الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
The Chapters on Marriage
3. بَابُ : حَقِّ الْمَرْأَةِ عَلَى الزَّوْجِ
3. باب: شوہر پر بیوی کے حقوق کا بیان۔
حدیث نمبر: 1851
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا الحسين بن علي ، عن زائدة ، عن شبيب بن غرقدة البارقي ، عن سليمان بن عمرو بن الاحوص ، حدثني ابي ، انه شهد حجة الوداع مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فحمد الله واثنى عليه، وذكر ووعظ، ثم قال:" استوصوا بالنساء خيرا، فإنهن عندكم عوان ليس تملكون منهن شيئا غير ذلك، إلا ان ياتين بفاحشة مبينة، فإن فعلن فاهجروهن في المضاجع، واضربوهن ضربا غير مبرح، فإن اطعنكم فلا تبغوا عليهن سبيلا، إن لكم من نسائكم حقا، ولنسائكم عليكم حقا، فاما حقكم على نسائكم، فلا يوطئن فرشكم من تكرهون، ولا ياذن في بيوتكم لمن تكرهون، الا وحقهن عليكم، ان تحسنوا إليهن في كسوتهن، وطعامهن".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ شَبِيبِ بْنِ غَرْقَدَةَ الْبَارِقِيِّ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْأَحْوَصِ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، أَنَّهُ شَهِدَ حَجَّةَ الْوَدَاعِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَذَكَّرَ وَوَعَظَ، ثُمَّ قَالَ:" اسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا، فَإِنَّهُنَّ عِنْدَكُمْ عَوَانٍ لَيْسَ تَمْلِكُونَ مِنْهُنَّ شَيْئًا غَيْرَ ذَلِكَ، إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ، فَإِنْ فَعَلْنَ فَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ، وَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرِّحٍ، فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا، إِنَّ لَكُمْ مِنْ نِسَائِكُمْ حَقًّا، وَلِنِسَائِكُمْ عَلَيْكُمْ حَقًّا، فَأَمَّا حَقُّكُمْ عَلَى نِسَائِكُمْ، فَلَا يُوَطِّئَنَّ فُرُشَكُمْ مَنْ تَكْرَهُونَ، وَلَا يَأْذَنَّ فِي بُيُوتِكُمُ لِمَنْ تَكْرَهُونَ، أَلَا وَحَقُّهُنَّ عَلَيْكُمْ، أَنْ تُحْسِنُوا إِلَيْهِنَّ فِي كِسْوَتِهِنَّ، وَطَعَامِهِنَّ".
عمرو بن احوص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور لوگوں کو وعظ و نصیحت کی، پھر فرمایا: عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی میری وصیت قبول کرو، اس لیے کہ عورتیں تمہاری ماتحت ہیں، لہٰذا تم ان سے اس (جماع) کے علاوہ کسی اور چیز کے مالک نہیں ہو، الا یہ کہ وہ کھلی بدکاری کریں، اگر وہ ایسا کریں تو ان کو خواب گاہ سے جدا کر دو، ان کو مارو لیکن سخت مار نہ مارو، اگر وہ تمہاری بات مان لیں تو پھر ان پر زیادتی کے لیے کوئی بہانہ نہ ڈھونڈو، تمہارا عورتوں پر حق ہے، اور ان کا حق تم پر ہے، عورتوں پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارا بستر ایسے شخص کو روندنے نہ دیں جسے تم ناپسند کرتے ہو ۱؎ اور وہ کسی ایسے شخص کو تمہارے گھروں میں آنے کی اجازت نہ دیں، جسے تم ناپسند کرتے ہو، سنو! اور ان کا حق تم پر یہ ہے کہ تم اچھی طرح ان کو کھانا اور کپڑا دو ۲؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الرضاع 11 (1163)، تفسیر 10 (3087)، (تحفة الأشراف: 10692) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یعنی کسی مرد کو اس بات کی اجازت نہ دیں کہ وہ اندر آئے، اور اس کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرے، پہلے عربوں میں یہ چیز معیوب نہیں تھی لیکن جب آیت حجاب نازل ہوئی تو اس سے منع کر دیا گیا۔
۲؎: «لمن تكرهون» میں غیر محرم مرد تو یقینی طور پر داخل ہیں، نیز وہ محرم مرد اور عورتیں بھی اس میں داخل ہیں جن کے آنے جانے کو شوہر پسند نہ کرے۔

