الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
The Book of Al-Janaiz (Funerals)
40. بَابُ مَنْ جَلَسَ عِنْدَ الْمُصِيبَةِ يُعْرَفُ فِيهِ الْحُزْنُ:
40. باب: جو شخص مصیبت کے وقت ایسا بیٹھے کہ وہ غمگین دکھائی دے۔
(40) Chapter. Whoever sat down and looked sad when afflicted with a calamity.
حدیث نمبر: 1299
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا عبد الوهاب , قال: سمعت يحيى , قال: اخبرتني عمرة , قالت: سمعت عائشة رضي الله عنها , قالت:" لما جاء النبي صلى الله عليه وسلم قتل ابن حارثة، وجعفر وابن رواحة جلس يعرف فيه الحزن , وانا انظر من صائر الباب شق الباب، فاتاه رجل , فقال: إن نساء جعفر وذكر بكاءهن فامره ان ينهاهن، فذهب ثم اتاه الثانية لم يطعنه , فقال: انههن، فاتاه الثالثة , قال: والله لقد غلبننا يا رسول الله , فزعمت انه قال: فاحث في افواههن التراب , فقلت: ارغم الله انفك لم تفعل ما امرك رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم تترك رسول الله صلى الله عليه وسلم من العناء".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ , قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى , قَالَ: أَخْبَرَتْنِي عَمْرَةُ , قَالَتْ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا , قَالَتْ:" لَمَّا جَاءَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَتْلُ ابْنِ حَارِثَةَ، وَجَعْفَرٍ وَابْنِ رَوَاحَةَ جَلَسَ يُعْرَفُ فِيهِ الْحُزْنُ , وَأَنَا أَنْظُرُ مِنْ صَائِرِ الْبَابِ شَقِّ الْبَابِ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ , فَقَالَ: إِنَّ نِسَاءَ جَعْفَرٍ وَذَكَرَ بُكَاءَهُنَّ فَأَمَرَهُ أَنْ يَنْهَاهُنَّ، فَذَهَبَ ثُمَّ أَتَاهُ الثَّانِيَةَ لَمْ يُطِعْنَهُ , فَقَالَ: انْهَهُنَّ، فَأَتَاهُ الثَّالِثَةَ , قَالَ: وَاللَّهِ لَقَدْ غَلَبْنَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ , فَزَعَمَتْ أَنَّهُ قَالَ: فَاحْثُ فِي أَفْوَاهِهِنَّ التُّرَابَ , فَقُلْتُ: أَرْغَمَ اللَّهُ أَنْفَكَ لَمْ تَفْعَلْ مَا أَمَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ تَتْرُكْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْعَنَاءِ".
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا ‘ کہا کہ میں نے یحییٰ سے سنا، انہوں نے کہا کہ مجھے عمرہ نے خبر دی، کہا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا آپ نے کہا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زید بن حارثہ ‘ جعفر اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم کی شہادت (غزوہ موتہ میں) کی خبر ملی ‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اس طرح تشریف فرما تھے کہ غم کے آثار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر ظاہر تھے۔ میں دروازے کے سوراخ سے دیکھ رہی تھی۔ اتنے میں ایک صاحب آئے اور جعفر رضی اللہ عنہ کے گھر کی عورتوں کے رونے کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں رونے سے منع کر دے۔ وہ گئے لیکن واپس آ کر کہا کہ وہ تو نہیں مانتیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ انہیں منع کر دے۔ اب وہ تیسری مرتبہ واپس ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! قسم اللہ کی وہ تو ہم پر غالب آ گئی ہیں (عمرہ نے کہا کہ) عائشہ رضی اللہ عنہا کو یقین ہوا کہ (ان کے اس کہنے پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر ان کے منہ میں مٹی جھونک دے۔ اس پر میں نے کہا کہ تیرا برا ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اب جس کام کا حکم دے رہے ہیں وہ تو کرو گے نہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف میں ڈال دیا۔

Narrated `Aisha: When the Prophet got the news of the death of Ibn Haritha, Ja`far and Ibn Rawaha he sat down and looked sad and I was looking at him through the chink of the door. A man came and told him about the crying of the women of Ja`far. The Prophet ordered him to forbid them. The man went and came back saying that he had told them but they did not listen to him. The Prophet (p.b.u.h) said, "Forbid them." So again he went and came back for the third time and said, "O Allah's Apostle! By Allah, they did not listen to us at all." (`Aisha added): Allah's Apostle ordered him to go and put dust in their mouths. I said, (to that man) "May Allah stick your nose in the dust (i.e. humiliate you)! You could neither (persuade the women to) fulfill the order of Allah's Apostle nor did you relieve Allah's Apostle from fatigue. "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 23, Number 386


