الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: جہاد کے احکام و مسائل
The Book on Military Expeditions
4. باب فِي التَّحْرِيقِ وَالتَّخْرِيبِ
4. باب: دوران جنگ کفار و مشرکین کے گھر جلانے اور ویران کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1552
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن نافع، عن ابن عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم: " حرق نخل بني النضير وقطع، وهي البويرة، فانزل الله: ما قطعتم من لينة او تركتموها قائمة على اصولها فبإذن الله وليخزي الفاسقين سورة الحشر آية 5 "، وفي الباب، عن ابن عباس، وهذا حديث حسن صحيح، وقد ذهب قوم من اهل العلم إلى هذا، ولم يروا باسا بقطع الاشجار وتخريب الحصون، وكره بعضهم ذلك، وهو قول الاوزاعي، قال الاوزاعي: ونهى ابو بكر الصديق ان يقطع شجرا مثمرا، او يخرب عامرا، وعمل بذلك المسلمون بعده، وقال الشافعي: لا باس بالتحريق في ارض العدو وقطع الاشجار والثمار، وقال احمد: وقد تكون في مواضع لا يجدون منه بدا، فاما بالعبث، فلا تحرق، وقال إسحاق: التحريق سنة إذا كان انكى فيهم.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " حَرَّقَ نَخْلَ بَنِي النَّضِيرِ وَقَطَعَ، وَهِيَ الْبُوَيْرَةُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ سورة الحشر آية 5 "، وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ ذَهَبَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا، وَلَمْ يَرَوْا بَأْسًا بِقَطْعِ الْأَشْجَارِ وَتَخْرِيبِ الْحُصُونِ، وَكَرِهَ بَعْضُهُمْ ذَلِكَ، وَهُوَ قَوْلُ الْأَوْزَاعِيِّ، قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ: وَنَهَى أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ أَنْ يَقْطَعَ شَجَرًا مُثْمِرًا، أَوْ يُخَرِّبَ عَامِرًا، وَعَمِلَ بِذَلِكَ الْمُسْلِمُونَ بَعْدَهُ، وقَالَ الشَّافِعِيُّ: لَا بَأْسَ بِالتَّحْرِيقِ فِي أَرْضِ الْعَدُوِّ وَقَطْعِ الْأَشْجَارِ وَالثِّمَارِ، وقَالَ أَحْمَدُ: وَقَدْ تَكُونُ فِي مَوَاضِعَ لَا يَجِدُونَ مِنْهُ بُدًّا، فَأَمَّا بِالْعَبَثِ، فَلَا تُحَرَّقْ، وقَالَ إِسْحَاق: التَّحْرِيقُ سُنَّةٌ إِذَا كَانَ أَنْكَى فِيهِمْ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کے کھجوروں کے درخت جلوا اور کٹوا دیئے ۱؎، یہ مقام بویرہ کا واقعہ ہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «ما قطعتم من لينة أو تركتموها قائمة على أصولها فبإذن الله وليخزي الفاسقين» (مسلمانو!)، (یہود بنی نضیر کے) کھجوروں کے درخت جو کاٹ ڈالے ہیں یا ان کو ہاتھ بھی نہ لگایا اور اپنے تنوں پر ہی ان کو کھڑا چھوڑ دیا تو یہ سب اللہ کے حکم سے تھا اور اللہ عزوجل کو منظور تھا کہ وہ نافرمانوں کو ذلیل کرے (الحشر: ۵)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن عباس رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے،
۳- بعض اہل علم کا یہی مسلک ہے، وہ درخت کاٹنے اور قلعے ویران کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے ہیں،
۴- بعض اہل علم اس کو مکروہ سمجھتے ہیں، اوزاعی کا یہی قول ہے،
۵- اوزاعی کہتے ہیں: ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے یزید کو پھل دار درخت کاٹنے اور مکان ویران کرنے سے منع کیا، ان کے بعد مسلمانوں نے اسی پر عمل کیا،
۶- شافعی کہتے ہیں: دشمن کے ملک میں آگ لگانے، درخت اور پھل کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۲؎۔
۷- احمد کہتے ہیں: اسلامی لشکر کبھی کبھی ایسی جگہ ہوتا ہے جہاں اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا، لیکن بلا ضرورت آگ نہ لگائی جائے،
۸- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: آگ لگانا سنت ہے، جب یہ کافروں کی ہار و رسوائی کا باعث ہو۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المزارعة 4 (2356)، والجہاد 154 (3020)، والمغازي 14 (3960)، صحیح مسلم/الجہاد 10 (1746)، سنن ابی داود/ الجہاد 91 (2615)، سنن ابن ماجہ/الجہاد (2844)، (تحفة الأشراف: 8267)، سنن الدارمی/السیر 23 (2503) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جنگی ضرورت کی بنا پر پھلدار درختوں کو جلوانا اور کٹوانا جائز ہے، لیکن بلا ضرورت عام حالات میں انہیں کاٹنے سے بچنا چاہیئے۔
۲؎: یعنی جب اسلامی لشکر کے لیے کچھ ایسے حالات پیدا ہو جائیں کہ درختوں کے جلانے اور مکانوں کے ویران کرنے کے سوا ان کے لیے دوسرا کوئی راستہ نہ ہو تو ایسی صورت میں ایسا کرنا جائز ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2844)

