الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
The Book of Al-Janaiz (Funerals)
42. بَابُ الصَّبْرِ عِنْدَ الصَّدْمَةِ الأُولَى:
42. باب: صبر وہی ہے جو مصیبت آتے ہی کیا جائے۔
(42) Chapter. Patience is to be observed at the first stroke of a calamity.
حدیث نمبر: Q1302
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقال عمر رضي الله عنه: نعم العدلان ونعم العلاوة الذين إذا اصابتهم مصيبة قالوا إنا لله وإنا إليه راجعون {156} اولئك عليهم صلوات من ربهم ورحمة واولئك هم المهتدون {157} سورة البقرة آية 156-157 , وقوله تعالى: واستعينوا بالصبر والصلاة وإنها لكبيرة إلا على الخاشعين سورة البقرة آية 45.وَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: نِعْمَ الْعِدْلَانِ وَنِعْمَ الْعِلَاوَةُ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ {156} أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ {157} سورة البقرة آية 156-157 , وَقَوْلُهُ تَعَالَى: وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاةِ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلا عَلَى الْخَاشِعِينَ سورة البقرة آية 45.
‏‏‏‏ اور عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ دونوں طرف کے بوجھے اور بیچ کا بوجھ کیا اچھے ہیں۔ یعنی سورۃ البقرہ کی اس آیت میں خوشخبری سنا صبر کرنے والوں کو جن کو مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں ہم سب اللہ ہی کی ملک ہیں اور اللہ ہی کے پاس جانے والے ہیں۔ ایسے لوگوں پر ان کے مالک کی طرف سے رحمتیں ہیں اور مہربانیاں اور یہی لوگ راستہ پانے والے ہیں۔ اور اللہ نے سورۃ البقرہ میں فرمایا صبر اور نماز سے مدد مانگو۔ اور وہ نماز بہت مشکل ہے مگر اللہ سے ڈرنے والوں پر مشکل نہیں۔

حدیث نمبر: 1302
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا غندر، حدثنا شعبة، عن ثابت , قال: سمعت انسا رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال:" الصبر عند الصدمة الاولى".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ ثَابِتٍ , قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَةِ الْأُولَى".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا ‘ ان سے شعبہ نے ان سے ثابت نے، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا۔ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے نقل کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صبر تو وہی ہے جو صدمہ کے شروع میں کیا جائے۔

Narrated Anas: The Prophet said, "The real patience is at the first stroke of a calamity."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 23, Number 389


   صحيح البخاري7154أنس بن مالكالصبر عند أول صدمة
   صحيح البخاري1283أنس بن مالكالصبر عند الصدمة الأولى
   صحيح البخاري1302أنس بن مالكالصبر عند الصدمة الأولى
   صحيح البخاري1252أنس بن مالكاتقي الله واصبري
   صحيح مسلم2140أنس بن مالكالصبر عند أول صدمة
   صحيح مسلم2139أنس بن مالكالصبر عند الصدمة الأولى
   جامع الترمذي988أنس بن مالكالصبر عند الصدمة الأولى
   جامع الترمذي987أنس بن مالكالصبر في الصدمة الأولى
   سنن أبي داود3124أنس بن مالكالصبر عند الصدمة الأولى
   سنن النسائى الصغرى1870أنس بن مالكالصبر عند الصدمة الأولى
   سنن ابن ماجه1596أنس بن مالكالصبر عند الصدمة الأولى

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  ابوعبدالله صارم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1283  
´عوتوں کے لیے قبروں کی زیارت`
«. . . قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِامْرَأَةٍ تَبْكِي عِنْدَ قَبْرٍ . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک عورت پر ہوا جو قبر پر بیٹھی رو رہی تھی . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْجَنَائِزِ: 1283]

فوائد و مسائل:
اس حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے «باَبُ زِيَارَةِ الْقُبُورِ» (قبروں کی زیارت کا بیان) میں بیان کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ عورت قبرستان جا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے اور صبر کرنے کا حکم تو دیا، لیکن قبرستان میں آنے سے منع نہیں فرمایا۔ عورتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے پیاروں کی قبروں پر جا کر ان کے لیے دعا کریں، موت کو یاد کریں اور آخرت کی فکر کو تازہ کریں، وہاں بےصبری کا مظاہرہ ہرگز نہ کریں۔
   ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 69، حدیث\صفحہ نمبر: 21   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1596  
´مصیبت پر صبر کرنے کا ثواب۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صبر تو وہ ہے جو مصیبت کے اول وقت میں ہو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1596]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(و)
  صبر جو شرعاً مطلوب ہے۔
یہ ہے کہ جب مصیبت آئے یا غم پہنچے۔
اس وقت اپنے آپ کو غلط حرکات واقوال سے بچائے۔
کیونکہ جذبات غم کی شدت کے موقع پر اپنے آپ پر قابو رکھنا اور جائز وناجائز کے فرق کا خیال کرنا بہت مشکل ہے۔
جو شخص اس موقعے پر احکام شریعت کو ملحوظ رکھتا ہے۔
اصل صبر اسی کا ہے۔
جس پر اسے وہ تمام انعامات خداوندی حاصل ہوں گے۔
جن کا قرآن وحدیث میں وعدہ کیاگیا ہے۔
بعد میں جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے۔
خود بخود صبر آنا شروع ہوجاتا ہے۔
یہ صبر کوئی ایسی چیز نہیں جس پر کسی کی تعریف کی جائے یا اسے ثواب کی اُمید ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1596   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 987  
´صبر وہ ہے جو پہلے صدمہ کے وقت ہو۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صبر وہی ہے جو پہلے صدمے کے وقت ہو ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 987]
اردو حاشہ:
1؎:
مطلب یہ ہے کہ صدمے کا پہلا جھٹکا جب دل پر لگتا ہے اس وقت آدمی صبر کرے اور بے صبری کا مظاہرہ،
اپنے اعمال و حرکات سے نہ کرے تو یہی صبر کامل ہے جس پر اجر مترتب ہوتا ہے،
بعد میں تو ہر کسی کو چار و ناچار صبر آ ہی جاتا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 987   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3124  
´صبر درحقیقت وہی ہے جو صدمہ آتے ہی کیا جائے۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسی عورت کے پاس سے گزرے جو اپنے بچے کی موت کے غم میں (بآواز) رو رہی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: اللہ سے ڈرو اور صبر کرو ۱؎، اس عورت نے کہا: آپ کو میری مصیبت کا کیا پتا ۲؎؟، تو اس سے کہا گیا: یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں (جب اس کو اس بات کی خبر ہوئی) تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، آپ کے دروازے پہ اسے کوئی دربان نہیں ملا، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اللہ کے رسول! میں نے آپ کو پہچانا نہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صبر و۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3124]
فوائد ومسائل:

