الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: زکوۃ کے احکام و مسائل
Zakat (Kitab Al-Zakat)
20. باب كَمْ يُؤَدَّى فِي صَدَقَةِ الْفِطْرِ
20. باب: صدقہ فطر کتنا دیا جائے؟
Chapter: How Much Sadaqah Should Be Given At The End Of Ramadan.
حدیث نمبر: 1618
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا حامد بن يحيى، اخبرنا سفيان. ح وحدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن ابن عجلان، سمع عياضا، قال: سمعت ابا سعيد الخدري، يقول:" لا اخرج ابدا إلا صاعا، إنا كنا نخرج على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم صاع تمر او شعير او اقط او زبيب"، هذا حديث يحيى، زاد سفيان: او صاعا من دقيق، قال حامد: فانكروا عليه فتركه سفيان، قال ابو داود: فهذه الزيادة وهم من ابن عيينة.
(مرفوع) حَدَّثَنَا حَامِدُ بْنُ يَحْيَى، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ. ح وحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، سَمِعَ عِيَاضًا، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، يَقُولُ:" لَا أُخْرِجُ أَبَدًا إِلَّا صَاعًا، إِنَّا كُنَّا نُخْرِجُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَاعَ تَمْرٍ أَوْ شَعِيرٍ أَوْ أَقِطٍ أَوْ زَبِيبٍ"، هَذَا حَدِيثُ يَحْيَى، زَادَ سُفْيَانُ: أَوْ صَاعًا مِنْ دَقِيقٍ، قَالَ حَامِدٌ: فَأَنْكَرُوا عَلَيْهِ فَتَرَكَهُ سُفْيَانُ، قَالَ أَبُو دَاوُد: فَهَذِهِ الزِّيَادَةُ وَهْمٌ مِنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ.
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ہمیشہ ایک ہی صاع نکالوں گا، ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کھجور، یا جو، یا پنیر، یا انگور کا ایک ہی صاع نکالتے تھے۔ یہ یحییٰ کی روایت ہے، سفیان کی روایت میں اتنا اضافہ ہے: یا ایک صاع آٹے کا، حامد کہتے ہیں: لوگوں نے اس زیادتی پر نکیر کی، تو سفیان نے اسے چھوڑ دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ زیادتی ابن عیینہ کا وہم ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد أبو داود بروایة سفیان بن عیینة، وروایة یحییٰ القطان صحیحة موافقة لرقم: 1616، (تحفة الأشراف: 4269) (حسن)» ‏‏‏‏ (یحییٰ القطان کی روایت حسن ہے، اور ابن عیینہ کی روایت میں وہم ہے، اس لئے ضعیف ہے)

Narrated Abu Saeed al-Khudri: I shall always pay one sa'. We used to pay during the lifetime of the Messenger of Allah ﷺ one sa' of dried dates or of barley, or of cheese, or of raisins. This is the version of Yahya. Sufyan added in his version: "or one sa' of flour. " The narrator Hamid (ibn Yahya) said: The people objected to this (addition); Sufyan then left it. Abu Dawud said: This addition is a misunderstanding on the part of Ibn Uyainah.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1614


قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
شاذ
