الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book on Salat (Prayer)
27. باب مَا جَاءَ فِي بَدْءِ الأَذَانِ
27. باب: اذان کی ابتداء کا بیان۔
حدیث نمبر: 190
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن النضر بن ابي النضر، حدثنا حجاج بن محمد، قال: قال ابن جريج: اخبرنا نافع، عن ابن عمر، قال: كان المسلمون حين قدموا المدينة يجتمعون فيتحينون الصلوات وليس ينادي بها احد، فتكلموا يوما في ذلك، فقال بعضهم: اتخذوا ناقوسا مثل ناقوس النصارى، وقال بعضهم: اتخذوا قرنا مثل قرن اليهود، قال: فقال عمر بن الخطاب: اولا تبعثون رجلا ينادي بالصلاة؟ قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يا بلال قم فناد بالصلاة ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح غريب، من حديث ابن عمر.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ النَّضْرِ بْنِ أَبِي النَّضْرِ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: كَانَ الْمُسْلِمُونَ حِينَ قَدِمُوا الْمَدِينَةَ يَجْتَمِعُونَ فَيَتَحَيَّنُونَ الصَّلَوَاتِ وَلَيْسَ يُنَادِي بِهَا أَحَدٌ، فَتَكَلَّمُوا يَوْمًا فِي ذَلِكَ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: اتَّخِذُوا نَاقُوسًا مِثْلَ نَاقُوسِ النَّصَارَى، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: اتَّخِذُوا قَرْنًا مِثْلَ قَرْنِ الْيَهُودِ، قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: أَوَلَا تَبْعَثُونَ رَجُلًا يُنَادِي بِالصَّلَاةِ؟ قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا بِلَالُ قُمْ فَنَادِ بِالصَّلَاةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جس وقت مسلمان مدینہ آئے تو وہ اکٹھے ہو کر اوقات نماز کا اندازہ لگاتے تھے، کوئی نماز کے لیے پکار نہ لگاتا تھا، ایک دن ان لوگوں نے اس سلسلے میں گفتگو کی ۱؎ چنانچہ ان میں سے بعض لوگوں نے کہا: نصاریٰ کے ناقوس کی طرح کوئی ناقوس بنا لو، بعض نے کہا کہ تم یہودیوں کے قرن کی طرح کوئی قرن (یعنی کسی جانور کا سینگ) بنا لو۔ ابن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں: اس پر عمر بن خطاب رضی الله عنہ نے کہا: کیا تم کوئی آدمی نہیں بھیج سکتے جو نماز کے لیے پکارے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال اٹھو جاؤ نماز کے لیے پکارو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث ابن عمر رضی الله عنہما کی (اس) روایت سے حسن صحیح غریب ہے۔ (جسے بخاری و مسلم اور دیگر محدثین نے روایت کیا ہے) ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 1 (604)، صحیح مسلم/الصلاة 1 (377)، سنن النسائی/الأذان 1 (627)، (تحفة الأشراف: 7775)، مسند احمد (2/148) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ گفتگو مدینہ میں صحابہ کرام سے ہجرت کے پہلے سال ہوئی تھی، اس میں بعض لوگوں نے نماز کے لیے ناقوس بجانے کا اور بعض نے اونچائی پر آگ روشن کرنے کا اور بعض نے «بوق» بگل استعمال کرنے کا مشورہ دیا تھا، اسی دوران عمر کی یہ تجویز آئی کہ کسی کو نماز کے لیے پکارنے پر مامور کر دیا جائے، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ رائے پسند آئی اور آپ نے بلال کو باواز بلند «الصلاة جامعة» کہنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد عبداللہ بن زید رضی الله عنہ نے خواب میں اذان کے کلمات کسی سے سیکھے اور جا کر خواب بیان کیا، اسی کے بعد موجودہ اذان رائج ہوئی۔
۲؎: دیکھئیے صحیح البخاری حدیث ۶۰۴وصحیح مسلم حدیث ۸۳۷۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

   صحيح البخاري604عبد الله بن عمرالمسلمون حين قدموا المدينة يجتمعون فيتحينون الصلاة ليس ينادى لها فتكلموا يوما في ذلك فقال بعضهم اتخذوا ناقوسا مثل ناقوس النصارى وقال بعضهم بل بوقا مثل قرن اليهود فقال عمر أولا تبعثون رجلا ينادي بالصلاة فقال رسول الله يا بلال قم فناد
   صحيح مسلم837عبد الله بن عمرالمسلمون حين قدموا المدينة يجتمعون فيتحينون الصلوات وليس ينادي بها أحد فتكلموا يوما في ذلك فقال بعضهم اتخذوا ناقوسا مثل ناقوس النصارى وقال بعضهم قرنا مثل قرن اليهود فقال عمر أولا تبعثون رجلا ينادي بالصلاة قال رسول الله يا بلال قم فن
   جامع الترمذي190عبد الله بن عمرالمسلمون حين قدموا المدينة يجتمعون فيتحينون الصلوات وليس ينادي بها أحد فتكلموا يوما في ذلك فقال بعضهم اتخذوا ناقوسا مثل ناقوس النصارى وقال بعضهم اتخذوا قرنا مثل قرن اليهود قال فقال عمر بن الخطاب أولا تبعثون رجلا ينادي بالصلاة قال فقال رسول الله صلى ال
   سنن النسائى الصغرى627عبد الله بن عمرالمسلمون حين قدموا المدينة يجتمعون فيتحينون الصلاة وليس ينادي بها أحد فتكلموا يوما في ذلك فقال بعضهم اتخذوا ناقوسا مثل ناقوس النصارى وقال بعضهم بل قرنا مثل قرن اليهود فقال عمر أولا تبعثون رجلا ينادي بالصلاة فقال رسول الله صلى الله عليه وس

