الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: نماز استسقاء کے احکام ومسائل
The Book Of The Prayer For Rain (Kitab al-Istisqa)
3. باب رَفْعِ الْيَدَيْنِ فِي الاِسْتِسْقَاءِ
3. باب: نماز استسقا میں دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کا بیان۔
Chapter: Raising The Hands During Istisqa’.
حدیث نمبر: 1170
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا نصر بن علي، اخبرنا يزيد بن زريع، حدثنا سعيد، عن قتادة، عن انس، ان النبي صلى الله عليه وسلم" كان لا يرفع يديه في شيء من الدعاء إلا في الاستسقاء، فإنه كان يرفع يديه حتى يرى بياض إبطيه".
(مرفوع) حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ لَا يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي شَيْءٍ مِنَ الدُّعَاءِ إِلَّا فِي الِاسْتِسْقَاءِ، فَإِنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُرَى بَيَاضُ إِبِطَيْهِ".
انس رضی اللہ عنہ وہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم استسقا کے علاوہ کسی دعا میں (اتنا) ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے (اس موقعہ پر) آپ اپنے دونوں ہاتھ اتنا اٹھاتے کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھی جا سکتی تھی ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الاستسقاء 22 (1031)، والمناقب 23 (3565)، والدعوات 23 (6341)، صحیح مسلم/الاستسقاء 1 (895)، سنن النسائی/الاستسقاء 9 (1512)، وقیام اللیل 52 (1749)، سنن ابن ماجہ/إقامة 118 (1180)، (تحفة الأشراف: 1168)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/181، 282)، سنن الدارمی/الصلاة 189 (1543) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یہ روایت ان بہت سی روایتوں کے معارض ہے جن سے استسقا کے علاوہ بھی بہت سی جگہوں پر دعا میں دونوں ہاتھوں کا اٹھانا ثابت ہے، لہٰذا اولیٰ یہ ہے کہ انس رضی اللہ عنہ کی اس روایت کو اس بات پر محمول کیا جائے کہ آپ نے جو نفی کی ہے وہ اپنے علم کی حد تک کی ہے، جس سے دوسروں کے علم کی نفی لازم نہیں آتی، یا یہ کہا جائے کہ اس میں ہاتھ زیادہ اٹھانے (رفع بلیغ) کی نفی ہے، یعنی دوسری دعاؤں میں آپ ہاتھ اتنا اونچا نہیں اٹھاتے تھے جتنا استسقا میں اٹھاتے تھے «حتى رأيت بياض إبطيه» کے ٹکڑے سے اس قول کی تائید ہو رہی ہے۔

Narrated Anas: The Prophet ﷺ was not accustomed to raise his hands in any supplication he made except when praying for rain. He would then raise them high enough so much so that the whiteness of his armpits was visible.
USC-MSA web (English) Reference: Book 3 , Number 1166


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (3565) صحيح مسلم (896)

   صحيح البخاري1019أنس بن مالكاللهم على ظهور الجبال والآكام وبطون الأودية ومنابت الشجر فانجابت عن المدينة انجياب الثوب
   صحيح البخاري6093أنس بن مالكاللهم حوالينا ولا علينا مرتين أو ثلاثا فجعل السحاب يتصدع عن المدينة يمينا وشمالا يمطر ما حوالينا ولا يمطر منها شيء يريهم الله كرامة نبيه وإجابة دعوته
   صحيح البخاري6342أنس بن مالكادع الله أن يسقينا فتغيمت السماء ومطرنا حتى ما كاد الرجل يصل إلى منزله فلم تزل تمطر إلى الجمعة المقبلة فقام ذلك الرجل أو غيره فقال ادع الله أن يصرفه عنا فقد غرقنا فقال اللهم حوالي
   صحيح البخاري932أنس بن مالكيخطب يوم الجمعة إذ قام رجل فقال يا رسول الله هلك الكراع وهلك الشاء فادع الله أن يسقينا فمد يديه ودعا