سنده حسن بالظاهر إلا قوله ”صاعًا من دقيق“ فإنه شاذ وانظر الحديثين السابقين
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 65

   صحيح البخاري1508سعد بن مالكصاعا من طعام أو صاعا من تمر أو صاعا من شعير أو صاعا من زبيب
   صحيح البخاري1510سعد بن مالكنخرج في عهد رسول الله يوم الفطر صاعا من طعام
   صحيح البخاري1505سعد بن مالكنطعم الصدقة صاعا من شعير
   صحيح مسلم2285سعد بن مالكزكاة الفطر ورسول الله فينا عن كل صغير وكبير حر ومملوك من ثلاثة أصناف صاعا من تمر صاعا من أقط صاعا من شعير
   صحيح مسلم2287سعد بن مالكصاعا من تمر أو صاعا من زبيب أو صاعا من شعير أو صاعا من أقط
   صحيح مسلم2284سعد بن مالكزكاة الفطر عن كل صغير وكبير حر أو مملوك صاعا من طعام أو صاعا من أقط أو صاعا من شعير أو صاعا من تمر أو صاعا من زبيب
   جامع الترمذي673سعد بن مالكنخرج زكاة الفطر إذ كان فينا رسول الله صاعا من طعام أو صاعا من شعير أو صاعا من تمر أو صاعا من زبيب أو صاعا من أقط فلم نزل نخرجه حتى قدم معاوية المدينة فتكلم فكان فيما كلم به الناس إني لأرى مدين من سمراء الشام تعدل صاعا من تمر قال فأخذ ال
   سنن أبي داود1616سعد بن مالكصاعا من طعام أو صاعا من أقط أو صاعا من شعير أو صاعا من تمر أو صاعا من زبيب
   سنن أبي داود1618سعد بن مالكنخرج على عهد رسول الله صاع تمر أو شعير أو أقط أو زبيب
   سنن ابن ماجه1829سعد بن مالكزكاة الفطر إذ كان فينا رسول الله صاعا من طعام صاعا من تمر صاعا من شعير صاعا من أقط صاعا من زبيب
   سنن النسائى الصغرى2513سعد بن مالكصدقة الفطر صاعا من شعير أو صاعا من تمر أو صاعا من أقط
   سنن النسائى الصغرى2514سعد بن مالكصاعا من طعام أو صاعا من شعير أو صاعا من تمر أو صاعا من زبيب أو صاعا من أقط
   سنن النسائى الصغرى2515سعد بن مالكصاعا من طعام أو صاعا من تمر أو صاعا من شعير أو صاعا من أقط
   سنن النسائى الصغرى2516سعد بن مالكصاعا من تمر أو صاعا من شعير أو صاعا من زبيب أو صاعا من دقيق أو صاعا من أقط أو صاعا من سلت
   سنن النسائى الصغرى2519سعد بن مالكصاعا من شعير أو تمر أو زبيب أو أقط
   سنن النسائى الصغرى2520سعد بن مالكصاعا من تمر أو صاعا من شعير أو صاعا من أقط لا نخرج غيره
   صحيح البخاري1506سعد بن مالك كنا نخرج زكاة الفطر صاعا من طعام او صاعا من شعير او صاعا من تمر او صاعا من اقط او صاعا من زبيب
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم278سعد بن مالك كنا نخرج زكاة الفطر صاعا من طعام
   بلوغ المرام506سعد بن مالكصاعا من طعام او صاعا من تمر او صاعا من شعير او صاعا من زبيب
   مسندالحميدي759سعد بن مالكما كنا نخرج على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم في زكاة الفطر إلا صاعا من تمر، أو صاعا من شعير، أو صاعا من أقط

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 278  
´صدقہ فطر کا بیان`
«. . . انه سمع ابا سعيد الخدري يقول: كنا نخرج زكاة الفطر صاعا من طعام، او صاعا من شعير، او صاعا من تمر، او صاعا من اقط، او صاعا من زبيب . . .»
. . . سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم اناج کا ایک صاع یا جَو کا ایک صاع یا کھجور کا ایک صاع یا پنیر کا ایک صاع یا خشک انگور کا صاع صدقہ فطر ادا کرتے تھے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 278]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 1506، ومسلم 985، من حديث مالك به]
تفقہ:
① یہ صدقہ فطر مسلمانوں پر فرض ہے۔ دیکھئے [ح 211]
② ایک روایت میں آیا ہے کہ ہم صدقہ فطر ادا کرتے تھے۔۔۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان ہوتے تھے۔ [صحيح مسلم: 985 2284] معلوم ہوا کہ درج بالا حدیث مرفوع ہے۔
③ صاع کے وزان کے بارے میں اختلاف ہے - راجح یہی ہے کہ ڈھائی کلووزن کے مطابق صاع نکالا جائے تاکہ آدمی کسی شک میں نہ رہے
④ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے گندم کا آدھا صاع ثابت ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ وغیرہ سے پورا صاع ثابت ہے لہٰذا راجح یہی ہے کہ پورا صاع ادا کیا جائے۔
⑤ بہتر اور افضل یہی ہے کہ گندم، جو، کھجور اور انگور وغیرہ پھلوں، غلے اور کھانے سے صاع نکالا جائے لیکن اگر مجبوری یا کوئی شرعی عذر ہو تو صاع کی مروجہ رقم سے ادائیگی بھی جائز ہے۔ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے بصرہ میں عدی کی طرف حکم لکھ کر بھیجا تھا کہ اہلِ دیوان کے عطیات میں سے ہر انسان کے بدلے آدھا درہم لیا جائے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 3/174 ح10368، وسنده صحيح]
◈ ابواسحاق السبیعی فرماتے تھے کہ میں نے لوگوں کو رمضان میں صدقہ فطر میں طعام (کھانے) کے بدلے دراہم دیتے ہوئے پایا ہے [ابن ابئ شيبه ح 10371، و سنده صحيح]
⑥ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ صدقۂ فطر صرف کھجور میں سے دیتے تھے سوائے ایک دفعہ کے (جب کھجوریں نہ ملیں تو) آپ نے جَو دیئے۔ [الموطأ 1/284 ح635، وسنده صحيح]
⑦ صدقۂ فطر صرف مساکین کا حق ہے۔ [ديكهئے سنن ابي داؤد: 1609، وسنده حسن]
لہٰذا اسے آٹھ قسم کے مستحقین زکوٰۃ میں تقسیم کرنا غلط ہے۔ دیکھئے زاد المعاد [2/22] اور عبادات میں بدعات اور سنت نبوی سے ان کا رد [ص212]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 176   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1829  
´صدقہ فطر کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب ہم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے ہم تو صدقہ فطر میں ایک صاع گیہوں، ایک صاع کھجور، ایک صاع جو، ایک صاع پنیر، اور ایک صاع کشمش نکالتے تھے، ہم ایسے ہی برابر نکالتے رہے یہاں تک کہ معاویہ رضی اللہ عنہ ہمارے پاس مدینہ آئے، تو انہوں نے جو باتیں لوگوں سے کیں ان میں یہ بھی تھی کہ میں شام کے گیہوں کا دو مد تمہارے غلوں کی ایک صاع کے برابر پاتا ہوں، تو لوگوں نے اسی پر عمل شروع کر دیا۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: میں جب تک زندہ رہوں گا اسی طرح ایک صاع نکالتا رہوں گا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ می۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1829]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
حضرت ابو سعید نے حضرت معاویہ سے اتفاق نہیں کیا، اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمر بھی اس مسئلہ میں حضرت معاویہ سے متفق نہیں تھے جیسے کہ حدیث: 1825 میں بیان ہوا۔

(2)