   صحيح البخاري4263عائشة بنت عبد اللهاحث في أفواههن من التراب قالت عائشة فقلت أرغم الله أنفك فوالله ما أنت تفعل وما تركت رسول الله من العناء
   صحيح البخاري1305عائشة بنت عبد اللهاحث في أفواههن التراب فقلت أرغم الله أنفك فوالله ما أنت بفاعل وما تركت رسول الله من العناء
   صحيح البخاري1299عائشة بنت عبد اللهاحث في أفواههن التراب فقلت أرغم الله أنفك لم تفعل ما أمرك رسول الله ولم تترك رسول الله من العناء
   صحيح مسلم2161عائشة بنت عبد اللهاذهب فاحث في أفواههن من التراب
   سنن أبي داود3122عائشة بنت عبد اللهيعرف في وجهه الحزن
   سنن النسائى الصغرى1848عائشة بنت عبد اللهانطلق فاحث في أفواههن التراب

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3122  
´مصیبت کے وقت (غم کے سبب سے) بیٹھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں جب زید بن حارثہ، جعفر بن ابوطالب اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم قتل کر دئیے گئے (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی) تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں بیٹھ گئے، آپ کے چہرے سے غم ٹپک رہا تھا، اور واقعہ کی تفصیل بتائی۔ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3122]
فوائد ومسائل:
اہل میت اور ان کے اعزہ و احباب کو ایسے موقع پر بیٹھنا اور اکھٹے ہونا مباح ومستحب ہے لیکن یہ کوئی ضروری نہیں کہ زمین ہی پر بیٹھا جائے بلکہ حسب احوال چٹایئوں چار پایئوں یا کرسیوں پر بیٹھنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔
تاہم تین دن تک اس طرح تعزیت کےلئے آنے جانے والوں کی خاطر بیٹھنے کو لازم سمجھنا غلط ہے۔
کیونکہ یہ کوئی شرعی مسئلہ نہیں ہے۔
کہ اسے ضروری سمجھا جائے۔
اسے زیادہ سے زیادہ ایک جائز رواج ہی کیا جا سکتا ہے۔
واللہ أعلم بالصواب۔
علاوہ ازیں ان ایام میں تعزیت کے لئے آنے والا شخص حاضرین سمیت پہلے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کو ضروری سمجھتا ہے۔
اور جو شخص ایسا نہیں کرتا۔
یا اہل میت اس طریقے کو اختیار نہیں کرتے۔
تو برا منایا جاتا ہے۔
اور اس شخص کو یا اہل میت کو دعا کا منکر باور کرایا جاتا ہے۔
حالانکہ مسئلہ دعا کی اہمیت و فضیلت کا نہیں ہے۔
اس لئے کہ وہ تو مسلمہ ہے۔
دعا کی اہمیت وفضیلت کا کوئی منکر نہیں اصل مسئلہ مسنون طریقے سے دعا کرنے کا ہے۔
با ر بارہاتھ اٹھا کردعا کرنا ایک رسم ہے۔
اور اس میں اکثر کچھ پڑھا بھی نہیں جاتا۔
یا صرف فاتحہ خوانی کر لی جاتی ہے۔
حالانکہ سورہ فاتحہ میں میت کےلئے مغفرت کی دعا کا کوئی پہلو ہی نہیں ہے۔
گویا یہ طریقہ ایک تو مسنون نہیں ہے۔
صرف رسم ہے دوسری میت کے حق میں اس طرح مغفرت کی دعا بھی بالعموم نہیں ہوتی۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے تو پھر تعزیت کا مسنون طریقہ کیاہے؟ وہ طریقہ حسب ذیل ہے۔
اول تو میت کے اہل خانہ کا اس طرح اہتمام کے ساتھ مسلسل چند دن بیٹھنا ہی ایسا عمل ہے۔
جس کا ثبوت عہد رسالت وعہد صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین وتابعین میں ملنا نہایت مشکل ہے۔
اصل بات جنازے اور تدفین میں شریک ہوکر میت کے لئے مغفرت کی دعا کرنا ہے۔
اس کے بعد اہل میت کےلئے خاص طور پر دریاں یا صفیں بچھا کر بیٹھنا محل نظر ہے۔
تدفین کے بعد ان کو اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوجانا چاہیے۔
اور اہل میت جب بھی اور جہاں بھی ملیں ان سے تعزیت کر لی جائے۔
تعزیت کن الفاظ میں اور کس طرح کی جائے؟ بہتر یہ ہے کہ اہل میت کو سب سے پہلے صبر ورضا کی تلقین کی جائے۔
(إناللہ و إنا إلیه راجعون) پڑھ کرسب کےلئے اسی انجام سے دو چار ہونے کو واضح کیا جائے۔
میت کے حق میں بغیر ہاتھ اٹھائے مغفرت کی دعا کی جائے۔
اوراہل میت کےلئے صبر جمیل کی۔
اور وہ دعایئں پڑھی جایئں۔
جو اس موقع پر نبی کریمﷺ سے ثابت ہیں۔
مثلا ً نبی کی صاحب زادی حضرت زینب کا بچہ عالم نزع میں تھا۔
انہوں نے نبی کریمﷺ کو بلانے کےلئے پیغام بھیجا۔
