الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
The Chapters on Marriage
27. بَابُ : مَا يَقُولُ الرَّجُلُ إِذَا دَخَلَتْ عَلَيْهِ أَهْلُهُ
27. باب: بیوی سے پہلی ملاقات پر کون سی دعا پڑھے؟
حدیث نمبر: 1919
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا عمرو بن رافع ، حدثنا جرير ، عن منصور ، عن سالم بن ابي الجعد ، عن كريب ، عن ابن عباس ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" لو ان احدكم إذا اتى امراته، قال: اللهم جنبني الشيطان، وجنب الشيطان ما رزقتني، ثم كان بينهما ولد لم يسلط الله عليه الشيطان، او لم يضره".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ ، عَنْ كُرَيْبٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا أَتَى امْرَأَتَهُ، قَالَ: اللَّهُمَّ جَنِّبْنِي الشَّيْطَانَ، وَجَنِّبْ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنِي، ثُمَّ كَانَ بَيْنَهُمَا وَلَدٌ لَمْ يُسَلِّطْ اللَّهُ عَلَيْهِ الشَّيْطَانَ، أَوْ لَمْ يَضُرَّهُ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس آئے تو یہ دعا پڑھے «اللهم جنبني الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتني» اے اللہ! تو مجھے شیطان سے بچا، اور اس مباشرت سے جو اولاد ہو اس کو شیطان کے شر سے محفوظ رکھ پھر اس ملاپ سے بچہ ہونا قرار پا جائے تو اللہ تعالیٰ اس بچے پر شیطان کا زور نہ چلنے دے گا، یا شیطان اسے نقصان نہ پہنچ اس کے گا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏(صحیح)» ‏‏‏‏

It was narrated from Ibn `Abbas: that the Prophet said: “When anyone of you has intercourse with his wife, let him say: Allahumma jannibnish-Shaitana wa jannibish-Shaitana ma razaqtani (O Allah, keep Satan away from me and keep Satan away from that with which You bless me).' Then if they have a child, Allah will never allow Satan to gain control over him or he will never harm him.”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: بخاري ومسلم