   صحيح البخاري1031أنس بن مالكلا يرفع يديه في شيء من دعائه إلا في الاستسقاء يرفع حتى يرى بياض إبطيه
   صحيح البخاري1013أنس بن مالكاللهم حوالينا ولا علينا اللهم على الآكام والجبال و
   صحيح البخاري1015أنس بن مالكاللهم حوالينا ولا علينا قال فلقد رأيت السحاب يتق
   صحيح البخاري1016أنس بن مالكاللهم على الآكام والظراب والأودية ومنابت الشجر فانجابت عن المدينة انجياب الثوب
   صحيح البخاري1014أنس بن مالكاللهم حوالينا ولا علينا اللهم على الآكام والظراب وبطون الأودية ومنابت الشجر
   صحيح البخاري1018أنس بن مالكدعا الله يستسقي ولم يذكر أنه حول رداءه ولا استقبل القبلة
   صحيح البخاري3565أنس بن مالكلا يرفع يديه في شيء من دعائه إلا في الاستسقاء رفع يديه حتى يرى بياض إبطيه
   صحيح البخاري1021أنس بن مالكاللهم اسقنا مرتين وايم الله ما نرى في السماء قزعة من سحاب فنشأت سحابة وأمطرت ونزل عن المنبر فصلى فلما انصرف لم تزل تمطر إلى الجمعة التي تليها فلما قام النبي يخطب صاحوا إليه تهدمت البيوت وانقطعت السبل فادع الله يحبسها عنا فتبسم النبي صلى
   صحيح البخاري1033أنس بن مالكثار سحاب أمثال الجبال ثم لم ينزل عن منبره حتى رأيت المطر يتحادر على لحيته قال فمطرنا يومنا ذلك وفي الغد ومن بعد الغد والذي يليه إلى الجمعة الأخرى فقام ذلك الأعرابي أو رجل غيره فقال يا رسول الله تهدم البناء وغرق المال فادع الله لنا فرفع رسول الله صلى الله
   صحيح البخاري3582أنس بن مالكهلكت الكراع هلكت الشاء فادع الله يسقينا فمد يديه ودعا قال أنس وإن السماء لمثل الزجاجة فهاجت ريح أنشأت سحابا ثم اجتمع ثم أرسلت السماء عزاليها فخرجنا نخوض الماء حتى أتينا منازلنا فلم نزل نمطر إلى الجمعة الأخرى فقام إليه ذلك الرجل أو غيره فقال يا رسول الله
   صحيح البخاري1017أنس بن مالكاللهم على رءوس الجبال والآكام وبطون الأودية ومنابت الشجر فانجابت عن المدينة انجياب الثوب
   صحيح مسلم2075أنس بن مالكاستسقى فأشار بظهر كفيه إلى السماء
   صحيح مسلم2076أنس بن مالكيرفع يديه في شيء من دعائه إلا في الاستسقاء حتى يرى بياض إبطيه
   صحيح مسلم2078أنس بن مالكاللهم أغثنا اللهم أغثنا اللهم أغثنا
   سنن أبي داود1171أنس بن مالكيستسقي هكذا يعني ومد يديه وجعل بطونهما مما يلي الأرض رأيت بياض إبطيه
   سنن أبي داود1170أنس بن مالكلا يرفع يديه في شيء من الدعاء إلا في الاستسقاء يرفع يديه حتى يرى بياض إبطيه
   سنن أبي داود1174أنس بن مالكأصاب أهل المدينة قحط على عهد رسول الله فبينما هو يخطبنا يوم جمعة إذ قام رجل فقال يا رسول الله هلك الكراع هلك الشاء فادع الله أن يسقينا فمد يديه ودعا
   سنن النسائى الصغرى1514أنس بن مالكلا يرفع يديه في شيء من الدعاء إلا في الاستسقاء يرفع يديه حتى يرى بياض إبطيه
   سنن النسائى الصغرى1516أنس بن مالكاللهم اسقنا فوالله ما نزل رسول الله صلى الله عليه
   سنن النسائى الصغرى1518أنس بن مالكاللهم اسقنا اللهم اسقنا قال وايم الله ما نرى في السماء قزعة من سحاب قال فأنشأت سحابة فانتشرت ثم إنها أمطرت ونزل رسول الله فصلى وانصرف الناس فلم تزل تمطر إلى يوم الجمعة الأخرى فلما قام رسول الله يخطب صاحوا إليه فقا
   سنن النسائى الصغرى1517أنس بن مالكاللهم اسقنا
   سنن النسائى الصغرى1505أنس بن مالكاللهم على رءوس الجبال والآكام وبطون الأودية ومنابت الشجر فانجابت عن المدينة انجياب الثوب
   سنن النسائى الصغرى1749أنس بن مالكلا يرفع يديه في شيء من دعائه إلا في الاستسقاء
