الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
Establishing the Prayer and the Sunnah Regarding Them
122. . بَابُ : مَنْ نَامَ عَنْ وِتْرٍ أَوْ نَسِيَهُ
122. باب: سو جانے یا بھولنے کی وجہ سے وتر فوت ہو جائے تو کیا کرے؟
حدیث نمبر: 1188
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو مصعب احمد بن ابي بكر المديني ، وسويد بن سعيد ، قال: حدثنا عبد الرحمن بن زيد بن اسلم ، عن ابيه ، عن عطاء بن يسار ، عن ابي سعيد عن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من نام عن الوتر او نسيه، فليصل إذا اصبح او ذكره".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ أَحْمَدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمَدِينِيُّ ، وَسُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنُ أَبِي سَعِيدٍ عن أبي هريرة قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ نَامَ عَنِ الْوِتْرِ أَوْ نَسِيَهُ، فَلْيُصَلِّ إِذَا أَصْبَحَ أَوْ ذَكَرَهُ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو نماز وتر سے سو جائے، یا اسے بھول جائے، تو صبح کے وقت یا جب یاد آ جائے پڑھ لے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الصلاة 341 (1431)، سنن الترمذی/الصلاة 225 (465، 466)، (تحفة الأشراف: 4168)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/31، 44) (صحیح)» ‏‏‏‏

It was narrated that Abu Sa’eed said: “The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘Whoever sleeps and misses Witr, or forgets it, let him pray it when morning comes, or when he remembers.’”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

   جامع الترمذي465سعد بن مالكمن نام عن الوتر أو نسيه فليصل إذا ذكر وإذا استيقظ
   سنن أبي داود1431سعد بن مالكمن نام عن وتره أو نسيه فليصله إذا ذكره
   سنن ابن ماجه1188سعد بن مالكمن نام عن الوتر أو نسيه فليصل إذا أصبح أو ذكره
   بلوغ المرام307سعد بن مالك من نام عن الوتر أو نسيه فليصل إذا أصبح أو ذكر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1188  
´سو جانے یا بھولنے کی وجہ سے وتر فوت ہو جائے تو کیا کرے؟`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو نماز وتر سے سو جائے، یا اسے بھول جائے، تو صبح کے وقت یا جب یاد آ جائے پڑھ لے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1188]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
اس حدیث میں نماز وتر کی اہمیت کا اثبات ہے۔
اگر وہ سوئے رہ جانے سے یا بھول جانے کی وجہ سے رہ جائے تو یاد آنے اور جاگنے کے بعد اسے پڑھ لے۔
اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وتر کی قضا بھی ضروری ہے۔
اور اس حدیث کی رو سے اسے فجر کی نماز سے پہلے یا فجر کی نماز کے بعد پڑھ لیا جائے۔
کیونکہ مکروہ اوقات میں قضا شدہ نماز کی قضا جائز ہے۔
ایک دوسری رائے اس سلسلے میں یہ ہے کہ وتر اپنے وقت میں پڑھے نہ جا سکیں تو پھر انھیں پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں اس موقف کی تایئد میں بھی بعض روایات آتی ہیں۔
لیکن بعض علماء کے نزدیک یہ حکم ان لوگوں کے لئے ہے۔
جو عمداً وتر چھوڑ دیں۔
دیکھئے: (حاشہ ترمذی احمد محمد شاکر 333/2)
اور بعض روایات میں نبی کریمﷺ کا یہ عمل بیان ہوا ہے کہ اگر نیند یا بیماری کی وجہ سےآپ کا قیام اللیل رہ جاتا تو آپ سورج نکلنے کے بعد بارہ رکعت پڑھتے۔
دیکھئے: (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب: 18، حدیث: 746)
اس حدیث سے استدلا ل کرتے ہوئے اکثر علماء کی رائے یہ ہے کہ جس کے وتر رہ جایئں تو وہ سورج نکلنے کے بعد اس کی قضا جفت کی شکل میں دے۔
یعنی ایک وتر کی جگہ دو رکعت تین وتر کی جگہ چار رکعت پرھے۔
