الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: تہجد کا بیان
The Book of Salat-Ut-Tahajjud (Night Prayer)
23. بَابُ الضِّجْعَةِ عَلَى الشِّقِّ الأَيْمَنِ بَعْدَ رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ:
23. باب: فجر کی سنتیں پڑھ کر داہنی کروٹ پر لیٹ جانا۔
(23) Chapter. To lie down on the right side after offering two Raka (Sunna) of the Fajr prayer.
حدیث نمبر: 1160
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يزيد، حدثنا سعيد بن ابي ايوب , قال: حدثني ابو الاسود، عن عروة بن الزبير، عن عائشة رضي الله عنها , قالت:" كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا صلى ركعتي الفجر اضطجع على شقه الايمن".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ , قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو الْأَسْوَدِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا , قَالَتْ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ اضْطَجَعَ عَلَى شِقِّهِ الْأَيْمَنِ".
ہم سے عبداللہ بن یزید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سعید بن ابی ایوب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابوالاسود محمد بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اور ان سے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے، انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی دو سنت رکعتیں پڑھنے کے بعد دائیں کروٹ پر لیٹ جاتے۔

Narrated `Aisha: The Prophet used to lie down on his right side, after offering two rak`at (Sunna) of the Fajr prayer.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 21, Number 257


   صحيح البخاري619عائشة بنت عبد اللهيصلي ركعتين خفيفتين بين النداء والإقامة من صلاة الصبح
   صحيح البخاري626عائشة بنت عبد اللهسكت المؤذن بالأولى من صلاة الفجر قام فركع ركعتين خفيفتين قبل صلاة الفجر بعد أن يستبين الفجر ثم اضطجع على شقه الأيمن حتى يأتيه المؤذن للإقامة
   صحيح البخاري1171عائشة بنت عبد اللهيخفف الركعتين اللتين قبل صلاة الصبح حتى إني لأقول هل قرأ بأم الكتاب
   صحيح البخاري1161عائشة بنت عبد اللهإذا صلى سنة الفجر فإن كنت مستيقظة حدثني وإلا اضطجع حتى يؤذن بالصلاة
   صحيح البخاري1160عائشة بنت عبد اللهإذا صلى ركعتي الفجر اضطجع على شقه الأيمن
   صحيح مسلم1683عائشة بنت عبد اللهكان يصلي ركعتين بين النداء والإقامة من صلاة الصبح
   صحيح مسلم1684عائشة بنت عبد اللهيصلي ركعتي الفجر فيخفف حتى إني أقول هل قرأ فيهما بأم القرآن
   صحيح مسلم1681عائشة بنت عبد اللهيصلي ركعتي الفجر إذا سمع الأذان ويخففهما
   صحيح مسلم1685عائشة بنت عبد اللهإذا طلع الفجر صلى ركعتين أقول هل يقرأ فيهما بفاتحة الكتاب
   صحيح مسلم1732عائشة بنت عبد اللهإذا صلى ركعتي الفجر فإن كنت مستيقظة حدثني وإلا اضطجع
   سنن أبي داود1263عائشة بنت عبد اللهإذا صلى ركعتي الفجر فإن كنت نائمة اضطجع وإن كنت مستيقظة حدثني
   سنن أبي داود1255عائشة بنت عبد اللهيخفف الركعتين قبل صلاة الفجر حتى إني لأقول هل قر
   سنن أبي داود1262عائشة بنت عبد اللهإذا قضى صلاته من آخر الليل نظر فإن كنت مستيقظة حدثني وإن كنت نائمة أيقظني وصلى الركعتين ثم اضطجع يأتيه المؤذن فيؤذنه بصلاة الصبح فيصلي ركعتين خفيفتين ثم يخرج إلى الصلاة
   سنن النسائى الصغرى947عائشة بنت عبد اللهيصلي ركعتي الفجر فيخففهما حتى أقول أقرأ فيهما بأم الكتاب
   سنن النسائى الصغرى1781عائشة بنت عبد اللهيصلي ركعتين خفيفتين بين النداء والإقامة من صلاة الفجر
   سنن النسائى الصغرى1763عائشة بنت عبد اللهإذا سكت المؤذن بالأولى من صلاة الفجر قام فركع ركعتين خفيفتين قبل صلاة الفجر بعد أن يتبين الفجر يضطجع على شقه الأيمن
   سنن ابن ماجه1198عائشة بنت عبد اللهإذا صلى ركعتي الفجر اضطجع على شقه الأيمن
   بلوغ المرام287عائشة بنت عبد اللهيخفف الركعتين اللتين قبل صلاة الصبح حتى إني اقول: اقرا بام الكتاب
   بلوغ المرام289عائشة بنت عبد اللهإذا صلى ركعتي الفجر اضطجع على شقه الايمن
