الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: زکوۃ کے احکام و مسائل
Zakat (Kitab Al-Zakat)
10. باب الرَّجُلِ يَبْتَاعُ صَدَقَتَهُ
10. باب: زکاۃ دے کر پھر اس کو خریدنے کا بیان۔
Chapter: On A Person Who Buys His Zakat After Its Payment.
حدیث نمبر: 1593
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر، ان عمر بن الخطاب رضي الله عنه، حمل على فرس في سبيل الله، فوجده يباع، فاراد ان يبتاعه، فسال رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فقال:" لا تبتعه ولا تعد في صدقتك".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، حَمَلَ عَلَى فَرَسٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَوَجَدَهُ يُبَاعُ، فَأَرَادَ أَنْ يَبْتَاعَهُ، فَسَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ:" لَا تَبْتَعْهُ وَلَا تَعُدْ فِي صَدَقَتِكَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اللہ کی راہ میں ایک گھوڑا دیا، پھر اسے بکتا ہوا پایا تو خریدنا چاہا تو اور اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے مت خریدو، اپنے صدقے کو مت لوٹاؤ۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الزکاة 59(1489)، والھبة 30 (2623)، 37 (2636)، والوصایا 31 (2775)، والجہاد 119 (2971)، 137 (3002)، صحیح مسلم/الھبات 1 (1621)، (تحفة الأشراف:8351)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الزکاة 32 (668)، سنن النسائی/الزکاة 100 (2616)، سنن ابن ماجہ/الصدقات 1 (2390)، 2 (2392)، موطا امام مالک/الزکاة 26(49)، مسند احمد (1/40، 54) (صحیح)» ‏‏‏‏

Narrated Abdallah bin Umar: Umar bin Al Khattab gave a horse as alms in the way of Allah. He then found it being sold, and intended to buy it. So he asked the Messenger of Allah ﷺ about this. He said Do not buy it, and do not take back your sadaqah.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1589


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2636) صحيح مسلم (1620)

   صحيح البخاري2775عبد الله بن عمرلا تبتعها ولا ترجعن في صدقتك
   صحيح البخاري3002عبد الله بن عمرلا تبتعه ولا تعد في صدقتك
   صحيح البخاري2971عبد الله بن عمرلا تبتعه ولا تعد في صدقتك
   صحيح البخاري1489عبد الله بن عمرلا تعد في صدقتك
   صحيح مسلم4169عبد الله بن عمرلا تعد في صدقتك يا عمر
   صحيح مسلم4167عبد الله بن عمرلا تبتعه ولا تعد في صدقتك
   جامع الترمذي668عبد الله بن عمرلا تعد في صدقتك
   جامع الترمذي2131عبد الله بن عمرمثل الذي يعطي العطية ثم يرجع فيها كالكلب أكل حتى إذا شبع قاء ثم عاد فرجع في قيئه
   سنن أبي داود1593عبد الله بن عمرلا تبتعه ولا تعد في صدقتك
   سنن النسائى الصغرى2617عبد الله بن عمرلا تعرض في صدقتك
   سنن النسائى الصغرى2618عبد الله بن عمرلا تعد في صدقتك
   سنن ابن ماجه2386عبد الله بن عمرالعائد في هبته كالكلب يعود في قيئه
   سنن ابن ماجه2392عبد الله بن عمرلا تبتع صدقتك
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم286عبد الله بن عمرلا تبتعه ولا تعد فى صدقتك

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 286  
´صدقہ دے کر واپس لینے کی وعید`
«. . . وبه: أن عمر بن الخطاب حمل على فرس عتيق فى سبيل الله، فوجده يباع، فأراد أن يبتاعه فسأل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فقال: لا تبتعه ولا تعد فى صدقتك . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اللہ کے راستے میں ایک بہترین گھوڑا صدقہ کیا تھا، پھر دیکھا کہ وہ گھوڑا بیچا جا رہا ہے تو اسے خریدنے کا ارادہ کیا، پھر انہوں نے اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے نہ خریدو اور اپنا صدقہ واپس نہ لو . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 286]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2971، ومسلم 1620، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ نیز دیکھئے: [حديث: 214]
② جو شخص کسی کو صدقہ دے تو اسے واپس (یعنی دوبارہ) خرید نہیں سکتا۔
③ جسے صدقہ دیا جائے وہ ضرورت کے وقت اسے بیچ سکتا ہے۔
④ صدقہ واپس لینا جائز نہیں ہے۔
⑤ شریعت نے حیل (حیلہ بازی) کا سدباب کیا ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 214   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2392  
´صدقہ کر دینے کے بعد کیا اسے بکتا ہوا پا کر خرید سکتا ہے؟`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ایک گھوڑا صدقہ کیا، پھر دیکھا کہ اس کا مالک اس کو کم دام میں بیچ رہا ہے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنا صدقہ مت خریدو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الصدقات/حدیث: 2392]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
خریدنا اگرچہ واپس لینا نہیں ہے لیکن اس سے ظاہری طور پرمشابہت رکھتا ہے اس لیے اس بھی منع کردیا گیا تاکہ یہ صدقہ واپس لینےکا ایک حیلہ نہ بن جائے۔

