الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book on Salat (Prayer)
16. باب مَا جَاءَ فِي السَّهْوِ عَنْ وَقْتِ، صَلاَةِ الْعَصْرِ
16. باب: عصر کے وقت کو بھول جانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 175
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث بن سعد، عن نافع، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " الذي تفوته صلاة العصر فكانما وتر اهله وماله ". وفي الباب عن بريدة , ونوفل بن معاوية. قال ابو عيسى: حديث ابن عمر حسن صحيح، وقد رواه الزهري ايضا، عن سالم، عن ابيه ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الَّذِي تَفُوتُهُ صَلَاةُ الْعَصْرِ فَكَأَنَّمَا وُتِرَ أَهْلَهُ وَمَالَهُ ". وَفِي الْبَاب عَنْ بُرَيْدَةَ , وَنَوْفَلِ بْنِ مُعَاوِيَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ الزُّهْرِيُّ أَيْضًا، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جس سے عصر فوت ہو گئی گویا اس کا گھر اور مال لٹ گیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں بریدہ اور نوفل بن معاویہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المواقیت14 (552)، والمناقب 25 (3602)، صحیح مسلم/المساجد 35 (626)، سنن ابی داود/ الصلاة 5 (414)، سنن النسائی/الصلاة 17 (479)، سنن ابن ماجہ/الصلاة 6 (685)، (تحفة الأشراف: 8301)، موطا امام مالک/وقوت الصلاة 5 (21)، مسند احمد (2/13، 27، 48، 64، 75، 76، 102، 134، 145، 147)، سنن الدارمی/الصلاة 27 (1267) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (685)

