الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
The Book of Hajj
13. بَابُ ذَاتُ عِرْقٍ لأَهْلِ الْعِرَاقِ:
13. باب: عراق والوں کے احرام باندھنے کی جگہ ذات عرق ہے۔
(13) Chapter. The Miqat for the people of Iraq is Dhat-Irq.
حدیث نمبر: 1531
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني علي بن مسلم، حدثنا عبد الله بن نمير، حدثنا عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما , قال: لما فتح هذان المصران اتوا عمر، فقالوا:" يا امير المؤمنين، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم حد لاهل نجد قرنا وهو جور عن طريقنا، وإنا إن اردنا قرنا شق علينا، قال: فانظروا حذوها من طريقكم، فحد لهم ذات عرق".(مرفوع) حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا , قَالَ: لَمَّا فُتِحَ هَذَانِ الْمِصْرَانِ أَتَوْا عُمَرَ، فَقَالُوا:" يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّ لِأَهْلِ نَجْدٍ قَرْنًا وَهُوَ جَوْرٌ عَنْ طَرِيقِنَا، وَإِنَّا إِنْ أَرَدْنَا قَرْنًا شَقَّ عَلَيْنَا، قَالَ: فَانْظُرُوا حَذْوَهَا مِنْ طَرِيقِكُمْ، فَحَدَّ لَهُمْ ذَاتَ عِرْقٍ".
ہم سے علی بن مسلم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن نمیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبیداللہ عمری نے نافع سے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ جب یہ دو شہر (بصرہ اور کوفہ) فتح ہوئے تو لوگ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ یا امیرالمؤمنین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کے لوگوں کے لیے احرام باندھنے کی جگہ قرن المنازل قرار دی ہے اور ہمارا راستہ ادھر سے نہیں ہے، اگر ہم قرن کی طرف جائیں تو ہمارے لیے بڑی دشواری ہو گی۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ پھر تم لوگ اپنے راستے میں اس کے برابر کوئی جگہ تجویز کر لو۔ چنانچہ ان کے لیے ذات عرق کی تعیین کر دی۔

Narrated Ibn `Umar: When these two towns (Basra and Kufa) were captured, the people went to `Umar and said, "O the Chief of the faithful believers! The Prophet fixed Qarn as the Miqat for the people of Najd, it is beyond our way and it is difficult for us to pass through it." He said, "Take as your Miqat a place situated opposite to Qarn on your usual way. So, he fixed Dhatu-Irq (as their Miqat)."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 26, Number 606


   صحيح البخاري7344عبد الله بن عمرلأهل اليمن يلملم ذكر العراق فقال لم يكن عراق يومئذ
   صحيح البخاري1531عبد الله بن عمرحد لأهل نجد قرنا وهو جور عن طريقنا وإنا إن أردنا قرنا شق علينا قال فانظروا حذوها من طريقكم فحد لهم ذات عرق
   صحيح البخاري133عبد الله بن عمريهل أهل المدينة من ذي الحليفة يهل أهل الشأم من الجحفة يهل أهل نجد من قرن
   صحيح البخاري1525عبد الله بن عمريهل أهل المدينة من ذي الحليفة يهل أهل الشأم من الجحفة أهل نجد من قرن
   صحيح البخاري1528عبد الله بن عمرمهل أهل المدينة ذو الحليفة مهل أهل الشأم مهيعة وهي الجحفة أهل نجد قرن
   صحيح البخاري1522عبد الله بن عمرفرضها رسول الله لأهل نجد قرنا لأهل المدينة ذا الحليفة لأهل الشأم الجحفة
   صحيح مسلم2807عبد الله بن عمرأمر رسول الله أهل المدينة أن يهلوا من ذي الحليفة أهل الشام من الجحفة أهل نجد من قرن
   صحيح مسلم2806عبد الله بن عمرمهل أهل المدينة ذو الحليفة مهل أهل الشام مهيعة وهي الجحفة مهل أهل نجد قرن
   صحيح مسلم2805عبد الله بن عمريهل أهل المدينة من ذي الحليفة أهل الشام من الجحفة أهل نجد من قرن يهل أهل اليمن من يلملم
   صحيح مسلم2809عبد الله بن عمريهل أهل المدينة من ذي الحليفة يهل أهل الشام من الجحفة يهل أهل نجد من قرن
   جامع الترمذي831عبد الله بن عمريهل أهل المدينة من ذي الحليفة أهل الشام من الجحفة أهل نجد من قرن
   سنن النسائى الصغرى2653عبد الله بن عمريهل أهل المدينة من ذي الحليفة يهل أهل الشام من الجحفة يهل أهل نجد من قرن
   سنن النسائى الصغرى2656عبد الله بن عمريهل أهل المدينة من ذي الحليفة أهل الشام من الجحفة أهل نجد من قرن
   سنن النسائى الصغرى2652عبد الله بن عمريهل أهل المدينة من ذي الحليفة أهل الشام من الجحفة أهل نجد من قرن
   سنن ابن ماجه2914عبد الله بن عمريهل أهل المدينة من ذي الحليفة أهل الشام من الجحفة أهل نجد من قرن يهل أهل اليمن من يلملم
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم317عبد الله بن عمريهل اهل المدينة من ذي الحليفة، واهل الشام من الجحفة، واهل نجد من قرن

