الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت
The Book of the Sunnah
2. بَابُ : تَعْظِيمِ حَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّغْلِيظِ عَلَى مَنْ عَارَضَهُ
2. باب: حدیث نبوی کی تعظیم و توقیر اور مخالفین سنت کے لیے سخت گناہ کی وعید۔
حدیث نمبر: 16
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن يحيى النيسابوري ، حدثنا عبد الرزاق ، انبانا معمر ، عن الزهري ، عن سالم ، عن ابن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" لا تمنعوا إماء الله ان يصلين في المسجد"، فقال ابن له: إنا لنمنعهن، فقال: فغضب غضبا شديدا، وقال: إني احدثك عن رسول الله صلى الله عليه وسلم وإنك تقول: إنا لنمنعهن؟.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى النَّيْسَابُورِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا تَمْنَعُوا إِمَاءَ اللَّهِ أَنْ يُصَلِّينَ فِي الْمَسْجِدِ"، فَقَالَ ابْنٌ لَهُ: إِنَّا لَنَمْنَعُهُنَّ، فَقَالَ: فَغَضِبَ غَضَبًا شَدِيدًا، وَقَالَ: إِنِّي أُحَدِّثُكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِنَّكَ تَقُولُ: إِنَّا لَنَمْنَعُهُنَّ؟.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اللہ کی بندیوں (عورتوں) کو مسجد میں نماز پڑھنے سے نہ روکو، تو ان کے ایک بیٹے نے ان سے کہا: ہم تو انہیں ضرور روکیں گے، یہ سن کر ابن عمر رضی اللہ عنہما سخت ناراض ہوئے اور بولے: میں تم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کر رہا ہوں اور تم کہتے ہو کہ ہم انہیں ضرور روکیں گے؟ ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الأذان 166 (873)، والنکاح 117 (5238)، (تحفة الأشراف: 6943)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الصلاة 30 (442)، سنن ابی داود/الصلاة 53 (566)، سنن الترمذی/الصلاة 283 (570)، سنن النسائی/المساجد 15 (707)، موطا امام مالک/القبلة 6 (12)، مسند احمد (2/7، 151)، سنن الدارمی/الصلاة 57 (1314) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: گویا تم اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کے مدمقابل لا رہے ہو، مسند احمد (۲/۶۳) میں ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے زندگی بھر اس لڑکے سے بات نہیں کی۔

It was narrated from Ibn Umar that: The Messenger of Allah (ﷺ) said:" Do not prevent the female slaves of Allah from praying in the mosque." A son of his said: We will indeed prevent them!" He got very angry and said: "I tell you a Hadith from the Messenger of Allah (ﷺ) and you say, we will indeed prevent them?!"
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري

   صحيح البخاري5238عبد الله بن عمراستأذنت امرأة أحدكم إلى المسجد فلا يمنعها
   صحيح البخاري865عبد الله بن عمرإذا استأذنكم نساؤكم بالليل إلى المسجد فأذنوا لهن
   صحيح البخاري873عبد الله بن عمرإذا استأذنت امرأة أحدكم فلا يمنعها
   صحيح البخاري899عبد الله بن عمرائذنوا للنساء بالليل إلى المساجد
   صحيح البخاري900عبد الله بن عمرلا تمنعوا إماء الله مساجد الله
   صحيح مسلم990عبد الله بن عمرلا تمنعوا إماء الله مساجد الله
   صحيح مسلم992عبد الله بن عمرلا تمنعوا النساء من الخروج إلى المساجد بالليل
   صحيح مسلم989عبد الله بن عمرلا تمنعوا نساءكم المساجد إذا استأذنكم إليها
   صحيح مسلم991عبد الله بن عمرإذا استأذنكم نساؤكم إلى المساجد فأذنوا لهن
   صحيح مسلم988عبد الله بن عمرإذا استأذنت أحدكم امرأته إلى المسجد فلا يمنعها
   صحيح مسلم995عبد الله بن عمرلا تمنعوا النساء حظوظهن من المساجد إذا استأذنوكم
   صحيح مسلم994عبد الله بن عمرائذنوا للنساء بالليل إلى المساجد
   جامع الترمذي570عبد الله بن عمرائذنوا للنساء بالليل إلى المساجد
   سنن أبي داود567عبد الله بن عمرلا تمنعوا نساءكم المساجد بيوتهن خير لهن
   سنن أبي داود566عبد الله بن عمرلا تمنعوا إماء الله مساجد الله
   سنن أبي داود568عبد الله بن عمرائذنوا للنساء إلى المساجد بالليل
   سنن النسائى الصغرى707عبد الله بن عمرإذا استأذنت امرأة أحدكم إلى المسجد فلا يمنعها
   سنن ابن ماجه16عبد الله بن عمرلا تمنعوا إماء الله أن يصلين في المسجد
   مسندالحميدي624عبد الله بن عمرإذا استأذنت أحدكم امرأته إلى المسجد فلا يمنعها