تو آپ نے انھیں صبر واحتساب کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا: أَخَذ ولَهُ ما أَعطَى، وكلُّ شَيءٍ عِنده بِأجَل مُسمَّى فَلتَصبِر ولتَحتَسِب (صحیح بخاری، الجنائز، باب: 32 حدیث: 1284) بے شک اللہ ہی کاہے۔
جو اس نے لیا اور اسی کاہے۔
جو اس نے دیا۔
اور ہر ایک کےلئے اس کے پاس ایک وقت مقرر ہے۔
جب حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوت ہوگئے۔
تو نبی کریمﷺ ان کی اہلیہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تعزیت کےلئے تشریف لے گئے اوران الفاظ می دعا فرمائی۔
«اللَّهُمَّ اغْفِرْ لأَبِى سَلَمَةَ وَارْفَعْ دَرَجَتَهُ فِى الْمَهْدِيِّينَ وَاخْلُفْهُ فِى عَقِبِهِ فِى الْغَابِرِينَ وَاغْفِرْ لَنَا وَلَهُ يَا رَبَّ الْعَالَمِينَ وَافْسَحْ لَهُ فِى قَبْرِهِ. وَنَوِّرْ لَهُ فِيهِ» (صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 920) اے اللہ! ابوسلمہ کی مغفرت فرما اس کے درجے مہدین میں بلند فرما۔
اور اس کے پیچھے رہ جانے والوں میں اس کے بعد تو ان کا جانشین بن اور ہماری اور اس کی مغفرت فرما۔
اے رب العالمین اس کی قبر میں کشادگی عطا فرما اور اس کو اس کےلئے منور فرما دے۔
جس کو یہ مسنون دعایئں اور الفاظ یاد نہ ہوں۔
تو وہ اپنی زبان میں ہاتھ اٹھائےبغیر میت کے لئے مغفرت کی اور اہل خانہ کےلئے صبر جمیل کی دعا کرے۔
اور ا س قسم کی باتیں کرے۔
جس سے پسماندگان کو تسلی ملے۔
اور ان کے دل وماغ سے صدمے کے اثرات کم ہوں۔
اس موقع پر بھی چونکہ نبی کریمﷺ سے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا ثابت نہیں ہے، اس لئے اس رواج سے بچا جائے اور سنت کے مطابق بغیر ہاتھ اٹھائے دعا کی جائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3122   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1299  
1299. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا:جب نبی کریم ﷺ کے پاس حضرت زید بن حارثہ، حضرت جعفر اورحضرت ابن رواحہ ؓ کے شہید ہونے کی خبر آئی تو آپ غمگین ہوکر بیٹھ گئے۔ میں دروازے کی دراڑ سے دیکھ رہی تھی کہ ایک شخص آپ کے پاس آیا جس نے حضرت جعفر ؓ کی عورتوں کے رونے دھونے کا ذکر کیا۔ آپ ﷺ نے اسے حکم دیا کہ انھیں گریہ وزاری سے منع کرو، چنانچہ وہ گیا اورواپس آکر عرض کیا کہ وہ نہیں مانتیں۔ آپ نے پھر یہی فرمایا:انھیں منع کرو۔ وہ تیسری مرتبہ واپس آکر کہنے لگا:اللہ کے رسول ﷺ! اللہ کی قسم وہ ہم پر غالب آگئیں اور نہیں مانتیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے کہا:آخر کار رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جا!ان کے منہ میں خاک جھونک دے۔ میں نے کہا:اللہ تیری ناک خاک آلود کرے! جس کام کاتجھے رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا وہ بھی نہیں کرتا اور(بار بار آکر) رسول اللہ ﷺ کو تکلیف دینے سے بھی باز نہیں آتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1299]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس عنوان کا مطلب یہ ہے کہ اگر مصیبت زدہ آدمی اپنے گھر میں صبر سے بیٹھ جائے اور لوگ آ کر تعزیت کرتے رہیں تو یہ جاہلیت والی رسم نہیں ہو گی جو شرعا ممنوع ہے۔
(2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت جعفر ؓ کی شہادت پر اہل خانہ کی عورتوں کا رونا دھونا حرام کے درجے میں نہیں تھا کیونکہ اگر حرام ہوتا تو رسول اللہ ﷺ مذکورہ آدمی کے علاوہ کسی دوسرے آدمی کو بھیج کر اس کام سے انہیں روکتے، کیونکہ آپ کا باطل کو برداشت کرنا اور اسے ثابت رکھنا محال ہے۔
اور نہ صحابیات ہی کے بارے میں یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ وہ ایک فعل حرام پر اصرار کریں اور بار بار روکنے کے باوجود اس سے باز نہ آئیں۔
اور اس مباح قسم کے رونے سے اس لیے منع کیا جاتا تھا کہ وہ تحریم کے درجے تک نہ پہنچ جائیں۔
(3)
حضرت عائشہ ؓ کی دانش مندی اور معاملہ فہمی بھی قابل داد ہے کہ انہوں نے صحیح اندازہ لگایا اور اپنے دل میں کہا کہ یہ شخص بھی عجیب ہے کہ نہ تو رسول اللہ ﷺ کی مرضی پر عمل کرتے ہوئے عورتوں کو سمجھا بھجا کر آہ و بکا سے روکتا ہے اور نہ اس سے باز ہی رہتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو بار بار آ کر اطلاع دے اور پریشان کرے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1299   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.