الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: دیت و قصاص کے احکام و مسائل
The Book on Blood Money
21. باب مَا جَاءَ فِي الْحَبْسِ فِي التُّهْمَةِ
21. باب: کسی تہمت و الزام میں گرفتار کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1417
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن سعيد الكندي , حدثنا ابن المبارك , عن معمر , عن بهز بن حكيم , عن ابيه , عن جده , ان النبي صلى الله عليه وسلم: " حبس رجلا في تهمة , ثم خلى عنه ". قال: وفي الباب , عن ابي هريرة , قال ابو عيسى: حديث بهز , عن ابيه , عن جده حديث حسن , وقد روى إسماعيل بن إبراهيم , عن بهز بن حكيم , هذا الحديث اتم من هذا واطول.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ الْكِنْدِيُّ , حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ , عَنْ مَعْمَرٍ , عَنْ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ جَدِّهِ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " حَبَسَ رَجُلًا فِي تُهْمَةٍ , ثُمَّ خَلَّى عَنْهُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ بَهْزٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ جَدِّهِ حَدِيثٌ حَسَنٌ , وَقَدْ رَوَى إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ , عَنْ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ , هَذَا الْحَدِيثَ أَتَمَّ مِنْ هَذَا وَأَطْوَلَ.
معاویہ بن حیدہ قشیری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو تہمت ۱؎ کی بنا پر قید کیا، پھر (الزام ثابت نہ ہونے پر) اس کو رہا کر دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے،
۲- بہز بن حکیم بن معاویہ بن حیدۃ قشیری کی حدیث جسے وہ اپنے باپ سے اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں، حسن ہے،
۳- اسماعیل بن ابراہیم ابن علیہ نے بہز بن حکیم سے یہ حدیث اس سے زیادہ مکمل اور مطول روایت کی ہے ۲؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأقضیة 29 (3630)، سنن النسائی/قطع السارق 2 (4890)، (تحفة الأشراف: 11382) (حسن)»

وضاحت:
۱؎: اس تہمت اور الزام کے کئی سبب ہو سکتے ہیں: اس نے جھوٹی گواہی دی ہو گی، یا اس کے خلاف کسی نے اس کے مجرم ہونے کا دعویٰ پیش کیا ہو گا، یا اس کے ذمہ کسی کا قرض باقی ہو گا، پھر اس کا جرم ثابت نہ ہونے پر اسے رہا کر دیا گیا ہو گا حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جرم ثابت ہونے سے قبل قید و بند کرنا ایک شرعی امر ہے۔
۲؎: پوری حدیث کے لیے دیکھئیے سنن ابی داود حوالہ مذکور۔

قال الشيخ الألباني: حسن، المشكاة (3785)

   جامع الترمذي1417معاوية بن حيدةحبس رجلا في تهمة ثم خلى عنه
   سنن أبي داود3630معاوية بن حيدةحبس رجلا في تهمة
   سنن النسائى الصغرى4880معاوية بن حيدةحبس ناسا في تهمة
   سنن النسائى الصغرى4880معاوية بن حيدةحبس رجلا في تهمة ثم خلى سبيله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1417  
´کسی تہمت و الزام میں گرفتار کرنے کا بیان۔`
معاویہ بن حیدہ قشیری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو تہمت ۱؎ کی بنا پر قید کیا، پھر (الزام ثابت نہ ہونے پر) اس کو رہا کر دیا۔ [سنن ترمذي/كتاب الديات/حدیث: 1417]
اردو حاشہ:
وضاخت:


1؎:
اس تہمت اورالزام کے کئی سبب ہوسکتے ہیں:
اس نے جھوٹی گواہی دی ہوگی،
یا اس کے خلاف کسی نے اس کے مجرم ہونے کا دعوی پیش کیا ہوگا،
یا اس کے ذمہ کسی کا قرض باقی ہوگا،
پھر اس کا جرم ثابت نہ ہونے پر اسے رہا کر دیا گیا ہو گا حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جرم ثابت ہونے سے قبل قید وبند کرنا ایک شرعی امر ہے۔

2؎:
پوری حدیث کے لیے دیکھئے سنن ابی داؤد حوالہ ٔ مذکور۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1417   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3630  
´قرض وغیرہ کی وجہ سے کسی کو قید کرنے کا بیان۔`
معاویہ بن حیدہ قشیری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک الزام میں ایک شخص کو قید میں رکھا۔ [سنن ابي داود/كتاب الأقضية /حدیث: 3630]
فوائد ومسائل:
فائدہ: جس شخص پر الزام ہو مگر حقیقت واضح نہ ہو تو اسے حقیقت واضح ہونے تک تحقیق کی غرض سے مختصر وقت کے لئے قید کرنا جائز ہے۔
تاہم قید کاعرصہ بلاوجہ غیر معمولی طور پر لمبا کرنا (جیسا کہ آج کل معمول ہے۔
)
شرعا ً محل نظر ہے، اس سے بہت سے مفاسد جنم لیتے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3630   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.