الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام
The Book of Mosques and Places of Prayer
7. باب تَحْرِيمِ الْكَلاَمِ فِي الصَّلاَةِ وَنَسْخِ مَا كَانَ مِنْ إِبَاحَتِهِ:
7. باب: نماز میں باتیں کرنا حرام ہے۔
حدیث نمبر: 1201
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وزهير بن حرب ، وابن نمير وابو سعيد الاشج والفاظهم متقاربة، قالوا: حدثنا ابن فضيل ، حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، عن عبد الله ، قال: كنا نسلم على رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو في الصلاة، فيرد علينا، فلما رجعنا من عند النجاشي، سلمنا عليه، فلم يرد علينا، فقلنا: يا رسول الله كنا نسلم عليك في الصلاة، فترد علينا؟ فقال: " إن في الصلاة شغلا ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ وَأبو سعيد الأشج وألفاظهم متقاربة، قَالُوا: حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كُنَّا نُسَلِّمُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ، فَيَرُدُّ عَلَيْنَا، فَلَمَّا رَجَعْنَا مِنْ عِنْدِ النَّجَاشِيِّ، سَلَّمْنَا عَلَيْهِ، فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْنَا، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ كُنَّا نُسَلِّمُ عَلَيْكَ فِي الصَّلَاةِ، فَتَرُدُّ عَلَيْنَا؟ فَقَالَ: " إِنَّ فِي الصَّلَاةِ شُغْلًا ".
ابن فضیل نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں اعمش نے ابراہیم سے حدیث سنائی، انھوں نے علقمہ سے اور انھوں نے حضرت عبدااللہ (بن مسعود) رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو، جب آب نماز میں ہوتے تھے سلام کہا کرتے تھے اور آپ ہمار ے سلام کا جواب دیتے تھے جب ہم نجاشی کے ہاں سے واپس آئے، ہم نے آپ کو (نماز میں) سلام کہا تو آپ نے ہمیں جواب نہ دیا۔ہم نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! ہم نماز میں آپ کو سلام کہا کرتے تھے اور آ پ ہمیں جواب دیا کرتے تھے۔آپ نے فرمایا: نماز میں (اس کی اپنی) مشغولیت ہوتی ہے۔
حضرت عبداللّٰہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہا کرتے تھے جبکہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھ رہے ہوتے تھے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سلام کو جواب دیتے تھے، جب ہم نجاشی کے ہاں سے واپس آئے، ہم نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو (نماز میں) سلام کہا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جواب نہ دیا تو ہم نے آپصلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، اے اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ہم نماز میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہا کرتے تھے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم ہمیں جواب دیا کرتے تھے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز خود ایک مشغولیت رکھتی ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 538

   صحيح البخاري3875عبد الله بن مسعودفي الصلاة شغلا
   صحيح البخاري1199عبد الله بن مسعودفي الصلاة شغلا
   صحيح البخاري1216عبد الله بن مسعودفي الصلاة لشغلا
   صحيح مسلم1201عبد الله بن مسعودفي الصلاة شغلا
   سنن أبي داود923عبد الله بن مسعودفي الصلاة لشغلا
   مسندالحميدي94عبد الله بن مسعودإن الله قد يحدث من أمره ما يشاء، وإنه مما أحدث أن لا تكلموا في الصلاة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1216  
´نماز میں زبان سے سلام کا جواب لوٹانا منسوخ ہے`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ:" كُنْتُ أُسَلِّمُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ فَيَرُدُّ عَلَيَّ، فَلَمَّا رَجَعْنَا سَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ وَقَالَ: إِنَّ فِي الصَّلَاةِ لَشُغْلًا . . .»
. . . عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ (ابتداء اسلام میں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں ہوتے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواب دیتے تھے۔ مگر جب ہم (حبشہ سے جہاں ہجرت کی تھی) واپس آئے تو میں نے (پہلے کی طرح نماز میں) سلام کیا۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا (کیونکہ اب نماز میں بات چیت وغیرہ کی ممانعت نازل ہو گئی تھی) اور فرمایا کہ نماز میں اس سے مشغولیت ہوتی ہے . . . [صحيح البخاري/كتاب العمل في الصلاة: 1216]

فقہ الحدیث
↰ یہ حدیث دلیل ہے کہ نماز میں زبان سے سلام کا جواب لوٹانا منسوخ ہے، اس سے ہاتھ کے اشارے سے سلام کا جواب لوٹانے کی نفی نہیں ہوتی، بلکہ اس کا جواز دوسری صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
   ماہنامہ السنہ جہلم ، شمارہ نمبر 16، حدیث\صفحہ نمبر: 17   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 923  
´نماز میں سلام کا جواب دینا۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتے اس حال میں کہ آپ نماز میں ہوتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سلام کا جواب دیتے تھے، لیکن جب ہم نجاشی (بادشاہ حبشہ) کے پاس سے لوٹ کر آئے تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا تو آپ نے سلام کا جواب نہیں دیا اور فرمایا: نماز (خود) ایک شغل ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 923]
923۔ اردو حاشیہ:
➊ نماز میں قرات قرآن، اللہ کا ذکر اور دعا میں مشغولیت ہوتی ہے اس لئے کسی اور طرف متوجہ ہونا مناسب نہیں سوائے اس کے جس کی رخصت آئی ہے۔
➋ دوران نماز میں عمداً بات کرنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 923   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1201  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما حبشہ سے مکہ واپس آ گئے تھے اور پھر دوبارہ حبشہ چلے گئے تھے پھر ہجرت نبویﷺ کے بعد مستقل طور پر مدینہ واپس آ گئے تھے اور یہاں یہ مدینہ والی واپسی مراد ہے کیونکہ نماز میں کلام کی حرمت مدینہ میں نازل ہوئی ہے۔
(2) (إنَّ في الصَّلَاةِ شُغْلاً)
اگر (شُغْلاً)
کی تنوین کو تنکیر کے لیے بنائیں تو معنی ہو گا کہ ایک قسم کی مصروفیت ہے یعنی تلاوت قرآن تسبیح و تمحید اور تکبیر کے سوا انسانی کلام درست نہیں ہے۔
اور اگر تنوین کو تعظیم کے لیے مانیں تو معنی ہو گا کہ نماز میں ایک بہت بڑی مصروفیت ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ مناجات (سر گوشی)
کر رہا ہوتا ہے اس لیے کسی اور طرف توجہ یا دھیان کرنا ممکن نہیں ہے یا انسان جو کچھ کہہ رہا ہوتا ہے اس میں غور و تدبر میں مبتلا ہوتا ہے اس لیے کوئی اور کام نہیں کر سکتا۔
(3)
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ،
شافعی رحمۃ اللہ علیہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور محدثین کے نزدیک سلام کا جواب اشارہ سے دینا چاہیے اور احناف کے نزدیک اشارہ سے جواب دینا بھی جائز نہیں ہے سلام پھیرنے کے بعد جواب دے گا اور عذر بھی بیان کر دے گا کہ میں نماز کی بنا پر جواب نہیں دے سکتا تھا حالانکہ آپﷺ کو عذر بیان کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی تھی کہ وہ زبان سے سلام کا جواب لینے کے عادی تھے اشارہ کو سمجھ نہ سکے تھے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 1201   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.