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 899  
´اس شخص پر جو نماز جمعہ میں حاضر نہ ہو تو کیا اس پر غسل ہے`
«. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" ائْذَنُوا لِلنِّسَاءِ بِاللَّيْلِ إِلَى الْمَسَاجِدِ . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورتوں کو رات کے وقت مسجدوں میں آنے کی اجازت دے دیا کرو . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْجُمُعَةِ: 899]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم فرمایا کہ اس شخص پر جو نماز جمعہ میں حاضر نہ ہو تو کیا اس پر غسل ہے۔۔۔
اور حدیث پیش کرتے ہیں کہ عورتوں کو مسجدوں میں جانے سے مت روکیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض یہ معلوم ہوتی ہے کہ عورتوں کو رات کی نماز میں آنے کی اجازت دی جا رہی ہے اور دن کی نماز میں آنا ثابت نہیں ہو رہا ہے اسی طرح سے دن کی نماز میں جمعہ کی نماز بھی شامل ہے تو جب دن کی نماز میں نہ آنا ثابت ہو رہا ہے تو بالاولیٰ جمعہ بھی دن کی ہی نمازوں میں شامل ہے اور جب عورت جمعہ کی نماز میں نہیں آ رہی تو وہ غسل بھی نہیں کرے گی یعنی غسل کرنا اس کے لیے ضروری نہ ٹھہرا جو جمعہ کے لیے نا جائے۔ یہی مراد ہے امام بخاری رحمہ اللہ کا ترجمۃ الباب اور حدیث سے۔

◈ امام کرمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں .
«فان قيل مفهوم التقييد بالليل يمنع النهار والجمعة نهارية»
پس یہ کہا گیا ہے کہ (عورتوں کا مسجد میں جانا) مقید ہے رات کے ساتھ اور جمعہ کی نماز دن کی نماز ہے۔

◈ الشیخ ابی القاسم البنارسی رحمہ اللہ مندرجہ بالا حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ نے کس لطف سے استنباط کیا ہے کہ اس کے بیان کے لیے میرے پاس زبان نہیں ہے۔۔۔ اثرا عمر رضی اللہ عنہ سے یہ بتلاتے ہیں کہ اس سے عورتوں کے حضور جماعت کی اجازت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے رات میں ثابت ہوتی ہے نہ دن میں اور نماز جمعہ چونکہ دن کو ہوتی ہے لہٰذا اس وقت ان کو حضور مسجد کی اجازت نہیں ہے اور جب ان پر جمعہ نہیں تو غسل بھی نہیں۔ [الخذي العظيم ص8]

◈ ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت یہ ہے کہ عورتوں اور بچوں پر جمعہ کے لیے آنا واجب نہیں ہے جب ان پر جمعہ واجب نہیں تو پھر غسل کا حکم بھی نہیں۔ [التوضيح، ج8، ص458]

◈ امام ابن المنذر رحمہ اللہ اس بات پر اجماع نقل فرماتے ہیں کہ:
«أجمع أئمة الفتويٰ على أنه لا جمعة على النساء والصبيان» [الاجماع لابن المنذر، ص44]
تمام ائمہ فتویٰ کا اس پر اجماع ہے کہ جمعہ عورتوں اور بچوں پر فرض نہیں ہے۔‏‏‏‏