   مسندالحميدي181عائشة بنت عبد اللهإن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليصلي ركعتي الفجر فأقول هل قرأ فيهما بفاتحة الكتاب من التخفيف؟

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 947  
´فجر کی دونوں رکعتیں ہلکی پڑھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فجر کی سنتیں پڑھتے دیکھتی، آپ انہیں اتنی ہلکی پڑھتے کہ میں (اپنے جی میں) کہتی تھی: کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں میں سورۃ فاتحہ پڑھی ہے (یا نہیں)۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 947]
947 ۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ مبالغہ ہے جس سے مقصود تخفیف ہے، نہ کہ انہیں شک تھا۔ خصوصاً رات کی نماز (تہجد) کے مقابلے میں تو یہ بہت ہی خفیف معلوم ہوتی ہوں گی، چنانچہ اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ فجر کی دو سنتیں ہلکی پڑھنا مستحب ہے۔
➋ مذکورہ قرأت سورۂ فاتحہ کے علاوہ ہے۔ یہ نہیں کہ صرف یہ آیات یا یہ سورتیں ہی پڑھتے تھے۔ سورۂ فاتحہ کے بارے میں تو آپ کا صریح فرمان ہے کہ جو فاتحہ نہ پڑھے، اس کی نماز نہیں ہوتی۔ [صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 756، و صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 874]

   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 947   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1198  
´وتر کے بعد اور فجر کی دو رکعت سنت کے بعد لیٹنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب فجر کی دو رکعت سنت پڑھ لیتے تو دائیں کروٹ لیٹ جاتے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1198]
اردو حاشہ:
فائده:
فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنا سنت ہے۔
لیکن نبی اکرمﷺ سے بعض اوقات نہ لیٹنا بھی ثابت ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہی سے مروی ہے۔
انھوں نے فرمایا نبی اکرمﷺ جب فجر کی سنتیں پڑھ لیتے تو اگر میں جاگ رہی ہوتی تو آپ مجھ سے بات چیت كرتے ورنہ لیٹ جائے حتیٰ کہ آپ کو نماز (کی اقامت ہوجانے)
کی اطلاع دی جاتی۔ (صحیح البخاري، التهجد، باب من تحدث بعدالرکعتین ولم یضطع، حدیث: 1161)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1198   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 287  
´نفل نماز کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر سے پہلے دو رکعت ہلکی پڑھتے تھے۔ میں خیال کرتی کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف «‏‏‏‏ام الكتاب» ‏‏‏‏ (سورۃ الفاتحہ) ہی پڑھی۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 287»
تخریج:
«أخرجه البخاري، التهجد، باب ما يقرأ في ركعتي الفجر، حديث:1171، ومسلم، صلاة المسافرين، باب استحباب ركعتي سنة الفجر، حديث:724.»
تشریح:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ صبح کی دو سنتیں مختصر اور ہلکی پڑھتے تھے۔
امام شافعی اور جمہور علماء رحمہما اللہ نے اسی بنا پر کہا ہے کہ ان دو رکعتوں میں مختصر قیام افضل ہے جبکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ان میں بھی لمبا قیام افضل قرار دیتے ہیں۔
لیکن یہ صحیح نہیں۔
ان کے دونوں شاگرد امام ابویوسف اور امام محمد رحمہما اللہ نے بھی ان کی مخالفت کی ہے۔
سورۂ فاتحہ کے علاوہ آپ چھوٹی سورتیں پڑھتے تھے جیسا کہ آئندہ حدیث میں ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 287   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1262  
´فجر کی سنت کے بعد لیٹنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب آخری رات میں اپنی نماز پوری کر چکتے تو اگر میں جاگ رہی ہوتی تو آپ مجھ سے گفتگو کرتے اور اگر سو رہی ہوتی تو مجھے جگا دیتے، اور دو رکعتیں پڑھتے پھر لیٹ جاتے، یہاں تک کہ آپ کے پاس مؤذن آتا اور آپ کو نماز فجر کی خبر دیتا تو آپ دو ہلکی سی رکعتیں پڑھتے، پھر نماز کے لیے نکل جاتے۔ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1262]
1262۔ اردو حاشیہ:
