الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book on Salat (Prayer)
13. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ النَّوْمِ قَبْلَ الْعِشَاءِ وَالسَّمَرِ بَعْدَهَا
13. باب: عشاء سے پہلے سونے اور اس کے بعد بات کرنے کی کراہت کا بیان۔
حدیث نمبر: 168
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا هشيم، اخبرنا عوف، قال احمد: وحدثنا عباد بن عباد هو المهلبي، وإسماعيل ابن علية جميعا، عن عوف، عن سيار بن سلامة هو ابو المنهال الرياحي، عن ابي برزة، قال: " كان النبي صلى الله عليه وسلم يكره النوم قبل العشاء والحديث بعدها ". قال: وفي الباب عن عائشة , وعبد الله بن مسعود , وانس. قال ابو عيسى: حديث ابي برزة حسن صحيح، وقد كره اكثر اهل العلم النوم قبل صلاة العشاء والحديث بعدها، ورخص في ذلك بعضهم، وقال عبد الله بن المبارك: اكثر الاحاديث على الكراهية، ورخص بعضهم في النوم قبل صلاة العشاء في رمضان، وسيار بن سلامة هو ابو المنهال الرياحي.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا عَوْفٌ، قَالَ أَحْمَدُ: وَحَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ هُوَ الْمُهَلَّبِيُّ، وَإِسْمَاعِيل ابْنُ علية جميعا، عَنْ عَوْفٍ، عَنْ سَيَّارِ بْنِ سَلَامَةَ هُوَ أَبُو الْمِنْهَالِ الرِّيَاحِيُّ، عَنْ أَبِي بَرْزَةَ، قَالَ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَكْرَهُ النَّوْمَ قَبْلَ الْعِشَاءِ وَالْحَدِيثَ بَعْدَهَا ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ , وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ , وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي بَرْزَةَ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ كَرِهَ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ النَّوْمَ قَبْلَ صَلَاةِ الْعِشَاءِ وَالْحَدِيثَ بَعْدَهَا، وَرَخَّصَ فِي ذَلِكَ بَعْضُهُمْ، وقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ: أَكْثَرُ الْأَحَادِيثِ عَلَى الْكَرَاهِيَةِ، وَرَخَّصَ بَعْضُهُمْ فِي النَّوْمِ قَبْلَ صَلَاةِ الْعِشَاءِ فِي رَمَضَانَ، وَسَيَّارُ بْنُ سَلَامَةَ هُوَ أَبُو الْمِنْهَالِ الرِّيَاحِيُّ.
ابوبرزہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم عشاء سے پہلے سونے اور اس کے بعد بات چیت کرنے کو ناپسند فرماتے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوبرزہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عائشہ، عبداللہ بن مسعود اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اور اکثر اہل علم نے نماز عشاء سے پہلے سونے اور اس کے بعد بات کرنے کو مکروہ کہا ہے، اور بعض نے اس کی اجازت دی ہے، عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں: اکثر حدیثیں کراہت پر دلالت کرنے والی ہیں، اور بعض لوگوں نے رمضان میں عشاء سے پہلے سونے کی اجازت دی ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المواقیت 11 (541)، و13 (547)، و23 (568)، و38 (598)، صحیح مسلم/المساجد 40 (647)، سنن ابی داود/ الصلاة 3 (398)، والأدب 27 (4849)، سنن النسائی/المواقیت 2 (496)، و16 (526)، و20 (531)، والافتتاح 42 (949)، سنن ابن ماجہ/الصلاة 3 (674)، (تحفة الأشراف: 11606)، مسند احمد (4/420، 421، 423، 424، 425)، سنن الدارمی/الصلاة 66 (1338) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: عشاء سے پہلے سونے کی کراہت کی وجہ یہ ہے کہ اس سے عشاء فوت ہو جانے کا خدشہ رہتا ہے، اور عشاء کے بعد بات کرنا اس لیے ناپسندیدہ ہے کہ اس سے سونے میں تاخیر ہوتی ہے جس کی وجہ سے انسان کے لیے تہجد یا فجر کے لیے اٹھنا مشکل ہو جاتا ہے امام نووی نے علمی مذاکرہ وغیرہ کو جو جائز اور مستحب بتایا ہے تو یہ اس بات کے ساتھ مشروط ہے کہ نماز فجر وقت پر ادا کی جائے، اگر رات کو تعلیم و تعلم یا وعظ و تذکیر میں اتنا وقت صرف کر دیا جائے کہ فجر کے وقت اٹھا نہ جا سکے تو یہ جواز و استحباب بھی محل نظر ہو گا۔ (دیکھئیے اگلی حدیث اور اس کا حاشیہ)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (701)

   صحيح البخاري568نضلة بن عبيديكره النوم قبل العشاء والحديث بعدها
   جامع الترمذي168نضلة بن عبيديكره النوم قبل العشاء والحديث بعدها
   سنن أبي داود4849نضلة بن عبيدالنوم قبلها والحديث بعدها

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 168  
´عشاء سے پہلے سونے اور اس کے بعد بات کرنے کی کراہت کا بیان۔`
ابوبرزہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم عشاء سے پہلے سونے اور اس کے بعد بات چیت کرنے کو ناپسند فرماتے تھے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 168]
اردو حاشہ:
1؎:
عشاء سے پہلے سونے کی کراہت کی وجہ یہ ہے کہ اس سے عشا ء فوت ہو جانے کا خدشہ رہتا ہے،
اور عشاء کے بعد بات کرنا اس لیے نا پسندیدہ ہے کہ اس سے سونے میں تاخیر ہوتی ہے جس کی وجہ سے انسان کے لیے تہجد یا فجر کے لیے اٹھنا مشکل ہو جاتا ہے امام نووی نے علمی مذاکرہ وغیرہ کو جو جائز اور مستحب بتایا ہے تو یہ اس بات کے ساتھ مشروط ہے کہ نمازِ فجر وقت پر ادا کی جائے،
اگر رات کو تعلیم و تعلم یا وعظ و تذکیر میں اتنا وقت صرف کر دیا جائے کہ فجرکے وقت اٹھا نہ جا سکے تو یہ جواز و استحباب بھی محل نظر ہوگا۔
(دیکھئے اگلی حدیث اور اس کا حاشہ)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 168   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4849  
´عشاء کے بعد بات چیت منع ہے۔`
ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء سے پہلے سونے ۱؎ اور اس کے بعد بات کرنے ۲؎ سے منع فرماتے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4849]
فوائد ومسائل:
عشاء کی نماز سے پہلے سو جانے سے اندیشہ ہے کہ عشاء کی نماز یا جماعت فوت ہا جائےٓ اور ایسے ہی عشاء کی نماز کے بعد بے مقصد باتوں میں مشغول رہنے سے فجر کی نماز یا جماعت فوت ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
ہاں اگر کو ئی اہم مقصد ہو تو مشغول ہونا جائز ہے۔
جیسے کی طلباء کا رات گئے تک مطالعہ یا مذاکرہ کرنا یا دیگر اہم ذمہ داریوں کی ادائیگی کی غرض سے جاگنا جائز ہے، مگر شرط یہ ہے کہ فجر کی نماز ضائع نہ ہو۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4849   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.