الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
The Chapters on Marriage
26. بَابُ : الإِقَامَةِ عَلَى الْبِكْرِ وَالثَّيِّبِ
26. باب: کنواری اور غیر کنواری کے پاس رہنے کی مدت۔
حدیث نمبر: 1916
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد بن السري ، حدثنا عبدة بن سليمان ، عن محمد بن إسحاق ، عن ايوب ، عن ابي قلابة ، عن انس ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن للثيب ثلاثا، وللبكر سبعا".
(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ لِلثَّيِّبِ ثَلَاثًا، وَلِلْبِكْرِ سَبْعًا".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: غیر کنواری (شوہر دیدہ) کے لیے تین دن، اور کنواری کے لیے سات دن ہیں، (پھر باری تقسیم کر دیں) ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/النکاح 100 (5214)، صحیح مسلم/الرضاع 12 (1461)، سنن ابی داود/النکاح 35 (2124)، سنن الترمذی/النکاح 40 (1139)، (تحفة الأشراف: 944)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/النکاح 5 (15)، سنن الدارمی/النکاح 27 (2255) (حسن)» ‏‏‏‏ (اصل حدیث دوسرے طرق سے ثابت ہے کمافی التخریج)

وضاحت:
۱؎: باب کا مطلب یہ ہے کہ جب ایک شخص کے پاس پہلے سے بیوی ہو، اب ایک نئی شادی اور کر لے تو اگر نئی بیوی کنواری ہو تو سات دن تک اس کے پاس رہے، اور اگر ثیبہ ہو تو تین دن تک، پھر دونوں بیویوں کے پاس باری باری ایک ایک روز رہا کرے، اور اس سے غرض یہ ہے کہ نئی دلہن کا دل ملانا ضروری ہے، اگر پہلے سے ہی باری باری رہے تو اس کو وحشت ہو جانے کا ڈر ہے، اور کنواری کا دل ذرا دیر میں ملتا ہے، اس لئے سات دن اس کے لئے رکھے، اور ثیبہ کا دل جلدی مل جاتا ہے، تین دن اس کے لئے رکھے، اور اس باب میں صحیح حدیثیں وارد ہیں۔

It was narrated from Anas: that the Messenger of Allah said: “Three days for a previously-married woman and seven days for a virgin.”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

   صحيح مسلم3626أنس بن مالكتزوج البكر على الثيب أقام عندها سبعا وإذا تزوج الثيب على البكر أقام عندها ثلاثا
   صحيح مسلم3627أنس بن مالكيقيم عند البكر سبعا
   جامع الترمذي1139أنس بن مالكالسنة إذا تزوج الرجل البكر على امرأته أقام عندها سبعا وإذا تزوج الثيب على امرأته أقام عندها ثلاثا
   سنن ابن ماجه1916أنس بن مالكللثيب ثلاثا وللبكر سبعا
   صحيح البخاري5214أنس بن مالكتزوج الرجل البكر على الثيب أقام عندها سبعا وقسم وإذا تزوج الثيب على البكر أقام عندها ثلاثا ثم قسم
   صحيح البخاري5213أنس بن مالكتزوج البكر أقام عندها سبعا وإذا تزوج الثيب أقام عندها ثلاثا
   جامع الترمذي1139أنس بن مالكالسنة إذا تزوج الرجل البكر على امرأته أقام عندها سبعا وإذا تزوج الثيب على امرأته أقام عندها ثلاثا
   صحيح مسلم3626أنس بن مالكتزوج البكر على الثيب أقام عندها سبعا وإذا تزوج الثيب على البكر أقام عندها ثلاثا
   صحيح مسلم3627أنس بن مالكيقيم عند البكر سبعا
   سنن ابن ماجه1916أنس بن مالكللثيب ثلاثا وللبكر سبعا
   سنن أبي داود2124أنس بن مالكتزوج البكر على الثيب أقام عندها سبعا وإذا تزوج الثيب أقام عندها ثلاثا
   بلوغ المرام907أنس بن مالكتزوج الرجل البكر على الثيب،‏‏‏‏ اقام عندها سبعا ثم قسم وإذا تزوج الثيب اقام عندها ثلاثا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1916  
´کنواری اور غیر کنواری کے پاس رہنے کی مدت۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: غیر کنواری (شوہر دیدہ) کے لیے تین دن، اور کنواری کے لیے سات دن ہیں، (پھر باری تقسیم کر دیں) ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1916]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
پہلی بیوی یا بیویوں کی موجودگی میں جب نئی شادی کی جائے تو نئی دلہن کے پاس چند دن رہ کر پھر باری مقرر کرنی چاہیے۔