➊ اس حدیث میں وتروں کے بعد گفتگو کرنے اور دو رکعتیں پڑھ کر لیٹ جانے کا ذکر ہے۔ جس سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ فجر کی دو سنتوں کے بعد لیٹنا سنت نہیں ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو یوں ہی استرحت کے لیے لیٹ جاتے تھے، کبھی نماز تہجد کے بعد (جیسا کہ اس حدیث میں ہے) اور کبھی فجر کی سنتوں کے بعد۔ لیکن یہ استدلال اس لیے صحیح نہیں کہ اس حدیث میں گفتگو کرنے اور وتروں کے بعد لیٹنے والی بات محفوظ نہیں ہے یعنی ایک راوی کو وہم ہوا ہے، جب کہ دوسرے تمام راویوں نے لیٹنے کا ذکر سنتوں کے بعد ہی کیا ہے۔ اس لیے فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنے کو غیر مستحب قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ ملاحظہ ہو: [فتح الباري، باب من تحدث بعد الركعتين ولم يضطجع: 3/56]
علاوہ ازیں شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی فجر کی سنتوں سے پہلے لیٹنے اور گفتگو کرنے کو شاذ قرار دیا ہے۔ [ضعيف ابوداؤد]
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وتروں کے بعد دو رکعتیں نفل پڑھنا بھی جائز ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا ہے کہ تم وتر کو اپنی رات کی آخری نماز بناؤ۔ تو یہ حکم وجوب کے طور پر نہیں، استحباب کے طور پر ہے۔ [مرعاة المفاتيح]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1262   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1160  
1160. ام المومنین حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ جب صبح کی دو سنتیں پڑھ لیتے تو دائیں کروٹ لیٹ جاتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1160]
حدیث حاشیہ:
فجر کی سنت پڑھ کر تھوڑی دیر کے لیے دائیں کروٹ پر لیٹنا مسنون ہے، اس بارے میں کئی جگہ لکھا جا چکا ہے۔
یہاں حضرت امام بخاری ؒ نے اس کے متعلق یہ باب منعقد فرمایا ہے اور حدیث عائشہ ؓ سے صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت ﷺ فجر کی سنتوں کے بعد تھوڑی دیر کے لیے دائیں کروٹ پر لیٹا کرتے تھے۔
علامہ شوکانی نے اس بارے میں علماءکے چھ قول نقل کئے ہیں۔
المحدث الکبیر علامہ عبد الرحمن مبارکپوری ؒ فرماتے ہیں:
الْأَوَّلُ أَنَّهُ مَشْرُوعٌ عَلَى سَبِيلِ الِاسْتِحْبَابِ كَمَا حَكَاهُ التِّرْمِذِيُّ عَنْ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ وَهُوَ قَوْلُ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ وَرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ الْحَافِظُ بن الْقَيِّمِ فِي زَادِ الْمَعَادِ قَدْ ذَكَرَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ فِي الْمُصَنَّفِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ أَيُّوبَ عن بن سِيرِينَ أَنَّ أَبَا مُوسَى وَرَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ وَأَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ كَانُوا يَضْطَجِعُونَ بَعْدَ رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ وَيَأْمُرُونَ بِذَلِكَ وَقَالَ الْعِرَاقِيُّ مِمَّنْ كَانَ يَفْعَلُ ذَلِكَ أَوْ يُفْتِي بِهِ عَنِ الصَّحَابَةِ أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ وَرَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ وَأَنَسُ بْنُ مَالِكٍ وَأَبُو هُرَيْرَةَ انْتَهَى وَمَنْ قَالَ بِهِ مِنَ التَّابِعِينَ مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ وَعُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ كَمَا فِي شَرْحِ الْمُنْتَقَى وَقَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ عَلِيُّ بْنُ حَزْمٍ فِي الْمُحَلَّى وَذَكَرَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدٍ فِي كِتَابِ السَّبْعَةِ أَنَّهُمْ يَعْنِي سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ وَالْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ وَعُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ وَأَبَا بَكْرٍ هُوَ بن عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَخَارِجَةَ بْنَ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَعُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عُتْبَةَ بْنِ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ كَانُوا يَضْطَجِعُونَ عَلَى أَيْمَانِهِمْ بَيْنَ رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ وَصَلَاةِ الصُّبْحِ انْتَهَى وَمِمَّنْ قَالَ بِهِ مِنَ الْأَئِمَّةِ الشَّافِعِيُّ وَأَصْحَابُهُقَالَ الْعَيْنِيُّ فِي عمدة القارىء ذَهَبَ الشَّافِعِيُّ وَأَصْحَابُهُ إِلَى أَنَّهُ سُنَّةٌ انْتَهَى۔