گندم کا نصف صاع فی کس صدقہ فطر ادا کرنے کی ایک مرفوع حدیث جامع ترمذی میں مذکور ہے۔ (جامع الترمذي، الزکاۃ، باب ما جاء فی صدقة الفطر، حدیث: 674)
لیکن وہ ضعیف ہے کیونکہ ابن جریج نے عمرو بن شعیب سے عن کے لفظ کے ساتھ روایت کیا ہے اور ابن جریج مدلس ہے۔
ایسے راوی کی وہ روایت قبول نہیں کی جاتی جو وہ عن کے ساتھ روایت کرے، اس لیے صحیح بات یہی ہے کہ نصف صاع کا حکم نبی اکرم ﷺ کا ارشاد نہیں بلکہ صحابہ کرام ؓ کا اجتہاد ہے۔
احتیاط کا تقاضا بھی یہی ہے کہ گندم ہو یا کوئی اور چیز اس میں سے پورا صاع صدقہ فطر ادا کیا جائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1829   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 506  
´صدقہ فطر کا بیان`
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں گندم سے ایک صاع اور کھجور سے ایک صاع اور جو سے ایک صاع اور کشمش (منقی) سے ایک صاع (فطرانہ) دیا کرتے تھے۔ (بخاری و مسلم) اور ایک روایت میں ہے کہ پنیر میں سے ایک صاع نکالا کرتے تھے۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تو ہمیشہ وہی مقدار نکالتا رہوں گا جو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نکالا کرتا تھا اور ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ میں تو ہمیشہ ایک صاع ہی نکالوں گا۔ [بلوغ المرام/حدیث: 506]
لغوی تشریح 506:
کُنَّا نُعْطِیھَا ہم صدقۂ فطر (فطرانہ) ادا کیا کرتے تھے۔
صَاعًا مِن طَعَامٍ طعام کا لفظ ما بعد مذکور چیزوں کے مقابلے میں بولا گیا ہے جو اس بات کا مقتضی ہے کہ طعام اور دوسری اجناس کے مابین فرق وتغایر ہے۔ طعام کے بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ بعض کے نزدیک اس سے مراد گندم ہے۔ طعام بول کر اہل عرب عموماً اس سے مراد گندم لیتے ہیں۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ طعام میں اجمال ہے اور مابعد اس کی تفصیل ہے۔ اور بعض روایات میں اس کی صراحت بھی ہے، اس لیے یہی قول راجح ہے۔
أَقِط ہمزہ پر فتحہ اور قاف کے نیچے کسرہ ہے، پنیر کو کہتے ہیں۔ یہ دراصل دودھ ہوتا ہے جو خشک کر کے جمایا جاتا ہے اور پتھر کی طرح سخت ہو جاتا ہے۔
فَلَا أَزَالُ أُخْرِجُہُ اور میں ہمیشہ ایک صاع کی مقدار ہی فطرانے میں نکالتا رہوں گا، خواہ کوئی جنس ہو، گندم ہو یا دوسری اجناس۔ اور ایک صاع پانچ رطل اور تہائی رطل کا ہوتا ہے اور یہ وزن چار مد کے مساوی ہوتا ہے۔ جدید حساب کے مطابق ایک صاع کا وزن تقریباً ڈھائی کلو گرام کا ہوتا ہے۔

فائدہ 506:
صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین میں گندم کے سوا باقی تمام اجناس میں سے احادیث کی روشنی میں ایک ایک صاع فطرانے کے طور پر دینے کا اتفاق تھا، صرف گندم میں اختلاف تھا۔ حضرت معاویۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی راے کے پیش نظر گندم کا آدھا صاع نکالنے کا مشورہ دیا۔ گندم چونکہ مہنگی بھی تھی اور قلیل بھی تو ان کی اس راے سے بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے اتفاق کر لیا، دیکھیے: (صحیح البخاری، کتاب الزکاۃ، حدیث: 1508، وصحیح مسلم، الزکاۃ، حدیث: (18) -985) امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے اس مذکورہ بالا اختلاف کی طرف اشارہ کرتے ہوے فرمایا ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے بعض اہل علم کا مؤقف یہ بھی ہے کہ ہر چیز کا ایک صاع دیا جائے سوائے گندم کے کہ اس کا فطرانے میں نصف صاع بھی کفایت کر جاتا ہے۔ (جامع الترمذی، الزکاۃ، حدیث: 673) اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ حضرت معاویۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اجتھاد ہی ہے یا سنت سے اس کی دلیل بھی ملتی ہے؟ ہاں، اس بارے میں مرفوع احادیث بھی آتی ہیں جنھیں کچھ علماء نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن راجح بات یہی ہے کہ آدھے صاع گندم کی حدیث کے بہت سے شواہد ہیں جیسا کہ شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں «وَ لِلحَدِيْثِ شَوَاهِدٌ كَثِيرَةٌ» (الصحیحۃ: 171، 3) اور وہ حدیث یہ ہے کہ أُدُّو صَاعًا مِّن بَرٍ أو قُمْح بَینَ اثْنَینِ۔۔۔۔۔۔ گندم کا ایک صاع دو افراد کو ادا کرو۔ اس حدیث سے واضح ہوا کہ نصف صاع ایک فرد کو دیا جاسکتا ہے۔ اس کی تائید جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صحیح امر سے بھی ہوتی ہے، فرماتے ہیں: ((صَدَقَۃُ الْفِطرِ عَلٰی کُلِّ مُسلِمٍ صَغِیرٍ وَ کَبِیرٍ، عَبدٍ أو حُرٍّ مُدَّانِ مِن قُمحٍ۔۔۔)) فطرانہ ہر مسلمان پر (ضروری ہے)، خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، غلام ہو یا آزاد، گندم کے دو مد (آدھا صاع)۔ (سنن دارقطنی: 2 346) اس بحث سے معلوم ہوا کہ یہ صرف حضرت حضرت معاویۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کی راے نہ تھی بلکہ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین بھی ان کی راے سے متفق تھے اور ان کی اس راے کی تائید مرفوع صحیح حدیث سے بھی ہوتی ہے، اس لیے اگر کوئی شخص ایک صاع گندم کے بجائے آدھا صاع گندم بھی فطرانے میں دے دیتا ہے تو ان شاء اللہ یہ بھی جائز ہو گا۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (سنن ابی داؤد (مفصل) للألبانی: 324/5) لیکن افضل اور اولٰی گندم کا پورا صاع دینا ہی ہے جیسا کہ عمومی احادیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 506   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 673  
´صدقہ فطر کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں ہم لوگ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان موجود تھے - صدقہ فطر ۱؎ میں ایک صاع گیہوں ۲؎ یا ایک صاع جو، یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع کشمش یا ایک صاع پنیر نکالتے تھے۔ تو ہم اسی طرح برابر صدقہ فطر نکالتے رہے یہاں تک کہ معاویہ رضی الله عنہ مدینہ آئے، تو انہوں نے لوگوں سے خطاب کیا، اس خطاب میں یہ بات بھی تھی کہ میں شام کے دو مد گیہوں کو ایک صاع کھجور کے برابر سمجھتا ہوں۔ تو لوگوں نے اسی کو اختیار کر لیا یعنی لوگ دو مد آدھا صاع گیہوں دینے لگے۔ [سنن ترمذي/كتاب الزكاة/حدیث: 673]
اردو حاشہ:
1؎:
صدقہ فطر کی فرضیت رمضان کے آغاز کے بعد عید سے صرف دو روز پہلے 2ھ میں ہوئی،
اس کی ادائیگی کا حکم بھی نماز عید سے پہلے پہلے ہے تاکہ معاشرے کے ضرورت مند حضرات اس روز مانگنے سے بے نیاز ہو کر عام مسلمانوں کے ساتھ عید کی خوشی میں شریک ہو سکیں،
اس کی مقدار ایک صاع ہے خواہ کوئی بھی جنس ہو،
صدقہء فطر کے لیے صاحب نصاب ہونا ضروری نہیں۔
اور صاع ڈھائی کلو گرام کے برابر ہوتا ہے۔

2؎: ((صَاعاً مِنْ طَعَامِِ)) میں طعام سے مراد حنطۃ (گیہوں) ہے کیونکہ طعام کا لفظ مطلقاً گیہوں کے معنی میں بولا جاتا تھا جب کہا جاتا ہے:
إِذْهَبْ إِلى سُوْقِ الطَّعَامِ تو اس سے سوق الحنطۃ (گیہوں کا بازار) ہی سمجھا جاتا تھا،