   صحيح البخاري552عبد الله بن عمرالذي تفوته صلاة العصر كأنما وتر أهله وماله
   صحيح مسلم1419عبد الله بن عمرمن فاتته العصر فكأنما وتر أهله وماله
   صحيح مسلم1417عبد الله بن عمرالذي تفوته صلاة العصر كأنما وتر أهله وماله
   جامع الترمذي175عبد الله بن عمرالذي تفوته صلاة العصر فكأنما وتر أهله وماله
   سنن أبي داود414عبد الله بن عمرالذي تفوته صلاة العصر فكأنما وتر أهله وماله
   سنن النسائى الصغرى513عبد الله بن عمرالذي تفوته صلاة العصر فكأنما وتر أهله وماله
   سنن النسائى الصغرى513عبد الله بن عمرالذي تفوته صلاة العصر فكأنما وتر أهله وماله
   سنن ابن ماجه685عبد الله بن عمرالذي تفوته صلاة العصر فكأنما وتر أهله وماله
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم107عبد الله بن عمرالذي تفوته صلاة العصر كانما وتر اهله وماله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 107  
´جس کی نماز عصر رہ گئی؟`
«. . . مالك عن نافع عن عبد الله بن عمر ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: الذي تفوته صلاة العصر كانما وتر اهله وماله . . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کی عصر کی نماز فوت ہو گئی تو گویا اس کا مال اور گھر والے سب کچھ اس سے چھن گیا اور وہ دیکھتا رہ گیا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 107]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 552، و مسلم 626، من حديث مالك به]
تفقہ:
① تمام نمازوں کا اہتمام کرنا چاہئے لیکن بعض نمازوں مثلاً نماز عصر کے سلسلے میں سخت تاکید آئی ہے۔
② تارک نماز ایسا بدنصیب، مفلس و کنگلا ہے جس کا مال و متاع اور گھر بار سب تباہ و برباد ہو چکے ہیں اور اسے شعور تک نہیں۔
③ تمام نمازیں اول وقت میں اور باجماعت پڑھنی چاہیئں اور عصر کی نماز اول وقت میں اور باجماعت پڑھنے کا خاص اہتمام کرنا چاہئے۔
④ عصر کی نماز کا وقت ایک مثل پر داخل ہو جاتا ہے۔ ديكهئے: [سنن الترمذي 149، وقال: حديث حسن و صححه ابن خزيمه: 353 و ابن حبان 279 و ابن الجارود: 149، والحاكم 193/1 وغيرهم]
لہٰذا فوت ہونے سے بچنے کے لئے اول وقت پر ہی عصر پڑھ لینی چاہئے۔ نماز اول وقت پڑھنا بہترین عمل ہے۔
⑤ سیدنا ابن حدیدہ الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نماز عصر کے لئے جا رہا تھا، زوراء کے مقام پر مجھے عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ملے اور پوچھا: کہاں جا رہے ہو؟ میں نے کہا: نماز کے لئے۔ انہوں نے فرمایا: تم نے بہت دیر کر دی، جلدی کرو۔ ابن حدیدہ نے کہا: میں نے جا کر مسجد میں نماز پڑھی پھر واپس آیا تو دیکھا کہ میری لونڈی جو پانی لینے گئی ہوئی تھی، اس نے تاخیر کر دی، میں اس کی طرف رومہ کنویں پر گیا، پھر جب واپس آیا تو سورج اچھا یعنی بلند تھا۔ [الاستذكار 66/1 ح 20 وسنده صحيح]
معلوم ہوا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ عصر کی نماز اول وقت پڑھنے کے قائل و فاعل تھے۔
مزید فقہی فوائد کے لئے دیکھئے: [ماهنامه الحديث: 25 ص 65 اور هدية المسلمين: 7]
⑦ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ پر اتنی غشی آئی کہ آپ ہوش میں نہ رہے پھر آپ نے نماز کی قضا ادا نہ کی۔ [الموطا 13/1 ح 23 وسنده صحيح]
امام مالک نے فرمایا: ہمارا خیال ہے کہ نماز کا وقت ختم ہو گیا تھا اس وجہ سے آپ نے قضا ادا نہیں کی اور اگر وقت کے دوران میں افاقہ ہو جاتا تو آپ نماز پڑھتے۔ [الموطأ ايضاً ترقيم الاستذكار: 23]
راجح یہی ہے کہ ایس حالت میں نماز کی قضا ادا کر لینی چاہئے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 195   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 513  
´عصر تاخیر سے پڑھنے کی وعید کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کی عصر فوت گئی گویا اس کا گھربار لٹ گیا۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 513]
513 ۔ اردو حاشیہ: فوائد کے لیے دیکھیے سنن نسائی حدیث: 479۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 513   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 414  
´عصر کے وقت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کی عصر چھوٹ گئی گویا اس کے اہل و عیال تباہ ہو گئے اور اس کے مال و اسباب لٹ گئے۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: عبیداللہ بن عمر نے «وتر» (واؤ کے ساتھ) کے بجائے «أتر» (ہمزہ کے ساتھ) کہا ہے (دونوں کے معنی ہیں: لوٹ لیے گئے)۔ اس حدیث میں «وتر» اور «أتر» کا اختلاف ایوب کے تلامذہ میں ہوا ہے۔ اور زہری نے سالم سے، سالم نے اپنے والد عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے اور عبداللہ بن عمر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ نے «وتر» فرمایا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 414]
414۔ اردو حاشیہ:
➊ لفظ «وُتِرَ» کا ماخذ وتر (واؤ کی زبر کے ساتھ) ہو تو معنی ہیں نقص اور اس کا مابعد منصوب یا مرفوع دونوں طرح پڑھا جا سکتا ہے اور اگر وتر (واؤ کی زیر کے ساتھ) سمجھا جائے تو جرم اور تعدی کے معنی میں بھی آتا ہے۔ [النهايه ابن اثير]
امام خطابی رحمہ اللہ نے کہا ہے وتر کے معنی ہیں، کم کر دیا گیا یا چھین لیا گیا، پس وہ شخص بغیر اہل اور مال کے تنہا رہ گیا، اس لیے ایک مسلمان کو نماز عصر کو فوت کرنے سے اسی طرح بچنا چاہیے جیسے وہ گھر والوں سے اور مال کے فوت ہونے سے ڈرتا ہے۔
➋ امام ترمذی رحمہ اللہ  نے اس حدیث کو «باب ماجاء فى السهو عن وقت صلاة العصر» کے ذیل میں درج فرمایا ہے۔ اس سے ان کی مرا د یہ ہے کہ انسان عصر کی نماز میں بھول کر بھی تاخیر کرے تو بےحد و شمار گھاٹے اور خسارے میں ہے، کجا یہ کہ عمداً تغافل کا شکار ہو۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 414   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث685  
´نماز عصر کی محافظت۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کی نماز عصر فوت ہو جائے، گویا اس کے اہل و عیال اور مال و اسباب سب لٹ گئے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الصلاة/حدیث: 685]
اردو حاشہ:
ایک دنیا دار کی نظر میں اس سے بڑا کوئی نقصان نہیں ہوسکتا کہ اس کے بیوی بچے اور رشتہ دار سب ایک ہی بار ہلاک ہوجائیں اس کے مویشی مرجائیں مکان اور عمارتیں زمین بوس ہوجائیں روپیہ پیسہ لوٹ لیا جائے اس کا گھر رہے نہ در اور وہ کوڑی کوڑی کا محتاج ہوجائے لیکن نبی کریمﷺ کی نظر میں اتنا بڑا نقصان اس نقصان کا مقابلہ نہیں کرسکتا جو ایک نماز کے چھوڑنے سے ہوتا ہے۔
جس نے نفس امّارہ کی بات مان کر اور شیطان کے بہکاوے میں آ کرعصر کی صرف ایک نماز چھوڑدی اس کا نقصان اسی طرح ناقابل تلافی ہے۔ 2۔
عصر کی نماز کی اہمیت دوسری نمازوں سے زیادہ ہے اس لیے قرآن مجید نے اس نماز کا خاص طور پر ذکر کیا ہےاس کی وجہ یہ ہے کہ یہ وقت کاروباری مصروفیات کا ہوتا ہےاور انسان تھوڑے سے دنیادی فائدے کے لیےاللہ کو بھول جاتا ہے لیکن دنیا کا بڑے سے بڑا منافع اس نقصان کا بدل نہیں ہوسکتا کیونکہ فائدہ تو دنیا کا ہے اور نقصان آخرت کا۔
اور دنیا کے تمام خزانے اور تمام نعمتیں اللہ کی نظر میں مچھر کے پر جتنی بھی وقعت نہیں رکھتیں، ارشاد نبوی ہے:
اگر دنیا کی وقعت اللہ کے نزدیک ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کسی کافر کو اس میں سے ایک گونٹ پانی بھی نہ پلاتا۔
 (جامع الترمذي، الزهد، باب ماجاء في هوان الدنيا علي الله عزوجل، حديث: 2320)

(3)
نماز فوت ہونے کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ وہ نماز وقت پر ادا نہیں ہوئی، اگرچہ بعد میں پڑھ لی۔
اس صورت میں اس کے نقصان کی مثال وہ ہے جو بیان ہوئی۔
جس نے بالکل چھوڑدی اس کا نقصان تو اس سے زیادہ ہے۔

(4)
روایت کے آخری کلمات کے یہ معنی بھی کیے گئے ہیں۔
گویا وہ شخص اہل وعیال اور مال ودولت سمیت تباہ وبرباد ہوگیا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 685   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.