(تحفة الأحوذي)
یعنی اس لیٹنے کے بارے میں پہلا قول یہ ہے کہ یہ مستحب ہے جیسا کہ امام ترمذی نے بعض اہل علم کا مسلک یہی نقل فرمایا ہے اور ابوموسی اشعری اور رافع بن خدیج اور انس بن مالک اور ابوہریرہ ؓ کا یہی عمل تھا، یہ سب سنت فجر کے بعد لیٹا کرتے اورلوگوں کو بھی اس کاحکم فرمایاکرتے تھے جیسا کہ علامہ ابن قیم ؒ نے زاد المعاد میں نقل فرمایا ہے اور علامہ عراقی نے ان جملہ مذکورہ صحابہ کے نام لکھے ہیں کہ یہ اس کے لیے فتوی دیاکرتے تھے، تابعین میں سے محمد بن سیرین اور عروہ بن زبیر کا بھی یہی عمل تھا۔
جیسا کہ شرح منتقیٰ میں ہے اور علامہ ابن حزم نے محلّی میں نقل فرمایا ہے کہ سعید بن مسیب، قاسم بن محمد بن ابی بکر، عروہ بن زبیر، ابو بکر بن عبدالرحمن، خارجہ بن زید بن ثابت اور عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن سلیمان بن یسار، ان جملہ اجلہ تابعین کا یہی مسلک تھا کہ یہ فجر کی سنتیں پڑھ کر دائیں کروٹ پر لیٹا کرتے تھے۔
امام شافعی اوران کے شاگردوں کا بھی یہی مسلک ہے کہ یہ لیٹنا سنت ہے۔
اس بارے میں دوسرا قول علامہ ابن حزم کا ہے جو اس لیٹنے کو واجب کہتے ہیں۔
اس بارے میں علامہ عبد الرحمن مبارکپوری ؒ فرماتے ہیں:
قُلْتُ قَدْ عَرَفْتَ أَنَّ الْأَمْرَ الْوَارِدَ فِي حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ مَحْمُولٌ عَلَى الِاسْتِحْبَابِ لِأَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ يُدَاوِمُ عَلَى الِاضْطِجَاعِ فَلَا يَكُونُ وَاجِبًا فَضْلًا عَنْ أَنْ يَكُونَ شَرْطًا لِصِحَّةِ صَلَاةِ الصُّبْحِ۔
یعنی حدیث ابوہریرہ ؓ میں اس بارے میں جو بصیغہ امر وارد ہوا ہے کہ جوشخص فجر کی سنتوں کو پڑھے اس کو چاہیے کہ اپنی دائیں کروٹ پر لیٹے۔
(رواہ الترمذي)
یہ امر استحباب کے لیے ہے۔
اس لیے کہ آنحضرت ﷺ سے اس پر مداومت منقول نہیں ہے بلکہ ترک بھی منقول ہے۔
پس یہ بایں طور واجب نہ ہوگا کہ نماز صبح کی صحت کے لیے یہ شرط ہو۔
بعض بزرگوں سے اس کا انکار بھی ثابت ہے مگر صحیح حدیثوں کے مقابلے پر ایسے بزرگوں کا قول قابل حجت نہیں ہے۔
اتباع رسول کریم ﷺ بہر حال مقدم اور موجب اجر وثواب ہے۔
پچھلے صفحات میں علامہ انورشاہ دیوبندی مرحوم کا قول بھی اس بارے میں نقل کیا جا چکاہے۔
بحث کے خاتمہ پر علامہ عبد الرحمن مبارکپوری ؒ فرماتے ہیں۔
والقول الراجح المعمول علیه ھو أن الاضطجاع بعد سنة الفجر مشروع علی طریق الاستحباب واللہ تعالی أعلم۔
یعنی قول راجح یہی ہے کہ یہ لیٹنا بطور استحباب مشروع ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1160   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1160  
1160. ام المومنین حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ جب صبح کی دو سنتیں پڑھ لیتے تو دائیں کروٹ لیٹ جاتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1160]
حدیث حاشیہ:
(1)
صبح کی دو سنت کے بعد لیٹنے کے متعلق افراط و تفریط پایا جاتا ہے۔
بعض کہتے ہیں کہ دائیں کروٹ پر لیٹنا ضروری ہے اور صحت نماز کی شرط ہے۔
جیسا کہ امام ابن حزم ؒ نے محلیٰ میں لکھا ہے، کیونکہ اس سلسلے میں امر نبوی وارد ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
تم میں سے جو کوئی صبح کی دو سنت پڑھے تو اسے چاہیے کہ دائیں کروٹ لیٹے۔
(سنن أبي داود، التطوع، حدیث: 1281)
ابراہیم نخعی ؒ نے اسے شیطان کا لیٹنا قرار دیا ہے۔
جیسا کہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے۔
(فتح الباري: 57/3)
امام بخاری ؒ نے اس کی مشروعیت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ عمل مبارک ہے اور اس سلسلے میں جو امر وارد ہے وہ وجوب کے لیے نہیں بلکہ استحباب کے لیے ہے کیونکہ بعض اوقات آپ نے اس پر عمل نہیں بھی کیا۔
جیسا کہ آئندہ حدیث سے واضح ہو گا۔
(2)
لیٹنے کے دوران میں جو دعا پڑھی جاتی ہے وہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1160   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.