(2)
صدقہ کی ہوئی چیز واپس خریدنے کی خواہش سےمعلوم ہوتا ہے کہ ابھی دل اس میں اٹکا ہوا ہے۔
یہ مناسب نہیں بلکہ اللہ کی راہ میں جو کچھ دے دیا، دےدیا، اب دوبارہ حصول کی خواہش کیوں کی جائے۔

(3)
صدقہ کی ہوئی چیز جب سستی مل رہی ہوتو جتنی رقم کم خرچ کی گویا اتنی رقم صدقہ دے کر اپنی چیز واپس لےلی اس لیے یہ جائز نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2392   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 668  
´صدقہ دے کر واپس لینے کی کراہت کا بیان۔`
عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کسی کو ایک گھوڑا اللہ کی راہ میں دیا، پھر دیکھا کہ وہ گھوڑا بیچا جا رہا ہے تو اسے خریدنا چاہا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنا صدقہ واپس نہ لو ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الزكاة/حدیث: 668]
اردو حاشہ:
1؎:
کیونکہ صدقہ دے کر واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کر کے چاٹ لیتا ہے،
ظاہر حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بعض علماء نے اپنے دیئے ہوئے صدقے کے خریدنے کو حرام کہا ہے،
لیکن جمہور نے اسے کراہت تنزیہی پر محمول کیا ہے کیونکہ فی نفسہ اس میں کوئی قباحت نہیں،
قباحت دوسرے کی وجہ سے ہے کیونکہ بسا اوقات صدقہ دینے والا لینے والے سے جب اپنا صدقہ خریدتا ہے تو اس کے اس احسان کی وجہ سے جو صدقہ دے کر اس نے اس پر کیا تھا وہ قیمت میں رعایت سے کام لیتا ہے،
نیز بظاہر یہ حدیث ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث ((لَا تَحِلُّ الصَّدقَةُ إلَّا لِخَمْسَةٍ:
 لِعَامِلٍ عَلَيْهَا أَوْ رَجُلِِ اِشْتَرَاهَا بِمَالِهِ...الحديث)
)
کے معارض ہے،
تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ والی حدیث کراہت تنزیہی پر محمول کی جائیگی اور ابو سعید رضی اللہ عنہ والی روایت بیان جواز پر،
یا عمر رضی اللہ عنہ کی روایت نفل صدقے کے سلسلہ میں ہے اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت فرض صدقے کے بارے میں ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 668   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1593  
´زکاۃ دے کر پھر اس کو خریدنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اللہ کی راہ میں ایک گھوڑا دیا، پھر اسے بکتا ہوا پایا تو خریدنا چاہا تو اور اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے مت خریدو، اپنے صدقے کو مت لوٹاؤ۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1593]
1593. اردو حاشیہ:
➊ جو مال اللہ کی راہ میں دے دیا ہو۔ پھر دوبارہ اس میں طمع نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ اللہ سے اجر کی اُمید رکھنی چاہیے۔ (نیکی کردریا میں ڈال) کا یہی مفہوم ہے۔ بعض لوگ اللہ کی راہ میں خرچ کرکے اس کے معاملے پر نظر رکھتے ہیں۔ جو مناسب نہیں۔ اسی حدیث میں اسی لیے صدقہ شدہ مال کے خریدنے سے منع کیا گیا ہے۔ تاہم جہاں یہ بات نہ ہو وہاں جمہور کے نزدیک اس کا جواز ہے۔ جیسے کسی تیسرے شخص سے اسے خرید لیا جائے۔ یا وراثت میں وہ چیز اس کے پاس آجائے۔ [شرح سنن أبي داود۔ علامہ بدر الدین عینی: 294/6)
➋ صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کسی بھی نئے اقدام سے پہلے رسول اللہ ﷺ سے سوال کرلیا کرتے تھے۔ کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ زندگی کے تمام امور ضابطہ اسلام سے مربوط ہیں۔ چنانچہ ہر مسلمان کو ایسا ہی کرنا چاہیے۔ اور قرآن وسنت سے رہنمائی لینی چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1593   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.