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 317  
´تلبیہ کہنے کا مقام`
«. . . 220- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: يهل أهل المدينة من ذي الحليفة، وأهل الشام من الجحفة، وأهل نجد من قرن. قال عبد الله: وبلغني أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ويهل أهل اليمن من يلملم. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اہل مدینہ ذوالحلیفہ سے احرام باندھیں (لبیک کہیں) اور اہل شام حجفہ سے اور اہل نجد قرن سے احرام باندھیں۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اہل یمن ے یلَملَم سے احرام باندھیں . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 317]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 1525، ومسلم 1182، من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت حدیث میں انتہائی احتیاط سے کام لیتے تھے۔
➋ صحابۂ کرام کی مراسیل (مرسل روایات) حجت ہیں جیسا کہ اصولِ حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ اس پر مزید یہ کہ امام بخاری رحمہ اللہ [1530] اور امام مسلم [1181] نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ولأھل الیمن یلملم» اور یمن والوں کا میقات یلملم ہے۔ والحمدللہ
➌ ذوالحلیفہ کو آج کل ابیار علی کہتے ہیں۔ یہ علاقہ مدینہ طیبہ کے قریب ہے۔
➍ حج اور عمرے کی نیت کرنے والا میقات سے احرام باندھے بغیر نہیں گزر سکتا۔ اگر گزر جائے تو پھر اس پر دم واجب ہو جاتا ہے یعنی وہ ایک بکری ذبح کرکے اہلِ مکہ کے غریبوں، مسکینوں کو کھلائے گا۔
➎ یہ ضروری نہیں کہ سب سے بڑے عالم اور مجتہد کو ہر حدیث اور ہر مسئلہ معلوم ہو بلکہ بہت سے جلیل القدر صحابہ سے بعض احادیث کا مخفی رہ جانا اس کی دلیل ہے کہ باتیں مخفی رہ سکتی ہیں۔
➏ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ایلیاء (بیت المقدس) سے احرام باندھا تھا۔ [الام للشافعي 7/253 وسنده صحيح] آپ نے بیت المقدس سے احرام باندھا تھا۔ [مسند الشافعي ص364 ح1652، وسنده صحيح]
اسود بن یزید تابعی نے کوفے سے احرام باندھا تھا۔ [ابن ابي شيبه 3/122 ح12682، وسنده صحيح]
معلوم ہوا کہ جو شخص بذریعہ ہوائی جہاز حج یا عمرے کے لئے روانہ ہوتا ہے تو وہ ائیرپورٹ سے احرام باندھ سکتا ہے، بشرطیکہ دورانِ پرواز جہاز میں ہی میقات آجائے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 220   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2914  
´مکہ سے باہر رہنے والوں کی میقات کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اہل مدینہ ذو الحلیفہ سے تلبیہ پکاریں اور احرام باندھیں، اہل شام جحفہ سے، اور اہل نجد قرن سے، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رہیں یہ تینوں (میقاتیں) تو انہیں میں نے (براہ راست) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، اور مجھے یہ اطلاع بھی ملی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اہل یمن یلملم سے تلبیہ پکاریں، (اور احرام باندھیں) ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2914]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
میقات سے مراد وہ حد ہے جہاں سے حج وعمرے کی نیت سے آنے والا شخص احرام باندھے بغیر آگے نہیں جاسکتا۔
مکہ آنے والے مختلف راستوں پران مقامات کا تعین کردیا گیا ہے۔

(2)
آفاقی سے مراد وہ لوگ ہیں جو میقات کی حدود سے باہر دنیا میں کسی بھی مقام پر رہتے ہیں۔
وہ میقات پر پہنچتے ہیں تو احرام باندھتے ہیں۔
ان حدود کے اندر رہنے والے اپنے اپنے گھر سے احرام باندھ کر روانہ ہوتے ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2914   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 831  
´آفاقی لوگوں کے لیے احرام باندھنے کی میقاتوں کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم احرام کہاں سے باندھیں؟ آپ نے فرمایا: اہل مدینہ ذی الحلیفہ ۲؎ سے احرام باندھیں، اہل شام جحفہ ۳؎ سے اور اہل نجد قرن سے ۴؎۔ اور لوگوں کا کہنا ہے کہ اہل یمن یلملم سے ۵؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 831]
اردو حاشہ:
1؎:
مواقیت میقات کی جمع ہے،
میقات اس مقام کو کہتے ہیں جہاں سے حاجی یا معتمر احرام باندھ کر حج کی نیت کرتا ہے۔

2؎:
مدینہ کے قریب ایک مقام ہے۔
جس کی دوری مدینہ سے مکہ کی طرف دس کیلو میٹر ہے اور یہ مکہ سے سب سے دوری پر واقع میقات ہے۔

3؎:
مکہ کے قریب ایک بستی ہے جسے اب رابغ کہتے ہیں۔

4؎:
اسے قرن المنازل بھی کہتے ہیں،
یہ مکہ سے سب سے قریب ترین میقات ہے۔
مکہ سے اس کی دوری 95 کیلو میٹر ہے۔