   صحيح البخاري4031عبد الله بن عمرحرق رسول الله نخل بني النضير وقطع وهي البويرة فنزلت ما قطعتم من لينة أو تركتموها قائمة على أصولها فبإذن الله
   صحيح البخاري4032عبد الله بن عمرحرق نخل بني النضير
   صحيح البخاري2326عبد الله بن عمرحرق نخل بني النضير وقطع وهي البويرة
   صحيح البخاري3021عبد الله بن عمرحرق النبي نخل بني النضير
   صحيح البخاري4884عبد الله بن عمرحرق نخل بني النضير وقطع وهي البويرة فأنزل الله ما قطعتم من لينة أو تركتموها قائمة على أصولها فبإذن الله وليخزي الفاسقين
   صحيح مسلم4554عبد الله بن عمرحرق رسول الله نخل بني النضير
   صحيح مسلم4553عبد الله بن عمرقطع نخل بني النضير وحرق
   صحيح مسلم4552عبد الله بن عمرحرق نخل بني النضير وقطع وهي البويرة
   جامع الترمذي1552عبد الله بن عمرحرق نخل بني النضير وقطع وهي البويرة فأنزل الله ما قطعتم من لينة أو تركتموها قائمة على أصولها فبإذن الله وليخزي الفاسقين
   جامع الترمذي3302عبد الله بن عمرحرق رسول الله نخل بني النضير وقطع وهي البويرة فأنزل الله ما قطعتم من لينة أو تركتموها قائمة على أصولها فبإذن الله وليخزي الفاسقين
   سنن أبي داود2615عبد الله بن عمرحرق نخل بني النضير وقطع وهي البويرة فأنزل الله ما قطعتم من لينة أو تركتموها
   سنن ابن ماجه2844عبد الله بن عمرحرق نخل بني النضير وقطع وهي البويرة فأنزل الله ما قطعتم من لينة أو تركتموها قائمة
   سنن ابن ماجه2845عبد الله بن عمرحرق نخل بني النضير وقطع
   بلوغ المرام1098عبد الله بن عمرحرق رسول الله نخل بني النضير وقطع
   مسندالحميدي702عبد الله بن عمرأن النبي صلى الله عليه وسلم قطع في أموال بني النضير وحرق