It was narrated that: Sulaiman bin Amr bin Ahwas said: “My father told me that he was present at the Farewell Pilgrimage with the Messenger of Allah. He praised and glorified Allah, and reminded and exhorted (the people). Then he said: 'I enjoin good treatment of women, for they are prisoners with you, and you have no right to treat them otherwise, unless they commit clear indecency. If they do that, then forsake them in their beds and hit them, but without causing injury or leaving a mark. If they obey you, then do not seek means of annoyance against them. You have rights over your women and your women have rights over you. Your rights over your women are that they are not to allow anyone whom you dislike to tread on your bedding (furniture), nor allow anyone whom you dislike to enter your houses. And their right over you are that you should treat them kindly with regard to their clothing and food.' ”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

   جامع الترمذي1163عمرو بن الأحوصاستوصوا بالنساء خيرا فإن ما هن عوان عندكم ليس تملكون منهن شيئا غير ذلك إلا أن يأتين بفاحشة مبينة فإن فعلن فاهجروهن في المضاجع واضربوهن ضربا غير مبرح فإن أطعنكم فلا تبغوا عليهن سبيلا ألا إن لكم على نسائكم حقا ولنسائكم عليكم حقا فأما حقكم على نسائكم فلا
   سنن ابن ماجه1851عمرو بن الأحوصاستوصوا بالنساء خيرا فإن هن عندكم عوان ليس تملكون منهن شيئا غير ذلك إلا أن يأتين بفاحشة مبينة فإن فعلن فاهجروهن في المضاجع واضربوهن ضربا غير مبرح فإن أطعنكم فلا تبغوا عليهن سبيلا إن لكم من نسائكم حقا ولنسائكم عليكم حقا فأما حقكم على نسائكم فلا يوطئن فرشكم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1851  
´شوہر پر بیوی کے حقوق کا بیان۔`
عمرو بن احوص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور لوگوں کو وعظ و نصیحت کی، پھر فرمایا: عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی میری وصیت قبول کرو، اس لیے کہ عورتیں تمہاری ماتحت ہیں، لہٰذا تم ان سے اس (جماع) کے علاوہ کسی اور چیز کے مالک نہیں ہو، الا یہ کہ وہ کھلی بدکاری کریں، اگر وہ ایسا کریں تو ان کو خواب گاہ سے جدا کر دو، ان کو مارو لیکن سخت مار نہ مارو، اگر وہ تمہاری بات مان لیں تو پھر ان پر زیادتی کے لیے کوئی بہانہ نہ ڈھونڈو، تمہارا عورت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1851]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
وصیت تاکیدی نصیحت کو کہتے ہیں جس پر عمل کرنا بہت ضروری سمجھا جاتا ہے۔
 وصیت قبول کرو کا مطلب یہ ہے کہ میں تمہیں وصیت کرتا ہوں۔
بہت سے صحابہ کرام جو حجۃ الوداع میں حاضر تھے ان کے لیے ممکن ہے کہ نبی ﷺ سے ان کی وہ آخری ملاقات ہو کیونکہ اس سے تین ماہ بعد رسول اللہ ﷺ اس دار فانی سے کوچ فرما گئے۔
ان کے لیے یہ خطبہ واقعی آخری نصیحت (وصیت)
بن گیا۔

(2)
خطاب اگرچہ حجۃ الوداع میں حاضر ہونے والے صحابہ کرام سے فرمایا گیا تھا تاہم یہ حکم قیامت تک آنے والے تمام مومنوں کے لیے ہے۔

(3)
مرد کو چاہیے کہ بیوی کے اخلاق و کردار کی نگرانی کرے تاہم بلاوجہ شکوک و شبہات میں مبتلا رہنا درست نہیں جب تک کوئی واضح مشکوک صورت سامنے نہ آئے۔

(4)
واضح بے حیائی سے مراد ایسی حرکات ہیں جن پر روک ٹوک نہ کرنے سے بدکاری تک نوبت پہنچ سکتی ہے۔
زنا کا ارتکاب ہو جانے کی صورت میں دوسرے احکام ہیں جو قرآن و حدیث میں اپنے مقام پر مذکور ہیں۔

(5)
بستروں میں الگ ہونے سے مراد ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے جنسی تعلقات منقطع کر لینا ہے۔
بعض علماء نے اس کی یہ صورت بیان فرمائی ہے کہ ایک ہی بستر پر ہوتے ہوئے عورت کی طرف پیٹھ کر کے لیٹ جائے تاکہ اس کا جذباتی ہیجان اسے معافی مانگنے اور اپنی اصلاح کرنے پر مجبور کر دے۔