لیکن ہمارے خیال میں ایسااس شخص کے لئے ضروری ہوگا جو قیام اللیل (نماز تہجد)
کاعادی ہو عام شخص کے لئے وتروں کی قضا وتر ہی شکل میں مناسب معلو م ہوتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1188   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 307  
´نفل نماز کا بیان`
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو سو جائے بغیر وتر پڑھے یا اسے یاد نہ رہے ہوں تو اسے چاہیئے کہ صبح کے وقت پڑھ لے یا پھر جب اسے یاد آئے۔
اسے نسائی کے علاوہ پانچوں نے روایت کیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 307»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الصلاة، باب في الدعاء بعد الوتر، حديث:1431، والترمذي، الوتر، حديث:465، وابن ماجه، إقامة الصلوات، حديث:1188، وأحمد:3 /31.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب وتر کسی طرح پڑھنے سے رہ جائیں تو انھیں بہرصورت پڑھنا چاہیے۔
اس سے نماز وتر کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔
وتروں کی قضا سے متعلق دیکھیے‘ حدیث: ۳۰۰۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 307   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 465  
´وتر پڑھے بغیر سو جانے یا وتر کے بھول جانے کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو وتر پڑھے بغیر سو جائے، یا اسے پڑھنا بھول جائے تو جب یاد آئے یا جاگے پڑھ لے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/أبواب الوتر​/حدیث: 465]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سند میں عبدالرحمن بن زید بن اسلم متکلم فیہ راوی ہیں لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 465   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1431  
´وتر کے بعد کی دعا کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص وتر پڑھے بغیر سو جائے یا اسے پڑھنا بھول جائے تو جب بھی یاد آ جائے اسے پڑھ لے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1431]
1431. اردو حاشیہ: یہ حدیث اس باب سے متعلق نہیں ہے۔ شاید یہاں باب اور اس کا عنوان سہواً رہ گیا ہے (عون المعبود) بہرحال اس حدیث میں وتر کی اہمیت کا اثبات ہے۔ کہ اگر وہ سوتے رہ جانے سے یا بھول جانے کی وجہ سے رہ جائے۔ تو یاد آنے اور جاگنے کے بعد اسے پڑھ لے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وتر کی قضا بھی ضروری ہے۔ اور اس حدیث کی رو سے اسے فجر کی نماز سے پہلے یا نماز فجر کے بعد پڑھ لیا جائے۔ کیونکہ مکروہ اوقات میں قضا شدہ نماز کی قضا جائز ہے۔ ایک دوسری رائے اس سلسلے میں یہ ہے کہ وتر اپنے وقت میں نہ پڑھے جاسکیں۔ تو پھر انہیں پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اس موقف کی تایئد میں بھی بعض روایات آتی ہیں۔ لیکن بعض علماء کے نزدیک یہ حکم ان لوگوں کےلئے ہے۔ جو عمداً وتر چھوڑ دیں۔ دیکھئے۔ [حاشیة ترمذی۔ أحمد محمد شاکر: ج2، ص: 333]
اور بعض روایات میں نبی کریمﷺ کا یہ عمل بیان ہوا ہے۔ کہ اگر کبھی نیند یا بیماری کی وجہ سے آپ کا قیام الیل رہ جاتا تو آپ سورج نکلنے کے بعد بارہ رکعت پڑھتے۔ دیکھئے۔ [صحیح مسلم، صلاة المسافرین۔ باب: 18، حدیث: 746]
اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے اکثر علماء کی رائے یہ ہے۔ کہ جس کے وتر رہ جایئں۔ تو وہ سورج نکلنے کے بعد اس کی قضاء جفت کی شکل میں دے۔ یعنی ایک وتر کی جگہ د و رکعت تین وتر کی جگہ چار رکعت پڑھے۔ لیکن ہمارے خیال میں ایسا شخص کے لئے ضروری ہوگا۔جو قیام اللیل (نماز تہجد) کا عادی ہوگا۔ عام وتروں کی قضا وتر ہی کی شکل میں مناسب معلوم ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1431   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.