(2)
نئی آنے والی دلہن اگر بیوہ یا مطلقہ ہے یعنی یہ اس کا دوسرا نکاح ہے تو خاوند کو چاہیے کہ تین دن اس کے ہاں رہائش رکھے، یعنی اس کی رہائش کے لیے جو مکان یا کمرہ مقرر کیا ہے اس میں رہائش رکھے اور اگر نئی بیوی کنواری ہے تو پورا ایک ہفتہ اس کے ساتھ رہے۔

(3)
تین دن یا سات دن نئی بیوی کے پاس رہنے کا یہ مطلب نہیں کہ اس دوران میں پہلی بیویوں کو فراموش ہی کر دے۔
مطلب یہ ہے کہ اسے زیادہ وقت دے اور رات اس کے ساتھ گزارے۔

(4)
یہ مدت ختم ہونے کے بعد نئی بیوی کے بھی اتنے ہی حقوق ہوں گے جتنے پہلی بیویوں کے ہیں۔
جس طرح دوسری بیویوں کی باری ہوگی، اسی طرح نئی بیوی کی بھی باری ہو گی۔
خاوند اخراجات اور شب باشی میں اس کے ساتھ دوسری بیویوں جیسا سلوک کرے گا۔
اس کے ہاں وہی رات گزارے گا جب اس کی باری ہو گی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1916   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 907  
´بیویوں میں باری کی تقسیم کا بیان`
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مسنون طریقہ یہ ہے کہ جب مرد شوہر دیدہ پر کنواری بیاہ کر لائے تو اس نئی دلہن کے پاس پہلے سات روز قیام کرے پھر باری تقسیم کرے اور جب شوہر دیدہ سے نکاح کرے تو اس کے پاس تین روز قیام کرے پھر باری تقسیم کرے۔ (بخاری و مسلم) اور یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 907»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب إذا تزوج الثيب علي البكر، حديث:5214، مسلم، الرضاع، باب قدر ما تستحقه البكر والثيب من إقامة الزوج عندها عقبالزفاف، حديث:1461.»
تشریح:
اس حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ نئی بیوی کے ساتھ زفاف کی راتیں بسر کرنا اس کا حق ہے اور دوسری بیویوں پر اسے ترجیح دی جائے گی۔
یہ مدت ختم ہونے کے بعد پھر نئی اور پرانی بیویاں باریوں کی تقسیم میں مساوی استحقاق رکھتی ہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 907   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1139  
´کنواری اور غیر کنواری بیوی کے درمیان باری تقسیم کرنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اگر میں چاہوں تو کہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن انہوں نے صرف اتنا کہا: سنت ۱؎ یہ ہے کہ آدمی جب اپنی بیوی کے ہوتے ہوئے کسی کنواری سے شادی کرے تو اس کے ہاں سات رات ٹھہرے، اور جب غیر کنواری سے شادی کرے تو اس کے ہاں تین رات ٹھہرے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب النكاح/حدیث: 1139]
اردو حاشہ:
وضاخت:


1؎:
صحابی کا سنت یہ ہے کہنا بھی حدیث کے مرفوع ہونے کا اشارہ ہے،
تمام ائمہ کا یہی قول ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1139   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2124  
´کنواری عورت سے نکاح کرنے پر کتنے دن اس کے ساتھ رہے؟`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب کوئی ثیبہ کے رہتے ہوئے کنواری سے شادی کرے تو اس کے ساتھ سات رات رہے، اور جب ثیبہ سے شادی کرے تو اس کے پاس تین رات رہے۔ راوی کا بیان ہے کہ اگر میں یہ کہوں کہ انس رضی اللہ عنہ نے اسے مرفوعاً بیان کیا ہے تو سچ ہے لیکن انہوں نے کہا کہ سنت اسی طرح ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2124]
فوائد ومسائل:
1: صحابی کا کسی عمل کے بارے میں سنت کہہ دینا اس کے مرفوع ہونے کی دلیل ہوتی ہے۔

2: تین یا سات دن کی خصوصیت ابتدائی دنوں کی ہے اس کے بعد عدل سے باری مقرر کر لی جائے اور طے شدہ نظام کے مطابق عمل کیا جائے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2124   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.