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2844  
´دشمن کی سر زمین کو آگ لگانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ بنو نضیر کے کھجور کا باغ جلا دیا، اور کاٹ ڈالا، اس باغ کا نام بویرہ تھا، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نازل ہوا: «ما قطعتم من لينة أو تركتموها قائمة» یعنی تم نے کھجوروں کے جو درخت کاٹ ڈالے یا جنہیں تم نے ان کی جڑوں پہ باقی رہنے دیا یہ سب اللہ تعالیٰ کے حکم سے تھا، اور اس لیے بھی کہ فاسقوں کو اللہ تعالیٰ رسوا کرے (سورۃ الحشر: ۵)۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2844]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
یہودیوں نے نبی اکرمﷺ سے معاہدہ کیا تھا کہ کفار مکہ کے خلاف مسلمانوں کی مدد کریں گے لیکن انہوں نے عہد شکنی کی اور قبیلہ بنو نضیر نے نبی اکرم ﷺ کو شہید کرنے کی سازش بھی کی۔
اس عہد شکنی کی وجہ سے رسول اللہﷺ نے ان پر لشکر کشی کی۔
وہ کچھ عرصہ اپنے قلعوں میں محصور رہے لیکن آخر جان بخشی کی صورت میں جلاوطنی پر آمادہ ہوگئے۔

(2)
اس محاصرے کے دوران میں مسلمانوں نے بنو نضیر کے کچھ درخت کاٹ ڈالے اور کچھ جلادیے تاکہ دشمنوں کی آڑ ختم ہو اور وہ اپنے باغوں کو اجڑتا دیکھ کر مقابلے کے لیے میدان میں آئیں۔

(3)
رسول اللہ ﷺ کے افعال اور صحابہ کے وہ افعال جو رسول اللہﷺکی اجازت سے کیےگئےہوں وہ شرعی طور پر جواز کی دلیل ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2844   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1098  
´(جہاد کے متعلق احادیث)`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نصیر کے کھجوروں کے درخت نذر آتش کروا دیئے اور کٹوا دیئے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1098»
تخریج:
«أخرجه البخاري، المغازي، باب حديث بني النضير...، حديث:4031، مسلم، الجهاد والسير، باب جواز قطع اشجار الكفار و تحريقها، حديث:1746.»
تشریح:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ناگزیر جنگی ضرورت کی بنا پر پھلدار درختوں کو جلانا یا کٹوانا جائز ہے۔
مگر عام حالات میں بلا ضرورت انھیں کاٹنے سے آپ نے منع فرمایا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1098   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1552  
´دوران جنگ کفار و مشرکین کے گھر جلانے اور ویران کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کے کھجوروں کے درخت جلوا اور کٹوا دیئے ۱؎، یہ مقام بویرہ کا واقعہ ہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «ما قطعتم من لينة أو تركتموها قائمة على أصولها فبإذن الله وليخزي الفاسقين» (مسلمانو!)، (یہود بنی نضیر کے) کھجوروں کے درخت جو کاٹ ڈالے ہیں یا ان کو ہاتھ بھی نہ لگایا اور اپنے تنوں پر ہی ان کو کھڑا چھوڑ دیا تو یہ سب اللہ کے حکم سے تھا اور اللہ عزوجل کو منظور تھا کہ وہ نافرمانوں کو ذلیل کرے (الحشر: ۵)۔ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1552]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جنگی ضرورت کی بنا پر پھلدار درختوں کو جلوانا اور کٹوانا جائز ہے،
لیکن بلاضرورت عام حالات میں انہیں کاٹنے سے بچنا چاہئے۔

2؎:
یعنی جب اسلامی لشکر کے لیے کچھ ایسے حالات پیدا ہوجائیں کہ درختوں کے جلانے اور مکانوں کے ویران کرنے کے سوا ان کے لیے دوسرا کوئی راستہ نہ ہو تو ایسی صورت میں ایسا کرناجائز ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1552   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2615  
´دشمنوں کے کھیت اور باغات کو آگ لگانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنونضیر کے کھجوروں کے باغات جلا دیے اور درختوں کو کاٹ ڈالا (یہ مقام بویرہ میں تھا) تو اللہ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی «ما قطعتم من لينة أو تركتموها» کھجور کے جو درخت تم نے کاٹ ڈالے، یا اپنی جڑوں پر انہیں قائم رہنے دیا، یہ سب اللہ کے حکم سے تھا (سورۃ الحشر: ۵)۔ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2615]
فوائد ومسائل:
جنگی ضرورت اور مصلحت کے تحت آگ لگانا یا مکانات گرانا جائز ہے۔
محض فساد پھیلانے کی نیت سے جائز نہیں۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2615   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.