الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: زکوۃ کے احکام و مسائل
Zakat (Kitab Al-Zakat)
4. باب الْكَنْزِ مَا هُوَ وَزَكَاةِ الْحُلِيِّ
4. باب: کنز کیا ہے؟ اور زیور کی زکاۃ کا بیان۔
Chapter: On The Meaning Of Kanz (Treasure) And Zakat On Jewellery.
حدیث نمبر: 1564
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن عيسى، حدثنا عتاب يعني ابن بشير، عن ثابت بن عجلان، عن عطاء، عن ام سلمة، قالت: كنت البس اوضاحا من ذهب، فقلت: يا رسول الله، اكنز هو؟ فقال:" ما بلغ ان تؤدى زكاته، فزكي فليس بكنز".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا عَتَّابٌ يَعْنِي ابْنَ بَشِيرٍ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ عَجْلَانَ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: كُنْتُ أَلْبَسُ أَوْضَاحًا مِنْ ذَهَبٍ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَكَنْزٌ هُوَ؟ فَقَالَ:" مَا بَلَغَ أَنْ تُؤَدَّى زَكَاتُهُ، فَزُكِّيَ فَلَيْسَ بِكَنْزٍ".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں میں سونے کے اوضاح ۱؎ پہنا کرتی تھی، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا یہ کنز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو مال اتنا ہو جائے کہ اس کی زکاۃ دی جائے پھر اس کی زکاۃ ادا کر دی جائے وہ کنز نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 18199) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: ایک قسم کا زیور ہے جسے پازیب کہا جاتا ہے۔

Narrated Umm Salamah, Ummul Muminin: I used to wear gold ornaments. I asked: Is that a treasure (kanz), Messenger of Allah? He replied: whatever reaches a quantity on which zakat is payable is not a treasure (kanz) when the zakat is paid.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1559


قال الشيخ الألباني: حسن المرفوع منه فقط

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
عطاء بن أبي رباح لم يسمع من أم سلمة رضي اللّٰه عنھا كما قال علي بن المديني:(المراسيل لابن أبي حاتم ص155)
وللمرفوع شواهد
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 62

   سنن أبي داود1564هند بنت حذيفةما بلغ أن تؤدى زكاته فزكي فليس بكنز
   بلوغ المرام500هند بنت حذيفة‏‏‏‏إذا اديت زكاته فليس بكنز

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 500  
´استعمال کے زیور میں بھی زکاۃ کا بیان`
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے سونے کا زیور پہن رکھا تھا۔ انہوں نے دریافت کیا یا رسول اللہ! کیا یہ کنز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تو نے اس کی زکوٰۃ ادا کر دی تو پھر یہ کنز نہیں۔ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 500]
لغوی تشریح:
«اَوْضَاحًا» ضاد معجمہ اور حا مہملہ کے ساتھ، وضح کی جمع ہے۔ وضح کے معنی ہیں پازیب، یعنی پاوں کا زیور۔
«اَكَنُزٌهُوَ؟» اس میں ہمزہ استفہامیہ ہے، یعنی دریافت کیا کہ آیا یہ کنز کی تعریف میں آتا ہے جس کے بارے میں قرآن مجید میں سخت وعید وارد ہے:
«وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ‎ ● ‏ يَوْمَ يُحْمَىٰ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَىٰ بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ ۖ هَٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ» [9-التوبة:34]
اور جو لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور اس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو آپ انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دیجیے۔ جس دن اس خزانے کو آتش دوزخ میں تپایا جائے گا، پھر اس کے ساتھ ان کی پیشانیوں، ان کی پہلووں اور ان کی پیٹھوں کو داغا جائے گا۔ (اور کہا جائے گا) یہ وہی یے جسے تم اپنے لیے خزانہ بناکر رکھتے تھے، لہٰذا اب اس کا مزا چکھو جو تم جمع کرتے رہے تھے۔
«اِذَا اَدَّيْتِ زَكَاتَهُ» اس سے زیور میں زکاۃ کا وجوب معلوم ہوتا ہے۔ اور سنن ابوداود میں ہے کہ جب مال، نصاب زکاۃ کو پہنچ جائے اور اس کی زکاۃ ادا کر دی جائے تو پھر وہ کنز نہیں رہتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زیور میں نصاب معتبر ہے۔ جب نصاب زکاۃ سے کم مالیت کا زیور ہو گا تو اس میں زکاۃ واجب نہیں۔

فائدہ:
مذکورہ روایت کو فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے شواہد کی بنا پر حسن قرار دیا ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس پر مفصل بحث کرتے ہوئے اسے حسن قرار دیا ہے۔ اور اس کی مفصل بحث سے یہی بات راجح معلوم ہوتی ہے کہ یہ روایت شواہد کی بنا پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [السلسلة الصحيحة للالباني، رقم: 559 وصحيح سنن ابي داواد، مفصل رقم: 1397]
بنابریں اس حدیث سے معلوم ہوا کہ استعمال کے زیور میں بھی زکاۃ ہے اگر وہ نصاب کو پہنچ جائے۔ اس کی تائید میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک حدیث مروی ہے جسے فاضل محقق نے بھی سنداً صحیح قرار دیا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ہاتھوں میں چاندی کی (موٹی موٹی) انگوٹھیاں دیکھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: عائشہ! یہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا: میں نے انہیں آپ کی خاطر زینت کے لیے پہنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تم اس کی زکاۃ دیتی ہو؟ میں نے کہا: نہیں، یا اس طرح کی کوئی بات کی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تجھے جہنم میں لے جانے کے لیے یہی کافی ہے۔ [سنن ابي داود، الزكاة، باب الكنز ماهو؟ وزكاة الحلي، حديث: 1565]
مذکورہ دونوں احادیث سے معلوم ہوا کہ استعمال ہونے والے زیور میں بھی زکاۃ ہے جبکہ وہ نصاب کو پہنچ جائے۔ «والله اعلم»
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 500   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.