اور بعض لوگوں نے کہا ((مِنْ طَعَامِِ)) مجمل ہے اور آگے اس کی تفسیرہے،
یہ عَطْفُ الْخَاصِ عَلَی الْعَامِ ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 673   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1616  
´صدقہ فطر کتنا دیا جائے؟`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان باحیات تھے، ہم لوگ صدقہ فطر ہر چھوٹے اور بڑے، آزاد اور غلام کی طرف سے غلہ یا پنیر یا جو یا کھجور یا کشمش سے ایک صاع نکالتے تھے، پھر ہم اسی طرح نکالتے رہے یہاں تک کہ معاویہ رضی اللہ عنہ حج یا عمرہ کرنے آئے تو انہوں نے منبر پر چڑھ کر لوگوں سے کچھ باتیں کیں، ان میں ان کی یہ بات بھی شامل تھی: میری رائے میں اس گیہوں کے جو شام سے آتا ہے دو مد ایک صاع کھجور کے برابر ہیں، پھر لوگوں نے یہی اختیار کر لیا، اور ابوسعید نے کہا: لیکن میں جب تک زندہ رہوں گا برابر ایک ہی صاع نکالتا رہوں گا۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں: اسے ابن علیہ اور عبدہ وغیرہ نے ابن اسحاق سے، ابی اسحاق نے عبداللہ بن عبداللہ بن عثمان بن حکیم بن حزام سے، عبداللہ بن عبداللہ نے عیاض سے اور عیاض نے ابوسعید سے اسی مفہوم کے ساتھ نقل کیا ہے، ایک شخص نے ابن علیہ سے «أو صاعًا من حنطة» بھی نقل کیا ہے لیکن یہ غیر محفوظ ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1616]
1616. اردو حاشیہ:
➊ جب صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کی آراء میں اختلا ف ہو تو بلاشبہ وہی قول اور عمل حق اور راحج ہوگا۔جس پر دوررسالت ﷺ میں عمل ہوتا رہا۔ صدقہ فطر کے معاملے میں کچھ صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے پر عمل کرتے ہوئے آدھا صاع گندم دینا شروع کردیا تھا۔مگر کچھ نے اسے قبول نہیں کیا۔تو ان کی رائے حجت نہ ہوئی۔
➋ لفظ طعام اگرچہ عام ہے۔مگر کچھ علماء اس طرف گئے ہیں کہ اس کا اطلاق گندم پر بالخصوص ہوتا ہے۔(خطابی)اس لئے گندم سے صدقہ فطر دینا ہو تو بھی ایک صاع دیاجائے۔
➌ اس حدیث میں یہ دلیل بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مختلف قیمتوں کی حامل مختلف اجناس کی تعین فرمائی اور صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین بھی یہی اجناس دیتے تھے۔کہیں بھی قیمت ادا کرنے کا ارشاد نہیں ہے۔لہذا جنس کی صورت میں ادایئگی زیادہ افضل اور راحج ہے۔تینوں آئمہ اسی طرف گئے ہیں۔صرف امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جواز قیمت کے قائل ہیں۔اور امام بخار ی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی (باب العرض فی الذکاۃ) میں یہی ثابت کیا ہے۔کہ فرض زکواۃ میں بدل جائز ہے۔اور حضرت معاز رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اہل یمن سے کہا تھا۔کہ جو اور مکئی کی بجائے کپڑے پیش کردو یہ تم پر آسان ہے۔اور یہ مدینہ میں اصحاب نبی رضوان اللہ عنہم اجمعین کے لئے مفید تر ہیں۔(صحیح بخاری کتاب الزکاۃ باب 33)علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ الیل الجرار میں عذر کی بنا پرقیمت کی ادایئگی کو جائز بتاتے ہیں۔(اور مقصد اورفائدہ کی نظر سے قیمت کونظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا) راحج بہرحال جنس ہی ہے۔(مرعاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ لمصابیح حدیث 1833]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1616   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.