رونے پیٹنے اور چیخنے چلانے کے بعد جب انسان ویسے ہی تھک ہار جاتا ہے۔
تو اسے صبر قرار نہیں دیا جا سکتا۔
صبر تو یہ ہے کہ مصیبت آئے تو اس پر (إنا للہ وانا الیه راجعون) کے علاوہ کچھ نہ کہا جائے۔
اللہ کے فیصلے پر تسلیم ورضا کا مظاہرہ کیا جائے۔
اور جزع فزع نوحہ وماتم اور اللہ کا شکوہ نہ کیا جائے۔


شدت جزبات اور آپ کو نہ پہچاننے کی وجہ سے اس عورت سے رسول اللہ ﷺکے حق میں جو تقصیر ہوئی آپ نے اسے معاف فرما دیا۔


جوشخص اپنے نابالغ بچوں کی وفات پر صبرورضا کا اظہار کرے۔
اسے جنت کی بشارت دی گئی ہے۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جس مسلمان کے تین بچے بالغ ہونے سے پہلے فوت ہوجایئں تو اللہ تعالیٰ اس کو ان بچوں پر اپنی رحمت کی برکت سے جنت میں داخل فرمائےگا۔
(صحیح البخاری۔
الجنائز۔
باب فصل من مات لہ ولد فاحتسب حدیث1248)
اسی طرح ایک دوسری روایت میں آپ ﷺ نے فرمایا: جس مسلما ن کے تین بچے فوت ہوجایئں اسے جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی۔
(صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1251) علاوہ ازیں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ نے عورتوں سے مخاطب ہوکر فرمایا: تم میں سے جو عورت اپنے تین بچے آگے بھیج دے۔
یعنی فوت ہوجایئں۔
تو وہ اس کےلئے جہنم کی آگ سے رکاوٹ بن جایئں گے۔
تو ایک عورت نے کہا۔
اور دو بچوں کا کیا حکم ہے۔
تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دو کا بھی یہی حکم ہے (صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1249)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3124   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1302  
1302. حضرت انس ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:صبر وہی ہے جو ابتدائے صدمہ میں ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1302]
حدیث حاشیہ:
ترجمتہ الباب میں حضرت عمر ؓ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے مصیبت کے وقت صبر کی فضیلت بیان کی کہ اس سے صابر بندے پر اللہ کی رحمتیں ہوتی ہیں اور سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق ملتی ہے۔
حضرت عمر ؓ والے قول کو حاکم نے مستدرک میں وصل کیا ہے حضرت عمر ؓ نے صلوات اور رحمت کو تو جانور کے دونوں طرف کے بوجھے قرار دیا اور بیچ کا بوجھ جو پیٹھ پر رہتا ہے اسے ﴿أُولَئِكَ هُمُ المُهتدونَ﴾ سے تعبیر فرمایا۔
پیچھے بیان ہوا ہے کہ ایک عورت ایک قبر پر بیٹھی ہوئی رو رہی تھی۔
آپ نے اسے منع فرمایا تو وہ خفا ہوگئی۔
پھر جب اس کو آپ کے متعلق علم ہوا تو وہ دوڑی ہوئی معذرت خواہی کے لیے آئی۔
اس وقت آپ ﷺ نے فرمایا کہ اب کیا رکھا ہے صبر تو مصیبت کے شروع ہی میں ہوا کرتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1302   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1302  
1302. حضرت انس ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:صبر وہی ہے جو ابتدائے صدمہ میں ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1302]
حدیث حاشیہ:
(1)
قرآن کریم میں صبر کرنے والوں کو جو بشارت دی گئی ہے اس سے وہی صبر کرنے والے مراد ہیں جو ابتدائے صدمہ میں صبرواستقلال کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
(2)
امام بخاری ؒ نے صبر کے متعلق آیت کریمہ پیش کی ہے کہ تم صبر اور نماز کے ذریعے سے اللہ کی مدد طلب کرو۔
(سورة البقرة: 153/2)
شاید امام بخاری ؒ کا مقصود ایک واقعے کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ حضرت ابن عباس ؒ کو دوران سفر میں ان کے بھائی قثم بن عباس کے فوت ہونے کی خبر ملی تو انہوں نے (إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ)
پڑھا، پھر راستے سے ہٹ کر نماز پڑھنے لگے، دو رکعت پڑھ کر دیر تک بیٹھے رہے۔
جب اٹھے تو آیت ﴿وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ﴾ پڑھنے لگے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مصائب و آلام کو برداشت کرنے میں نماز کا بہت تعلق ہے۔
(فتح الباري: 220/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1302   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.