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«في حديث أبى هريرة رضى الله عنه حق على كل مسلم أن يغتسل فانه شامل للجميع، والتقييد فى حديث ابن عمر بمن جاء منكم يخرج من لم يجي . . .» [فتح الباري، ج2، ص221]
یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث مذکورہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جمعہ کا غسل ہر مسلمان پر واجب ہے اور ابن عمر رضی اللہ عنہ کی آئندہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو آدمی جمعہ میں حاضر نہ ہو اس پر غسل واجب نہیں اور ابوسعید رضی اللہ عنہ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نابالغ لڑکے پر جمعہ کا غسل واجب نہیں اور عورتوں کو رات کے وقت مسجد میں جانے سے نہ منع کرنا اس پر دلالت کرتا ہے کہ جمعہ ان پر واجب نہیں ورنہ رات کی قید لگانے کے کوئی معنی نہ تھے۔ لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کی مراد ترجمۃ الباب سے یہ ہے کہ غسل جمعہ کا صرف اسی شخص کے لیے ہے جس پر جمعہ واجب ہو۔

فائدہ نمبر1:
امام بخاری رحمہ اللہ کا باب قائم کرنا اور اس ضمن میں احادیث کا پیش کرنا ہرگز اس بات کی مانع نہیں کہ عورتیں رات اور فجر کی نماز کے علاوہ دن کی نمازوں میں مسجد نہ جایا کریں کیوں کہ امام بخاری رحمہ اللہ ہی نے ان احادیث میں اس حدیث کو بھی درج کیا ہے۔ «لا تمنعوا اماء الله مساجد الله» کہ عورتوں کو مسجد میں آنے سے مت روکو۔
یہ حدیث اس بات پر دال ہے کہ عورتیں مسجد آ سکتی ہیں کسی بھی نماز کے لیے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود صرف یہ تھا کہ جمعہ ان پر واجب نہیں ورنہ رات کی قید لگانے کو کوئی مضر نہیں ہیں کیوں کہ مطلق احادیث اس مسئلے پر موجود ہیں۔

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ:
ابن عمر رضی اللہ عنہما کی جو حدیث ہے کہ عورتوں کو رات کی نماز کے لیے اجازت دے دو۔ تو اس سے یہ مراد ہے کہ اجازت ان کے لیے رات کی نماز میں ہے اور جمعہ اس میں داخل نہیں ہے اور دوسری روایت جو اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ روایت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت کے خلاف ہے (یعنی وہ مقید ہے اور اسامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث مطلق ہے) کہ تم مت روکو اللہ کی بندیوں کو مسجد میں آنے سے۔ [فتح الباري ج2 ص487]