   سنن النسائى الصغرى1529أنس بن مالكاللهم حوالينا ولا علينا
   سنن النسائى الصغرى1519أنس بن مالكاللهم أغثنا اللهم أغثنا
   سنن ابن ماجه1180أنس بن مالكلا يرفع يديه في شيء من دعائه إلا عند الاستسقاء يرفع يديه حتى يرى بياض إبطيه
   بلوغ المرام408أنس بن مالك اللهم أغثنا اللهم أغثنا
   المعجم الصغير للطبراني336أنس بن مالك اللهم اسقنا ، فقال أبو لبابة بن عبد المنذر : يا رسول الله ، إن التمر فى المرابد ، فقال : اللهم اسقنا حتى يقوم أبو لبابة عريانا ، فيسد ثعلب مربده بإزاره ، وما يرى فى السماء سحاب فأمطرت ، فاجتمعوا إلى أبى لبابة ، فقالوا : إنها لن تقلع حتى تقوم عريانا ، فتسد ثعلب مربدك ، كما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ، ففعل ، فأصحت السماء

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1170  
´نماز استسقا میں دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ وہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم استسقا کے علاوہ کسی دعا میں (اتنا) ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے (اس موقعہ پر) آپ اپنے دونوں ہاتھ اتنا اٹھاتے کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھی جا سکتی تھی ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1170]
1170۔ اردو حاشیہ:
دعا کے آداب میں سے ایک یہ ہے کہ ہاتھ اٹھا کر دعا کی جائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن مواقع پر ہاتھ اٹھا کر دعا کی ہے، ان میں ایک استسقاء کا موقع ہے بلکہ اس موقع پر تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھانے میں مبالغے سے کام لیا یعنی خوب ہاتھ اٹھائے جیسا کہ اگلی روایت میں صراحت ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1170   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1171  
´نماز استسقا میں دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم استسقا میں اس طرح دعا کرتے تھے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھ پھیلاتے اور ان کی پشت اوپر رکھتے اور ہتھیلی زمین کی طرف یہاں تک کہ میں نے آپ کے بغلوں کی سفیدی دیکھی۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1171]
1171۔ اردو حاشیہ:
استسقاء میں الٹے ہاتھوں سے دعا کرنا نیک فال کے طور پر ہے اور مستحب عمل ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1171   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1174  
´نماز استسقا میں دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اہل مدینہ قحط میں مبتلا ہوئے، اسی دوران کہ آپ جمعہ کے دن ہمیں خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص کھڑا ہو اور عرض کیا کہ اللہ کے رسول! گھوڑے مر گئے، بکریاں ہلاک ہو گئیں، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ ہمیں سیراب کرے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کو پھیلایا اور دعا کی۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اس وقت آسمان آئینہ کی طرح صاف تھا، اتنے میں ہوا چلنے لگی پھر بدلی اٹھی اور گھنی ہو گئی پھر آسمان نے اپنا دہانہ کھول دیا، پھر جب ہم (نماز پڑھ کر) واپس ہونے لگے تو پانی میں ہو کر اپنے گھروں کو گئے اور آنے والے دوسرے جمعہ تک برابر بارش کا سلسلہ جاری رہا، پھر وہی شخص یا دوسرا کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! گھر گر گئے، اللہ سے دعا کیجئے کہ وہ بارش بند کر دے، (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے پھر فرمایا: اے اللہ! تو ہمارے اردگرد بارش نازل فرما اور ہم پر نہ نازل فرما۔‏‏‏‏ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تو میں نے بادل کو دیکھا وہ مدینہ کے اردگرد سے چھٹ رہا تھا گویا وہ تاج ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1174]
