الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book on Salat (Prayer)
22. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الصَّلاَةِ بَعْدَ الْعَصْرِ وَبَعْدَ الْفَجْرِ
22. باب: عصر اور فجر کے بعد نماز پڑھنے کی کراہت کا بیان۔
حدیث نمبر: 183
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا هشيم، اخبرنا منصور وهو ابن زاذان , عن قتادة، قال: اخبرنا ابو العالية، عن ابن عباس، قال: سمعت غير واحد من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، منهم عمر بن الخطاب، وكان من احبهم إلي ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " نهى عن الصلاة بعد الفجر حتى تطلع الشمس، وعن الصلاة بعد العصر حتى تغرب الشمس ". قال: وفي الباب عن علي , وابن مسعود , وعقبة بن عامر , وابي هريرة , وابن عمر , وسمرة بن جندب , وعبد الله بن عمرو , ومعاذ ابن عفراء , والصنابحي، ولم يسمع من النبي صلى الله عليه وسلم وسلمة بن الاكوع , وزيد بن ثابت , وعائشة , وكعب بن مرة , وابي امامة , وعمرو بن عبسة , ويعلى بن امية , ومعاوية. قال ابو عيسى: حديث ابن عباس، عن عمر حسن صحيح، وهو قول اكثر الفقهاء من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ومن بعدهم، انهم كرهوا الصلاة بعد صلاة الصبح حتى تطلع الشمس، وبعد صلاة العصر حتى تغرب الشمس، واما الصلوات الفوائت فلا باس ان تقضى بعد العصر وبعد الصبح. قال علي ابن المديني: قال يحيى بن سعيد: قال شعبة: لم يسمع قتادة من ابي العالية إلا ثلاثة اشياء، حديث عمر: ان النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن الصلاة بعد العصر حتى تغرب الشمس، وبعد الصبح حتى تطلع الشمس، وحديث ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " لا ينبغي لاحد ان يقول انا خير من يونس بن متى " , وحديث علي القضاة ثلاثة.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا مَنْصُورٌ وَهُوَ ابْنُ زَاذَانَ , عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو الْعَالِيَةِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَال: سَمِعْتُ غَيْرَ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِنْهُمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَكَانَ مِنْ أَحَبِّهِمْ إِلَيَّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " نَهَى عَنِ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْفَجْرِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَعَنِ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ , وَابْنِ مَسْعُودٍ , وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ , وَأَبِي هُرَيْرَةَ , وَابْنِ عُمَرَ , وَسَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ , وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو , وَمُعَاذِ ابْنِ عَفْرَاءَ , وَالصُّنَابِحِيِّ، وَلَمْ يَسْمَعْ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ , وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ , وَعَائِشَةَ , وَكَعْبِ بْنِ مُرَّةَ , وَأَبِي أُمَامَةَ , وَعَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ , وَيَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ , وَمُعَاوِيَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عُمَرَ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ الْفُقَهَاءِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ، أَنَّهُمْ كَرِهُوا الصَّلَاةَ بَعْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَبَعْدَ صَلَاةِ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، وَأَمَّا الصَّلَوَاتُ الْفَوَائِتُ فَلَا بَأْسَ أَنْ تُقْضَى بَعْدَ الْعَصْرِ وَبَعْدَ الصُّبْحِ. قَالَ عَلِيُّ ابْنُ الْمَدِينِيِّ: قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ: قَالَ شُعْبَةُ: لَمْ يَسْمَعْ قَتَادَةُ مِنْ أَبِي الْعَالِيَةِ إِلَّا ثَلَاثَةَ أَشْيَاءَ، حَدِيثَ عُمَرَ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، وَبَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَحَدِيثَ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَال: " لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَقُولَ أَنَا خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى " , وَحَدِيثَ عَلِيٍّ الْقُضَاةُ ثَلَاثَةٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے صحابہ کرام رضی الله عنہم میں سے کئی لوگوں سے (جن میں عمر بن خطاب بھی ہیں اور وہ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں) سنا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فجر کے بعد جب تک کہ سورج نکل نہ آئے ۱؎ اور عصر کے بعد جب تک کہ ڈوب نہ جائے نماز ۲؎ پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عباس کی حدیث جسے انہوں نے عمر سے روایت کی ہے، حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں علی، ابن مسعود، عقبہ بن عامر، ابوہریرہ، ابن عمر، سمرہ بن جندب، عبداللہ بن عمرو، معاذ بن عفراء، صنابحی (نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے انہوں نے نہیں سنا ہے) سلمہ بن اکوع، زید بن ثابت، عائشہ، کعب بن مرہ، ابوامامہ، عمرو بن عبسہ، یعلیٰ ابن امیہ اور معاویہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر فقہاء کا یہی قول ہے کہ انہوں نے فجر کے بعد سورج نکلنے تک اور عصر کے بعد سورج ڈوبنے تک نماز پڑھنے کو مکروہ جانا ہے، رہیں فوت شدہ نمازیں تو انہیں عصر کے بعد یا فجر کے بعد قضاء کرنے میں کوئی حرج نہیں،
۴- شعبہ کہتے ہیں کہ قتادہ نے ابوالعالیہ سے صرف تین چیزیں سنی ہیں۔ ایک عمر رضی الله عنہ کی حدیث جس میں ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے عصر کے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے جب تک کہ سورج نہ ڈوب جائے، اور فجر کے بعد بھی جب تک کہ سورج نکل نہ آئے، اور (دوسری) ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث جسے انہوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: تم میں سے کسی کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ یہ کہے کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں اور (تیسری) علی رضی الله عنہ کی حدیث کہ قاضی تین قسم کے ہوتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المواقیت 30 (581)، صحیح مسلم/المسافرین 51 (826)، سنن ابی داود/ الصلاة 299 (1276)، سنن النسائی/المواقیت 32 (563)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 147 (1250)، (تحفة الأشراف: 10492)، مسند احمد (1/21، 39)، سنن الدارمی/الصلاة 142 (1473) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: بخاری کی روایت میں «حتى ترتفع الشمس» ہے، دونوں روایتوں میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ اس حدیث میں طلوع سے مراد مخصوص قسم کا طلوع ہے اور وہ سورج کا نیزے کے برابر اوپر چڑھ آنا ہے۔
۲؎: مذکورہ دونوں اوقات میں صرف سبب والی نفلی نمازوں سے منع کیا گیا ہے، فرض نمازوں کی قضاء، تحیۃ المسجد، تحیۃ الوضو، طواف کی دو رکعتیں اور نماز جنازہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1250)