(6)
جب محسوس ہو کہ عورت اپنی غلطی پر پشیمان ہے اور اصلاح پر آمادہ ہے تو اس سے معمول کے تعلقات قائم کر لینے چاہییں اور بار بار گزشتہ غلطیوں کا طعنہ نہیں دینا چاہیے۔

(7)
بعض اوقات صورتحال اس قدر خراب ہو جاتی ہے کہ جسمانی سزا ناگزیر ہو جاتی ہے لیکن یہ اصلاح کی کوشش کا آخری درجہ ہے جہاں تک ممکن ہو معاملات کو اس مرحلے پر نہیں پہنچنے دینا چاہیے۔

(8)
اگر جسمانی سزا ضروری محسوس ہو تو اس میں بھی نرمی کا پہلو مدنظر ہونا چاہیے یعنی صرف اس حد تک سختی کی جائے یا سزا دی جائے جو تنبیہ کے لیے ضروری ہو اس سے زیادہ نہیں کیونکہ مقصود اصلاح ہے غصہ نکالنا یا بدلہ لینا نہیں۔

(9)
مہمانوں کی تکریم ضروری ہے لیکن اگر کوئی ایسا شخص آتا ہے جسے خاوند اچھا نہیں سمجھتا تو عورت کو چاہیے کہ خاوند کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے اسے اجازت دینے سےمعذرت کر لے، یا کہہ دے کہ مرد گھر میں نہیں، پھر آ جائیے گا۔
ناپسندیدہ شخص کو بستر پر نہ بٹھانے کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ غیر مردوں سے ناجائز تعلقات استوار کرنے کی راہ ہموار نہ کی جائے۔
ان سے نرم لہجے میں ہنس ہنس کر بات کرنے کے بجائے سنجیدگی سے مختصر بات کر کے فارغ کر دیا جائے۔
امام خطابی فرماتے ہیں:
اس کا مطلب یہ ہے کہ اجنبی مردوں کو گپ شپ کے لیے اپنے پاس گھر میں آنے کی اجازت نہ دیں، جیسے عرب میں یہ رواج تھا اور اسے عیب نہیں سمجھا جاتا تھا۔
پردے کا حکم نازل ہونے کے بعد اس سے منع کر دیا گیا۔ (حاشہ سنن ابن ماجہ از محمد فواد عبدالباقی)
ہمارے ہاں دیہات میں، جہاں پردے کا اہتمام نہیں کیا جاتا اب بھی یہ صورت حال موجود ہے جو شرعی طور پر ممنوع ہے۔
بعض علماء نے فرمایا ہے کہ عورت اپنے محرم رشتہ داروں کو بھی خاوند کی اجازت کے بغیر گھر میں نہ آنے دے لیکن زیادہ صحیح یہ معلوم ہوتا ہے کہ خاوند کو ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ عورت کے محرم مردوں پر پابندی لگائے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے رضاعی چچا کو گھر میں آنے کی اجازت نہیں دی تھی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وہ تمہارا چچا ہے، اسے آنے کی اجازت دو۔ (سنن ابن ماجة، حدیث: 1948)
لباس اور خوراک کے بارے میں اچھا سلوک یہ ہے کہ اپنی حیثیت کے مطابق اچھا لباس اور مناسب خوراک مہیا کرے لیکن ایسے لباس سے منع کرنا چاہیے جو شریعت کی تعلیمات کے مطابق نہ ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1851   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1163  
´شوہر پر عورت کے حقوق کا بیان۔`
سلیمان بن عمرو بن احوص کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا کہ وہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے۔ آپ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی۔ اور (لوگوں کو) نصیحت کی اور انہیں سمجھایا۔ پھر راوی نے اس حدیث میں ایک قصہ کا ذکر کیا اس میں یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا: سنو! عورتوں کے ساتھ خیر خواہی کرو۔ اس لیے کہ وہ تمہارے پاس قیدی ہیں۔ تم اس (ہمبستری اور اپنی عصمت اور اپنے مال کی امانت وغیرہ) کے علاوہ اور کچھ اختیار نہیں رکھتے (اور جب وہ اپنا فرض ادا کرتی ہوں تو پھر ان کے ساتھ بدسلوکی کا جواز کیا ہے) ہاں اگر وہ کسی کھلی ہوئی بی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الرضاع/حدیث: 1163]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1 ؎:
یعنی طاقت کے مطابق یہ چیزیں احسن طریقے سے مہیا کرو۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1163   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.