1174۔ اردو حاشیہ:
➊ جمعہ میں استسقاء کی دعا کرنا بالکل بجا اور سنت ہے۔
➋ استسقاء یا دیگر اجتماعی امور کے لئے اثنائے خطبہ اجتماعی طور پر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا جائز ہے۔ [صحيح بخاري، حديث: 1029]
➌ انسان ازحد کمزور پیدا کیا گیا ہے، نہ خشکی و گرمی برداشت کر سکتا ہے، نہ بارش و پانی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1174   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1180  
´دعائے قنوت میں ہاتھ نہ اٹھانے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کسی بھی دعا میں اپنے ہاتھ (مبالغہ کے ساتھ) نہیں اٹھاتے تھے، البتہ آپ استسقاء میں اپنے ہاتھ اتنا اوپر اٹھاتے کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی دکھائی دیتی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1180]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے یہ دلیل لی ہے کہ دعائے قنوت میں ہاتھ نہ اُٹھائے جایئں لیکن سنن بیہقی میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قنوت میں ہاتھ اُٹھانا مذکور ہے۔ (السنن الکبريٰ للبہیقي: 211/2)
بعض دیگراحادیث میں اور مواقع پر ہاتھ اُٹھا کر دعا کرنا وارد ہے۔
دیکھئے: (صحیح مسلم، الجھاد، باب المداد بالملائکۃ فی غزوۃ بدر واباحة الغنائم، حدیث: 1763، وصحیح البخاري، الحج، باب إذا رمي الجمرتین۔
۔
۔
، حدیث: 1751)

اس لئے اس حدیث کا مطلب یہ ہوگا کہ بارش کی دعا میں ہاتھ زیادہ بلند کرتے تھے۔
جب کہ دوسری اوقات میں اس طرح ہاتھ بلند نہیں کیے۔
بلکہ کم بلند کئے۔

(2)
دعائے قنوت وتر میں نبی کریمﷺ نے ہاتھ اُٹھائے یا نہیں؟ اس کی بابت کوئی صراحت نہیں ہے البتہ دعائے قنوت نازلہ میں (جو رکوع کے بعد آپ نے مانگی ہے)
آپ ﷺ کا ہاتھ اُٹھانا ثابت ہے۔
اس لئے اس پر قیاس کرتے ہوئے دعا قنوت میں وتر میں بھی ہاتھ اُٹھانے صحیح ہوں گے۔
علاوہ ازیں بعض صحابہ رضوان للہ عنہم اجمعین سےدعائے قنوت وتر میں ہاتھ اُٹھانے ک اثبوت ملتا ہے۔
اس لئے ہاتھ اُٹھا کردعائے قنوت پڑھنا بہتر ہے گوجواز بغیر ہاتھ اُٹھائے بھی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1180   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 408  
´نماز استسقاء کا بیان`
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی جمعہ کے روز مسجد میں داخل ہوا، اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، وہ بولا یا رسول اللہ! اموال (مویشی) ہلاک ہو گئے اور آمدورفت کے راستے بند ہو گئے ہیں۔ اللہ کے حضور دعا فرمائیں کہ وہ ہم پر بارش نازل فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت اپنے ہاتھ اوپر اٹھائے اور دعا فرمائی۔ «‏‏‏‏اللهم أغثنا اللهم أغثنا» ‏‏‏‏ یا الٰہی! بارش سے ہماری فریاد رسی فرما۔ یا الٰہی! باران رحمت سے ہماری فریاد رسی فرما۔ ساری حدیث بیان فرمائی۔ اس میں بارش کے بند کروانے کی دعا کا بھی ذکر ہے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 408»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الاستسقاء، باب الاستسقاء في المسجد الجامع، حديث:1013، ومسلم، صلاة الاستسقاء، باب الدعاء في الاستسقاء، حديث:897.»