   صحيح البخاري581عبد الله بن عباسنهى عن الصلاة بعد الصبح حتى تشرق الشمس وبعد العصر حتى تغرب
   صحيح مسلم1921عبد الله بن عباسنهى عن الصلاة بعد الفجر حتى تطلع الشمس بعد العصر حتى تغرب الشمس
   جامع الترمذي183عبد الله بن عباسنهى عن الصلاة بعد الفجر حتى تطلع الشمس عن الصلاة بعد العصر حتى تغرب الشمس
   سنن أبي داود1276عبد الله بن عباسلا صلاة بعد صلاة الصبح حتى تطلع الشمس ولا صلاة بعد صلاة العصر حتى تغرب الشمس
   سنن النسائى الصغرى570عبد الله بن عباسنهى عن الصلاة بعد العصر
   سنن النسائى الصغرى563عبد الله بن عباسنهى عن الصلاة بعد الفجر حتى تطلع الشمس عن الصلاة بعد العصر حتى تغرب الشمس
   سنن ابن ماجه1250عبد الله بن عباسلا صلاة بعد الفجر حتى تطلع الشمس ولا صلاة بعد العصر حتى تغرب الشمس

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1250  
´فجر اور عصر کے بعد نماز پڑھنے کی ممانعت۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے پاس کئی اچھے لوگوں نے گواہی دی، ان میں میرے نزدیک سب زیادہ اچھے شخص عمر رضی اللہ عنہ تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز فجر کے بعد کوئی نماز نہیں یہاں تک کہ سورج نکل آئے، اور عصر کے بعد کوئی نماز نہیں یہاں تک کہ سورج ڈوب جائے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1250]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
گواہی دینے کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے حدیث بیان کرتے وقت یہ الفاظ کہے۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی۔
اور اس سے مقصود محض تاکید ہے۔
جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ انھیں یہ حدیث پوری طرح یاد ہے۔
اور وہ اسے پورے اعتماد سے بیان کررہے ہیں۔
جس طرح گواہی پورے یقین اور اعتماد کی بنیاد پر دی جاتی ہے۔

(2)
حدیث قابل اعتماد اور ثقہ افراد کی روایت کی ہوئی قبول ہوتی ہے۔
ناقابل اعتماد افراد کی روایت کردہ حدیث قبول کرنا درست نہیں۔

(3)
صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین نے جوحدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست نہیں سنی ہوتی تھی وہ دوسرے صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین سے سن کر روایت کرتے اور اس پر عمل کرتے تھے۔
یعنی قابل اعتماد افراد کی روایت کردہ صحیح سند والی حدیث پر عمل کرنا صحابہ رضوان للہ عنہم اجمعین وتابعین رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کے ہاں بھی واجب تھا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1250   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 183  
´عصر اور فجر کے بعد نماز پڑھنے کی کراہت کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے صحابہ کرام رضی الله عنہم میں سے کئی لوگوں سے (جن میں عمر بن خطاب بھی ہیں اور وہ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں) سنا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فجر کے بعد جب تک کہ سورج نکل نہ آئے ۱؎ اور عصر کے بعد جب تک کہ ڈوب نہ جائے نماز ۲؎ پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 183]
اردو حاشہ:
1؎:
بخاری کی روایت میں ((حَتَّى تَرْتَفِعَ الشَّمْسُ)) ہے،
دونوں روایتوں میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ اس حدیث میں طلوع سے مراد مخصوص قسم کا طلوع ہے اور وہ سورج کا نیزے کے برابر اوپر چڑھ آنا ہے۔

2؎:
مذکورہ دونوں اوقات میں صرف سبب والی نفلی نمازوں سے منع کیا گیا ہے،
فرض نمازوں کی قضاء،
تحیۃ المسجد،
تحیۃ الوضوء،
طواف کی دو رکعتیں اور صلاۃِ جنازہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 183   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1276  
´ان لوگوں کی دلیل جنہوں نے سورج بلند ہو تو عصر کے بعد دو رکعت سنت پڑھنے کی اجازت دی ہے۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے پاس کئی پسندیدہ لوگوں نے گواہی دی ہے، جن میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی تھے اور میرے نزدیک عمر رضی اللہ عنہ ان میں سب سے پسندیدہ شخص تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فجر کے بعد سورج نکلنے سے پہلے کوئی نماز نہیں، اور نہ عصر کے بعد سورج ڈوبنے سے پہلے کوئی نماز ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1276]
1276۔ اردو حاشیہ:
➊ سورج طلوع یا غروب ہونے میں دیر ہو تو سببی پڑھی جا سکتی ہے۔ ویسے عام نفل پڑھنا ناجائز ہے۔
➋ اہل بیت اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم میں انتہائی اخوت اور محبت کے روابط تھے، بہت بڑے ظالم ہیں وہ لوگ جو ان مقدس ہستیوں کو ایک دوسرے کا حریف ثابت کرنے کی مذموم کوشش کرتے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1276   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.