◈ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کے تحت امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس حدیث میں یہ فقہ ہے کہ عورت کے لیے رات کو مسجد جانا جائز ہے اور اس (کے عموم) میں ہر نماز داخل ہے۔ [التمهيد ج24 ص281]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دور میں خواتین نماز کے لیے مسجد جایا کرتی تھیں شارع علیہ السلام نے انہیں ہرگز نہیں روکا اور نہ ہی کسی صحابی نے اپنی خواتین کو مسجد جانے سے روکا بلکہ اگر کوئی روکتا تو وہ اس کی مخالفت کرتے جیسا کہ عبداللہ رضی اللہ عنہ کے بیٹے کا قصہ معروف ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں صحابیات کا مساجدوں میں نماز ادا کرنا:
امی عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز پڑھاتے تو عورتیں اپنی چادروں میں لپٹی ہوئی جاتی تھیں اندھیرے کی وجہ سے پہچانی نہ جاتیں۔ [صحيح البخاري 868]
➋ سیدہ زینب الثقفیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم عورتوں میں سے کوئی عورت عشاء کی نماز کے لیے مسجد آئے تو خوشبو نہ لگائے۔ [صحيح مسلم 443]
➌ عورتوں کو مسجدوں سے منع نہ کرو اور انہیں بغیر خوشبو کے سادہ لباس میں جانا چاہیے۔ [مسند أحمد ج2 ص438 ح9645]
➍ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عورتوں! جب مرد سجدہ کریں تو تم اپنی نظروں کی حفاظت کرو۔ [صحيح ابن خزيمه 1694 سنده صحيح]
➎ سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں خواتین کو حکم دیا جاتا کہ مردوں سے پہلے (سجدے، رکوع سے) سر نہ اٹھائیں۔ [صحيح ابن حبان 2216]
➏ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی بیوی عشاء کے لیے جاتیں مگر عمر رضی اللہ عنہ انہیں روکتے تھے۔ [صحيح البخاري: 900]
➐ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جب عورتیں فرض نماز کا سلام پھیریں تو اٹھ کھڑی ہوتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مرد (صحابہ کرام) بیٹھے رہتے پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوتے تو صحابہ بھی کھڑے ہو جاتے۔ [صحيح البخاري 866]
➑ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: عورتوں کی بہترین صف آخری صف ہے اور سب سے بری صف پہلی ہے۔ [مصنف ابن ابي شيبه رقم 624]
➒ ایک خاتون نے نذر مانی تھی کہ اگر اس کا شوہر جیل سے باہر آ گیا تو وہ بصرے کی ہر مسجد میں دو رکعتیں ادا کرے گی۔ [ابن ابي شيبه رقم 7617]
➓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نماز میں داخل ہوتا ہوں اور لمبی نماز پڑھنے کا ارادہ کرتا ہوں پھر میں کسی بچے کی رونے کی آواز سنتا ہوں تو اپنی نماز مختصر کر دیتا ہوں کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ اس کے رونے کی وجہ سے اس کی ماں کو تکلیف ہو گی۔ [صحيح مسلم 470]
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کو مسجد میں آنے کی اجازت دینا مشروع ہے اور انہیں بلاعذر روکنا درست نہیں اگر وہ اجازت مانگیں۔

