدُ أَنَّ لاَ إِلٰهَ إِلاَّ الله)) کہنے پر،
یا یہ کلمہ کہنے سے لیکر بعد تک،
کسی بھی حدیث میں یہ تحدید ثابت نہیں ہے،
یہ بعد کے لوگوں کا گھڑا ہوا عمل ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 294   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.