الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: دیت و قصاص کے احکام و مسائل
The Book on Blood Money
9. باب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَقْتُلُ ابْنَهُ يُقَادُ مِنْهُ أَمْ لاَ
9. باب: آدمی اپنے بیٹے کو قتل کر دے تو کیا قصاص لیا جائے گا یا نہیں؟
Chapter: What Has Been Related About A Man Who Kills His Son: Is He To Suffer Requital For Him Or Not ?
حدیث نمبر: 1400
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو سعيد الاشج، حدثنا ابو خالد الاحمر، عن الحجاج بن ارطاة , عن عمرو بن شعيب , عن ابيه , عن جده , عن عمر بن الخطاب , قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " لا يقاد الوالد بالولد ".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ , عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ جَدِّهِ , عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ , قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَا يُقَادُ الْوَالِدُ بِالْوَلَدِ ".
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: باپ سے بیٹے کا قصاص نہیں لیا جائے گا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الدیات 22 (2662)، (تحفة الأشراف: 10582)، و مسند احمد (1/16، 23) (صحیح) (متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ورنہ ”حجاج بن ارطاة متکلم فیہ راوی ہیں)»

وضاحت:
۱؎: اس کی وجہ یہ ہے کہ باپ بیٹے کے وجود کا سبب ہے، لہٰذا یہ جائز نہیں کہ بیٹا باپ کے خاتمے کا سبب بنے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2662)

قال الشيخ زبير على زئي: (1400) إسناده ضعيف /جه 2662
حجاج بن أرطاة ضعيف مدلس (تقدم:527) وتابعه محمد بن عجلان وھو مدلس مشھور (تقدم: 1084)

   جامع الترمذي1400عبد الله بن عمرولا يقاد الوالد بالولد
   سنن ابن ماجه2662عبد الله بن عمرولا يقتل الوالد بالولد
   بلوغ المرام997عبد الله بن عمرو لا يقاد الوالد بالولد

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2662  
´باپ کو اپنی اولاد کے بدلے قتل نہ کرنے کا بیان۔`
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: باپ کو بیٹے کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2662]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
ہمارے فاضل محقق نے مذکورہ روایت کو سنداً ضعیف قراردیا ہے جبکہ دیگر محققین نے حسن اور صحیح قرار دیا ہے، لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
مزید تفصیل کےلیے دیکھئے: (الموسوعة الحدیثیة مسندالإمام أحمد: 1؍16، 22، 49، والإرواء: 7؍271، رقم: 2214، وسنن ابن ماجة بتحقیق الدکتور بشار عواد، رقم: 2662)
بنا بریں ماں باپ کے ہاتھ سے اگر اولاد قتل ہوجائے توماں یا باپ کو قصاص میں قتل نہیں کیا جائے گا، البتہ دوسری مناسب سزا ضروری ہے جیسے کہ حدیث 2646 میں دیت لینے کا ذکر ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2662   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 997  
´(جنایات کے متعلق احادیث)`
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ باپ سے بیٹے کا قصاص نہیں لیا جائے گا۔ اسے احمد، ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور ابن جارود اور بیہقی نے صحیح قرار دیا ہے اور ترمذی نے کہا ہے کہ اس حدیث میں اضطراب ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 997»
تخریج:
«أخرجه الترمذي، الديات، باب ما جاء في الرجل يقتل ابنه يقاد منه أم لا، حديث:1400، وأحمد:1 /16، 22، وابن ماجه، الديات، حديث:2662، والبيهقي:8 /82، وانظر، التلخيص الحبير(4 /17)
تشریح:
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے شواہد کی وجہ سے حسن اور صحیح قرار دیا ہے اور انھی کی رائے اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے‘ لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بنا پر قابل حجت ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۱ /۱۶‘ ۲۲‘ ۴۹‘ والإرواء:۷ /۲۷۱‘ رقم:۲۲۱۴) 2.مذکورہ حدیث کے معنی یہ ہیں کہ آدمی نے جب اپنے بیٹے کو قتل کر دیا تو اس کے بدلے میں باپ کو قتل نہیں کیا جائے گا‘ البتہ دوسری مناسب سزا ضروری ہے، جیسا کہ موطا امام مالک (۲ /۸۶۷) اور سنن ابن ماجہ (حدیث: ۲۶۴۶) کی روایات میں دیت لینے کا ذکر ہے۔
اکثر سلف کی بھی یہی رائے ہے کہ قصاص کے بدلے میں باپ سے دیت وصول کی جائے گی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 997   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1400  
´آدمی اپنے بیٹے کو قتل کر دے تو کیا قصاص لیا جائے گا یا نہیں؟`
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: باپ سے بیٹے کا قصاص نہیں لیا جائے گا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الديات/حدیث: 1400]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس کی وجہ یہ ہے کہ باپ بیٹے کے وجود کا سبب ہے،
لہٰذا یہ جائز نہیں کہ بیٹا باپ کے خاتمے کا سبب بنے۔

نوٹ:
(متابعات وشواہد کی بناپر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے،
ورنہ حجاج بن ارطاۃ متکلم فیہ راوی ہیں)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1400   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.