فائدہ نمبر2:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کو مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت مرحمت فرمائی ہے لیکن چند شرائط کے ساتھ کہ خواتین کو مطلق انکار کرنا کہ وہ مساجدوں میں نہ جائیں تو یہ درست نہیں ہے کیوں کہ کئی ایک آثار موجود ہیں جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ عورتیں مساجد میں جا سکتی ہیں مطلق فتنہ اور فساد کا نام دے کر اپنے مذہب کی بات کو ثابت کرنا درست نہیں کیوں کہ پہلے مشروع ہونا ثابت ہو گا پھر اس کے بعد اس کی شرائط کا ذکر کیا جائے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی نماز ان کے گھروں میں افضل قرار دی ہے۔ جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ تم نہ روکو اللہ کی بندیوں کو مسجد جانے سے اور ان کے گھر بہتر ہیں ان کے لیے۔
مندرجہ بالا حدیث نے واضح کیا کہ عورتوں کی نماز گھر میں افضل ہے لیکن اس کے باوجود اگر فتنہ کا ڈر نہ ہو تو وہ مسجد میں نماز ادا کرنے آ سکتی ہیں۔ مگر چند شرائط کے ساتھ۔
➊ یہ اعتقاد رکھے کہ اس کا گھر افضل ہے اس کے لیے نماز کے واسطے۔
➋ اپنے خاوند سے اجازت طلب کرے۔
➌ کسی قسم کی کوئی خوشبو عطر وغیرہ کااستعمال ہرگز نہ کریں
➍ اور بغیر کسی خوشبو کے
➎ مردوں کے ساتھ قبار نہ باندھے۔
➏ امام کے سلام پھیرتے ہی عورتیں گھروں کو آ جائیں (یعنی وہاں نہ بیٹھے تاکہ مردوں سے اختلاط سے بچے۔)
➐ راستے میں مردوں سے اختلاط سے بچے۔
➑ راستے کے وسط میں نہ چلے۔
➒ اور اس بات کو ملحوظ رکھے کہ اس کی صف آخری صف بہتر ہے۔
➓ وہ عورت حجاب کے ساتھ نکلے۔ ديكهئے تفصيل كے ليے: [الدين الخالص لشيخ امين الله بشاروي، ج5 ص180]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 207   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 568  
´عورتوں کے مسجد جانے کا بیان۔`
مجاہد کہتے ہیں: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: تم عورتوں کو رات میں مسجد جانے کی اجازت دے دیا کرو، اس پر ان کے ایک لڑکے (بلال) نے کہا: قسم اللہ کی! ہم انہیں اس کی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ اسے فساد کا ذریعہ بنائیں، قسم اللہ کی! ہم انہیں اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ مجاہد کہتے ہیں: اس پر انہوں نے (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے) (اپنے بیٹے کو) بہت سخت سست کہا اور غصہ ہوئے، پھر بولے: میں کہتا ہوں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: تم انہیں اجازت دو، اور تم کہتے ہو: ہم انہیں اجازت نہیں دیں گے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 568]
568۔ اردو حاشیہ:
➊ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک اہم مسئلہ واضح فرمایا ہے کہ کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مقابلے میں اپنی سوچ اور فہم و استدلال کو اہمیت دے۔ اس پر اصرار میں کفر کا اندیشہ ہے۔ قرآن مجید میں ہے:
«وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّـهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ» [الأحزاب۔ 36]
کسی بھی مومن مرد عورت کو حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ فرما دیں تو انہیں اپنے معاملے کا اختیار رہے۔ افسوس ہے ایسے مسلمان کہلوانے والوں پر جو اپنے زوق و مزاج عادات و رسم رواج اور اپنے امام کے قول پر ایسے سخت ہوتے ہیں کہ آیات قرآنیہ کی تاویل اور احادیث صحیحہ کا انکار کرتے چلے جاتے ہیں۔ حالانکہ آئمہ عظام کی اپنی سیرتیں اور ان کے اقوال اس معاملے میں انتہائی صاف اور بےمیل ہیں۔ بطور مثال امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے: «إذا صح الحديث فهو مذهبي» [حاشية ابن عابدين: 68/1] صحیح حدیث میرا مذہب ہے۔
«لا يحل لأحد أن يأخذ بقولنا ما لم يعلم من أين أخذنا» «الانتقاء فى فضائل الثلاثة الأئمة من الفقهاء، لابن عبدالبر» کسی کو روا نہیں کہ ہمارا قول اختیار کرے، جب تک اسے یہ معلوم نہ ہو کہ ہم نے اسے کہاں سے لیا ہے۔
ایک قول کے الفاظ یوں ہیں: «حرام على من لم يعرف دليلي أن يفتني بكلامي»
جس شخص کو میری دلیل معلوم نہ ہو اسے میرے قول پر فتویٰ دینا حرام ہے۔
ایسے ہی دیگر آئمہ کرام کے اقوال بھی اس مفہوم میں ثابت ہیں۔
➋ ان احادیث کی رو سے عورتوں کو مسجد میں جانے کی اجازت ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ باپردہ ہوں۔ خوشبو اور دیگر زیب و زینت سے مبرا ہوں۔ مگر اللہ تعالیٰ اصلاح حال فرمائے۔ صورت حال واقعتاً خطرناک ہے۔
➌ ان احادیث سے یہ استدلال بھی کیا گیا ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو حج یا عمرہ کے سفر سے نہیں روک سکتا کیونکہ یہ سفر مسجد حرام کی طرف ہوتا ہے اور یہ تمام مساجد سے افضل ہے۔ اور حج اور عمرہ شرعی فرائض میں سے ہیں۔ اس لئے استطاعت کی صورت میں خاوند کو بیوی کا یہ جائز اور شرعی مطالبہ اولین فرصت میں پورا کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 568   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 707  
´عورتوں کو مسجد میں آنے سے روکنے کی ممانعت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کی بیوی مسجد جانے کی اجازت چاہے تو وہ اسے نہ روکے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 707]
707 ۔ اردو حاشیہ: عورتیں بوڑھی ہوں یا جوان باپردہ ہو کر ہر نماز کے لیے مسجد میں آسکتی ہیں۔ اگرچہ عورتوں کے لیے گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے مگر جماعت کے اپنے فوائد ہیں۔ عورت باپردہ ہو کر جماعت کے وقت کے قریب آئے اور جماعت ختم ہوتے ہی واپس چلی جائے تاکہ مردوں سے اختلاط نہ ہو، سنتیں گھر جاکر پڑھے۔ ان شرائط کے ساتھ عورت اجازت طلب کرے تو شوہر یا ولی کو روکنے کا اختیار نہیں، اسے اجازت دے دینی چاہیے، البتہ اگر غیرمعمولی حالات ہوں، امن و امان ناپید ہو تو پھر صرف نماز ہی نہیں بلکہ باقی کاموں کے لیے بھی باہر جانا جائز نہ ہو گا۔ لیکن تعجب کی بات ہے کہ بیاہ شادی، مرگ و سوگ، میل ملاقات، درباروں اور پیروں کے پاس حاضری، خریداری، الیکشن کے ووٹوں اور باہر زمین کے کام کاج وغیرہ کے لیے عورت جائے تو کوئی ڈر نہیں مگر نماز کے لیے مسجد میں آئے تو فساد کا ڈر ہے۔ احناف صرف بوڑھی عورتوں کو رات کے وقت اجازت دیتے ہیں، مگر کیا وہ باقی امور کے لیے بھی یہ پابندی قائم کریں گے؟ نیز یہ صحابیات کے طرزِ عمل اور حدیث شریف کے بالکل خلاف ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 707   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث16  
´حدیث نبوی کی تعظیم و توقیر اور مخالفین سنت کے لیے سخت گناہ کی وعید۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اللہ کی بندیوں (عورتوں) کو مسجد میں نماز پڑھنے سے نہ روکو، تو ان کے ایک بیٹے نے ان سے کہا: ہم تو انہیں ضرور روکیں گے، یہ سن کر ابن عمر رضی اللہ عنہما سخت ناراض ہوئے اور بولے: میں تم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کر رہا ہوں اور تم کہتے ہو کہ ہم انہیں ضرور روکیں گے؟ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 16]
اردو حاشہ:
(1)
عورتوں کو نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد میں جانا جائز ہے۔
تاہم گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے۔