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 627  
´اذان کی شروعات۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ جس وقت مسلمان مدینہ آئے تو وہ جمع ہو کر نماز کے وقت کا اندازہ کرتے تھے، اس وقت کوئی نماز کے لیے اذان نہیں دیتا تھا، تو ایک دن لوگوں نے اس سلسلے میں گفتگو کی، تو کچھ لوگ کہنے لگے: نصاریٰ کے مانند ایک ناقوس بنا لو، اور کچھ لوگ کہنے لگے: بلکہ یہود کے سنکھ کی طرح ایک سنکھ بنا لو، تو اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا تم کسی شخص کو بھیج نہیں سکتے کہ وہ نماز کے لیے پکار دیا کرے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال! اٹھو اور نماز کے لیے پکارو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 627]
627 ۔ اردو حاشیہ:
➊ پہلی دو تجویزوں کو رد کرنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس میں غیرمسلموں سے مشابہت تھی جبکہ دینی امور میں غیرمسلموں سے مشابہت درست نہیں بلکہ دنیوی امور میں بھی ان سے امتیاز چاہیے۔ ّ
➋ ناقوس ایک لکڑی ہوتی تھی جسے دوسری لکڑی پر مارتے تھے تو آواز پیدا ہوتی تھی، پھر لوہے یا پیتل پر لکڑی مارنے لگے۔
➌ قرن سینگ کی شکل کا ایک آلہ ہے جس کے ایک طرف پھونک ماری جائے تو دوسری طرف سے آواز پیدا ہوتی ہے۔ آج کل کا سائرن بھی قرن جیسی آواز پیدا کرتا ہے، اسی طرح ناقوس کی موجودہ صورت گھنٹی ہے، لہٰذا مسلمانوں کو اپنی عبادات کے موقع پر گھنٹی یا سائرن سے اجتناب کرنا چاہیے۔
➍ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اعلان کا حکم دینا اذان کی مشروعیت سے قبل کی بات ہے۔ وہ گلیوں میں «الصلاةُ جامِعةٌ» نماز تیار ہےکی آواز دیتے تھے۔ بعد میں حضرت عبداللہ بن زید اور بعض دیگر صحابہ کو خواب میں اذان دکھایئ گئی تو پھر بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کہنے پر مقرر کیا گیا۔ یہ بعد کی بات ہے۔ اگر اس اعلان سے اذان مراد ہو تو یہ روایت مختصر ہو گی جس میں اس سے قبل کافی عبارت حذف ہے مگر یہ بعید توجیہ ہے، پہلی بات درست ہے۔
➎ بعض روایات میں آگ کی تجویز کا بھی ذکر ہے مگر اسے بھی رد کر دیا گیا کیونکہ یہ مجوس کا مذہبی نشان ہے، نیز آگ ہر وقت نظر نہیں آتی اور نہ بارش وغیرہ میں اسے جلانا ممکن ہے۔
➏ اہم امور باہمی مشورے سے طے کرنے چاہئیں۔ اس کے بے شمار فوائد ہیں اور مشورہ دینے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اخلاص کے ساتھ صحیح صحیح مشورہ دے۔
➐ اذان کھڑے ہو کر دینا مشروع ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 627   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 190  
´اذان کی ابتداء کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جس وقت مسلمان مدینہ آئے تو وہ اکٹھے ہو کر اوقات نماز کا اندازہ لگاتے تھے، کوئی نماز کے لیے پکار نہ لگاتا تھا، ایک دن ان لوگوں نے اس سلسلے میں گفتگو کی ۱؎ چنانچہ ان میں سے بعض لوگوں نے کہا: نصاریٰ کے ناقوس کی طرح کوئی ناقوس بنا لو، بعض نے کہا کہ تم یہودیوں کے قرن کی طرح کوئی قرن (یعنی کسی جانور کا سینگ) بنا لو۔ ابن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں: اس پر عمر بن خطاب رضی الله عنہ نے کہا: کیا تم کوئی آدمی نہیں بھیج سکتے جو نماز کے لیے پکارے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال اٹھو جاؤ نماز کے لیے پکارو۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 190]
اردو حاشہ:
1؎:
یہ گفتگو مدینہ میں صحابہ کرام سے ہجرت کے پہلے سال ہوئی تھی،
اس میں بعض لوگوں نے نماز کے لیے ناقوس بجانے کا اور بعض نے اونچائی پر آگ روشن کر نے کا اور بعض نے بوق (بگل) استعمال کرنے کا مشورہ دیا تھا،
اسی دوران عمر کی یہ تجویز آئی کہ کسی کو نماز کے لیے پکارنے پر مامور کر دیا جائے؛ چنانچہ نبی اکرم ﷺ کو یہ رائے پسند آئی اور آپ نے بلال کو بآواز بلند ((الصَّلاَةُ جَامِعَةٌ)) کہنے کا حکم دیا۔
اس کے بعد عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے خواب میں اذان کے کلمات کسی سے سیکھے اور جا کر خواب بیان کیا،
اسی کے بعد موجودہ اذان رائج ہوئی۔

2؎:
دیکھئے (صحیح البخاری حدیث 604وصحیح مسلم حدیث 837)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 190   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.