   صحيح البخاري5165عبد الله بن عباسباسم الله اللهم جنبني الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا ثم قدر بينهما في ذلك أو قضي ولد لم يضره شيطان أبدا
   صحيح البخاري7396عبد الله بن عباسلو أن أحدكم إذا أراد أن يأتي أهله فقال باسم الله اللهم جنبنا الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا فإنه إن يقدر بينهما ولد في ذلك لم يضره شيطان أبدا
   صحيح البخاري6388عبد الله بن عباسباسم الله اللهم جنبنا الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا فإنه إن يقدر بينهما ولد في ذلك لم يضره شيطان أبدا
   صحيح البخاري3271عبد الله بن عباسإذا أتى أهله وقال بسم الله اللهم جنبنا الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا فرزقا ولدا لم يضره الشيطان
   صحيح البخاري3283عبد الله بن عباسلو أن أحدكم إذا أتى أهله قال اللهم جنبني الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتني فإن كان بينهما ولد لم يضره الشيطان ولم يسلط عليه
   صحيح البخاري141عبد الله بن عباسلو أن أحدكم إذا أتى أهله قال باسم الله اللهم جنبنا الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا فقضي بينهما ولد لم يضره
   صحيح مسلم3533عبد الله بن عباسباسم الله اللهم جنبنا الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا فإنه إن يقدر بينهما ولد في ذلك لم يضره شيطان أبدا
   جامع الترمذي1092عبد الله بن عباسلو أن أحدكم إذا أتى أهله قال بسم الله اللهم جنبنا الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا فإن قضى الله بينهما ولدا لم يضره الشيطان
   سنن أبي داود2161عبد الله بن عباسلو أن أحدكم إذا أراد أن يأتي أهله قال بسم الله اللهم جنبنا الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا ثم قدر أن يكون بينهما ولد في ذلك لم يضره شيطان أبدا
   سنن ابن ماجه1919عبد الله بن عباسلو أن أحدكم إذا أتى امرأته قال اللهم جنبني الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتني ثم كان بينهما ولد لم يسلط الله عليه الشيطان
   بلوغ المرام874عبد الله بن عباس لو أن أحدكم إذا أراد أن يأتي أهله قال : بسم الله ،‏‏‏‏ اللهم جنبنا الشيطان ،‏‏‏‏ وجنب الشيطان ما رزقتنا ،‏‏‏‏ فإنه إن يقدر بينهما ولد في ذلك ،‏‏‏‏ لم يضره الشيطان أبدا
   مسندالحميدي526عبد الله بن عباسلو أن أحدكم إذا أتى أهله قال بسم الله اللهم جنبنا الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا فإن قدر بينهما ولد لم يضره الشيطان شيئا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 141  
´ہر حال میں بسم اللہ پڑھنا`
«. . . قَالَ:" لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا أَتَى أَهْلَهُ، قَالَ: بِاسْمِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ، وَجَنِّبْ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا، فَقُضِيَ بَيْنَهُمَا وَلَدٌ لَمْ يَضُرُّهُ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی سے جماع کرے تو کہے: اللہ کے نام کے ساتھ شروع کرتا ہوں۔ اے اللہ! ہمیں شیطان سے بچا اور شیطان کو اس چیز سے دور رکھ جو تو (اس جماع کے نتیجے میں) ہمیں عطا فرمائے۔ یہ دعا پڑھنے کے بعد (جماع کرنے سے) میاں بیوی کو جو اولاد ملے گی اسے شیطان نقصان نہیں پہنچا سکتا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ: 141]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
باب اور حدیث میں مناسبت کچھ یوں ہے کہ بیوی سے صحبت کرنا ایک جسمانی فعل ہے اور وضو کرنا ایک عبادت اور روحانی فعل ہے جب جسمانی فعل میں بسم اللہ کہنا ضروری ہے تو کیوں کر وضو جو عبادت ہے اس میں بسم اللہ کہنا ضروری نہ ہو۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ليس العموم ظاهرا من الحديث الذى اورده، لكن يستفاد من باب الاوليٰ لانه اذا شرع فى حالة الجماع وهى مما امر فيه بالصمت فغيره الاوليٰ . . . .» [فتح الباري ج1ص 322]
اور عموم ظاہر یہ ہے حدیث سے جس کو باب میں (امام بخاری رحمہ اللہ) نے وارد کیا ہے لیکن مستفاد ہوتا ہے، بطریق اولیٰ اس واسطے کہ جب (تسمیہ) جماع کی حالت میں مشروع ہے حالانکہ اس حالت میں چپ رہنے کا حکم ہے تو پھر اس کے علاوہ تو (تسمیہ پڑھنا) اولیٰ ہو گا۔
↰ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی اس عبارت سے بھی واضح ہوتا ہے کہ آپ نے اس طرف اشارہ فرمایا کہ جماع کے وقت جب چپ رہنے کا حکم ہے تو اس وقت بھی تسمیہ پڑھنا مسنون ٹھہرا تو کیوں کر دوسرے نیک کاموں میں تسمیہ مشروع نہ ہوگا؟

◈ شاہ ولی اللہ محدث دھلوی رحمہ اللہ بھی اسی طرف اشارہ فرماتے ہیں کہ:
«التسمية الوضؤ بالحديث الذى اور ده فى هذا الباب لد لالته على استحباب تسمية الله عند الوقاع الذى هو ابعد الاحوال عن ذكر الله ففي الوضوء بالطريق الاولي» [شرح تراجمه من ابواب البخاري ص 65]
یعنی وضو سے قبل بسم اللہ پڑھنے والی حدیث کو ترجمۃ الباب میں لایا گیا ہے جو اس بات پر دلالت ہے کہ صحبت کے وقت بھی تسمیہ پڑھنا مستحب ہے جو کہ (یہ فعل) دوسرے احوال سے بعید ہے کہ اس میں اللہ کا ذکر کیا جائے (لیکن جب اس میں تسمیہ ثابت ہو گیا تو) باقی اعمال میں بطریق اولیٰ جائز ہے۔
↰ یہی تطبیق علامہ قسطلانی نے بھی دی ہے۔ [ديكهيے ارشاد الساري، ج1، ص 325]

(قلت) مزید اگر ترجمۃ الباب میں غور کیا جائے تو مناسبت کچھ اس طرح سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ ترجمۃ الباب کے دو اجزاء ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے:
➊ جزء عام یعنی «على كل حال»
➋ جزء خاص یعنی «عندالوقاع» ہے۔
اب ترجمۃ الباب سے حدیث کی مطابقت یہ ہے کہ پہلے جزء میں ہر نیک کام کی ابتداء تسمیہ سے ثابت ہوئی اور دوسرے جزء میں الفاظ «اذاتي اهله» سے مراد بیوی کے پاس آنا یعنی «عندالوقاع» ثابت ہوا۔ مزید اگر غور کیا جائے تو آدمی جب اپنی بیوی کے پاس صحبت کی غرض سے جاتا ہے تو فارغ ہونے کے بعد اسے وضو کرنا چاہئیے جب وہ وضو کرے گا تو اس کی ابتدا میں تسمیہ پڑھنا مشروع ہے، کیونکہ بغیر تسمیہ کے وضو نہیں۔ پس یہاں سے بھی ترجمۃ الباب میں مناسبت ہو گی۔