(2)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ناراضی ذاتی وجوہات کی بنا پر نہیں ہوتی تھی، لیکن کوئی غلط کام  ہوتے دیکھ کر یا غلط بات سن کر وہ برداشت نہیں کرتے تھے۔
البتہ غلط کام سے روکنے کے لیے موقع محل کی مناسبت سے مناسب طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔

(3)
جہاں زجرو توبیخ کے زیادہ مؤثر ہونے کی امید ہو وہاں یہ طریقہ اختیار کرنا بھی جائز ہے۔

(4)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے بیٹے جناب بلال رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ارشاد نبوی کی تعمیل سے انکار نہیں تھا، بلکہ مقصد یہ تھا کہ آج کل عورتیں گھر سے نکلتے ہوئے ضرروی آداب کا کما حقہ خیال نہیں رکھتیں، اس لیے انہیں اجازت نہیں دینی چاہیے، لیکن ان کے الفاظ چونکہ ظاہری طور پر نامناسب تھے، اس لیے ابن عمر رضی اللہ عنہ نے انتہائی ناراضی کا اظہار فرمایا۔
مسند احمد کی روایت (36/2)
میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب تک زندہ رہے ان سے بات تک نہ کی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 16   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 570  
´عورتوں کے مسجد جانے کا بیان۔`
مجاہد کہتے ہیں: ہم لوگ ابن عمر رضی الله عنہما کے پاس تھے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: عورتوں کو رات میں مسجد جانے کی اجازت دو، ان کے بیٹے بلال نے کہا: اللہ کی قسم! ہم انہیں اجازت نہیں دیں گے۔ وہ اسے فساد کا ذریعہ بنا لیں گی، تو ابن عمر رضی الله عنہما نے کہا: اللہ تجھے ایسا ایسا کرے، میں کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اور تو کہتا ہے کہ ہم انہیں اجازت نہیں دیں گے ۱؎۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 570]
اردو حاشہ: 1؎:
احمدکی روایت میں یہ بھی ہے کہ انہوں نے کہاکہ میں تجھ سے بات نہیں کروں گا۔
اللہ اکبر!صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نزدیک یہ قدرتھی نبی اکرمﷺکے احکام اور آپ کی سنت کی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 570   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.