5؎:
ایک معروف مقام کا نام ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 831   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1531  
1531. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ جب یہ دونوں شہر(کوفہ اور بصرہ) فتح ہوئے تو لوگ حضرت عمر فاروق ؓ کے پاس آئے اور کہا: امیر المومنین! رسول اللہ ﷺ نے اہل نجد کے لیے قرن کو بطور میقات مقرر کیا ہےاور وہ ہمارے راستہ سے ایک طرف رہ جاتا ہے۔ اگر ہم قرن جا کر احرام باندھیں تو ہمارے لیے بہت مشکل کا باعث ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: تم اپنے راستے میں اس کے مقابل کوئی جگہ دیکھو، پھر آپ نے ان کے لیے ذات عرق کو مقرر کردیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1531]
حدیث حاشیہ:
یہ مقام مکہ شریف سے بیالیس میل پر ہے۔
۔
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے یہ مقام اپنی رائے اور اجتہاد سے مقرر کیا مگر جابر ؓ کی روایت میں آنحضرت ﷺ سے عراق والوں کا میقات ذات عراق مروی ہے گو اس کے مرفوع ہونے میں شک ہے۔
اس روایت سے یہ بھی نکلا کہ اگر کوئی مکہ میں حج یا عمرے کی نیت سے اور کسی راستے سے آئے جس میں کوئی میقات راہ میں نہ پڑے تو جس میقات کے مقابل پہنچے وہاں سے احرام باندھ لے۔
بعضوں نے کہا کہ اگر کوئی میقات کی برابری معلوم نہ ہو سو سکے تو جو میقات سب سے دور ہے اتنی دور سے احرام باندھ لے۔
میں کہتا ہوں ابوداؤد اور نسائی نے باسناد صحیح حضرت عائشہ ؓ سے نکالا کہ آنحضرت ﷺ نے عراق والوں کے لئے ذات عرق مقرر کیا اور احمد اور دار قطنی نے عبداللہ بن عمرو بن عاص سے بھی ایسا ہی نکالا ہے۔
پس حضرت عمر ؓ کا اجتہاد حدیث کے مطابق پڑا (مولانا وحیدی الزماں)
اس بارے میں حافظ ابن حجر ؒ نے بڑی تفصیل سے لکھا ہے۔
آخر میں آپ فرماتے ہیں لکن لما سن عمر ذات عرق وتبعه علیه الصحابة واستمر علیه العمل کان أولی بالاتباع۔
یعنی حضرت عمر ؓ نے اسے مقرر فرمادیا اور صحابہ کرام نے اس پر عمل کیا تو اب اس کی اتباع ہی بہتر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1531   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1531  
1531. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ جب یہ دونوں شہر(کوفہ اور بصرہ) فتح ہوئے تو لوگ حضرت عمر فاروق ؓ کے پاس آئے اور کہا: امیر المومنین! رسول اللہ ﷺ نے اہل نجد کے لیے قرن کو بطور میقات مقرر کیا ہےاور وہ ہمارے راستہ سے ایک طرف رہ جاتا ہے۔ اگر ہم قرن جا کر احرام باندھیں تو ہمارے لیے بہت مشکل کا باعث ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: تم اپنے راستے میں اس کے مقابل کوئی جگہ دیکھو، پھر آپ نے ان کے لیے ذات عرق کو مقرر کردیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1531]
حدیث حاشیہ:
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل عراق کے لیے ذات عرق کو حضرت عمرؓ نے مقرر فرمایا تھا لیکن حقیقت حال اس کے خلاف ہے کیونکہ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل عراق کے لیے ذات عرق کو مقرر فرمایا تھا۔
(سنن أبي داود، المناسك، حدیث: 1739)
صحیح مسلم کی ایک روایت میں بھی اہل عراق کے لیے ذات عرق کے بطور میقات مقرر ہونے کا ذکر ہے۔
(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 2810 (1183)
ممکن ہے کہ جو حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ حضرت عمر ؓ نے اس میقات کو مقرر کیا تھا، انہیں حضرت عائشہ ؓ سے مروی مرفوع حدیث نہ پہنچی ہو یا اگر پہنچی ہے تو انہوں نے اسے ضعیف خیال کیا ہو۔
بہرحال راجح بات یہی ہے کہ ذات عرق کو رسول اللہ ﷺ نے خود ہی میقات مقرر فرمایا تھا اگرچہ آپ کے عہد مبارک میں عراق وغیرہ فتح نہیں ہوا تھا لیکن آپ کو اس بات کا یقین تھا کہ دور دراز تک اسلامی حکومت ہو گی، اس لیے آپ نے پیش بندی کے طور پر اسی وقت ذاتِ عرق کو عراق کا میقات مقرر کر دیا۔
(فتح الباري: 491/3)
جس روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل مشرق کے لیے عقیق کو میقات مقرر فرمایا وہ روایت صحیح نہیں۔
(ضعیف سنن أبي داود، حدیث: 381)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1531   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.