لہٰذا باب اور حدیث میں مناسبت یہی ہے کہ جماع ایک جسمانی فعل ہے جب اس میں تسمیہ ہے تو پھر وضو ایک روحانی اور جسمانی فعل ہے تو اس میں بھی تسمیہ بطریق اولی ہوگا۔ «الله اعلم»
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 120   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1919  
´بیوی سے پہلی ملاقات پر کون سی دعا پڑھے؟`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس آئے تو یہ دعا پڑھے «اللهم جنبني الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتني» اے اللہ! تو مجھے شیطان سے بچا، اور اس مباشرت سے جو اولاد ہو اس کو شیطان کے شر سے محفوظ رکھ پھر اس ملاپ سے بچہ ہونا قرار پا جائے تو اللہ تعالیٰ اس بچے پر شیطان کا زور نہ چلنے دے گا، یا شیطان اسے نقصان نہ پہنچ اس کے گا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1919]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
خلوت کا وقت صنفی جذبات کی تسکین کا وقت ہوتا ہے۔
مومن اس وقت بھی اپنے رب کو فراموش نہیں کرتا۔

(2)
خاوند بیوی کے تعلقات کا مقصد محض صنفی لذت کا حصول نہیں بلکہ نیک اولاد کا حصول بھی ایک اہم مقصد ہے۔

(3)
بہتر ہے کہ مذکورہ دعا بے لباس ہونے سے پہلے پڑھ لی جائے۔

(5)
اس دعا کا یہ فائدہ ہے کہ اس کی برکت سے خلوت کا وقت شیطان دور رہتا ہے، لہذا اولاد میں شیطان سے متاثر ہونے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے اور بعض خاص بیماریوں سے حفاظت ہوتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1919   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 874  
´عورتوں (بیویوں) کے ساتھ رہن سہن و میل جول کا بیان`
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس جاتے وقت یہ دعا پڑھے «بسم الله، ‏‏‏‏ ‏‏‏‏اللهم جنبنا الشيطان، ‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وجنب الشيطان ما رزقتنا» اللہ کے نام کے ساتھ، الٰہی ہمیں شیطان سے کنارہ کش رکھ اور شیطان کو بھی اس سے دور رکھ جو تو ہمیں اولاد عطا فرمائے۔ تحقیق شان یہ ہے کہ اگر اس مجامعت سے ان کے مقدر و قسمت میں اولاد ہو گی تو شیطان اسے کبھی ضرر نہ پہنچا سکے گا۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 874»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب مايقول الرجل إذا أتي أهله، حديث:5165، 7396، ومسلم، النكاح، باب ما يستحب أن يقوله عند الجماع، حديث:1434.»
تشریح:
1. اس حدیث میں مباشرت کے وقت انسان کے ازلی و ابدی دشمن سے بچنے اور محفوظ رہنے کی دعا کا ذکر ہے۔
2.اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہو رہا ہے کہ شیطان صرف ذکر الٰہی کے وقت انسان سے جدا اور الگ ہوتا ہے‘ بصورت دیگر وہ ہر وقت انسان کے ساتھ رہتا ہے اور کسی حالت میں بھی آدمی سے جدا اور الگ نہیں ہوتا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 874   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2161  
´نکاح کے مختلف مسائل کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس آنے کا ارادہ کرے اور یہ دعا پڑھے: «بسم الله اللهم جنبنا الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا» اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں اے اللہ ہم کو شیطان سے بچا اور اس مباشرت سے جو اولاد ہو اس کو شیطان کے گزند سے محفوظ رکھ پھر اگر اس مباشرت سے بچہ ہونا قرار پا جائے تو اللہ تعالیٰ اس بچے پر شیطان کا زور نہ چلنے دے گا یا شیطان اسے کبھی نقصان نہ پہنچ اس کے گا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2161]
فوائد ومسائل:
علامہ داودی نے کہا ہے کہ اس سے بچے کی کلی عصمت مراد نہیں بلکہ یہ ہے کہ شیطان اس کو دین کے معاملے میں فتنے میں نہیں ڈال سکے گا کہ کفر تک پہنچا دے۔
(عون المعبود)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2161   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.