تشریح:
1. اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ انبیائے کرام علیہم السلام بلکہ خاتم الانبیاء والمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہر چیز اللہ رب العالمین سے براہ راست طلب فرماتے تھے۔
بیچ میں کسی کو واسطہ یا ذریعہ بنانا صحیح نہیں سمجھتے تھے‘ ورنہ نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ابوالانبیاء یا ابوالبشر یا کسی دوسرے اولوالعزم پیغمبر کا واسطہ دے کر بارش طلب فرماتے۔
2.اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بھی یہی سمجھتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ازخود نہیں بلکہ اللہ کے حضور استدعا کرتے ہیں کہ وہ بارش برسا کر لوگوں کو قحط سالی سے نجات دے۔
3.یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مَاکَانَ وَمَا یَکُونُکا علم بھی نہیں رکھتے تھے‘ ورنہ انھیں معلوم ہوتا کہ قحط سالی کی وجہ سے بیرون شہر لوگوں کا کیا حال ہے۔
اس آدمی کے بتانے پر معلوم ہوا۔
4.وہ آدمی کون تھا‘ اس میں اختلاف ہے۔
کسی نے حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا نام لیا ہے‘ حالانکہ وہ اس وقت دائرۂ اسلام میں داخل ہی نہیں ہوئے تھے۔
انداز گفتگو اور طرزکلام سے محسوس ہوتا ہے کہ سائل یقینا کوئی مسلمان تھا ورنہ آج کل کے نام نہاد مسلمانوں کی طرح آپ کو مشکل کشا سمجھ کر آپ ہی سے درخواست کرتا کہ اے اللہ کے رسول! ہمیں قحط سالی کی مصیبت سے نجات دلا۔
بعض نے کہا: اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے بارش کے لیے صرف دعا ہی فرمائی ہے نماز نہیں پڑھی۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے غالباً اسی سے استدلال کیا ہے کہ استسقا کے لیے صرف دعا کرنا سنت ہے۔
مگر دوسری احادیث سے نماز استسقا پڑھنا بھی ثابت ہے۔
5. اس سلسلے کی تمام روایات کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بارش کے لیے چھ طرح مختلف اوقات میں دعا کی ہے: ٭ ایک دفعہ تو آپ لوگوں کو عیدگاہ میں لے گئے‘ نماز پڑھائی‘ خطبہ بھی دیا اور دعا بھی فرمائی۔
(سنن أبي داود‘ صلاۃ الاستسقاء‘ حدیث:۱۱۷۳) ٭ ایک دفعہ خطبۂجمعہ کے دوران ہی میں منبر پر کھڑے کھڑے صرف دعا فرمائی۔
(صحیح البخاري‘ الاستسقاء‘ حدیث: ۱۰۱۴) ٭ ایک مرتبہ آپ نے باقاعدہ منبر منگوایا‘ اس پر بیٹھ کر مختصر خطبہ ارشاد فرمایا‘ دعا کی‘ پھر دو رکعت نماز بھی پڑھائی۔
(سنن ابن ماجہ‘ حدیث:۱۲۷۰) ٭ ایک مرتبہ مسجد میں تشریف فرما تھے کہ آپ نے دعا کی۔
(سنن أبي داود‘ حدیث:۱۱۶۹) ٭ ایک دفعہ مسجد سے باہر نکل کر زوراء کے قریب احجار الزیت مقام میں جا کر دعا فرمائی۔
(سنن أبي داود‘ حدیث:۱۱۶۸) ٭ اور ایک دفعہ کسی جنگ کے دوران میں بارش کے لیے دعا فرمائی۔
ہر دفعہ اللہ تعالیٰ نے دعا قبول فرمائی۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (زاد المعاد بتخریج شعیب الأرنؤوط و عبدالقادر الأرنؤوط: ۱ / ۴۳۹. ۴۴۴)
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 408   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.